Topics

معلوم + نامعلوم - ستارے

سماوات میں اربوں کھربوں نظام ہائے شمسی ، کہکشائیں ، سیارے ، ستارے ، بلیک ہول، دُم دار ستارے ، شہاب ثاقب وغیرہ موجود ہیں۔ ہم ان کے بارے میں کیا جانتے ہیں اور کیا ہماری ان تک براہ راست رسائی ہو سکی ہے؟

زمین کے جس پرت پر ہم پیدا ہوتے ہیں، گھر بناتے ہیں، کھیتی باڑی کرتے ہیں، کارخانے لگاتے ہیں ، شہر بساتے ہیں اور مرنے کے بعد اس میں دفن ہو جاتے ہیں، وہ زمین کا بیرونی پرت قرار دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس پرت کی کتنی معلومات ہیں؟ زمین کے کل کتنے پرت ہیں اور ان میں کیا کچھ آباد ہے؟ بیش تر سوالوں کے جواب نامعلوم ہیں۔ اگر معلوم ہیں تو وہ قیاس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔

پاکستان کے ایک دور افتادہ گاؤں کا ذکر ہے جس سے قریب ترین شہر بھی دو تین سو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہاں بجلی ، گیس ، ٹیلی فون اور انٹر نیٹ کی سہولت نہیں۔ لوگ جھونپڑی نما گھروں میں رہتے ہیں، کھیتی باڑی اور گلہ بانی کرتے ہیں۔ زندگی سادہ اور پُرسکون ہے۔ کبھی کبھار دیگر شہروں میں بسنے والے سیر و سیاحت کے لیے یہاں آ نکلتے ہیں اور یہاں کی زندگی پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ گاؤں جدید دور سے کئی دہائیاں پیچھے ہے۔

رات کا وقت ہے۔۔ کسی بڑے شہر سے ایک طالب علم سیاح جس کا نام ناظر ہے ، گاؤں میں مہمان ہے۔ وہ کھلے آسمان کے نیچے چارپائی پر نیم دراز دیکھ رہا ہے کہ مصنوعی روشنی کی چکاچوند کا یہاں شائبہ نہیں۔ گرد و غبار سے پاک فضا میں چھوٹے بڑے ستاروں سے بھرے آسمان کا یہ نظارہ جدید شہروں میں ممکن نہیں۔

تاروں بھرا آسمان دیکھ کر انگشتِ بدنداں ناظر کو ایک معروف جھرمٹ نظر آتا ہے جسے مسلمان محققین نے الجبار کا نام دیا ہے۔ نظر اس کے درمیان ایک قطار میں تین ستاروں پر رکتی ہے۔ ناظر نے پڑھا تھا کہ مسلمان محققین نے اس جھرمٹ پر مفصل تحقیق کی اور اس میں موجود ستاروں اور نظاموں کی فہرست مرتب کی۔ اس کے بیش تر ستاروں اور نظاموں کے نام ابھی تک عربی میں ہیں یا عربی سے ماخوذ ہیں۔ انگریزی میں Orion کے نام سے مشہور ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں کچھ دہائیاں قبل کسان ستاروں کے جھرمٹوں سے واقف تھے ، طلوع و غروب اور موسم کے اعتبار سے ان کے مقامات ، ستاروں کے رنگ اور ان کی مدد سے موسم اور وقت کے تعین کرنے کا علم انہیں تھا،

کیا آج نوجوانوں کو ستاروں کے جھرمٹوں میں دلچسپی اور وہ علم حاصل ہے 100 سال پہلے کسان کو حاصل تھا / ہم 100 سال آگے بڑھے ہیں یا مزید پیچھے چلے گئے ہیں؟

آج کسان سمیت عام آدمی کو سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھنے کی فرصت نہیں۔۔۔ صبح بیدار ہونے سے رات سونے تک سب کا ذہن زمین کی طرف رہتا ہے پھر وہ آسمانوں اور زمین کے کناروں سے کیسے نکلیں گے؟

