Topics
آپ نے اپنا سایہ دیکھا ہے۔ سایہ دن
میں نظر آتا ہے اور رات میں بھی نظر آتا ہے ۔ غو ر کیا ہے کہ یہ دن میں چھوٹا اور
رات میں طویل کیوں ہوتا ہے__؟
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
۱۔ اور اللہ کو سجدہ کرتا ہے جو
کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ خواہ خوشی سے یا ناخوشی سے اور ان کے سائے بھی سجدہ
کرتے ہیں صبح اور شام۔ (الرّعد : ۱۵)
۲۔ اور کیا یہ اللہ کی پیدا کی
ہوئی کسی چیز کو نہیں دیکھتے کہ ان چیزوں کے سائے کس طرح اللہ کے حضور سجدہ کرتے
ہوئے دائیں اور بائیں جھکتے ہیں؟ سب کے سب عاجزی کا اظہار کرتے ہیں؟ (النّحل : ۴۸)
۳۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارا
رب کیسے سائے کو دراز کر دیتا ہے؟ اگر وہ چاہتا تو اسے ضرور ساکن کر دیتا۔ پھر ہم
( اللہ) نے سورج کو سائے پر دلیل بنایا ہے۔ پھر ہم اس سائے کو بتدریج اپنی طرف
سمیٹ لیتے ہیں۔“
(الفرقان
: ۴۵۔۴۶)
جاندار اور بے جان سمجھی جانے والی
تمام اشیا کا سایہ ہوتا ہے ۔ آیات میں بیان حقائق ، رائج مادی علوم اور فکر سے
مختلف اور تفکر طلب ہیں۔
·
ہر
موجود شے باشعور ہے ، خالقِ کائنات اللہ کی تسبیح کرتی ہے اور اس کے حضور سجدہ ریز
ہوتی ہے۔ مخلوقات کا سایہ بھی باشعور ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ کرتا ہے۔
·
سایہ
ایک نظر آتا ہے مگر ایک نہیں ہوتا۔ دائیں اور بائیں طرف ، دو سایوں کا ذکر ہے۔
·
طلوع
کے وقت جب سورج افق کے کنارے پر ظاہر ہوتا ہے تو آدمی ، حیوان ، درختوں اور مکانات
وغیرہ کے سائے انتہائی طویل ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے سورج بلند ہوتا ہے ، سایوں کی
لمبائی کم ہوتی جاتی ہے اور نصف النہار کے وقت یہ بہت چھوٹے رہ جاتے ہیں۔ زوال سے
غروب تک سائے دوبارہ طویل ہوتے جاتے ہیں یعنی سائے پھیلتے ہیں اور سمٹتے ہیں۔
تلاش : تفکر
یہ کرنا ہے ،
۱۔ سائے کے پھیلنے اور سمٹنے کا
طرز عمل کیا ہے اور اگر اللہ چاہے تو سائے جم جائیں یا ساکن رہیں ، اس میں کیا
حکمت ہے؟
۲۔ شے کا سایہ اپنی اصل میں کیا
ہے؟
۳۔ سائے کا شے سے کیا تعلق ہے؟
۴۔ سائے کی خصوصیات اور طرزِ عمل
کیا ہے؟
سایہ ہمیشہ روشنی کے منبع کی مخالف
سمت میں بنتا ہے۔ موجودہ سائنس ( تحقیق و تلاش ) میں سائے کی تعریف یہ ہے،
”زمین ، دیوار یا کسی اسکرین کا وہ
غیر روشن حصہ جہاں روشنی رکاوٹ کی وجہ سے نہ پہنچ سکے ، اس حصے کو سایہ کہتے ہیں۔“
روشنی کی راہ میں آنے والی رکاوٹ
کی جو شکل ہوتی ہے، سایہ کم و بیش اسی شکل کا بنتا ہے۔ زمین یا دیوار پر سایہ
لمبائی اور چوڑائی میں نظر آتا ہے ، تیسری جہت یعنی موٹائی نظر نہیں آتی لیکن شے
سے لے کر نظر آنے والا سایہ ، سہ جہتی(Three Dimensional)
مظہر ہے۔
تحقیق و تلاش نے حتمی رائے یہ قائم
کی ہے کہ سایہ بذاتِ خود وجود نہیں رکھتا، یہ الگ سے کوئی شے نہیں بلکہ غیر روشن
حصہ یا سطح ہے البتہ سائنسی علوم میں سائے ، ان کی اقسام ، شے کے ایک سے زیادہ
سائے ، ایک سائے کے مختلف حصے ، ان کا گھٹنا بڑھنا ، مختلف سایوں کا مدغم ہونا اور
دیگر ظاہری خصائص پر تحقیقات کی گئی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر سایہ بذاتِ خود
وجود نہیں رکھتا تو اس پر تحقیق اور اس کی درجہ بندی کیا معنی رکھتی ہے؟ تذکرہ
، مشاہدہ اور تحقیق ، شے کی موجودگی کی تصدیق ہے۔
مادی سائنس سائے کے بارے میں حقائق
سے ابھی تک پردہ نہیں اٹھا سکی لیکن مشاہدات دلچسپ ہیں۔ جیسے،
¨
دو چیزیں یا افراد قریب آئیں تو ان کے سائے بھی
قریب آتے ہیں۔ چیزیں مَس ہوں تو سائے بھی آپس میں ملتے ہیں۔ دو اشیا یک جا ہو
جائیں یا روشنی کے سورس کی سیدھ میں آگے پیچھے آجائیں تو ان کے سائے ایک ہو جاتے
ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جب دو اشیا
روشنی کے منبع سے برابر فاصلے پر ہوں تو قریب آنے پر ان سے پہلے ،ان کے سائے آپس
میں مل جاتے ہیں۔ اگر اشیا کا روشنی کے منبع سے فاصلہ برابر نہ ہو تو ان میں سے جو
شے منبع سے نسبتاً دور ہوتی ہے، اس کا سایہ قریب آنے پر پھیلتا ہے اور دوسرے سائے
میں ضم ہو جاتا ہے۔
تجربہ کیجئے : ایک
ہاتھ میں چوکور گتا اور دوسرے ہاتھ میں گیند پکڑ لیں۔ ایسی دیوار کے قریب جائیں
جہاں دھوپ ہو۔ چوکور گتے کا سایہ دیوار پر چوکور اور گیند کا سایہ گول نظر آتا ہے۔
اگر دائیں ہاتھ میں گیند اور بائیں ہاتھ میں چوکور گتّا ہے تو گیند اپنی طرف اور
گتّا دیوار کی طرف رکھیں __اب گتّا تکنیکی طور
پر گیند کی نسبت سورج سے زیادہ دور ہے۔ دونوں اشیا کو اپنی اپنی سیدھ میں رکھ کر
ایک دوسرے کے قریب لائیں۔ جیسے ہی سائے قریب آئیں گے، گّتے کے سائے سے ہیولا نما
حصہ تھوڑا سا آگے نکل کر گیند کے سائے میں ضم ہو جائے گا۔ اگر گیند کو دیوار اور
گتّے کو اپنے قریب رکھا جائے تو قریب آنے پر گیند کے سائے میں سے ایک حصہ نکل کر
گتّے کے سائے میں ضم ہوگا۔
تصویر۔
مضمون میں دی گئی اشکال دیکھئے۔
تحقیق و تلاش(سائنس) اس کی توجیہ
روشنی کی لہروں کے باہم تعامل(Interference)
کی رَو سے بیان کرتی ہے۔
¨
سورج
کی روشنی یعنی دھوپ میں پیلاہٹ غالب ہے۔ دن کو بننے والے سائے میں پیلاہٹ کی بجائے
نیلاہٹ کا غلبہ ہوتا ہے۔ محققین کے خیال میں یہ نیلاہٹ اس طرز ِ عمل سے پیدا ہوتی
ہے جس کی وجہ سے آسمان نیلا نظر آتا ہے۔
¨
سایہ
شے کی نسبت جتنا زیادہ طویل ہوتا ہے ، اس کی حرکات کی رفتار (اسپیڈ) بھی اسی
مناسبت سے زیادہ ہوتی ہے۔
¨
لوہے
یا کنکریٹ کی جالی پر بننے والے سایوں میں جالی کا پیٹرن نظر آتا ہے۔ اگر یہ پیٹرن
زیادہ بڑے شگاف نہ رکھتا ہو تو زمین پر پڑنے والے اس کے سائے میں کچھ فاصلے کے بعد
اس پیٹرن کی ترتیب بدل جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر روشن حصوں کی جگہ اندھیرا اور
اندھیرے کی جگہ روشن حصہ نمایاں ہوتا ہے۔
¨
کارڈ
بورڈ لیں۔ اس میں تکون کاٹیں جس کا سائز ایک انچ سے زیادہ نہ ہو۔ اس کو دھوپ میں
دیوار کے سامنے کریں۔ دیوار سے کم از کم دو فٹ کا فاصلہ ہو۔ روشنی تکونی سوراخ سے
گزر کر دیوار پر پڑے گی۔ دیوار پر کیا شکل بنے گی؟
جواب زیادہ تر یہی ہوگا کہ تکون۔
لیکن دیوار دیوار پر شکل
دائرے کی بنے گی پر__؟
تجربہ شرط ہے۔
گتّے میں کسی بھی شکل ، تکون ، مربع
(Square)
، مثمن (Octagon) یا
مسدّس (Hexagon) کی شکل
کا سوراخ کیا جائے ، روشنی اس میں سے گزر کر دیوار پر ہمیشہ دائرے کی شکل بنائے
گی۔ اس کی مختلف توجیہات بیان کی گئی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ سائنسی تحقیقات میں
سائے سے متعلق تحقیق و تجربات بالواسطہ ہیں یعنی براہ راست مشاہدہ کرنے اور اور
اسے سمجھنے کی بجائے اسے روشنی کے واسطے ( میڈیم) سے سمجھا جاتا ہے۔ ایسے میں سوچنا
یہ ہے کہ کہیں ہم روشنی کے تجربات کو سائے کے تجربات تو نہیں سمجھ رہے ؟
دراصل مادی علوم سائے کی حقیقت اس
لئے معلوم نہیں کر سکے کیونکہ سائے کو حقیقت تسلیم کرنے کی بجائے اسے محض روشنی کی
غیر موجودگی تصور کیا گیا ہے حالانکہ زمین پر زندگی کی ابتدا سے لے کر اب تک کے
بہت سے مشاہدات ، تجربات اور ان کے تاثرات سائے یا سایوں سے منسلک ہیں۔ اگر سائے
کی حقیقت اور وجود کو رد کر دیا جائے تو ان مظاہر کی توجیہہ پر سوالیہ نشان لگ
جاتا ہے۔
مثال : چاند
گرہن اور سورج گرہن دراصل سائے کے مظاہر ہیں۔ تمام تہذیبوں میں ان کے اثرات کو
تسلیم کیا گیا ہے۔ توہمات کے علاوہ ان مظاہر کی اپنی ایک حقیقت ہے۔
روزانہ طلوعِ آفتاب اور غروب کے
اوقات میں افق کے قریب سیاہی مائل نیلے رنگ کی پٹی نظر آتی ہے جس کے اوپر نارنجی و
سرخ رنگ کی دوسری پٹی موجود ہوتی ہے۔
سیاہی مائل نیلی پٹی کیا ہے؟
محققین کا کہنا ہے کہ یہ زمین کا
سایہ ہے جو وسیع خلا میں سینکڑوں میل تک پھیلا ہوا ہے۔
کیا واقعی ایسا ہے؟
؟
قدیم چین میں سائے کا تھیٹر ایجاد
ہوا۔ ایک روشن پردے یا اسکرین پر لوگوں، جانوروں اور قدرتی مناظر کے سایوں کی
شبیہں بنائی جاتی تھیں۔ یہ تھیڑ ابھی تک
چین اور مشرق بعید کے ممالک میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ عام تھیڑ کی نسبت
اس کا تجربہ دلچسپ اور عجیب ہے۔ پس منظر میں مختلف اشکال کے مخصوص پتلوں کے سائے
روشن پردے پر ڈالے جاتے ہیں اور ناظرین کہانیوں اور داستانوں کو مختلف متحرک سایوں
کی صورت میں دیکھتے ہیں۔
ان سایوں سے ناظرین کے ذہن میں
گہرے تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔ پیش کئے جانے والے کھیل کے ساتھ ساتھ وہ تصور کی دنیا
