Topics
قلندر غوث علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ پرانے زمانے
میں ایک پیشہ ور بہروپیا نئے نئے بہروپ اختیار کر کے بادشاہ کے پاس جاتا تاکہ
بادشاہ اسے پہچان نہ سکے اور وہ بادشاہ سے اپنے ہنر کا انعام وصول کرے لیکن بادشاہ
ہر بار پہچان لیتا۔ ناچار جوگی کے پاس گیا، ریاضت سے ” حبس دَم“ دیکھا اور جوگی بن
کر واپس آیا۔ ایک گنبد تعمیر کیا اور چند چیلے جمع کر کے وہاں بیٹھ گیا۔ چند روز
بعد جوگیوں کے طریقے کے مطابق حبسِ دَم کر کے مراقب ہوا اور گنبد کا دروازہ تیغہ
کروادیا اس خیال سے کہ بادشاہ شہرت سن کر آئے گا، بند دروازہ کھلوائے گا ، چیلے
میرا سانس بحال کر دیں گے، میں اٹھ بیٹھوں گا اور بادشاہ سے انعام وصول کروں گا
لیکن ۔ حالات ایسے بدلے کہ نہ وہ شہر رہا نہ وہ سلطنت۔ دو صدیاں گزر گئیں۔پھر وہاں
شہر آباد ہوا ۔ لوگوں نے گنبد مسمار کیا تو دیکھا ایک آدمی صحیح سالم مراقبہ کی
حالت میں بیٹھا ہے۔ اتنے میں ایک جوگی وہاں پر آیا تو معاملہ سمجھ میں آگیا۔ اس کا
مختصر علاج کیا تو بہروپیے کے ہوش وحواس بحال ہوئے۔ فوراً اٹھ کر بولا، لاؤ میرا
جوڑا اور گھوڑا۔ لوگ حیران ہوئے۔ معاملہ کھلا کہ فلاں بادشاہ کے زمانے میں یہ
بہروپیا تھا۔اس نے بادشاہ سے کپڑوں کا جوڑا اور ایک گھوڑا بطور انعام وصول کرنے کے
لیے یہ حالت اختیار کی۔ (بحوالہ :
تذکرہ غوثیہ)
حبس دَم طویل وقفے تک سانس روکنے کا فن ہے۔ جوگیوں یا
سنیاسیوں نے اس کی دو اقسام وضع کی ہیں۔ جڑ تاڑی اور چیتن تاڑی۔
۱۔ چیتن تاڑی میں سانس روکنے کے عمل کے ساتھ حواس بحال رہتے
ہیں اور آدمی اپنے اختیار سے اس کیفیت کو ختم کرتا
ہے۔
۲۔جڑ تاڑی میں سانس روکنے کے عمل کے ساتھ ظاہری حواس معطل ہو
جاتے ہیں اور تھوڑا یا زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد اس فن میں ماہر کوئی اور فرد اسے
ہوش میں لاتا ہے۔
قلندر غوث علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے بچپن میں جڑ تاڑی کپالی
کا فن ایک سنیاسی سے سیکھا اور تجربے کے لیے بھائی کو کپالی چڑھائی۔ بھائی بے ہوش
ہو کر مردے کی طرح گر گیا۔ وہ ہوش میں لانے کا طریقہ نہیں جانتے تھے۔ گھر والے
پریشان ہوئے اور سمجھے کہ لڑکا فوت ہو گیا ہے۔
سنیاسی استاد کو پتہ چلا تو فوراً وہاں پہنچ کر بھائی کے سر
پر پانی کی مشکیں چھڑوائیں۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ پوچھنے پر بتایا، میں تو زندہ
تھا۔ تم سب کو پکار پکار کر کہتا تھا مہ میں زندہ ہوں، گھبراؤ مت ، کنوئیں میں پڑا
ہوں، مجھے نکالو لیکن تم سنتے نہ تھے اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہیں تھی۔
∞
یہ واقعات انوکھے اور حیران کن لگتے ہیں لیکن قرآن کریم میں
ایسے واقعات موجود ہیں جن سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ایسا ہونا ممکن ہے اور اس کی
باقاعدہ سائنس ہے۔
یا اُس شخص کی مانند جس کا گزر ایک بستی پر ہوا جو اپنی چھتوں کے
بَل اوندھی پڑی ہوئی تھی۔ وہ کہنے لگا کہ کیسے اللہ اسے موت کے بعد دوبارہ زندہ کرے گا؟ پس اللہ نے اُس پر موت وارد کر دی
سو سال کے لیے پھر زندہ اٹھایا۔ پوچھا ، کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ، ایک دن یا ایک دن کا کچھ حصہ۔ فرمایا
، بلکہ تو سو سال تک رہا۔ پس اپنے کھانے اور مشروب کو دیکھ کہ خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم
تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بناتے ہیں۔ تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں۔ پھر ان پر گوشت چڑھاتے
ہیں۔ جب یہ سب اُس پر واضح ہو چکا تو کہنے لگا کہ میں اب خوب جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر شے پر قادر ہے۔ (البقرۃ : ۲۵۹)
سورہ کہف میں اصحاب کہف کا واقعہ قابل تفکر ہے اور تفصیل سے
بیان ہوا ہے۔
اور وہ لوگ اپنے غار میں تین سو سال تک رہے اور مزید نو سال زیادہ
گزارے۔ ( الکہف : ۲۵)
قرآن کریم سے واضح ہوتا ہے کہ یہ مثالیں ہر دور میں موجود رہی
ہیں اور اس کے پسِ پردہ ایک مکمل نظام ہے جس نے موت و حیات کے توازن کو برقرار
رکھا۔
دورِ حاضر میں بھی طویل نیند کے بعد بیداری کے واقعات منظرِ
عام پر آ چکے ہیں۔
۱۔ امریکی خاتون ایڈور ڈا اوبارا کو بچپن سے ذیابیطس کا مرض
لاحق تھا۔ 16 سال کی عمر میں نمونیا ہوا اور حالت بگڑتی چلی گئی۔ 3 جنوری 1970 میں
ء صبح تین بجے وہ بیدار ہوئی تو جسم پر کپکپی طاری تھی اور تکلیف میں تھی۔ تھوڑی
دیر بعد وہ کوما میں چلی گئی۔ کوما میں جانے سے پہلے ماں کو مخاطب کیا اور کہا کہ
مجھے اس حالت میں نہ چھوڑ دینا۔ والدین دیکھ بھال کرتے رہے۔ ٹیوب سے مائع غذا
فراہم کرتے اور ہر دو گھنٹے بعد کروٹ بدل دیتے۔ چھ سال بعد 1976ء میں والد کا
انتقال ہو گیا۔ 32 سال بعد 2008 ء میں والدہ کا انتقال ہوا۔ والدین کے بعد بہن نے
دیکھ بھال کی۔ 21 نومبر 2012ء کو 59 سال کی عمر میں ایڈور ڈا کوما کی حالت میں اگلی
دنیا میں منتقل ہوگئی۔ وہ 42 سال کوما میں رہی۔
۲۔ ٹیری والس امریکی شہری تھا۔ 20 سال کی عمر میں گاڑی کے
حادثے میں کوما میں چلا گیا۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ کوما سے واپس نہیں آئے گا۔
خاندان نے دیکھ بھال کی۔ 19 سال بعد 2003ء میں وہ بیدار ہو گیا۔ بیدار ہوتے ہی سمجھا
کہ ایک رات کی نیند سے جاگا ہےاور اس کی عمر 20 سال ہے یعنی سال 1984ء ہے۔ ٹیری
والس نے کوما سے جاگنے کے بعد عام لوگوں کی طرح زندگی گزاری اور 2022ء تک زندہ
رہا۔ موت کے وقت عمر 57 سال تھی۔
تمام واقعات میں اختیاری یا غیر اختیاری طور پر طاری ہونے
والی نیند ک حالت مشترک ہے۔کوما کی حالت میں اگرچہ مائع غذا دی جاتی ہے لیکن اصحاب
ِ کہف ، حضرت عزیر ؑ اور ۔۔۔حبسِ دَم کے ماہرین ِ فن کی طویل عرصے کی نیند میں ہر
قسم کی ٹھوس اور مائع غذا معطل تھی۔ اب ایک شے رہ جاتی ہے اور وہ ہے سانس کی آمد و
رفت یعنی روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے میں بظاہر گیسوں کا عمل دخل باقی رہا۔
سانس کے علاوہ جسم کا بیرونی حصہ ، ماحول کی مختلف گیسوں جن کے مجموعے کو ہم
عموماً ” ہوا“ کا نام دیتے ہیں ، ان کے اندر موجود رہے۔
گیسیں زمین کی سطح سے لے کر اوپر خلا کی جانب تقریباً سو کلو
میٹر کی بلندی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ محققین کے مطابق سطحِ زمین سے لے کر 12 کلو میٹر
(7.46) میل کی بلندی تک گیسوں کی باہمی آمیزش یا ہوا کا تناسب اور مقدار
ایسی ہے کہ اس میں پودوں اور جانوروں کے سانس لینے اور پودوں کا سورج کی روشنی اور
گیسوں کی مدد سے خوراک بنانے کا عمل صحیح طور پر جاری رہ سکتا ہے۔ 12 کلو میٹر سے
اوپر ہوا کی مقدار بتدریج کم ہو جاتی ہے اور زیادہ بلندی تک نہ ہونے ے برابر باقی
رہ جاتی ہے۔ اس طرح کرہ ہوائی کا دبیز ترین حصہ وہ ہے جو سطح سے چپکا ہوا ہے اور
12 کلو میٹر تک بلند ہے۔
زمین اور سمندر کی سطح پر موجود ہر مخلوق ان گیسوں کے نظر نہ
آنے والے سیال کے اندر زندگی گزارتی ہے۔ سوال ہے کہ کیا گیسوں کے مخصوص مجموعے ،
مقداروں ، کثافت ، دباؤ اور درجہ حرارت سے زمین پر موجود کوئی جانور ، آدمی ،
نباتات (غلہ) اور غذا طویل مدت تک گلنے سڑنے ست محفوظ رہ سکتے ہیں؟
طویل نیند کی حالت میں اجسام کے محفوظ رہنے کی دو بڑی سائنسی
توجیہات ہیں۔
۱۔ گیسیں زیادہ دباؤ سے کم دباؤ والے علاقوں یا حصوں میں
پھیلتی ہیں تو ٹھنڈک پیدا کرتی ہیں۔ زمین پر موجود ہر گیس اس خصوصیت کا مظاہرہ
کرتی ہے۔ریفریجر یٹر ، فریج یا ائیر کنڈیشنز میں یہی اصول کام کرتا ہے۔ ان میں
کاربن کے نامیاتی مرکبات پر مبنی مخصوص گیسیں استعمال کی جاتی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ
انہیں دباؤ کے تحت مائع (Liquid) حالت میں لانے کے لیے کم سے کم توانائی درکار ہوتی
ہے اور یہ آگ نہیں پکڑتیں۔ خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ گیسیں اوپر کے ہوائی کرے میں
اوزون کی تہ کو نقصان نہ پہنچائیں۔ فی زمانہ ان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی
گیس ڈائی فلورو میتھین (CH2F2) ہے۔ اس قسم کی تمام گیسیں استعمال کرنے کی وجہ دراصل تکنیکی آسانی
اور سہولت ہے ورنہ ہر گیس زیادہ دباؤ سے کم دباؤ کی حالت میں آنے کے لیے ماحول کی
حرارت کو جذب کرنے کے اوصاف رکھتی ہے۔
فریج یا فریزر کے پیچھے ایک بند ڈبے جیسا حصہ کمپریسر کہلاتا
ہے۔ اس میں گیس انتہائی دباؤ کے تحت مائع حالت میں موجود ہوتی ہے اور بلند درجہ
حرارت رکھتی ہے۔ یہ کمپرسر کے ذریعے باریک نالیوں میں سفر کرتی ہے۔ حرارت کی قابلِ
ذکر مقدار نالیوں سے فضا میں خارج ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد یہ مائع گیس غذا والے حصے
کی دیواروں میں نالیوں کے نیٹ ورک کے اندر زیادہ دباؤ کے نتیجے میں مائع سے گیسی
حالت اختیار کر کے پھیلتی ہے۔ پھیلاؤ کے دوران اس کے سالمات ( مالیکیولز) کے
درمیان خلا پیدا ہوتا ہے جو فریج یا فریزر میں موجود حرارت کو اپنے اندر جذب کر
لیتا ہے۔ یوں فریج میں درجہ حرارت بہت کم ہو جاتا ہے۔ ٹھنڈک پیدا ہوتی
ہے۔ گیس دوبارہ کمپریسر
میں دباؤ کے تحت مائع میں تبدیل ہوتی ہے اور یہ چکر خود کو مسلسل دہراتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ عام ماحول میں اگر گیسیں اس طرح سکڑنے اور
اچانک پھیلنے کے عمل سے ٹھنڈک پیدا نہ کریں تو کیا کسی اور طریقے سے اجسام کو گلنے
سڑنے سے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟ ایسا طریقہ موجود ہے اور وسیع پیمانے پر استعمال ہوتا
ہے ۔وہ طریقہ کیا ہے۔۔؟