الجبار نامی جھرمٹ کو دیکھ کر ناظر کے حافظے میں کسی بوڑھے کسان کے پنجابی زبان کے الفاظ گونجے __ترنگڑ (ایک قطار میں تین)۔

سرسری طور پر دیکھنے سے اس جھرمٹ میں موجود ستارے سفید نقطے نظر اتے ہیں۔ کوئی کم روشن ہے تو کوئی زیادہ ۔ بغور دیکھنے سے یہ ستارے ، ناظر سے مخاطب ہوتے ہیں۔

ایک قطار میں صف آرا تین ستاروں کے اوپر بائیں جانب ایک روشن اور بڑا ستارہ ہے جس پر پانچ منٹ تک نظرجمانے سے ناظر کو اس کی جھلملاہٹ اور سرخی مائل نارنجی رنگ نظر آیا۔ مسلمان محققین نے اس ستارے کو منکب الجوازاء یا یدالجوازاء کا نام دیا۔ یہ الفاظ یورپی زبان میں Betelgeuse بن گئے۔

اس جھرمٹ میں دوسرے ستاروں نے بھی اپنے رنگ ظاہر کئے جیسے تین ستاروں کے نیچے بائیں جانب ہلکے نیلے رنگ کا ستارہ سیف الجبار یا سیف ہے۔ انگریزی میں Saiph لکھا جاتا ہے۔ اس کے عین مقابل دائیں طرف تین ستاروں کے نیچے رجل الجبار ہے۔ انگریزی میں Rigel لکھا جاتا ہے۔ یہ اس جھرمٹ میں سب سے روشن ستارہ ہے۔ بغور دیکھنے پر اس کی شوخ نیلاہٹ واضح ہوئی۔ قطار میں تین ستارے دائیں بائیں بالترتیب منطقہ ، انظام اور انطاق ہیں۔ انگریزی میں بھی تقریباً یہی نام ہیں۔ اوپر دائیں جانب المیسان ہے۔

ناظر نے دیکھا کہ یدالجوزاء کے علاوہ باقی سب میں سفیدی مائل نیلا اور شوخ نیلا رنگ نمایاں ہے۔ نیچے سیف الجبار کے بائیں جانب ایک بہت روشن ستارہ نظر آیا۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر ”الشعریٰ“ کے نام سے ہے۔ اسی سے انگریزی میں لفظ Sirius اخذ کیا گیا ہے۔ محققین کے مطابق یہ سورج کے بعد آسمان پر سب سے روشن ستارہ ہے۔

”اور بے شک وہی شعریٰ کارب ہے۔“        (النجم : ۴۹ )

سرسری نگاہ سے مذکورہ ستارے ایک ہی سطح پر جمے ہوئے نظر آئے لیکن جب ناظر نے یکسو ذہن سے دیکھا تو ان ستاروں کے ایک سطح پر ہونے کا الوژن ٹوٹ گیا۔ نظر آیا کہ یہ قریب دور اور آگے پیچھے ہیں۔

غیر جانبدار قلندر شعور راہ نمائی کرتا ہے کہ ہم ستارے کو نہیں دیکھتے۔ ستارے کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں۔ ستارہ ہماری نظر کو قبول کرتا ہے اور اسی کے مطابق ہمیں خود رسائی دیتا ہے۔ ستارہ ہماری نظر کو قبول نہ کرے تو ہم اسے نہیں دیکھ سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ستارے کو بغور دیکھنا__ستارے کو اپنا پیغام دینا ہے۔ مسلسل دیکھنے سے ستارے کے رنگ ، جگمگاہٹ اور حجم کا واضح ہونا دراصل ستارے کا ہم سے بات کرنا یا ہمارے پیغام کا جواب دینا ہے۔

ستارے باشعور مخلوق ہیں، پیغام رسانی کرتے ہیں۔ ان کو یکسو ذہن سے دیکھنے سے زمین کے شعور کا حصار ٹوٹتا ہے اور ستارے کی اصل ہم پر واضح ہوتی ہے۔ ناظر کے ذہن میں خیال آیا کہ جب یہ صلاحیت ہمارے اندر موجود ہے پھر ہم نے آلات کی محتاجی کیوں اختیار کی ہے۔۔؟

