Topics

مفروضہ

قرآن کریم کو ترتیب سے پڑھا جائے تو ابتدا سورۃ فاتحہ کی آیت ” الحمد للہ رب العالمین“ سے ہوتی ہے۔ سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو عالمین کا ر ب ہے۔ رب سے مراد وہ ہستی ہے جو مخلوق کو پیدا کرتی ہے ، زندگی کو قیام بخشنے کے لئے وسائل تخلیق کرتی ہے اور اپنے کرم سے مخلوقات کو وسائل عطا کرتی ہے۔

قرآن کریم میں عالمین کا لفظ 77 بار استعمال ہوا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ مخلوقات کا وجود فقط ہماری زمین تک محدود نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ

¬  کیا دوسرے عالمین میں مخلوقات خصوصاً نوع انسان موجود ہے__؟ اگر ایسا ہے تو ان میں عناصر اور مرکبات کا تناسب کیا ہے__؟

¬  اسی طرح وہاں دوسری طبعی اور کیمیائی مقداریں ہماری زمین سے کتنی مختلف یا مماثلت رکھتی ہے__؟

موجودہ دور میں یہ موضوع زیر ِ بحث ضرور ہے لیکن اس حوالہ سے کوئی پیش رفت یا دریافت ناپید ہے۔

ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسرے نظام ہائے شمسی میں سیاروں کی دریافت کے دعوے کیے گئے ہیں۔ا ن سیاروں کو Exoplanets کہا گیا ہے۔ ایسے سیارے جو ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسرے نظاموں سے متعلق ہیں۔ ان میں صداقت ہے یا نہیں ، یہ ایک الگ بات ہے___ اہم یہ ہے کہ محققین غور وفکر تو کر رہے ہیں۔ کوشش تو کر رہے ہیں کہ دوسرے سیاروں اور ان میں مخلوقات کی موجودگی کے بارے میں معلومات حاصل ہوں۔

قارئین ! مضمون میں مادی سائنس کی تحقیقات و مفروضات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر روحانی علوم کی روشنی میں عالمین کی حقیقت سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

محققین کے لئے ہمارے نظام شمسی کے علاوہ دوسرے سیاروں کا وجود تسلیم کرنا قابل قبول نہ تھا۔ وجہ مادی سائنس کا اصول ہے کہ جب تک مادی حواس سے کسی شے کی موجودگی کا ادراک نہ ہو ، وہ لاموجود ہے۔ تحقیق و تلاش کے لئے ظاہری حواس کو مرکز بنایا جائے تو لامحدودیت کا ادراک نہیں ہو سکتا۔

یہاں ہر چیز ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور تغیر پذیر ہے۔ مادی وجود چاہے وہ آدمی کا ہو ، درخت کا ہو ، حیوانات ۔ نباتات یا جمادات کا ہو، جب تک تغیر سے نہیں گزرتا۔ نشو نما نہیں ہوتی ۔ اسپرم بچہ کی صورت اختیار کرنے کے لئے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے اور لاتعداد مرتبہ تغیر سے گزرتا ہے۔ آدمی ساری عمر جتنی مرتبہ ردو بدل سے گزرتا ہے ، اس کا شمار ممکن نہیں۔

ردو بدل کی صورت یہ ہے کہ جب پہلے دن کا بچہ ایک ، دو ، تین ، چار اور پانچ سال کا ہوتا ہے تو اس کی شکل و صورت مکمل طور پر تبدیل ہو جاتی ہے۔ پانچ سال کے بچہ کا پہلے دن سے موازنہ کیا جائے تو شکل و صورت میں مماثلت نظر نہیں آتی۔ تغیر کی وجہ سے ایک دن کے بچہ پر کیا جانے والا تجزیہ دوسرے دن پر لاگو نہیں ہو سکتا کیونکہ اس دوران وہ کئی بار تغیر کے مراحل سے گزر چکا ہے۔ یہ مادی وجود کی تعریف ہے۔ مادی وجود پر کی گئی ہر تحقیق کے نتائج میں تغیر ہے جب کہ حقیقت میں تغیر نہیں ہے۔

سائنس نے نظام شمسی سے باہر جس پہلے سیارہ کے وجود کی تصدیق کی وہ 6 اکتوبر 1995ء میں دریافت ہوا۔ یونی ورسٹی آف جینوا سے تعلق رکھنے والے دو سوئس ماہرین فلکیات ۔ مشل مایور (Mayor Michel) اور ڈی ڈائر کوائیلوز (Queloz Dedier) نے ایک ستارہ Pegasi 51 کے گرد محو گردش کسی سیارہ کی دریافت کا دعویٰ کیا۔ تصدیق دیگر ماہرین فلکیات نے بھی کی۔

ناسا نے نظام شمسی سے باہر سیاروں کی تلاش کے لئے خصوصی طور پر خلائی دور بین کیپلر(kepler) تیار کی اور 7 مارچ 2009 کو خلائی مشن پر بھیجا۔ ناسا کے مطابق کیپلر نے جنوری 2015 ء تک 2300 مختلف اقسام کے ایسے سیارے دریافت کئے ہیں جن کی سائنسی طریقہ کار سے تصدیق کی گئی ہے۔ ان میں ٹھوس سطح کے چٹانی سیارے اور گیسی سیارے شامل ہیں۔ 3601 سیارے ایسے ہیں جن کی جانچ پڑتال باقی ہے۔ بہرحال یہ سب جمع تفریق یک طرفہ طور پر پیش کی جاتی ہیں اور پھر __ آرٹسٹوں اور مصوروں کی ٹیم ان دعووں کو تصویری فن پاروں میں تبدیل کرتی ہے جنہیں تحقیقی اداروں کی ویب سائٹس پر شائع کیا جاتا ہے۔ درحقیقت ان سیاروں کی حقیقت و ماہیت سوالیہ نشان ہے۔

حال ہی میں یورپ کے خلائی ادارہ ESO ( یورپین سدرن آبزرویٹری) جس کی رصد گاہیں جنوبی امریکہ کے ملک چلی میں قائم ہیں ، ہمارے نظام شمسی سے قریب ترین نظام شمسی الفا سینتوری (Alpha Centauri) میں ایک سیارہ کی دریافت کا دعویٰ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ زمین سے ملتا جلتا ہے اور اپنے ستارہ Proxima Centrauri سے اس کا فاصلہ اس حد تک ہے کہ وہاں ہماری زمین جیسا درجہ حرارت ہو سکتا ہے ۔ اسے Proxima b کا نام دیا گیا۔ اگرچہ اس دعویٰ کی خوب تشہیر ہوئی لیکن بیش تر معلومات مفروضات پر مبنی ہیں۔

قابل توجہ ہے کہ محققین نے ہماری شمسی سے باہر کسی دوسرے نظام شمسی سے متعلق تصویر حاصل نہیں کی۔ بیرونی سیارہ کی موجودگی کا پتہ چلانے کا طریقہ یہ ہے کہ جب کوئی سیارہ اپنے سورج (ستارہ) کے سامنے سے گزرتا ہے تو حجم کے اعتبار سے ستارہ کی روشنی میں کمی بیشی کو حساس آلات سے ناپا جاتا ہے اور مفروضات قائم کئے جاتے ہیں۔

 مثال : بجلی کا بلب روشن ہے۔ آس پاس کیڑے پتنگے اڑ رہے ہیں۔ پتنگے کی موجودگی کا پتہ اس طرح چلاتے ہیں کہ جب وہ بلب کے سامنے سے گزرتا ہے تو حجم کے اعتبار سے بلب کی روشنی کا کچھ حصہ بلاک ہو جاتا ہے۔ بلب کی روشنی کے پھیلاؤ میں معمولی کمی کو ہم آلہ کی مدد سے ناپ لیتے ہیں اور پھر قیاسات کا سہارا لیتے ہیں کہ بلب کے آس پاس کوئی جسم تقریباً اس سائز کا موجود ہے اور یہ اس کی شکل و صورت ہے۔

نظام شمسی سے باہر سیارے دریافت کرنے کے تمام تر طریقے قیاس پر مبنی ہیں۔

غور طلب ہے کہ جتنے بھی مشاہدات ہیں ان میں ابھی تک کوئی چیز آنکھ سے مشاہدہ نہیں کی گئی۔ مشاہدہ کے لیے میڈیم کو ضروری سمجھا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ عناصر جن کو کیمرے کے لینس یا چشموں کی مدد سے دیکھا جاتا ہے ، انہیں آنکھ سے کیوں نہیں دیکھ رہے __؟

یہ کہا جائے کہ نظر کی حد نہیں کہ وہ خلا میں ہبل جیسی کسی دور بین کے بغیر دیکھ سکے تو سوال یہ ہے کہ لاکھوں کروڑوں میل دور سورج ، چاند اور ستاروں کو ہم کس طرح دیکھ رہے ہیں__؟ زمین سے سورج کا فاصلہ نو کروڑ میل اور چاند کا ڈھائی لاکھ میل بتایا جاتا ہے۔ نو کروڑ میل دور دیکھنے والی نگاہ__ زمین سے اوپر تین سو میل خلا میں کیوں نہیں دیکھتی اور نوکروڑ میل دور سورج کو دیکھ لیتی ہے__؟

لاشعوری ماہرین نے نوع انسانی کو کائنات اور خالق کائنات سے روشناس کرانے کی عملی و علمی کاوشیں کی ہیں۔ انسان کو اللہ نے نیابت کے شرف سے نوازا ہے، وہ بحیثیت نائب فقط ایک سیارہ تک محدود کیسے رہ سکتا ہے جبکہ اس کا خالق اللہ تعالیٰ ساری کائنات کا مالک ہے___؟

