Topics
مشہور محقق اور موجد نکولا ٹیسلا کی
سائنس کی دنیا میں خدمات اور ایجادات انقلابی ہیں۔ ان میں ایک برقی ترسیل کا نظام
ہے جو آج پوری دنیا میں نافذ العمل ہے۔ پانی ، کوئلہ ، ہوا ، جوہری اور شمسی
توانائی سمیت بجلی کی پیدا وار کے متعدد ذرائع ہیں۔ کسی بھی طریقے سے بننے والی
بجلی پیدائش کے مقام سے ترسیل کے لیے سینکڑوں میل لمبے تاروں ، گرڈ اسٹیشن اور
ٹرانسفارمر وغیرہ کے پیچیدہ نظام سے گزر کر جب گھروں اور کارخانوں میں اپنے آخری
مقام پر پہنچتی ہے تو برقی الات کو متحرک یا روشن کرتی ہے۔
نکولاٹیسلا
نے متغیر کرنٹ (AC)
پر مبنی بجلی کا موجودہ نظام ایجاد کیا۔ ریڈیو کا موجدمارکونی کو سمجھا جاتا ہے
لیکن مارکونی نے جس ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ریڈیو بنایا ، وہ ٹیسلانے ایجاد کی تھی۔
آج ثابت ہو چکا ہے کہ 1893ء میں ٹیسلا نے لاسلکی مواصلات پر کامیاب پر تجربات کئے۔
نیون
گیس کے بلب اور ٹیوب جن سے آج رنگین اور روشن الفاظ بنائے جاتے ہیں ، ٹیسلا کی
ایجاد ہیں۔ علاوہ ازیں ریموٹ کنٹرول ، بلیڈ ، بجلی بنانے کا ٹربائن ، ایکس رے
ٹیکنالوجی اور لہروں کو بڑا کر کے پھیلانے کا ٹرانسمیٹرÙ۔ سب کی ایجاد کا سہرا ٹیسلا کے سر ہے۔ اس نے دریافت کیا کہ بجلی
کو تاروں کے بغیر ریڈیو ، ٹی وی کی طرح برقی مقناطسی لہروں کی شکل میں دنیا میں
کہیں بھی بھیجا اور استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک امریکی صنعت کار کو آمادہ
کر کے خطیر (Ù اس کی بنیاد پر ریڈیو ، ٹی وی ، سیٹلائٹ اور موبائل فون کی لہریں
نشر اور موصول ہوتی ہیں۔) رقم سے منفرد نوعیت کا لوہے کا مینار نما ڈھانچہ تعمیر
کیا جو 187 فٹ بلند تھا۔ صنعت کار جے پی مورگن نے ٹیسلا کے ایجاد کردہ AC کرنٹ کے نظام اور اس کی بنیادی مشینری کی صنعت پر بڑی رقم خرچ کی۔اسے
خیال آیا کہ بجلی کی ترسیل تاروں کے بغیر شروع کر دی گئی تو اتنے بڑے نظام اور اس
پر خرچ کئے گئے وسائل کا کیا بنے گا۔ اس نے ٹیسلا کے منصوبے پر مزید رقم خرچ
کرنے سے انکار کر دیا اور مخالف ہو گیا حتی کہ مینار کو منہدم کروا دیا لیکن تب تک
یہ ٹیکنالوجی عوام میں متعارف ہو چکی تھی۔
کہا
جاتا ہے کہ بعد کے محقق اس ٹیکنالوجی کو ازسرنو فعال کر کے بجلی کے نظام کو لہروں
پر منتقل کر سکتے تھے لیکن پہلے سے موجود ہزاروں میل پھیلے بجلی کے تاروں ، کھمبوں
اور مشینری کی دیو قامت صنعت پر قائم معیشت کو باقی رکھنا بھی ضروری تھا۔ الغرض ،
ٹیسلا خداداد ذہانت سے مالا مال تھا۔ لوگ اسے پُراسرار سمجھتے تھے۔ اس پر ناول
لکھے گئے اور فلمیں بنائی گئیں۔
نکولا
ٹیسلا نے ڈائری ، تحریروں اور محققین سے گفتگو میں اپنی ایجادات اور مسائل حل کرنے
کی غیر معمولی صلاحیت سے متعلق انکشافات کئے جن کا لباب ذیل میں ہے۔
ٹیسلا
نے محسوس کیا کہ جو ایجاد یا تحقیق وہ کرنا چاہتا ہے ، اس کے بارے میں پہلے سے
جانتا ہے۔ جب کوئی ایجاد ہوتی تو احساس ہوتا کہ یہ تو پہلے سے اس کے پاس ہے لیکن
حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ چند لمحوں کے لیے کھلی آنکھوں سے مناظر دکھائی دیتے یا
جھما کے محسوس ہوتے۔ واقعات سے معمولات متاثر ہونےلگے۔ اس نے کہا ،
”یقین
ہے کہ اہم اور خفیہ نتائج پر جلد پہنچنے ، مسائل کو بہتر حل کرنے ، تحقیق کے مراحل
سے گزرنے اور ایجادات کرنے تک یہ احساس کہ میں پہلے سے جانتا ہوں ، علاوہ ازیں
روشن جھماکے ، ان سے جڑے خیالات اور بیداری میں مناظر نظر آنا۔ اگر غیبی مدد حاصل
نہ ہوتی تو اتنی کامیابی ممکن نہ تھی۔“
ماہرینِ
نفسیات نے ٹیسلا کی شخصیت پر تحقیق کی اور اس کے محسوسات کی تائید کی۔ انہوں نے
کہا کہ وہ جس چیز پر تحقیق کرتا یا جو ایجاد کرنا چاہتا تھا ، اس کی تصور ذہن میں
پہلے سے موجود ہوتی تھی جسے دیکھ کر ایجاد کرنا آسان تھا۔
تقریباً
ہر فرد کو زندگی میں ان احساسات سےواسطہ پڑتا ہے کہ میں نے فلاں جگہ پہلے دیکھی
ہوئی ہے ، یہ آدمی پہلے کہیں دیکھا ہے ، لگتا ہے کہ میں پہلے یہاں آیا ہوں یا فلاں
تجربے سے گزر چکا ہوں جب کہ حافظے کا شعوری ریکارڈ ان دعوں کی نفی کرتا ہے۔
ایسے مستند واقعات ہیں کہ کسیسائنس
دان کو اونگھتے ہوئے ، خواب یا گہرے تفکر میں ، دور سے سنائی دینے والی آواز یا
روشنی کے جھماکے سے مسئلے کا حل معلوم ہوا۔ بہت سے شہرہ آفاق نظمیں ، فن پارے یا
ایجادات ان محسوسات کے ذریعے منظرِ عام پر آئیں۔
یہ سب کیا ہے اور ایسا کیوں ہوتا
ہے؟
یہ احساس شروع سے انسان کے ساتھ
موجود ہے لیکن سائنسی بنیادوں پر جوابات تک رسائی نہ ہو سکی۔ موجودہ دور کے علوم
میں اسے کتنا سمجھا گیا ہے ، مختصر پڑھئے۔
1876 میں فرانیسی فلسفی اور ماہرِ
نفسیات امیل بویرک نے احساس کے لیےDéjà vu کی اصطلاح استعمال کی جو آج
رائج ہے۔ معنی ہیں۔ پہلے سے دیکھا ہوا۔ چوں کہ محققین کی اکثریت اس کیفیت سے گزرتی
ہے ، انہوں نے سمجھنے کے لیے ہزاروں تجربات کئے لیکن درج ذیل سوالوں کے جواب حاصل
نہ ہو سکے۔
۱۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟
۲۔کیا یہ دماغ کی کوئی عارضی خرابی
ہے؟
۳۔ اگر دماغ ماضی کے کسی واقعہ کے
ظہور سے قبل معلومات حاصل کر لیتا ہے تو وہ معلومات کی کون سے سطح ہے؟
۴۔ اگر ایسی سطح موجود ہے تو ہم
دانستہ اس سے ربط کیسے قائم کر سکتے ہیں؟
محقق Déjà
vu کو یادداشت کی مشابہت کا نتیجہ سمجھتے رہے لیکن
تجربات نے نفی کی۔
اس حیرت انگیز طرز عمل کو سمجھنے
کے لیے 40 سے زیادہ مفروضات سامنے ا چکے ہیں جنہوں نے اس مظہر کو پہیلی بنا دیا
ہے۔ اس کو سمجھنے میں بڑی رکاوٹ مادی طرز فکر ہے کہ وجود کی اصل matter ہے اور دماغ نامیاتی مرکبات اور عناصر سے بنا کمپیوٹر ہے۔ اس کے
برعکس الہامی تعلیمات ہماری توجہ اس ہستی کی طرف مبذول کرتی ہیں جس پر مادی وجود
کی حرکات کا دارومدار ہے۔
”
عنقریب ہم انہیں اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور ان
کے
اپنے نفس میں بھی یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی یہ
قرآن
برحق ہے۔ کیا یہ بات کافی نہیں کہ تمہارا رب ہر شے کا شاہد
ہے؟“
(حٰمۤ
السجدۃ : ۵۳)
یہاں
دیکھنے کی دو طرزیں بیان ہوئی ہیں۔ باہر دیکھنا اور اندر دیکھنا۔
ہم
سمجھ سکتے ہیں کہ پہلے آفاق یعنی باہر ، اس کے بعد نفس میں دیکھنے کا ذکر ہے۔
سمجھا جاتا ہے کہ ہم باہر دیکھتے ہیں لیکن قرآن کریم کے مطابق باہر دیکھنے کے ساتھ
جب تک اندر دیکھنا اور سمجھنا شامل نہ ہو ، کُنہ تک رسائی نہیں ہوتی۔
سوال :۔
Déjà vu یعنی پہلے سے دیکھا ہوا۔
کب اور کہاں دیکھا؟ مادی شعور اور
حافظے میں تلاش کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شے ظاہری انکھوں سے پہلے نہیں دیکھی۔
کیکیولے نے خواب میں بینزین کے سالمات کا ڈیزائن دیکھا جو حافظے میں محفوظ ہوگیا۔
بیدار ہو کر ڈیزائن کاغذ پر منتقل کر دیا۔ ٹیسلا کو کھلی آنکھوں سے مناظر یا روشنی
کے جھماکے نظر آنا مادی اسپیس کا مظاہرہ نہیں تھا۔وہ مناظر مادی بصارت کا حصہ نہیں
تھے۔ پھر وہ کون سی بصارت ہے؟
اگر بصارت کے ساتھ یادداشت نہ ہو
تو دیکھنا بے معنی ہے۔ Déjà vu میں غالب احساس یہ ہے کہ شے یادداشت
کا حصہ ہے مگر ہم یادداشت کے ریکارڈ کو تلاش کرنے میں ناکام ہیں کیوں کہ طریقہ
معلوم نہیں۔
روبوٹ کی مثال سے سمجھیں۔ یہ آدمی
کی نقل ہے۔ آنکھوں کی جگہ کیمرے اور دماغ کی جگہ کمپیوٹر نصب ہے۔ یہ آدمی کی طرح
کام کرتا ہے ۔ کام کے دوران خارجی اطلاعات کو کیمروں کی مدد سے وصول کر کے کمپیوٹر
کو بھیجتا ہے۔ کمپیوٹر ان اطلاعات کو سمجھتا ہے اور روبوٹ سے عمل درآمد کرواتا ہے۔
اطلاعات کو روبوٹ میں موجود کمپیوٹر کا پہلے سے حصہ بنایا گیا ہے۔ ریکارڈ پہلے سے
روبوٹ کے باطن یعنی ہارڈڈسک میں موجود نہ ہو تو وہ اطلاع میں معنی نہیں پہنا سکتا۔
روحانی سائنس دان راہ نمائی کرتے
ہیں کہ Déjà vu سے خواب یا ایسی کیفیات جن
میں کسی واقعہ کا پہلے سے پتہ چل جاتا ہے یا پہلے سے واقف ہونے کا احساس ہوتا ہے۔۔
دراصل لاشعور سے متعلق ہیں۔ ان کی شعوری توجہیہ اس لئے نہیں کر سکتے کہ ہمیں
لاشعور کا مطالعہ کرنا نہیں آتا۔ محترم عظیمی صاحبؒ فرماتے ہیں،
”کائنات
کو دیکھنے کے لاشمار زاویے ہیں۔ ہر زاویہ ایک نظام ہے۔ نظام میں وسعت ہے کہ جس
زاویے کو اختیار کیا جاتا ہے، کائنات اس کا بہروپ بن جاتی ہے۔ زاویوں کی درجہ بندی
کی جائے تو بنیادی طور پر دیکھنے کی دو پرتیں ہیں۔ ایک پرت وہ ہے جس پر کائنات
تخلیق کی گئی ہے اور دوسری پرت شاخ در شاخ درخت کی مانند ہے جو پہلی پرت سے لاعلمی
کی بنا پر مظہر بنتی ہے۔لاعلمی کے خلا نے رنگ و نور سے معمور کائنات کا نگاہوں سے
اوجھل کردیا ہے۔ ایسے میں جو نظر آتا ہے، اس کا دیکھنا ۔۔ اصل کو نہ دیکھناہے۔“ (آج کی بات : جون ۔ جوالائی 2024ء)
روحانی سائنس کے اسرار پر مبنی اس
اقتباس میں دیکھنے کے دو رخ کا ذکر ہے۔
۱۔ ایک شاخ میں شک نہیں ، ہر شے
اصل شکل اور صفات میں نظر آتی ہے۔ زاویہ نگاہ بھی ایک رہتا ہے یعنی اس میں تغیر
نہیں ہوتا۔
۲۔ دوسرے رخ میں لاشمار زاویے اصل
شے کے عکس کو جذب کر کے اپنے مطابق دکھاتے ہیں۔ دیکھنے والا اگر اس عکس کو اصل
سمجھے تو وہ فریب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے،
” اور
دنیا کی زندگی کچھ نہیں مگر دھوکے (الوژن) کا سامان ہے۔“
(آل
عمران : ۱۸۵)
Déjà vu جیسے احساسات ، وژن ، جھماکے
سے آنے والی پیشن گوئی پر مشتمل اطلاعات اور رویائے صادقہ (سچے خواب) جو مستقبل کی
صحیح نشاندہی کرتے ہیں ، دیکھنے کے اس رخ سے متعلق ہیں جس پر کائنات تخلیق کی گئی
ہے۔ ان کیفیات کا تجربہ ہونا قدرت کی طرف سے دعوت ہے کہ فریبِ نظر سے نکل کر حقیقی
نگاہ بیدار کی جائے۔
سائنس دانوں کا قیاس ہے کہ Déjà
vu کی کیفیات سات آٹھ سال سے بیس (20) سال تک تعداد
اور شدت میں زیادہ ہو سکتی ہے۔ بعد میں ان کی تعداد نسبتاً کم ہوتی ہے۔
قرآن کریم کے الفاظ ” عنقریب ہم انہیں دکھائیں گے۔“ سے یہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عمر کے ابتدائی حصے سے ہی قدرت لوگوں کو لاشعور سے منسلک ہونے کے لیے راہ نمائی کرتی ہے ۔ تمام کائنات کا ریکارڈ لاشعور میں پہلے سے موجود ہے کیوں کہ لاشعور اس پرت سے متعلق ہے جو تمام تخلیقات کی بساط ہے۔