دور دراز ویرانوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر خطیر وسائل خرچ کر کے بڑی بڑی رصد گاہیں بنائی گئی ہیں اور خلا میں دور بینیں بھیجی گئی ہیں تاکہ ستاروں کی دنیا سے روشناسی ہو مگر دیکھنے کی یہ طرز میڈیم کی پابند ہے۔ دور بین اور آلات جو کچھ دکھاتے ہیں، ہم تسلیم کر لیتے ہیں۔

ہر مخلوق ساخت کے مطابق شعور رکھتی ہے۔ کسی ستارے کو دیکھنے کے لئے نظر مختلف شعور کے دسیوں آئینوں میں سے گزرتی ہے۔ ان سب کے شعور نے کتنی آمیزش کی اور حقیقت سے کتنا دور کیا ہے__؟

شہنشاہ ہفتِ اقلیم بابا تاج الدین ناگپوریؒ نے ایک عقیدت مند راجا رگھوراؤ سے فرمایا،

” میاں رگھوراؤ ! ہم سب جب سے پیدا ہوئے ہیں ، ستاروں کی مجلس کو دیکھتے رہتے ہیں۔ شاید ہی کوئی رات ایسی ہو کہ ہماری نگاہیں آسمان کی طرف نہ اٹھتی ہوں۔ بڑے مزے کی بات ہے ، کہنے میں بھی آتا ہے کہ ستارے ہمارے سامنے ہیں ، ستاروں کو ہم دیکھ رہے ہیں ، ہم آسمانی دنیا سے روشناس ہیں لیکن ہم کیا دیکھ رہے ہیں اور مادہ انجم کی کون سی دنیا سے روشناس ہیں، اس کی تشریح ہمارے بس کی بات نہیں۔ جو کچھ کہتے ہیں ، قیاس آرائی سے زیادہ نہیں ہوتا پھر بھی سمجھتے یہی ہیں کہ ہم جانتے ہیں۔ زیادہ حیرت ناک امر یہ ہے کہ جب ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ انسان کچھ نہ کچھ جانتا ہے تو یہ قطعاً نہیں سوچتے کہ اس دعوے کے اندر حقیقت ہے یا نہیں۔“

آدمی سمجھتا ہے کہ طاقتور دور بینوںاور کمپیوٹر کی مدد سے ستاروں کو دیکھنا ، آنکھ سے دیکھنے سے بہتر ہے۔ بالفاظ دیگر اس نے مشینوں کی حاکمیت قبول کر کے خود کو ان کا ماتحت کر لیا ہے۔ بجائے اس کے کہ ستارے اور ہماری نظر کے درمیان براہ ِ راست مشاہدے کی راہ ہموار ہوتی ، ہم نے ستاروں اور اپنے درمیان متعدد پردے حائل کر لیے ہیں۔ مادی ایجادات کا انکار کرنا مقصد نہیں۔ کہنا یہ ہے کہ ان پر اکتفا کر کے ہم اندر موجود لامحدود صلاحیتوں سے غافل ہوگئے ہیں جو ہمیں اصل سے واقف کرتی ہیں۔

قرآن کریم کی آیت پر غور کیجئے۔

”جس نے تہ در تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمٰن کی تخلیق میں کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو ، کہیں تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی۔“      

(سورۃ الملک : ۳۔۴)

دن کے وقت نظر گردوغبار ، مختلف گیسوں اور بخارات کی کئی سو کلو میٹر پھیلی دبیز تہوں میں سے گزر کر سورج کو دیکھتی ہے لیکن دن میں ستارے نہیں دیکھتی جب کہ وہ موجود ہوتے ہیں۔ رات کو سورج کی روشنی کا پردہ ہٹتا ہے تو ستارے نظر آتے ہیں۔ اگر بادل پردہ بن جائیں تو بھی ہم ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے ۔

یکسو ہو کر صاف فضا میں آسمان کا مشاہدہ کیا جائے تو ستارے ہم سے مخاطب ہوتے ہیں لیکن ہمارا مشاہدہ اکثر ایک حد سے آگے نہیں بڑھتا جب کہ خالق ِ کائنات اللہ تعالیٰ نے ہمارے اندر سات آسمان اور ان میں مخلوقات کو تفصیل سے دیکھنے اور سمجھنے کی صلاحیت عطا فرمائی ہے۔

ہم خود کو ستاروں اور ان کے گرد اباد دنیاؤں سے الگ خیال کرتے ہیں ___ ایسا نہیں ہے۔

ابدال ِ حق حضور قلندر بابا اولیاء﷭ فرماتے ہیں،

”عام حالات میں ہماری نظر اس طرف کبھی نہیں جاتی کہ موجودات کے تمام اجسام اور افراد میں ایک مخفی رشتہ ہے۔ اس رشتے کی تلاش سوائے اہلِ روحانیت کے اور کسی قسم کے اہلِ علم اور اہلِ فن نہیں کر سکتے حالانکہ اس ہی رشتے پر کائنات کی زندگی کا انحصار ہے۔ یہی رشتہ تمام آسمانی اجرام اور اجرام کے بسنے والے ذی روح اور غیر ذی روح افراد میں ایک دوسرے کے تعارف کا باعث ہے۔ ہماری نگاہ جب کسی ستارے پر پڑتی ہے تو ہم اپنی نگاہ کے ذریعے ستارے کے بشریٰ کو محسوس کرتے ہیں۔ ستارے کا بشریٰ کبھی ہماری نگاہ کو اپنے نظارے سے نہیں روکتا۔ وہ کبھی نہیں کہتا کہ مجھے نہ دیکھو۔ اگر کوئی مخفی رشتہ موجود نہ ہوتا تو ہر ستارہ اور ہر آسمانی نظارہ ہماری زندگی کو قبول کرنے میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ ضرور ہیدا کرتا۔ یہی مخفی رشتہ کائنات کے پورے افراد کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کئے ہوئے ہے۔“         (کتاب : لوح و قلم)

قرآن کریم نے بار بار ہمیں اندر موجود اس نگاہ کی طرف متوجہ کیا ہے جو زمین کے کناروں سے نکل کر عالمین کا مشاہدہ کرتی ہے۔ یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم زمین کی طرف متوجہ رہنا چاہتے ہیں یا وہ بروج دیکھنا چاہتے ہیں جن سے آسمان کو زینت بخشی گئی ہے۔

” اور ہم نے آسمان میں بروج بنائے اور دیکھنے والوں کے لئے اسے زینت بخشی اور شیطان مردود سے

ان کو محفوظ کر دیا۔“       (الحجر : ۱۶۔۱۷)

قارئین خواتین و حضرات ! قرآن کریم کی اس آیت کو ایک سے زائد مرتبہ ذہنی یکسوئی کے ساتھ پڑھئے ۔ مفہوم واضح ہوگا، ان شاء اللہ

( محترم عظیمی صاحب ستاروں سے متعلق اپنا ایک تجربہ بیان فرماتے ہیں، میرے ساتھ یہ اتفاق ہوا کہ میں نے اور حضرت بدر صاحب نے ایک گاؤں میں رات گزاری ۔ حضرت بدر صاحب نے مجھے اٹھایا اور کہا، آسمان دیکھو ! آسمان پر جگمگ ستاروں کی روشنی میرے اندازے کے مطابق کئی ٹیوب لائٹوں سے زیادہ تھی۔ ستاروں کا اتنا زیادہ اثر ہوا کہ روشنی لہروں کی صورت دماغ میں اتر رہی تھی۔ قارئین ! جب بھی موقع ملے ، کسی ایسے گاؤں میں وقت گزاریں جہاں مصنوعی دنیا کے اثرات نہ ہوں۔“۔)

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم