Topics
قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے
کائنات میں ہر شے معین مقداروں پر تخلیق فرمائی ہے اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی
ہے۔ مقداروں کا علم سیکھنے والوں کے لئے کائنات مسخر ہو جاتی ہے۔ مقداریں شے کی
ساخت اور اس میں کارفرما عوامل کی ترتیب و ترکیب ہیں۔ مقداروں کے علم میں تفکر کے
لیے مندرجہ ذیل شکل کا سہارا لیتے ہیں۔
مادہ (Matter)
مرکبات و آمیز ہ جات ، عناصر
(Compounds, Mixtures, Elements)
سالمات (Molecules)
ایٹمز (Atoms)
ذیلی ایٹمی ذرّات ، الیکٹران وغیرہ
(Sub-Atomic Particles)
ریڈی ایشنز (Radiations)
یا روشنیاں
روشنیوں کی اقسام ( معین مقداریں) اور
ترکیب
روشنیوں میں تصرف =
ماہیت
قلب
آگے جہاں اور بھی ہیں۔
رب العالمین کا ارشاد ہے :
”پاک اور بلند مرتبہ ہے وہ ذات جس
نے ہر شے کو معین مقداروں سے تخلیق اور ان مقداروں کی ہدایت بخشی۔“ (الاعلٰی : ۱۔۳)
قارئین کرام ، ہر تخلیق میں معین
مقداریں کام کرتی ہیں غوروفکر کی ابتدا دل چسپ موضوع سے کرتے ہیں۔
کیمیائی عناصر کو عموماً تین بڑے
گروہوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ دھاتی عناصر ، غیر دھاتی اور ایسے عناصر جن کی
خصوصیات دھاتی اور غیر دھاتی کے درمیان ہیں یعنی دھات نما(Metalloid) کیمسٹری میں یہ بات اصول کا درجہ رکھتی ہے کہ کیمیائی تعاملات (ری
ایکشنز) میں ٹوٹ پھوٹ یا نئے سرے مرکبات بننے کا عمل الیکٹرانوں تک محدود ہوتا ہے
، ایٹموں کے مراکز جوں کے توں رہتے ہیں__یعنی تعاملات کے
دوران سوائے الیکٹرانوں کے لین دین یا شراکت کے، ان کے مرکز ے (نیوکلائی) تبدیل
نہیں ہوتے۔ یہ اصول جدید کیمسٹری کی بنیاد ہے۔ اسے ایک قدیم نظریہ ، علم کیمیا گری
(Alchemy)
کا رد بھی مانا جاتا ہے۔
کیمیا گری (Alchemy) کیا ہے__؟
ایسا علم جس سے مادہ خصوصاً کیمیائی عناصر اور مرکبات کی ماہیت قلب یا صنعت کی جا
سکے۔ خصوصاً کم قیمت دھاتوں لوہا تانبا وغیرہ کو بیش قیمت دھاتوں یعنی چاندی یا
سونے میں تبدیل کرنا اس علم کا محور ہے۔ کیمیا گری کی بہت ساری جہتیں بیان کی جاتی
ہیں لیکن معروف یہ ہے۔ اس علم میں مختلف جڑی بوٹیوں اور عناصر و مرکبات کے کیمیائی
تعاملات سے ایسا مادہ حاصل کیا جاتا ہے جس کے اثرات غیر معمولی ہیں۔عام دھاتوں کو
سونے میں بدلنے سمیت بے شمار حیرت انگیز کاموں میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اس مادہ
کے معروف نام ، اکسیر اور پارس ہیں۔ مغربی محقق اسے Philosopher’s
Stone جبکہ عربی میں کبیر یت الاحمر یعنی سرخ گندھک کہا
جاتا ہے۔ الغرض مختلف تہذیبوں میں نہ صرف اس مادہ کا ذکر ملتا ہے بلکہ تاثیرات اور
حصول کے لیے طریقہ کار پر ضخیم مواد موجود ہے۔
سائنس کا نظریہ : جدید
کیمسٹری میں تحقیق و تجربات کی بنیاد پر کیمیائی تعاملات کے حوالہ سے وضع کیا گیا
اصول مختصراً یہ ہے کہ کسی بھی کیمیکل ری ایکشن کے نتیجہ میں متعاملات(Reactants) اور حاصلات میں ایٹموں کی کل تعداد اور اصل
ماہیت تبدیل نہیں ہوتی البتہ طبعی حالت (ٹھوس ، مائع ، گیس ) تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس
اصول کے تحت کیمیا گری یا عناصر کی ماہیت قلب کسی بھی کیمیائی عمل کے نتیجہ میں
ناممکن ہے۔ البتہ جوہری تعاملات(Nuclear Reactions)
کے نتیجہ میں یہ ممکن ہے۔ ایک طریقہ جوہری انشفاق(Nuclear
Fission) ہے۔
جوہری انشفاق کے نتیجہ میں کسی بھی
تابکار عنصر کے ایٹم قدرتی یا مصنوعی طریقہ سے اپنے مرکزہ کے کچھ بنیادی ذرّات
خارج کرتے ہیں اور نتیجتاً دوسرے عناصر میں تبدیل ہو جاتے ہیں کیونکہ مرکزہ میں
پروٹان کی تعداد عناصر کی انفرادیت کا تعین کرتی ہے جب کہ نیوٹران ، پروٹان ایک
جیسے چارج ہونے کی بنا پر ایکدوسرے کے خارج کرنے کے عمل کو اعتدال پر لانے کے لئے
اہمیت کے حامل ہیں۔ لہذا ان کا مرکزہ سے اخراج بھی ایٹم کی ماہیت تبدیل ہونے کا
سبب بنتا ہے۔ قدرتی عمل کے تحت تابکار عناصر مخصوص مدت کے بعد دوسرے عناصر میں
تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جدید سائنس اور
کیمیا گری کا قدیم علم بظاہر متفق نظر نہیں آتا۔ محقق ایسے پراسرار سائنس نما علوم
کے لئے باطل سائنسی علوم کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ بہرحال یہ ایک نقطہ نظر ہے۔
غیر جانب دار طرزِ فکر باور کراتی ہے کہ مادی
علم کے نظریات کو حتمی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ مادی علوم میں ارتقاء اور تبدیلی
ہے۔ قائم شدہ نظریات کبھی متروک ہو جاتے ہیں تو کبھی بدل دیئے جاتے ہیں۔ لہذا کسی
علم کو پراسرار سمجھنا یا اس بنا پر رد کردینا کہ یہ فہم سے باہر ہے، جانب دار سوچ
ہے۔
معین مقداریں کیا
ہیں__؟
وہ کون سی مقداریں ہیں جو تانبے میں سے نکال لی جائیں یا داخل کر دی جائیں تو وہ
سونے میں تبدیل ہوجاتا ہے__؟
کیمیا گری کے نظریات سے قطع نظر
جدید علوم کی روشنی میں ، نیوکلیئرری ایکشن کو لیا جائے تو تسلیم کئے بغیر چارہ
نہیں کہ ایک عنصر کا دوسرے عنصر میں تبدیل ہونا دراصل مقداروں کی تبدیلی ہے۔ طریقہ
کار خواہ روحانی علوم ہوں ، کیمیا گری یا جدید سائنسی طریق __سب میں
مقداریں بر سر عمل ہیں۔ آیئے معین مقداروں کے الہامی نظریہ کو سمجھنے کے لیے رائج
سائنسی علوم اور روحانی علوم سے استفادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سائنسی طرز : الفاظ
سے واضح ہوتا ہے کہ یہ ایسی مقداریں ہیں جن کی قدر ، ترکیب اور ماہیت و کیفیات
وغیرہ متعین (Calculated)
ہوں۔ سائنس میں مادہ اور توانائی کے مطالعہ کے لئے مقداریں معین کی گئی ہیں۔ مقدار
کے تعین کے لئے اکائی (Unit)
مختص کی جاتی ہے۔ اکائی کو مد نظر رکھ کر مختلف پیمانے بنائے جاتے ہیں۔ ریاضی اور
فزکس کے اصول کے تحت جب تک شے کی پیمائش کے لیے ہندسی مقداریں متعین نہ ہوں،
معلومات حاصل نہیں کی جا سکتیں۔
مثال :
لمبائی کے لیے مختلف اکائیاں استعمال ہوتی ہیں۔ بین الاقوامی نظام پیمائش کے تحت
لمبائی کی اکائی میٹر (Meter)
ہے، یعنی لمبائی کا تذکرہ اس کی ہندسی مقدار کے بغیر ممکن نہیں خواہ کسی بھی قاعدہ
اور کلیہ جے تحت ناپا جائے۔ اکائی ، اتفاق رائے سے طے کی جاتی ہے اور بیان کرنے کے
لیے حوالے تلاش کئے جاتے ہیں۔ جیسے ایک میٹر لمبائی کی سائنسی تعریف یہ ہے کہ
روشنی جو فاصلہ ایک سیکنڈ کے299792458
ویں حصہ یا ایک سیکنڈ کے قریباً تیس کروڑویں حصہ میں طے کرے ، اس فاصلہ کو ایک
میٹر کہا جائے گا۔ میٹر کی تعریف دیگر حوالوں سے بھی کی گئی ہے۔ الفرض سائنسی علوم
میں تصاویر اور اکائیاں مقرر کرنے کے لئے حوالہ کا سہارا لیا جاتا ہے۔
سات مقداروں کو بنیادی طبعی
مقداریں گردانا گیا ہے ، باقی تمام مقداریں اس سے اخذ کی جاتی ہیں۔ یہ مقداریں
لمبائی (میٹر) کمیت یا وزن ( کلو گرام) ، وقت (سیکنڈ) بجلی کا کرنٹ (ایمپئر) درجہ
حرارت (کیلون) ، مادہ کی مقدار (مول) اور روشنی کی شدت (کینڈیلا) ہیں۔
سائنسی تصورات کے حدود اور نقائص : بلاشبہ
سائنس کی مقرر کردہ یہ مقداریں اور اکائیاں افادیت اور خوبیوں کی حامل ہیں لیکن
نقائص موجود ہیں۔ سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس میں تغیر اور منسوخی کا عمل ہے۔ تمام
پیمانوں میں سے ایک کی بھی حتمی حیثیت قائم نہیں کی جا سکی جبکہ حقیقی علوم میں
مقداریں تبدیل نہیں ہوتیں۔ تغیر سے شے کی حقیقت مفروضات کے پردوں میں چھپ جاتی ہے
اور حاصل ہونے والی معلومات میں کمی بیشی رہتی ہے۔ دوسرا بڑا نقص یہ ہے کہ محض ناپ
تول سے شے کو مکمل بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے زیر مطالعہ شے کی حیثیت اعداد و
شمار کے گورکھ دھندوں میں دھند لاجاتی ہے۔ ریاضیاتی فارمولوں میں معلومات کو
مختصراً علاماتی شکل میں بند تو کر دیا جاتا ہے لیکن اس سے بنیادی صفات نظر انداز
ہو جاتی ہیں۔
روحانی طرز : روحانی
سائنس دانوں کی بیان کی گئی مقداروں کی تعریف اور قوانین کا ماخذ الہامی کتب
ہیں۔معین مقداروں کےقوانین نوع انسانی کا حقیقی ورثہ ہیں جو ابوالبشر حضرت آدم ؑ
کو ودیعت کیا گیا۔ اس علم سے آدمی __انسان کے دائرہ میں
داخل ہو جاتا۔
روحانی سائنس کے مطابق مخلوق معین
مقداروں سے مرکب ہے۔ جن مقداروں سے لوہے کی تخلیق ہوتی ہے وہ صرف لوہے کے لئے معین
ہیں۔ کمی بیشی سے لوہا کسی اور جنس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مقداروں میں رد و بدل کا
نتیجہ نوع میں تبدیل ہونے یا ماہیت قلب کی صورت میں نکلتا ہے۔ معین مقداریں صفات
ہیں، مختلف صفات باہم یک جا ہو کر منفرد نتیجہ بنتی ہیں۔ صفات کا منبع و ماخذ ذات
باری تعالیٰ ہیں۔
مثال : پانی
ایک مخلوق ہے۔ پانی کو لیبارٹری میں بناتا ہے(Synthesize) چاہیں تو مادی سائنس کے مطابق اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ دو حصے
ہائیڈروجن ایک اور حصہ آکسیجن کو برقی یا حرارتی توانائی دے کر ملا دیں۔ قابل غور
ہے کہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو وجود میں لانے سے مادی سائنس قاصر ہے جب کہ روحانی
ماہرین پانی کی مقداروں سے واقف ہیں،
روحانیت اور ماہیت قلب : ”غزوہ
بدر میں حضرت عکاشہ بن محصن ؓ بڑی دلیری سے لڑ رہے تھے کہ ان کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ
رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے۔ اس وقت حضور ﷺ کے ہاتھ میں لکڑی کی چھڑی تھی۔آپ ﷺ نے چھڑی
حضرت عکاشہ ؓ کو دے کر فرمایا۔” عکاشہ جاؤ جنگ جاری رکھو۔“ حضرت عکاشہؓ نے چھڑی
ہاتھ میں لی تو وہ مضبوط ، چمک دار اور تیز دھار تلوار بن گئی۔ حضرت عکاشہؓ نے جنگ
بدر کی فتح تک تلوار کو استعمال کیا۔ اس تلوار کا نام ”العون“ تھا۔ غزوہ بدر کے
دوران ایک صحابی سلمہ بن اسلمؓ کی تلوار ٹوٹ جانے پر حضور پاکﷺ نے انہیں کھجور کی
تازہ ٹہنی عنایت کی جو تیز دھار تلوار میں تبدیل ہوگئی۔ حضرت عبد اللہ بن حجش ؓ کی
تلوار ایک جنگ کے دوران ٹوٹ گئی تھی۔ سیدنا الصلوٰۃ والسلام نے انہیں طلب کر کے
کھجور کی شاخ عنایت کی اور دشمنوں پر حملہ کا حکم دیا۔ کھجور کی ٹہنی تلوار بن
گئی۔ اس تلوار کا نام عرجون ہے۔“ (
کتاب محمد رسول اللہ ﷺ جلد دوئم)
فکر طلب نکات : رسول
اللہ ﷺ کے مندرجہ بالا بیان کردہ معجزات ، حضرت موسیٰ کے عصا کا اژدہا میں تبدیل
ہونا اور پھر عصا بن جانا ، حضرت عیسیٰؑ کے پھونک مارنے سے ریت کے ذرّات کا سونے
میں تبدیل ہونا اور ایسے متعدد واقعات انبیاء علیہم السلام کے معجزات اور اولیائے
کرام کی کرامات پر مشتمل ہیں، ماہیت قلب کے فارمولوں پر مبنی ہیں۔ دوسرے لفظوں میں
یہ واقعات ترغیب دیتے ہیں کہ ہم معین مقداروں کے علوم سے واقف ہو کر انسانیت کے
شرف سے بہرہ ور ہوں۔
ماہیت قلب کی اساس __روشنیوں میں تصرف :
سائنس میں مادہ کی بنیاد ایٹم ہے۔
ایٹم مزید چھوٹے ذرّات پر مشتمل ہے اور ہر ذرہ کے مزید چھاٹے ذرّات ہیں۔ وہ مفرد
ذرّات جو مزید تقسیم نہیں کئے جا سکتے بالآخر روشنی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یعنی
ایٹم کی انتہا روشنی ہے۔ جدید قدیم سائنسی علوم کی انتہا__روحانی
علوم کی ابتدا ہے! مادی علوم کا تصرف انتہائی صورت میں ایٹم تک پہنچ سکا ہے جبکہ
روحانی ماہرین نہ صرف اس بحر بے کنار کے شناور ہیں بلکہ ان روشنیوں میں تصرف کر
سکتے ہیں جن سے ایٹم تخلیق ہوا ہے۔ ان روشنیوں میں تصرف کا مطلب ہے کہ مادہ کی کسی
بھی شکل یاہیت میں حسبِ منشا تبدیلی کا اختیار !
طول موج اور فریکوئنسی وغیرہ
روشنیوں کی خاصیت ہیں جنہیں روحانی بندہ اللہ کے حکم سے کسی بھی قسم کی روشنیوں
میں تبدیل کر سکتا ہے۔
”کائنات میں جتنی اشیا ہیں ، سب کی
بنیاد روشنی ہے۔ اس بات کو اللہ تعالی ٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے کہ اللہ
زمین اور آسمان کی روشنی ہے۔ اللہ نے زمین اور آسمان اور اس کے اندر جو کچھ ہے،
روشنیوں سے تخلیق کیا ہے۔“ (کتاب:توجیہات)
معین مقداریں اور فارمولے :خانوادہ
سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں کہ شاگرد ابتدائی تعلیمات میں بتایا جاتا ہے کہ گیہوں
کیسے بنا؟ روحانی استاد شاگرد کو مشاہدہ کراتا ہے ، جتنا بڑا ہو سکے ۔ جیسے
خوردبین چھوٹی چیز کو بڑا کر کے دکھاتی ہے یعنی آنکھ خورد بین بن جاتی ہے۔ بڑا نظر
آنے سے گیہوں کا دانہ امرود کے برابر اور بعض اوقات اس سے بڑا ہو جاتا ہے۔ استاد
کے ہاتھ پر امرود کے برابر گیہوں کا دانہ ہے۔ وہ کہتا ہے، دیکھو اس میں مقداریں
کتنی ہیں، مٹھاس ، نشاستہ ، بھر بھراپن اور اس کے اندر رنگ کتنے ہیں۔ رنگ اگرچار
ہیں تو سات رنگوں (مقداروں) میں پھیلنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ پانی جذب کرنے اور روٹی
کے لئے آگ برداشت کرنے کی صلاحیت کتنی ہے۔ مقداروں کے مشاہدہ کے بعد زمین کے اندر
گیہوں کا دانہ ڈال دیا جاتا ہے۔ شاگرد جان لیتا ہے کہ گیہوں کوئی چیز نہیں___اصل مقدار ہے۔
گندم کے دانہ کا فارمولا یہ بنا کہ
اس میں اتنا پانی ہے، اتنی شکر ، اتنا نشاستہ ، اتنا بھر بھراپن ، سختی اور پھیلاؤ
ہے۔تقریباً 20 مقداروں سے مل کر گیہوں کا ایک دانہ بنا۔
استاد نے گیہوں کو فضا میں رکھا
اور شاگرد نے دیکھا کہ فضا میں جتنی گیسیں اور روشنیاں ہیں ان کا گیہوں کے اندر
مقداروں پر کیا اثر ہوتا ، وہ کس طرح ایک دوسرے سے Multiply ہوتی ہیں اور جذب ہو کر بڑھتی ہیں۔ پھر اس کو نیچے پھینکتے ہیں۔
کشش ثقل(گریویٹی) گیہوں کو کھینچتی ہے۔ اس کے بعد بتایا جاتا ہے کہ کشش ثقل کی
مقداریں کتنی ہیں۔
اب زمین کی ساخت زیرِ بحث آتی ہے
کہ زمین میں کتنے عناصر کام کر رہے ہیں۔ مثلاً زمین میں تانبا ، پیتل ، ایلومینیم
، فاسفورس ، چاندی ، سونا اور بے شمار معدنیات ہیں۔ ابرق ہے ، نمک ہے ، پھٹکڑی ہے
وغیرہ۔ بے شمار معدنیات کا گیہوں پر کیا اثر ہوا اور ان معدنیات کی الگ الگ کتنی
مقداریں ہیں۔ ساری مقداریں گیہوں میں شامل ہوگئیں اور گندم کا دانہ کے اندر تبدیلی
واقع ہوئی۔ جس طرح دانہ پھول کر پھٹا ، پھٹنے کے بعد اس میں کّلا ، پتی بنی ، پھر
پودا ، پودے کے اندر ہزاروں لاکھوں گیہوں لگ گئے۔
معین مقداروں کے فارمولوں اور
ماہیت قلب کی حقیقت کے حوالہ سے الشیخ عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
”لوہے کی طرح لکڑی کے اندر بھی
مقداریں معین ہیں۔ اگر لوہے اور لکڑی میں مقداریں کام نہ کریں تو لکڑی ، لکڑی نہیں
اور لوہا ، لوہا نہیں رہے گا۔ معین مقداروں سے مراد یہ نہیں ہے کہ جو مقداریں لوہے
کے اندر کام کر رہی ہیں وہ لکڑی کے اندر نہیں۔
فارمولا یہ ہے کہ لوہے کے لیے اور
لکڑی کے لیے سات مقداروں کا تعین ہے ۔ لکڑی کی مقداروں میں لوہے کی اضافی ایک
مقدار شامل کر دی جائے تو لکڑی__لوہا بن جائے گی۔
سونے (Gold) کے لیے پانچ اور گیرو کے لیے چار مقداریں معین ہیں۔ سونے کو گیرو
بنانے کا فارمولا یہ ہے کہ سونے کی مقداروں میں سے ایک مقدار کم کر دی جائے۔ گلاب
کے پھول میں چھ معین مقداریں کام کرتی ہیں۔ اگر سیب کے پھول کی معین مقداروں میں
سے تین کم کر دی جائیں تو سیب کا پھول ، گلاب کا پھول بن جاتا ہے۔ گلاب کے پھول
سیب کا پھول بن جاتا ہے۔ یہ پورا ایک تخلیقی نظام ہے جو اللہ نے ان لوگوں کو
سکھایا ہے جو لوگ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اور روحانی علوم کے
حامل ہیں۔“
جس وقت سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ
والسلام نے کھجور کی لکڑی حضرت عکاشہ بن محصن ؓ ، حضرت سلمہ بن اسلم ؓ ، حضرت عبد
اللہ بن حجشؓ اور حضرت قتادہ ؓ کو دی تو تخلیقی فارمولوں کے تحت مقداروں میں
ردوبدل ہو گیا اور یہ ردوبدل قرآن کریم کے ارشاد کے مطابق ہے۔
” ہم نے تمہارے لئے مسخر کر دیا جو
کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کا سب ۔“ (الجاتیہ
:۱۳)۔