کے وسیع تر کینوس پر اس داستان کو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں۔ سایوں کا تھیڑ
دیکھنے والے شائقین انوکھے تجربے کا اظہار کرتے ہیں جو غور طلب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ
عام تھیڑ ، ٹی وی یا سینما دیکھتے ہوئے تصور کو وہ مہمیز (ترغیب) نہیں ملتی جو
سایوں کا تھیڑ دیکھتے ہوئے ملتی ہے۔
سائے کا سب سے بڑا اور اہم مظہر
رات ہے۔ ہر شے اور فرد کی زندگی کا تقریباً نصف حصہ سائے میں گزرتا ہے۔ قرآن کریم
میں سائے یا رات کے حواس کو دن کے حواس سے مختلف قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم کے
مطالعے سے واضح ہو جاتا ہے کہ رات کے حواس نہ صرف دن کے حواس سے بہت وسیع ہیں بلکہ
یہ دن کے حواس کی بنیاد ہیں۔ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ قرآن کریم میں دھوپ ، سایہ ،
دن اور رات کے بیان کردہ حقائق سطحی فہم سے مختلف ہیں۔
مادی شعور اور علوم کے مطابق رات ،
دن کی غیر موجودگی کا نام ہے۔ اس کے برعکس وحی کی تعلیمات یہ ہیں کہ رات کے حواس
اصل ہیں اور دن کے حواس ، رات کے حواس کی ایک محدود حالت ہیں۔
سایہ اور روحانی سائنس :
قرآن کریم کی آیات کے مطابق یہ امر
مسلمہ ہے کہ سایہ محض دھوپ کی غیر موجودگی کا نام نہیں بلکہ اپنا ایک الگ وجود
رکھتا ہے۔ خالقِ کائنات اللہ تعالیٰ نے سائے اور روشنی کو باہم منسلک کر دیا ہے
لہذا باطنی نگاہ سے ناواقف شعور روشنی کی غیر موجودگی کو سائے کا نام دیتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
۱۔ وہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے
اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔
۲۔ دن اور رات کے اختلاف میں
نشانیاں ہیں۔
۳۔ وہ دن کو رات سے ڈھانک دیتا ہے۔
۴۔پاک ہے وہ ذات جو رات کے ایک حصے
میں اپنے بندے کو مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا۔
۵۔ اور ہم نے رات اور دن کو اپنی
قدرت کی دو نشانیاں بنایا ہے۔ رات کی نشانیوں کو تاریک اور دن کی
نشانی کو روشن بنایا ہے۔
۶۔ اور ان کے لئے ایک نشانی رات
ہے۔ ہم کیسے اس میں سے دن کو کھینچ لیتے ہیں اور وہ اندھیرے میں پڑے
رہ جاتے ہیں۔
۷۔ وہ رات کو دن پر اوڑھ دیتا ہے
اور دن کو رات پر اوڑھ دیتا ہے۔
۸۔ بے شک ہم نے اسے (قرآن کریم )
ایک بابرکت رات میں اتارا۔
۹۔ اور رات کے بعض اوقات میں بھی
اس کی تسبیح کرو۔
۱۰۔ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے
افضل ہے۔
ان آیات کے علاوہ دن رات خصوصاً رات کے حوالے سے
متعدد آیات ہیں جن سے یہ وضاحت ہوتی ہے کہ دن اور رات کا اپنا اپنا الگ الگ وجود
ہے۔ بالفاظ دیگر سائے کا روشنی سے الگ ایک وجود ہے۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
۱۔ گوشت پوست اور ہڈیوں کے ڈھانچے
کے اوپر ایک جسم ہوتا ہے جو روشنیوں کا بنا ہوا ہے یعنی اس جسم کے ہاتھ ، پیر ، سر
آنکھیں وغیرہ سب اسی طرح ہوتے ہیں جس طرح مادی جسم کے ہوتے ہیں۔ اس کو ابدالِ حق
قلندر بابا اولیا ؒ نسمہ اور سائنس دان Auraکہتے
ہیں۔
۲۔ خواب دراصل لوحِ محفوظ کا سایہ
ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے
بنایا۔ چنانچہ ایک سایہ زمین کے اوپر پڑتا ہے اور دوسرا سایہ اس کے بالمقابل آسمان
پر پڑتا ہے۔ آدمی بیداری کی حالت میں زمین کے اوپر سائے کو دیکھتا ہے۔ اس کو مثال
سے سمجھیں۔ مکان کا سایہ مکان کی صورت میں نظر آتا ہے۔ درخت کا سایہ درخت کی صورت
میں نظر آتا ہے۔ آدمی کا سایہ آدمی کی صورت میں نظر آتا ہے وغیرہ وغیرہ لیکن خواب
میں بالمقابل سائے کو وہ آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ آسمان کے اوپر سے بالکل بیداری
کی طرح یہی سایہ نظر آتا ہے۔ بیدار ہونے کے بعد یہ سایہ غائب ہو جاتا ہے اس لئے کہ
یہ آسمان پر ہوتا ہے اور آسمان نگاہ کی گرفت سے باہر ہے۔ ہم جس کو آسمان دیکھنا
کہتے ہیں یعنی یہ نیلا نیلا آسمان جو ہمیں نظر آتا ہے، آسمان نہیں ہے بلکہ حدِ نظر
ہے۔
۳۔ تصوف نے انسان کی ساخت کو تین
حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ روحِ اعظم ، روحِ انسانی روحِ حیوانی ۔ ابدالِ حق قلندر
بابا اولیاؒنے ان تینوں حصوں کا اصطلاحی نام نسمہ مطلق ، نسمہ مفرد اور نسمہ مرکب
بتایا ہے۔ نسمہ مرکب روحِ حیوانی ہے جس کو ہمزاد کہتے ہیں۔ ہمزاد جب لوحِ
محفوظ کے سائے کو زمین پر دیکھتا ہے تو اسے بیداری اور جب اس ہی سائے کو آسمان پر
دیکھتا ہے تو اسے خواب کا نام دیتا ہے۔ ہمزاد دراصل روشنیوں سے مرکب انسان ہے جو
گوشت پوست کے جسم کے اوپر محیط ہے۔
قارئین ! درجِ بالا انکشافات غور
سے پڑھیے۔ ان میں سائے کی حقیقت کی تفصیل ہے۔ تحریر کے رموز سکت کے مطابق آشکار
ہوں گے۔
کائنات ، اس کے اجزا ، مخلوقات ،
انواع اور افراد لوحِ محفوظ کے ریکارڈ کا مظاہرہ ہیں۔ سینما میں پروجیکٹر سے
شعاعیں نکل کر صاف اور خالی اسکرین پر پڑتی ہیں اور تصاویر واضح ہوتی ہیں، ہم ان
تصاویر کو روشنی کے سائے یا عکس کہہ سکتے ہیں۔ پروجیکٹر کے پیچھے فلم میں اصل
ریکارڈ موجود ہے۔ روشنی اس ریکارڈ کی اطلاعات لے کر سفر کرتی ہے اور ایک فاصلے پر
موجود اسکرین پر اطلاعات کے عکس یا سائے ظاہر ہوتے ہیں۔
ایسے میں ہماری حیثیت کیا ہوئی __؟
ہم سب زمین پر اور جتنی زمینیں
کائنات میں موجود ہیں ، سب لوحِ محفوظ کے ریکارڈ کا عکس یا سایہ ہیں۔ قرآن کریم
میں ہے کہ ہر خلقت جوڑے جوڑے سے مرکب ہے اور جوڑے دہرے ہیں۔
مثال : روشنی
کسی فرد کی اطلاع یا ریکارڈ لے کر منبع سے نشر ہوتی ہے۔ یہ جتنے پردوں میں سے
گزرتی ہے، ہر پردے کے اوپر سائے یا نقوش بستے ہیں۔ پردے پر شبیہ ، نقوش یا سائے
روشنی کی غیر موجودگی نہیں ہے بلکہ روشنی کے اندر اطلاعات کا واضح ہونا ہے۔ ایسے
میں یہ سمجھنا اہم ہے کہ سایہ دراصل خود روشنی ہے۔ بالفاظ دیگر اندھیرا روشنی کی
غیر موجودگی نہیں بلکہ اندھیرا بھی روشنی ہے، ایسی روشنی جو کسی وجہ سے عام شعور
کی گرفت میں نہیں آتی۔
نکتہ : اگر
روشنی نہ ہو تو شے کا وجود زیر بحث نہیں آتا جس طرح پروجیکٹر سے روشنی نشر نہ ہو
تو اسکرین پر شبیہ یا سایہ نہیں بنتا۔ ایسے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اندھیرا شعور
کے عجز کا نام ہے ورنہ کائنات کلّی طور پر روشنی ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
”اللہ
سماوات اور ارض کا نور ہے۔“ (النور
: ۳۵)
1939 ء میں روسی موجد اور محقق
سیمیون کر لین (Semyon Kirlian)
نے فوٹو گرافی کا نیا طریقہ ایجاد کیا جسے کرلین فوٹو گرافی کہا جاتا ہے۔ اس سے جب
اشیا یا افراد کی تصاویر کھینچی جاتی ہیں تو ان کے اوپر روشنی کا جسم یا پرت محیط
نظر آتا ہے۔
مثال : ماں
بچے کو محبت سے گلے لگاتی ہے اور بچہ بھی ماں سے محبت کرتا ہے۔ گلے ملتے ہی دونوں
کی روشنی کا ہیولا نما جسم ایک دوسرے میں ضم ہونے لگتا ہے اور ان کا پھیلاؤ بہت بڑھ
جاتا ہے۔ یہ پُر خلوص محبت کا مظاہرہ ہے۔
دوسری طرف جب دو افراد کے درمیان
غصے یا نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں تو ان کے گرد روشنی کے ہالے سکڑ جاتے ہیں یا
کمزور ہوتے نظر آتے ہیں۔ فکر روشنی کے ذریعے سفر کرتی ہے اس لیے روشنی کا ہالہ
سکڑنے سے فکر و دانائی کی رینج (وسعت ) بھی محدود ہو جاتی ہے۔ یہ منفی جذبات کا
مظاہرہ ہے۔
مضمون کی پہلی قسط میں چوکور گتّے
اور گیند کے دیوار پر بننے والے سایوں اور ان کے آپس میں انضمام کا ذکر ہے اور
تجربہ بھی دیا گیا ہے۔ تجربہ کرنے سے ہم دیکھتے ہیں کہ دو اشیا کے سائے بھی آگے
بڑھ کر ایک دوسرے میں ضم ہوتے ہیں۔ یہ طرز ِ عمل دوAura کے باہم ضم ہونے سے مشابہ کیوں ہے__؟
تیز دھوپ میں جب سائے زمین یا
دیوار پر واضح بن رہے ہوں تو اپنے سائے کو پانچ منٹ غور سے دیکھئے__کناروں پر ایک روشن حصہ واضح ہونے لگتا
ہے۔ یہ روشن حصہ ایک لکیر کی طرح سائے پر محیط نظر آتا ہے۔
یہ کیا ہے اور ایسا کیوں ہوتا ہے؟
محققین نے دریافت کیا ہے کہ کسی شے
کے سائے کا عین وسطی حصہ ، سائے کا سب سے روشن حصہ ہوتا ہے حالانکہ یہ بات عام
خیال یا تھیوری کے برعکس ہے۔ اگر سایہ بہت بڑا ہو تو وسط میں یہ روشن حصہ ، روشن
نقطہ کی طرح واضح نظر آتا ہے۔ سائنس دان ابھی تک اس کی توجیہہ پیش کرنے سے قاصر
ہیں۔
خواتین و حضرات ! کیا آپ جانتے ہیں
کہ ایسا کیوں ہے اور اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