اللہ نے انسان کو نائب بنایا۔ اللہ عالمین کا رب ہے۔ لہذا ہر عالم میں اللہ کی عنایت سے انسان کی نیابت قائم ہے۔ یہ واضح ہے کہ انسان محض ایک سیارہ تک محدود نہیں بلکہ اس کا وجود کائنات میں بے شمار زمینوں پر موجود ہے اور ہر زمین کے ماحول ،حجم، آب و ہوا ، عناصر و مرکبات اور سالمات کے تناسب میں فرق ہے لیکن بنیادی طور پر سب انسان ہیں۔

ہماری زمین کی فضا تقریباً 78% نائٹروجن ، 21% آکسیجن،0.934%آرگان ، 0.0407% کاربن ڈائی آکسائیڈ اور انتہائی قلیل مقدار میں چند دوسری گیسوں پر مشتمل ہے۔ پھیپھڑے اس طرح تخلیق ہوئے ہیں کہ وہ فضا میں مقداروں سے منسلک ہیں اور بخوبی کام انجام دیتے ہیں۔

خوراک اور جسم بھی ایک دوسرے کے لئے تخلیق کئے گئے ہیں۔ معدہ میں جو کیمیائی رطوبتیں اور مرکبات پیدا ہوتے ہیں ان کے ہضم کرنے کی صلاحیت اور اثر انگیزی کے اعتبار سے زمین پر اشیائے خور دو نوش موجود ہیں۔ ہم سلیلکان ہضم نہیں کر سکتے کیونکہ اسے ہضم کرنے کی کوئی رطوبت ہمارے معدہ میں پیدا نہیں ہوتی اور زمین سیلیکان پر مشتمل کوئی خوراک نہیں اگاتی۔

بتانا یہ ہے کہ زمین کا ماحول ، عناصر ، مرکبات ، آب و ہوا ، کیمیائی طبعی مقداریں غرض ہر شے کڑی در کڑی منسلک ہے۔ ایک کڑی کے موجود نہ ہونے سے نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔

ذہن کے دریچے کھولیں اور محدود روایتی انداز فکر کو نظر انداز کر کے کھلے دل سے تفکر کریں کہ خالق کائنات نے بے شمار زمینیں تخلیق کی ہیں اور ہر زمین کی مقداروں کا پیٹرن منفرد ہے ، اس میں مخلوقات ایک دوسرے سے اسی طرح منسلک ہیں جس طرح ہماری زمین پہ ہیں۔

روحانی سائنس وہ علم ہے جس سے ہمیں اپنا ادراک ہوتا ہے اور کائنات کی ساخت کا علم حاصل ہوتا ہے۔ وہ وضاحت قابل تسلیم ہے جس کی بنیاد مفروضات کے بجائے تحقیق بالمشاہدہ پہ ہو۔ روحانی حواس کے ذریعے ہم کائنات کے دور دراز گوشوں کا مشاہدہ اور ساخت سے واقفیت حاصل کر سکتے ہیں۔

ابدال حق حضور قلندر بابا اولیاءؒنے قرآن کریم کے حوالہ سے کائنات کی ترتیب وساخت کی جو تشریح فرمائی ہے وہ دو جمع دو برابر چار کے انداز سے جامع ہے۔

” اللہ نے اپنے ذہن میں موجود کائناتی پروگرام کو شکل و صورت کے ساتھ وجود میں لانا چاہ تو کہا ”کن“ اللہ کے ذہن میں کائناتی پروگرام ترتیب و تدوین کے ساتھ اس طرح وجود میں آگیا ۔

¨    ایک کتاب المبین

¨   ایک کتاب المبین میں تیس کروڑ لوح محفوظ

¨   ایک لوح محفوظ میں اسی ہزار حضیرے

¨   ایک حضیرے میں ایک کھرب سے زیادہ مستقل آباد نظام اور بارہ کھرب غیر مستقل نظام

¨   ایک نظام کسی ایک سورج کا دائرہ وسعت ہوتا ہے۔ ہر سورج کے گرد نو بارہ یا تیرہ سیارے گردش کرتے ہیں۔

یہ محض قیاس آرائی ہے کہ انسانوں کی آبادی صرف زمین (ہمارے نظام شمسی) میں پائی جاتی ہے۔ انسانوں اور جنات کی آبادیاں ہر حضیرہ پر موجود ہیں۔ بھوک ، پیاس ، خواب ، بیداری ، محبت ، غصہ ، جنس ، افزائش نسل وغیرہ زندگی کا ہر تقاضہ ، ہر جذبہ ، ہر طرز ہر سیارہ میں جاری و ساری ہے۔

¨   ایک حضیرہ پر ایک کھرب سے زیادہ آباد نظام واقع ہیں۔ ایک آباد نظام کو قائم رکھنے کے لئے غیر مستقل نظام اسٹور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غیر مستقل نظام سے مراد یہ ہے کہ پورے پورے نظام بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں اور اس ٹوٹ پھوٹ سے آباد ، مستقل نظام فیڈ ہوتے ہیں۔ ہر نظام میں الگ الگ سماوات ، ارض ، جبال ، حیوانات ، جمادات ، نباتات وغیرہ اسی طرح موجود ہیں جس طرح ہم اپنے نظام میں دیکھتے ہیں۔“

قرآن کے علوم__روح کے علوم ہیں۔ روح سے واقفیت کے بعد ہی یہ ممکن ہے کہ حقائق تک رسائی ہو اور آدمی اپنی حقیقت ، کائنات اور خالق کائنات کا عرفان حاصل کرے۔ روحانیت کامنبع قرآن کریم ہے۔

عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

”روحانیت سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم قرآن کریم کو سمجھتا ہو اور تزکیہ نفس کو جانتا ہو۔ روحانیت کے اوپر جتنی کتابیں لکھی گئی ہیں ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ شاگرد ایسے شخص کی شاگردی اختیار کرے جو روحانی علوم پر دسترس رکھتا ہو اور منزل رسیدہ ہو۔

عرش و کرسی ، حجاب عظمت ، حجاب کبریا ، حجاب محمود ، سدرۃ المنتہیٰ اور بیت المعمور کیا ہیں؟

بے شمار کہکشانی نظام کن فارمولوں پر قائم ہیں؟

بے شمار دنیائیں کہاں واقع ہیں؟

بے شمار سورج ہیں۔

چاند اتنے ہیں کہ ہم شمار نہیں کر سکتے۔

ہر سیارہ میں انسان اور دوسری مخلوق آباد ہے۔

مخلوق کہیں ٹرانسپیرنٹ ہے ، کہیں ٹھوس مادہ سے تخلیق ہوئی ہے ، کہیں قد کاٹھ میں بہت بڑی ہے اور کسی سیارہ پر بہت چھوٹی ہے۔

روحانیت کا مطلب ہے اللہ کے ساتھ آپ کا تعلق اس طرح قائم ہو جائے کہ آپ کی سوچ اپنی نہ رہے۔ آپ کی سوچ ، اللہ تعالیٰ کی سوچ کے تابع ہو جائے ۔“

مندرجہ بالا اقتباس کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو کہیں گے کہ __بے شمار سورج ہیں اور ان کے سیاروں کا اپنا نظام ہے۔ ہر تیرھواں نظام(system Star) آباد ہے یعنی اس میں ہماری زمین جیسا آباد کم از کم ایک سیارہ لازماً موجود ہے۔ نوع آدم کے ساتھ دوسری انواع بھی ہماری زمین کی طرز پر آباد ہیں۔ زمین پر کاربن اور ہائیڈروجن اور ان کے ذیلی مرکبات جان داروں کا بنیادی مسالا بناتے ہیں تو دوسرے سیارہ پر مخلوق کی جسمانی ہیت وہاں کے ماحول کے مطابق ہے۔

جہاں مخلوقات ٹرانسپرنٹ ہیں وہاں ان کی ساخت میں ایسے مادے شامل ہیں جن کے سالمات ( مالیکیولز) شیشہ نما ٹرانسپیرنٹ اعضا تخلیق کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے ہماری زمین پہ جن سالمات سے اجسام بنتے ہیں وہ غیر شفاف (Opaque) ہیں۔ جس طرح ہمارے لئے کسی آدمی یا درخت کا شیشہ نما ٹرانسپیرنٹ ہونا بہت عجیب ہے ، ممکن ہے کہ دوسرے سیارہ کے افراد کے لئے ہمارے اجسام کا غیر شفاف ہونا حیران کن ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی سیارہ میں جان داروں کے اجسام سیلیکان اور کلورین کے مرکبات اور ذیلیات(Derivatives) پر مشتمل ہوں۔ جیسے ہم ہائیڈروجن اور کاربن اور ان کے ذیلیات سے مرکب ہیں۔ یعنی طبعی مقداروں ( کشش ثقل درجہ حرارت ، کرہ ہوائی کا دباؤ اور بے شمار مقداروں کے مختلف توازن) میں ردو بدل سے مختلف نظام حیات ترتیب پاتے ہیں۔

کائنات میں جو کچھ موجود ہے ، سب کا علم قرآن کریم میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں روح سے واقفیت کی تعلیم دی گئی ہے ۔ جب تک بندہ روح سے واقف نہیں ہوگا، تحقیق و تلاش کا دائرہ مفروضات ہی رہیں گے۔


 


Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم