Topics

دلدل

          رب العالمین کا ارشاد ہے:

                   ” ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا۔“     (الحجر : ۲۶)

          سورہ حجر کی آیات 28اور 33 میں بھی یہی الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ آیات میں روح انسانی کے لباس کی تخلیق کا ذکر ہے۔ لباس ۔۔۔ روح کا میدیم ہے جو زون کے مطابق تبدیل ہوتا ہے۔ عالم ناسوت میں روح کا لباس مٹی سے تشکیل شدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے انسان کی تخلیق ایسی مٹی سے کی ہے جو پہلے گارے کی صورت میں تھی۔

          خشک مٹی میں پانی ملا کر جب گارا تیار ہوا تو اسے ایک مدت تک اسی حالت میں چھوڑ دیا گیا حتی کہ وہ سڑ کر سیاہ (کیچڑ) ہو گیا یعنی گارے میں موجود نامیاتی مواد اگلنے سڑنے (Fermentation) کے عمل سے گزر کر بدبو دار سیاہی مائل مادہ میں تبدیل ہو گیا۔

          پھر اس گارے کو گوندھا گیا حتی کہ لچک دار مادہ میں تبدیل ہو گیا جسے کسی بھی شکل و صورت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس مادہ سے انسان کا مادی جسم تخلیق کیا اور اس میں اپنی روح پھونک دی تو وہ جیتا جاگتا انسان بن گیا۔

          مضمون میں آیات کے الفاظ ” حما مسنون“ پر تفکر کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ مادی جسم کی تخلیق کے لیے جو مادہ استعمال کیا گیا ہے اس کو تیار کرنے کے مراحل کیا ہیں۔

          ” حما “ لغوی اعتبار سے گارے کو کہتے ہیں ایسا گارا جو اپنی ترکیب میں یکساں ہو یعنی جس میں پانی اور مٹی باہم دیگر یک جا کر دیئے گئے ہوں۔ حما اسم ہے جس کا مادہ حمئی سے ماخوذ ہے۔ حمئی اس گارے کو کہتے ہیں جس میں معینہ مدت گزرنے کے بعد تعفن پیدا ہوتا ہے اور رنگ سیاہ ہو جاتا ہے۔

          ”مسنون“ کے معنی سڑے ہوئے کے ہیں۔ مسنون کا مادہ ” سنن“ ہے جس کے لغوی معنی عمر رسیدہ یا پرانا ہونے کے ہیں۔ گویا گارے کو اتنا پرانا ہونے دیا جائے کہ اس میں تعفن پیدا ہونے سے رنگ سیاہی مائل ہو جائے۔

          دلچسپ بات یہ ہے کہ مٹی کے برتن بنانے کے لیے گارا جتنا پرانا ہوتا ہے اتنے ہی اعلیٰ معیار کے نفیس برتن تیار ہوتے ہیں۔ پرانے گارے کو گوندھا جائے تو اس میں لچک اور شکلیں اختیار کرنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔ گندھے ہوئے گارے کو مطلوبہ شکل میں ڈھالنے کے بعد خشک کیا جاتا ہے تو وہ ٹھیکرے کی طرح بجتا ہے یعنی ضرب لگنے سے آواز اتی ہے ۔ مٹی کی اس صورت کو قرآن کریم میں ” صلصال“ کہا گیا ہے۔

          یہاں چند سوالات اہم ہیں،

          ۱۔       خالق کائنات نے جس مادہ سے انسان کا لباس تخلیق کیا، اس مادہ کی خصوصیات کیا ہیں؟

          ۲۔       اس میں اللہ تعالیٰ کی کون سی نشانیاں چھپی ہوئی ہیں؟

          ۳۔      جس مادہ سے انسان کو تخلیق کیا گیا وہ زمین پر کس شکل و صورت میں اور کہاں موجود ہے؟

          ۴۔      اور کون سی مقدار یں مل کر اس مادہ کو تخلیق کرتی ہیں؟

          محترم قارئین ! ہم مٹی اور پانی کے مرکب سے حاسل ہونے والے آمیزہ یعنی گارے کی ترکیب اور ساخت کا پہلے سائنسی تجزیہ کرتے ہیں اور پھر اس کی الہامی تفہیم جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

          کرہ ارض کے جس حصہ پر ہمارا بسیرا ہے وہ قشرارض(Earth Crust) کہلاتا ہے۔ یہ زمین کا سب سے بیرونی پرت ہے۔ ماہرین ارضیات کے مطابق سمندر میں اس پرت کی موٹائی دس کلو میٹر تک اور خشکی پر تیس سے پچاس کلو میٹر تک ہے۔

          قشر ارض جس مٹی سے بنا ہے محققین نے اس کی ترکیب بلحاظ وزن اس طرح معلوم کی ہے۔

          مٹی =آکسیجن+ 46.6% سلیکان + 27.7% ایلو مینیم + 8.1% لوہا + 5% چونا یا کیلشیم + 3.6%سوڈیم + 2.6% پوٹاشیم + 2.8% میگنیشیم +2.1% دوسرے عناصر (انتہائی معمولی مقدار میں)۔

          یہ عناصر مٹی میں مرکبات کی صورت میں موجود ہیں نہ کہ مفرو صورت میں۔۔ لیکن محض ان عناصر سے مٹی میں زندگی کی تخلیق اور اسے تقویت پہنچانے کی مقداریں پوری نہیں ہوتیں۔۔ بے شمار پیچیدہ نامیاتی مرکبات جو جان داروں کے مردہ اجسام کی باقیات اور تحلیل شدہ شکل میں موجود ہوتے ہیں، بنجر مٹی کو زرخیز بناتے ہیں۔         مٹی میں پانی شامل ہونے سے گارا بنتا ہے۔ گارا یا کیچڑ کرہ ارض پر حیات کی نمو کے لیے ضروری مادہ ہے کیوں کہ مٹی جب تک پانی جذب نہ کرے اور گارے کی صورت اختیار نہ کرے نباتات اگ سکتے ہیں نہ نشونما پا سکتے ہیں اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ حیوانات کی خوراک کا بالواسطہ انحصار نباتات پر ہے۔

          زمین کے جو علاقے سارا سال یا سال کے زیادہ تر اوقات میں پانی سے تر رہتے ہیں ، مرطوب علاقے (wetlands) کہلاتے ہیں۔ ان علاقوں میں زیادہ تر ساحلی علاقے ، دریاؤں کے سیلابی علاقے اور وہ علاقے شامل ہیں جہاں معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں۔ بعض جگہوں پر پانی گہرائی تک زمین میں اس طرح جزب ہوتا ہے کہ مٹی اور ریت کے ذرّات پانی میں یکساں کمیت (مقدار) میں معلق ہو کر گاڑھے Colloid کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ یعنی نشیبی مقامات پانی کے بجائے گارے سے بھر جاتے ہیں۔۔ یہ مقامات دلدل کے نام سے موسوم ہیں۔مختلف مرطوب علاقوں میں مٹی کی کیمیائی ساخت قدرے مختلف ہونے کی وجہ سے وہاں بننے والی دلدل منفرد خصوصیات رکھتی ہے۔ اس کے باوجود کسی بھی علاقہ میں موجود دلدل جان دار یا بے جان اجسام کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔

          دلدل کا مادہ گارا یا کیچڑ ہے۔ دلدل پیدا ہونے کے بعد گارے میں گلنے سڑنے کے مسلسل عمل سے عموماً سیاہ یا سیاہی مائل رنگت اختیار کر لیتی ہے۔    رنگت مختلف نامیاتی یا غیر نامیاتی مادوں کی کمی بیشی کی بنا پر مختلف ہو سکتی ہے۔ محلولات اور مائعاتی آمیزہ جات کی سائنس کی رو سے دلدل پانی ، چکنی مٹی اور ریت پر مشتمل ایک گاڑھا امیزہ ہے۔ کچھ ماہرین نے اسے colloid hydrogel سے تعبیر کیا ہے۔

          دلدل کے خواص:

          ۱۔       دلدلیں بظاہر گیلی ٹھوس زمین کی طرح نظر آتی ہیں لیکن جیسے ہی ان ان کی سطح پر وزن ڈالا جائے تو ان کا ردِ عمل گاڑھے مائع جیسا ہوتا ہے۔ وازن پڑنے سے ٹھوس ذرّات زیادہ تر اطراف میں نکل جاتے ہیں اور ظاہر ہونے والا خلا مائع سے بھر جاتا ہے۔ چناں چہ دلدل کی سطح پر جہاں پر بھی دباؤ پڑتا ہے اس مقام پر گاڑھا پن ڈرائی طور پر کم ہو جاتا ہے۔ ایسی کوئی بھی شے جس کی مجموعی کثافت دلدلی مادے سے زیادہ ہو، دلدل کے اندر دھنس جاتی ہے۔

          ۲۔       کوئی جانور یا آدمی ، شومئی قسمت سے اگر دلدل میں گر جائے تو باہر نکلنے کے لیے جتنی جدو جہد کرتا ہے دلدل میں اتنا ہی دھنستا چلا جاتا ہے کیوں کی مسلسل حرکت سے جسم کے آس پاس دلدلی مادے کی چپچپاہٹ یا لعاب داری (viscosity) کم ہو جاتی ہے اور جسم مزید گہرائی میں جانے لگتا ہے۔ نکلنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ حرکت روک کر جسم کو ساکت کیا جائے اور بیرونی امداد کا انتظار کیا جائے۔ یا پھر کسی درخت کی شاخیں قریب ہوں تو اسے تھام کر بہت سس روی سے جسم کو دلدل سے آزاد کرنے کی کوشش کی جائے۔

          دلدل میں بالکل ساکت و جامد ہو جانے سے مزید دھنسنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں کیوں کہ عموماً انسان اور جانوروں کی مجموعی جسمانی کثافت دلدل سے نسبتاً کم ہے بہر حال یہ ضروری نہیں۔

          ۳۔      جسم کا جو حصہ دلدل میں دھنس چکا ہو اسے حرکت دینا اور دلدل سے آزاد کرنا اگرچہ ناممکن نہیں لیکن انتہائی مشکل ہے۔ دلدل کا گاڑھا پن اور کثافت کسی بھی حرکت اور تبدیلی سے بہت زیادہ مزاحم ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق اگر جسم ناف تک دلدل میں دھنسا ہو تو ایک ٹانگ کو دلدل سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ اوپر اٹھانے میں اتنی زیادہ قوت صرف کرنا پڑتی ہے جتنی تقریباً 1600 کلو گرام وزنی پتھر کو اٹھانے میں لگتی ہے۔ اگر انسانی جسم گردن تک دلدل میں دھنس جائے تو سینے پر دباؤ سے سانس لینا دشوار ہو جاتا ہے۔ محض کولہے تک دلدل میں زیادہ دھنسے رہنے سے شریانوں پر دباؤ اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ خون جمنے کا عمل واقع ہونے لگتا ہے۔ نتیجاً شریانیں پھٹنے یا ان سے متعلق کوئی مہلک صورت ِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔

          ۴۔      محققین(scientists) کے مطابق عموماً دلدل میں کسی جسم (آدمی ، جانور ) کا مکمل طور پر دھنس کر غائب ہو جانا ممکن نہیں کیوں کہ آدمی یا جانور کی اوسط کثافت ، دلدل کی کثافت سے کم ہوتی ہے۔ لہذا پیٹ تک دھنسنے کے بعد مزید گہرائی میں جانے کا امکان کم ہوتا ہے۔ تا وقتے کہ کوئی آدمی یا ناجور گھبراہٹ میں مسلسل حرکت کرے اور اس کا پورا جسم دلدل میں غائب ہو جائے۔

          وکی پیڈیا کے مطابق دلدل کی کثافت دو گرام فی ملی میٹر ہوتی ہے جب کہ انسانی جسم کی کثافت ایک گرام فی ملی میٹر ہے۔ تجربات کے مطابق دلدل کی کثافت سے زیادہ کثیف اجسام بھی اس میں دھنسنے کے بجائے اوپر تیرتے ہیں جب تک کہ وہ شے مزاحمت نہ کرے۔ مثال کے طور پر المونیم دھات ۔۔۔ جس کی کثافت یا ڈینسٹی 2.7 گرام فی ملی میٹر ہوتی ہے۔ المونیم کا ٹکڑا دلدل میں گرنے کے بعد دھنسنے کے بجائے اوپر تیرے گا جب تک کہاس میں حرکت نہ ہو یا مزاحمت سے وہ گلنا شروع نہ ہو جائے۔

          دل چسپ بات یہ ہے کہ مشاہدات و تجربات اور کسی دلدل کی منفرد نوعیت کی بنا پر ایسے ریکارڈ شدہ واقعات موجود ہیں جو اس نظر یہ کے مطابق نہیں یا کسی حد تک مطابق ہیں۔ وجہ یہی ہے کہ جو علمی حیثیت مشاہدہ اور بذاتِ خود تجربہ کی ہے وہ قیاس اور معلومات کی ہرگز نہیں۔ نیز یہ بھی ممکن ہے کہ ایک تجربہ یا مشاہدہ کسی دوسری صورت ِ حال سے منفرد ہو۔

          ۵۔       خشک دلدل ۔۔ دلدل کی ایک نایاب قسم ہے لیکن عام دلدل کی نسبت زیادہ خطرناک اور مہلک تصور کی جاتی ہے۔ صحراؤں میں بعض اوقات کسی خاص مقام پر ریت کے ذرّات کے درمیان موجود خلا عام ریت سے زیادہ ہوتا ہے۔ وجہ یہ بیان کی گئی ہے کہ ہواؤں کے جھکڑ اور آندھیوں سے مخصوص صورت ِ حال پیدا ہوتی ہے جس کے تحت ریت کے ذرّات بہت کم زور ساخت تشکیل کرتے ہیں جو محض اپنا وزن ہی برداشت کر سکتی ہے۔ لہذا جب کوئی وزنی جسم ریت کی خشک دلدل میں گرتا ہے تو چند لمحوں میں ریت کے اندر دھنس کر غائب ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی دلدل کی مثال غلہ کے ایک بہت بڑے ڈھیر سے دی جا سکتی ہے۔ وزنی اجسام غلہ میں دھنس جاتے ہیں اگر غلہ کے دانے سائز میں بہت چھوٹے ہوں تو دھنسنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔

          دنیا کا ایک خطرناک دلدلی علاقہ مصر کا Qattara Depression ہے جس کو گاڑی یا ٹینک سے عبور کرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ یہ علاقہ تقریباً 19 ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے اور اس میں جا بجا خشک ریتیلی دلدلیں ہیں جو سطح سے نظر نہیں آتیں اور گزرنے والے آدمی اور گاڑی کو اپنے اندر کھینچ لیتی ہیں۔ یہ افریقی ریگستان صحارا کا حصہ ہے اور سطح سمندر سے 133 میٹر ( 436 فٹ) نشیب میں ہے۔ اس علاقہ میں بارش کا تناسب نہ ہونے کے برابر ہے۔

          دلد اور کشش ثقل :

          دلدل کے تمام اوصاف کو جمع کیا جائے اور کسی ایک وصف میں انہیں بیان کرنے کی کوشش کی جائے تو نتیجہ کشش یا جذب کی صلاحیت ہے۔ عام زمین جو سخت اور ٹھوس ہے اپنے اندر کشش ثقل کی اتنی مقدار رکھتی ہے کہ ہم اس سے متصل رہیں ، اس کے اندر جذب نہ ہوں۔ جب کہ دلدل ایسی زمین ہے جو کشش ثقل کی مقدار عام زمین سے زیادہ رکھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجسام اس میں جذب ہونے لگتے ہیں۔

          کشش ثقل کیا ہے؟ سائنس کی رو سے فطرت کی بنیادی قوتوں میں سے ایک وقوت ہے۔ لیکن اس کی اصل کیا ہے؟ یہ سوال سائنس کی دنیا میں ابھی تک لاینحل ہے کیوں کہ کشش ثقل پر قابو پانا ابھی تک ممکن نہیں ہو سکا۔

          راکٹ کی مدد سے ایسی رفتار حاصل کر لینا کہ خلا میں جانا ممکن ہو سکے، کارنامہ ضرور ہے لیکن کشش ثقل کو معطل کر دینا بے شک وقتی طور پر ہی کیوں نہ ہو بالکل الگ شے ہے۔ البتہ محقق تجربات اور جدو جہد میں مصروف ہیں کہ کشش ثقل کی اصل سے واقفیت حاصل ہو۔ نیوٹن کی کشش ثقل کی تعریف طبیعیاتی قوانین اور طرز عوامل کو سمجھنے میں معاون ہے۔ لیکن یہ تعریف دراصل کشش ثقل کے تاثر کا بیان ہے نہ کہ خود کشش ثقل کا۔

          کتابوں میں لکھا ہے کہ نیوٹن اپنے باغ میں بیٹھا تھا کہ درخت سے سیب گرا۔ نیوٹن نے سوچا کہ کس طاقت نے سیب کو اپنی طرف کھینچا۔ جواب میں اس نے کشش ثقل کا تصور پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ ثقل کا کیسا اصول تھا جو محض ایک سیب کے گرنے سے بیان ہوا اور اس پر یقین کر لیا گیا۔۔۔ ثقل کا قانون باقی سیبوں پر لاگو کیوں نہیں ہوا۔۔۔ صرف ایک سیب ہی درخت سے کیوں گرا، باقی کیوں نہیں گرے۔۔۔؟

          × وضاحت : گندم کے دانے چھوٹے ہوتے ہیں۔ گندم کے ڈھیر پر بھاری بھر کم شے رکھ دی جائے تو وہ تیزی سے اندر داخل ہوتی ہے کیوں گندم کے دانے اس کا وزن برداشت نہیں کر سکتے لہذا وزن پڑنے پر جگہ چھوڑتے جاتے ہیں جس سے خلا واضح ہوتا ہے اور وزنی شے اندر دھنس جاتی ہے۔

          محترم عظیمی صاحب رقم طراز ہیں:

          ” آئزک نیوٹن کا زمانہ آیا۔ اس نے کہا کشش ثقل اور میکانیکت فطرت کا اسلوب ہے۔ نیچر (Nature، فطرت) میں گرایوں کے ذریعے عمل ہو رہا ہے۔ صدی گزرنے لگی تو اہل فن نے کہنا شروع کر دیا کہ فطرت کے تمام مظاہر کمانیوں اور گراریوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔ نیوٹن کے بعد دوسری صدی آئی تو اس کے وضع کردہ جذب و کشش اور مقنا طیسیت کے قوانین بھی بحث طلب بن گئے۔“

          قرآن کریم کا ئناتی فارمولوں کی دستاویز ہے۔ یہ کتاب اسفل سافلین میں پڑے آدمی کے لیے ذریعہ نجات ہے کہ وہ مادہ کے زندان سے نکل کر اپنے اصل مقام یعنی ” احسن تقویم“ پر فائز ہو سکے۔

          الشیخ عظیمی فرماتے ہیں:

          ” قرآن کریم میں جہاں انسان کی تخلیق کا تذکرہ ہوا ہے وہاں یہ بات وضاحت سے بیان کی گئی ہے کہ انسان کا خمیر مٹی سے گوندھا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مٹی کو بجنی اور کھنکھناتی فرمایا یعنی خلا مٹی کے ہر ذرّہ کی فطرت (nature) ہے۔“

          دلدل زمین ہے پانی سے انتہائی حد تک سیراب ہے ۔ زمین مٹی ہے اور مٹی خلا ہے۔ پانی کیا ہے؟

          عام فہم زبان مین H2O کہہ لیں لیکن کیا ہم اس کی الہامی تفہیم سے واقف ہیں؟ ہمیں جاننا ہے کہ قرآن نے جس شے کو ” ماء“ کہا وہ کیا ہے۔؟

          ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

          ” جو اطلاعات خلا ( ذرّہ) میں داخل ہوتی ہیں تصورات کہلاتی ہیں۔ ان تصورات کو اللہ تعالیٰ نے ماء (پانی ) کا نام دیا ہے ۔ دراصل پانی تصورات کا خول ہے ، یا وہ ایسے جوہروں کا مجموعہ ہے جس میں ہر تسور کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہ ہے پانی کی ماہیت۔“

          قرآن کریم کے مطابق ہر شے دراصل معین مقداروں سے تخلیق کی گئی ہے۔ مٹی خلا ہے۔ خلا جن مقداروں سے تخلیق پاتا ہے ان ہی میں سے ایک مقدار کشش ثقل ہے۔ خلا میں کشش ثقل نہ ہو تو مادی وجود باقی نہ رہے۔ کیوں کہ خلا کا انجذاب ہی مٹی کے وجود کو صورت بخشتا ہے۔ پانی چوں کہ تصورات کے خول کا مجموعہ ہے اور ہر خول اپنی اصل میں ایک خلا ہے چناں چہ مٹی (خلا) میں تصورات کے بے شمار خول جذب ہوئے اور نتیجتا ً خلا کی ایک بنیادی صفت یعنی کشش ثقل میں اضافہ ہوا۔

          دلدل کے اجزا کی جو اصل قرآن کریم نے بیان کی ہے اور روحانی ماہرین نے اللہ کے خصوصی فضل سے اس کی جو تشریحات کی ہیں وہ ہمیں ایسی ٹیکنالوجی کا سراغ دیتی ہیں جس سے ہم کشش ثقل کو تسخیر کر سکتے ہیں۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم