Topics
بچے کیچڑ سے بچنے کے لیے
کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والی تنگ لیکن پختہ سڑک پر آجاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک
کی نظر کسی چیز پر ٹھہر جاتی ہے۔ یہ دیکھ کر دوسرے بچے بھی اس جانب دیکھتے ہیں۔
سامنے عجیب و غریب منظر ہے۔
آسمان سے مینہ برسنے ، اس سے مردہ زمین کو زندہ کرنے ، اس میں
ہر طرح کے پھل ، نباتات اور میوے اگانے کا ذکر قرآن کریم کی بہت سی آیات میں ہے۔
ان آیات کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ بارش سے بے جان وجود میں زندگی جنم لیتی ہے اور
زمین پر رنگوں کی بہار آجاتی ہے۔
یہ کیسے
ممکن ہے؟
کسان اور ماہر نباتات جانتے ہیں کہ بنجر زمین آباد کرنا مشکل
اور بعض اوقات ناممکن ہے کوئی نقشہ دیکھئے جس میں سر سبز اور بنجر زمین کی نشاندہی
ہو۔ نقشے میں زر خیز علاقے گہرے ہلکے سبز اور بنجر علاقے زرد نظر آتے ہیں۔
ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کے رقبے کا تقریباً 33 فی صد حصہ
بنجر ہے۔
سعودی عرب کے صحرا ؤں میں سے ایک صحرا ربع الخالی ،
افریقہ کا صحارا ، چین کا صحرائے گوبی اور جنوبی امریکا کا ایٹا
کاما ریت کے ٹیلوں سے بھرے وسیع ریگستان ہیں۔ نیم صحرائی ، بنجر اور پتھریلے
علاقے ان کے علاوہ ہیں۔
یہ وسیع و عریض علاقے
” صحرا“ کیوں ہیں؟ اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ یہاں بارش نہیں ہوتی یا نہ ہونے
کے برابر ہوتی ہے یعنی بارش کے بغیر امین بے جان وجود ہے۔
” اور وہ اللہ ہے جو ہواؤں کو اپنی رحمت کے آگے آگے
خوش خبری لئے ہوئے بھیجتا ہے،پھر جب وہ پانی سے لدے ہوئے بادل اٹھاتی ہیں تو انہیں
کسی مردہ زمین کی طرف حرکت دیتا ہے اور وہاں مینہ برسا کر طرح طرح پھل نکالتا ہے۔
دیکھو ! اس طرح ہم مردوں کا حالتِ موت سے نکالتے ہیں تاکہ تم اس مشاہدے سے سبق
لو۔“
( الا عراف : ۵۷)
بارش سے متعلق قرآنی آیات میں زمین کی سیرابی کے ایسے پہلو
بیان ہوئے ہیں جن میں تخلیقی فارمولے تلاش کئے جاتے ہیں۔
” اور دیکھو! زمین میں الگ الگ قطعات ہیں جو ایک
دوسرے سے متصل ہیں اور انگور کےباغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں
جن میں کچھ ایک تنے کے ہیں اور کچھ زیادہ تنے کے ہیں۔ سب کو ایک پانی سے سیراب کیا
جاتا ہے ۔ اور ہم بعض کو بعض پر کھانے کےمعیار کے اعتبار سے فضلیت دیتے ہیں ۔ بے
شک ان آیات میں اولی الالباب کے لیے نشانیاں ہیں۔“ (الرعد : ۴)
مثالوں سے سمجھیے:
۱۔ نیم اور آم کے درخت ایک دوسرے سے چند فٹ کے فاصلے پر ہیں ، بارش
دونوں پر یکساں برستی ہے، کاشت کار ایک ہے جو ان کو ایک کنوئیں کے پانی سے سیراب کرتا
ہے۔ زمین اور مٹی دونوں کے لئے ایک ہے لیکن نیم کا پھل سخت کڑوا ہے اور آم ذائقے
اور مٹھاس میں بادشاہ ہے۔ نیم کے درخت اور پھل میں کیمیائی مادے اور رطوبات ، آم
کے درخت سے مختلف ہیں۔ پتّے ، قد کاٹھ اور شکل منفرد ہے۔
۲۔ بے آب و گیا ہ صحرا ہے۔ ریت کے بڑے چھوٹے۔۔ چھوٹے بڑے تیلے ہیں
اور سبزے کا نام و نشان نہیں۔ شمال سے سیاہ بادل نمودار ہوتے ہیں اور صحرا کے بڑے
حصے کو سیراب کرتے ہیں۔ صحرا چند روز میں سینکڑوں اقسام کی نباتات سے بھر جاتا ہے
جن پر مختلف رنگوں کے پھول کھلتے ہیں اور پھولوں کی پتّیوں میں ریت چھپ جاتی ہے۔
یہ کوئی افسانہ نہیں، صحراؤں میں ظاہر ہونے والا قدرتی عجوبہ اور غور و فکر کے لئے
نشانی ہے۔ ریگستان کے گلستان میں ڈھلنے کو desert bloom کہا جاتا ہے۔ سیاح یہ نظارہ دیکھنے دور دور سے آتے ہیں۔ تھوڑی مدت
بعد صحرا پہلی حالت میں آجاتا ہے۔
قابل غور ہے کہ صحرا
میں اتنے اقسام کے پھول دار پودوں کے بیج کہاں سے آئے؟ کوئی کہے کہ زرخیز علاقوں
سے ہواؤں کے ساتھ اڑ کر یہاں پہنچے تو ایسا نہیں کیوں کہ صحرا میں پیدا ہونے والے
یہ مخصوص پودے دوسرے علاقے میں نہیں اُگتے۔ توجیہہ پیش کی جا سکتی ہے کہ صحرا میں
یہ مظاہرہ ہوتا رہتا ہے اس لئے کچھ بیج ریت میں رہ جاتے ہیں اور آئندہ بارش ہونے
پر اگتے ہیں۔ یہ توجیہہ درست نہیں کیوں کہ وہ صحرائی علاقے جن میں پھولوں کی
رنگینی کا عمل ریکارڈ نہیں کیا گیا ، وہ غیر متوقع بارش سے بیسیوں اقسام کے پھولوں
سے بھر گئے۔
ابدالِ حق قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
زمین ہر دس ہزار سال بعد بیلٹ تبدیل کرتی ہے۔ خشک علاقے سمندر بن جاتے ہیں اور
جہاں سمندر ہے ، وہاں خشکی آ جاتی ہے۔
صحر ا ایٹا کاما چلی میں واقع ہے۔ یہ دنیا کا
خشک ترین صحرا ہے۔ اس کے بعض حصوں میں بارش کی اوسط شرح صفر بتائی جاتی ہے۔ غیر
معمولی موسمیاتی تبدیلیوں اور ارضی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے زمین کا موسم
تبدیل ہو رہا ہے اور خشک علاقوں میں غیر متوقع بارش کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ صحرا
ایٹا کاما پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ گزشتہ دہائی میں اس کے خشک حصے بارش
سے رنگ و بو کا حسین امتزاج بن گئے ۔ یہ کیسے ممکن ہوا؟
ماہرین کے ایک گروہ کے مطابق صحرا کی مٹی میں بیج موجود ہوتے
ہیں اور بارش ہونے پر اُگتے ہیں۔ ان کے بقول جن علاقوں میں یہ پودے نہیں تھے ،
وہاں ان کے اُگنے کا مطلب ہے کہ بیج کہیں سے اڑ کر اس مٹی میں پہنچے۔
غیر جانبدار ذہن اس توجیہہ سے مطمئن نہیں ہوا کہ اس میں
مفروضے کو تسلیم کرنے پر اصرار ہے۔ اس نظریے کا پرچار کرنے والے ماہرین کے پاس ان
سوالات کا جواب نہیں ہے،
۱۔ اس عمل کی ابتدا کب ہوئی؟
۲۔ پہلی مرتبہ ان پودوں کے بیج کیسے وجود میں آئے؟ بالخصوص کسی اور
علاقے میں ایسے بیجوں کا وجود میں آنا جو صحرا کے سخت ماحول کے مطابق تخلیق ہوئے
ہوں۔
۳۔ بیجوں سے نکلنے والے پودوں نے صحرا کے سخت ماحول کو کس طرح قبول
کیا؟ مخصوص ماحول اور آب و ہوا میں پیدا اور نشو و نما پانے والے پودے ، مختلف آب
و ہوا میں اپنے قدرتی مسکن کی طرح نشو و نما پاتے ہیں۔
بارش کی جو تعریف اور تعارف قرآن کریم میں ہے ، وہ بارش کے
عام تصور سے مختلف اور وسیع ہے۔ مردہ زمین میں زندگی کا پیدا ہونا جن مقداروں اور
انوار کی مرہونِ منت ہے ، قدرت نے وہ بارش میں منتقل کر دی ہیں۔
بچوں کا دلچسپ مشاہدہ :
پانچویں جماعت کے بچے کھیتوں کے قریب میدان میں کھیل کود رہے
ہیں۔ آسمان ابر آلود ہے اور بارش کا امکان ہے۔ بادلوں کی سیاہی اور گھن گرج رفتہ
رفتہ بڑھ رہی ہے۔ موسلا دھار بارش ہوتی ہے جو سخت گرمی میں جاں فزا فرحت کی نوید
ہے۔ بچے خوشی سے مادری زبان میں یہ گیت ہم آواز گا رہے ہیں،
کالیاں اٹاں کالے روڑ
مینہ و سا دے زور و زور
بچے کیچڑ سے بچنے کے لئے کھیتوں کے درمیان سے گزرنے والی تنگ
لیکن پختہ سڑک پر آجاتے ہیں۔ ان میں سے ایک کی نظر کسی چیز پر ٹھہر جاتی ہے۔ دوسرے
بچے بھی اس جانب دیکھتے ہیں۔۔۔ سامنے عجیب و غریب منظر ہے۔
بارش کے قطرے سڑک پر گرتے ہیں تو ان کے ساتھ لگ بھگ چنے کے
دانے کے برابر یا معمولی بڑے مینڈک اچھلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔۔ رنگ سیاہی مائل
سرمئی یعنی بجری اور تار کول کے رنگ جیسا ہے جس کی وجہ سے ان کو پہلی نظر میں
دیکھنا مشکل ہے۔۔ بارش کا زمین پر گرنا اور مینڈکوں کو چھلنا اس طرح ہم آہنگ ہے
جیسے بارش کے ساتھ زمین پر گر رہے ہوں۔ بچوں نے گاؤں کے بزرگوں سے اس مظہر کے بارے
میں سنا تھا لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھا تو حیران رہ گئے۔
وقت گزرا اور بچے ہائی اسکول میں داخل ہوئے۔ میٹرک میں حیا
تیات (Biology) کے سبق کے
دوران یہ سوال استاد سے کیا تو انہوں نے ہنس کر اس کی نفی کر دی۔ ان میں سے دو
بچوں نے حیاٹیاتی سائنس میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور کتابوں میں پڑھا کہ بارش کے
قطروں کے ساتھ مینڈکوں کا ظاہر ہونا نظر کا دھوکا ہے کیوں کہ زندگی اس طرح وجود
میں نہیں آتی۔
بچوں کا مشاہدہ واضح او ر ٹھوس تھا۔ کوئی دلیل ان کو قائل نہ
کر سکی۔
قارئین ! بارش میں مینڈکوں کی برسات دیکھنا مشکل نہیں۔ برسات
میں آلودگی سے پاک کھلے علاقے میں یہ حیرت انگیز نظارہ ملتا ہے۔
قرآن کریم میں زندگی سے عاری قطعہ زمین کے لیے ” بلدمیت“ یا
اس سے ملتے جلتے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ایسی زمین جس میں زندگی کے کوئی آثار
موجود نہیں۔
کسان بے آباد قطعے میں گندم آباد کرنا چاہتا ہے۔ ہل چلا کر
زمین ہموار کرتا ہے ، مٹی کا کیمیائی تجزیہ کر کے مختلف اقسام کی کھاد اور ادویہ
ملاتا ہے تاکہ زمین فصل کے لیے تیار ہو۔ آخر میں بیج بو کر کھیت میں سہاگا ( کھیت
کی زمین ہموار کرنے کا پٹڑا )پھیرتا ہے۔
سہاگا پھیرنے کے بعد اور پانی دینے سے پہلے زمین پر گندم کا
پودا نظر نہیں آتا لیکن بیج زیر زمین موجود ہے۔ بیج کھلنے کا عمل ابھی شروع نہیں
ہوا۔ بارش یا کنوئیں کے پانی ( جو بالواسطہ بارش کا پانی ہے) کا انتظار ہے۔ بیج
میں زندگی موجود لیکن خوابیدہ (dormant)
ہے۔ کھیت کو سیراب نہ کیا گیا تو۔۔۔۔؟
بیج چھڑکنے اور سہاگا پھیرنے کے بعد زمین جس میں نشو و نما
اور افزائش کے لیے کھاد موجود ہے، بنجر حالت سے مختلف ہے۔ کھیت پانی سے سیراب ہوتا
ہے اور گندم کی فصل دور دور تک لہلہاتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس وہ قطعہ زمین
جس پر بارش نہیں ہوئی ، ہل چلایا گیا ہے نہ کاشت کی گئی ہے، وہاں اچانک بارش سے
ہزاروں اقسام کے پھول بوٹے اُگ آتے ہیں۔
·
ان کے بیج اس مقام پر کیسے آئت؟
·
ان کی غذا اور افزائش کا بندوبست کیسے
ہوا؟
کہا جائے کہ ہوا اور
جانوروں کے ذریعے بیج منتقل ہوئے تو سوال یہ ہے کہ بیج اتنی بڑی اور یکساں مقدار
میں ہزاروں ایکٹر علاقے میں کیسے بکھر گئے کہ علاقہ پھولوں کا قالین بن گیا؟ مزید
یہ کہ اس سے متصل علاقے جن میں بارش نہیں ہوئی ، ان کی زمین کی اوپری تہ ہٹا کر
باریک بینی سے تجزیہ کیا جائے تو اس مفروضے کے مطابق ان پودوں کے بیج وہاں کثیر
تعداد میں ملنے چاہیئں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔
بارش کا پانی ہوا سے نائٹروجن پودوں کی جڑوں میں منتقل کرتا
ہے اور ندی ، نالوں اور دریاؤں کی صورت میں بہتا ہوا مفید نمکیات بنجر علاقوں تک
پہنچاتا ہے۔ لیکن مردہ زمین کو زندہ کرنے کے لیے یہ توجیہہ بھی کافی نہیں۔
آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں مردہ وجود کو زندہ کرنے
فارمولا ، بارش کے مظہر میں بیان کر دیا گیا ہے جس سے سمجھنا آسان ہے کہ ہر مظہر
کے دو رخ ہیں اور اس میں تخلیقی فارمولے مخفی ہیں۔ اولی الالباب لوگوں کی ان
فارمولوں تک رسائی ہے۔
خواتین وحضرات ! کیا آپ بارش کے ساتھ چنے کے دانے کے برابر
مینڈک ظاہر ہونے کا میکانزم بتا سکتے ہیں۔۔۔؟ یکسو ہو کر مضمون پڑھا جائے اشارہ
موجود ہے۔ جواب سمجھ میں نہ ائے تو اگلے ماہ کے شمارے کا انتظار کیجئے۔