Topics
آسمانوں اور زمین کی پیدائش ، بارش سے مردہ زمین کا زندہ
ہونا ، ہواؤں کا چلنا ، کشش و گریز کی قوتوں میں توازن __ سب کائناتی فارمولے ہیں۔ اسی طرح کشتیوں کے سمندر میں چلنے اور
پانی کی سطح پر قیام میں وہ اصول کار فرما ہیں جو نظام شمسی اور کہکشانی نظاموں
میں بر سر عمل ہیں۔
بحر وبر کے مالک اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے ،
·
کشتی
کے سمندروں میں چلنے میں نشانیاں ہیں۔
·
اللہ
کے نام سے کشتی چلتی اور ٹھہرتی ہے۔
·
کشتیاں
اللہ کے حکم سے چلتی ہیں تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو۔
·
اللہ
نے کشتی ، سمندر اور دریاؤں کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے۔
جن اقوام نے کشتی سازی اور جہاز
رانی پر زیادہ توجہ دی ، زمین پر ان کی حکمرانی ہوئی اور انہیں خشکی وبحر میں بے
پناہ وسائل میسر آئے۔
تفکر کی آبیاری کے لئے قابلَ توجہ
ہے کہ
·
کشتی
پانی پر کیسے چلتی ہے؟
·
یہ
پانی میں کیوں نہیں ڈوبتی ؟
·
کشتی
کی ساخت کس بنیاد پر بنائی گئی ہے؟
·
ہزاروں
افراد اور اشیا کا وزن لے کر سمندر میں چلنے والے بحری جہازوں کا موجد کون ہے اور
انہوں نے یہ علم کہاں سے حاصل کیا؟
آیئے
پہلے موجودہ تحقیق و تلاش (سائنس) کی رو سے جوابات تلاش کرتے ہیں۔
٭ بتایا جاتا ہے کہ یونانی محقق اور ریاضی دان
ارشمیدس نے 250 ق۔م پانی کی اچھال کی قوت
دریافت کی اور اس سے کشتی
( یا تختے) کے پانی پر تیرنے کا اصول وضع کیا جس کو اصولِ ار شمیدس کہا
جاتا ہے۔ اصولِ ارشمیدس یہ ہے :
” کوئی
شے سطح آب سے مَس ہو کر آگے بڑھتے ہوئے اپنے وزن کی مدد سے جتنا پانی ہٹاتی ہے یا پانی
پر
اپنے وزن سے جتنی قوت
لگاتی ہے ، پانی بھی اتنی قوت اس شے پر خرچ کرتا ہے۔ شے کے وزن کی قوت کا رخ نیچے
جبکہ پانی کی اچھال کی قوت کا رخ اوپر ہوتا ہے۔ اس طرح اچھال کی قوت وزن کی قوت کو
معطل کر دیتی ہے اور شے ڈوبنے کی بجائے پانی کی سطح پر تیرتی ہے۔“
٭ ارشمیدس کے اصول کے اطلاق میں شے کی کثافت ،
پانی سے مَس ہونے والی سطح کا رقبہ اور پانی کی طرف سے اچھال کی قوت اہم ہے۔ ان
قوتوں میں توازن سے کشتی تیرتی ہے۔
٭ ایک دو کے علاوہ تقریباً تمام درختوں کی
لکڑی کثافت میں پانی سے ہلکی ہونے کے باعث ڈوبتی نہیں ،
اسی طرح بحری جہاز کے لیے
ضروری ہے کہ سامان اور سواری سمیت اس کی مجموعی کثافت ، پانی کی کثافت کم ہو۔
ڈیزائن اس طرح بنایا جاتا ہے کہ سمندر میں داخل ہوتے ہی یہ اپنے وزن سے زیادہ پانی
کی مقدار ہٹا سکے۔
مثال : سوئی پانی کی سطح پر رکھی جائے تو وہ وزن اور
سائز کے اعتبار سے کم پانی دھکیلتی ہے۔ اس کی کثافت پانی کی کثافت سے زیادہ ہونے
کے باعث یہ ڈوب جاتی ہے۔ سوئی کی مقدار کے برابر لوہے کی ریزر بلیڈ کی طرح پھیلایا
جائے تو وہ اپنے وزن سے زیادہ پانی کی مقدار کو دھکیلنے کی قوت رکھتا ہے۔ پھیلاؤ
کی وجہ سے لوہے کی کثافت ، پانی کی کثافت سے کم ہو جاتی ہے اور ریزر بلیڈ نہیں
ڈوبتا۔
کشتیوں کے علاوہ آبدوز ایسی ایجاد
ہے جو کم یا زیادہ گہرے پانی میں جاتی ہے اور سطح پر دوبارہ واپس آنے کی صلاحیت
رکھتی ہے۔
ابدوز تکنیکی لحاظ سے کشتی ہے تاہم
اس میں مجموعی کثافت کو پانی سے کم یا زیادہ کرنے کا میکانزم ہے۔ آبدوز میں الگ سے
موجود خالی جگہوں میں پانی بھرنے سے اس کی کثافت بڑھتی ہے تو یہ نیچے جاتی ہے۔
پانی نکال کر خالی جگہوں میں ہوا ابھرنے سے سطح پر واپس آجاتی ہے۔ آبدوز کے اندر
خلا میں پانی کے تناسب میں کمی بیشی کر کے سمندر کی مختلف گہرائیوں میں سفر کیا
جاتا ہے۔ آبدوز کی نقل و حرکت کے لیے شارک ، ڈولفن اور وہیل وغیرہ کا مطالعہ کیا
گیا ۔
اسی طرح کشتیوں اور بحری جہازوں کی
صنعت میں سطحِ آب پر تیرنے والے پرندوں ( بطخ ، ہنس ، مرغابی وغیرہ) کی ساخت ،
مجموعی کثافت اور حرکیات سے مدد لی گئی۔ بطخ اور ہنس جیسے پرندے ساخت کی وجہ سے
اپنے وزن سے زائد پانی کو دھکیل سکتے ہیں۔ نتیجے میں ان پر لگنے والی پانی کی اچھال کی قوت ان پرندوں کے اپنے وزن سے زیادہ
ہو جاتی ہے ۔ یوں جسم پانی کی سطح پر رہتا ہے جب کہ نیچے جھلی دار پنجے چپو یا
پتوار (rudder) کا کام دیتے ہیں۔
سفینہ نوح ؑ : الہامی کتب اور آخری آسمانی کتاب قرآن کریم
میں سفینہ نوحؑ کی تفصیل ہے۔ حضرت نوح ؑ نے الہامی علوم کے تحت غیر معمولی جسامت
کا بحری جہاز بنایا تاکہ اس کا توازن پہاڑ جیسی بلند موجوں اور طوفانی تھپیڑوں میں
برقرار رہ سکے۔ مخلوقات میں سے ایک ایک جوڑا اس میں سوار کیا ، پیروکاروں اور غذا
سمیت ضروریات کا سامان بھی عظیم کشتی میں رکھا۔
قرآن کریم میں کشتی کے تیرنے اور
سفینہ نوحؑ سے متعلق آیات بحری جہازوں کی صنعت کے لئے انمول خزینہ ہیں جس سے
مسلمانوں نے اپنے عروج میں بھر پور فائدہ اٹھایا۔ ان کے تجارتی بحری جہاز دنیا بھر
میں پھیل گئے۔
اندلس کی خلافت اور بعد میں سلطنت
ِ عثمانیہ کے بحری بیڑے تجارتی اور جنگی لحاظ سے دنیا میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے
۔ ان کی تحقیق و تفکر کا منبع قرآن کریم تھا۔ جس کی وجہ سے ایجادات میں انقلاب
برپا ہوا اور نی یونانیوں ور رومیوں کی بیشتر تحقیق فلسفے اور مفروضوں پر مشتمل
تھی اس لئے ان کے دور میں سائنسی میدان میں عملی ترقی بہت کم ہوئی۔
مسلمان محقق اور بحری صنعت : مشہور ہے کہ اطالوی بحری مہم جُو کرسٹوفر
کولمبس نے1492ء میں امریکی جزیرے بہاماس پر قدم رکھا ، اس طرح برا عظم جنوبی
امریکا پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ کولمبس سے چار پانچ سوسال
پہلے مسلمان تاجر بحری جہازوں کے ذریعے براعظم شمالی و جنوبی امریکا پہنچ چکے تھے
اور وہاں تجارتی مراکز قائم کئے تھے۔
موجودہ دور کے ایک مسلمان محقق
یوسف مروح کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق آٹھویں صدی عیسوی کے اوائل میں مسلمان
تاجر امریکی براعظموں تک پہنچ چکے تھے۔ نویں صدی میں اندلسی خلیفہ عبد اللہ ابن
محمد نے ساحلی شہر ویلبہ (Palos)
سے تجارتی بحری کارواں برا عظم امریکا روانہ کئے۔ دسویں صدی عیسوی کے محقق اور جغرافیہ دان ابو الحسن المسعودی
نے بحر اوقیانوس کے کئی سفر کئے اور متعدد جزائر دریافت کئے۔ المسعودی کے بنائے
گئے دنیا کے نقشے میں براعظم امریکا کی نشاندہی ہے۔
بارہویں صدی عیسوی کے سائنس دان
محمد الادریسی نے دنیا کا تفصیلی نقشہ بنایا جس میں انہوں نے شمالی و جنوبی امریکا
اور باقی براعظموں کو جانے والے بحری
راستوں کی نشاندہی کی ۔ ان کی کتاب ” نزہستہ المشتاق فی اختراق الآفاق“ اس دَور
میں سمندروں اور براعظموں کے نقشوں اور تفصیلات پر مشتمل مستند و بے مثال دستاویز
تھی۔ یہ کتاب بعد میں اطالوی جزیرہ صقلیہ کے بادشاہ راجر نے حاصل کی اور یورپ نے
اس سے بہت استفادہ کیا۔
15 ویں صدی کے جغرافیہ دان اور جہاز ران احمد بن
ماجد نے طویل بحری سفر کئے اور ان کی روداد قلم بند کی۔ ان کی کتاب ” کتاب الفوائد
فی اصول العلم البحر والقواعد “ بحری سفر ، بحری جغرافیے اور جہاز رانی میں مہارت
کی ایک مثال ہے۔ خدمات کے صلے میں انہیں ” امیر البحر “ اور ”اسد البحر“ کے القاب
سے نوازا گیا۔ بحری سفر کی صنعت کو جدت سے روشناس کرنے میں مسلمان محققین کی
فہرست طویل ہے۔
کرسٹو فر کولمبس نے بہاماس کے ایک
چھوٹے جزیرے کو نیا نام دینے کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ مقامی باشندے اسے Guanahani کے نام سے پکارتے ہیں۔ تحقیق سے عقدہ کھلا کہ یہ اخوۃ الہانی کا بگڑا ہوا تلفظ ہے یعنی جزیرہ
ہانی خاندان کے دو جہاز ران بھائیوں کے نام پر تھا۔ آج بھی براعظم شمالی و جنوبی
امریکا میں کئی مقامات کے نام عربی ناموں سے ماخوذ ہیں۔
نامور مسلمان سائنس دانوں ، جغرافیہ
دانوں اور جہاز رانوں کی تحقیقات بحری سفر کی حیرت انگیز تفصیلات ، بحری راستوں کے
نقشوں پر مبنی قیمتی انمول دستاویزات آج کہاں ہیں__؟
افسوس ہے کہ تقریباً تمام نایاب
مواد یورپ اور امریکا کے عجائب گھروں اور کتب خانوں کی زینت بن گیا۔ انہوں نے
بیشتر مواد ظاہر نہیں کیا کیونکہ کہ مغرب اعتراف کرنے سے گریزاں ہے کہ اس نے
مسلمانوں کی تحقیق و ایجادات سے استفادہ کیا ہے۔ بقول حضرت علامہ اقبال ،
مگر وہ علم کے موتی__ کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل
ہوتا ہے سیپارا
زمین و آسمان کی ہر شے کا علم قرآن
کریم میں ہے۔ جب مسلمانوں نے قرآنی علوم پر تفکر کیا تو ان پر ایجاد و دریافت ،
صنعت و حرفت کے علوم آشکار ہوتے گئے۔ یورپ نے ان کتب اور تحقیقات سے بہت اچھا
استفادہ کیا۔ آج سفر اور مال برداری کے سینکڑوں قسم کے جہاز عام ہیں۔ بعض جہاز
اتنے بڑے ہیں کہ دیکھ کر چھوٹے شہر کا گمان ہوتا ہے ۔ بڑے مال برادر بحری جہازوں
میں 24 ہزار کنٹیزوں تک کی گنجائش ہوتی ہے۔ ایک کنٹیز تقریباً 20 فٹ طویل ، نو فٹ
اونچا اور آٹھ فٹ چوڑا ہوتا ہے۔
پیغمبر حضرت نوؑؑسے پہلے دنیا واقف
نہیں تھی کہ سمندروں اور دریاؤں کو کیسے عبور کیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے،
” ان کے لیے یہ بھی ایک نشانی ہے
کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار
کیا اور ان کے لیے اس جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے
ہیں۔“ (یٰسۤ
: ۴۱۔۴۲)
حضرت نوحؑ کی کشتی کیسی تھی __؟
محترم عظیمی صاحب نے الہامی کتابوں
اور قرآن کریم میں بیان تفصیلات کے مطابق سفینہ نوح ؑ کی بناوٹ اور پیمائش کو
تفصیل سے بیان کیا ہے۔ ایک اقتباس پیش ِ خدمت ہے،
” اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح ؑ کی
دعا قبول کی اور حضرت نوحؑ کو ہدایت فرمائی کہ وہ ایک کشتی تیار کریں تاکہ مومنین
اس عذاب سے محفوظ رہیں جو اللہ کے نافرمانوں پر نازل ہونے والا ہے۔ حضرت نوح ؑ نے
لکڑی کے تختوں سے کشتی بنانا شروع کی۔ توریت کے مطابق کشتی تین سو کیوہٹ لمبی ،
پچاس کیوہٹ چوڑی اور تیس کیوہٹ اونچی تھی۔ کیوہٹ کیا ہے؟ یعنی کس قسم کی پیمائش
ہے، اس کا کچھ پتہ چلتا۔ بہر حال محققین نے لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی کے درمیان
جو نسبت بتائی ہے ، اس کو فٹ میں تبدیل کرنے سے یہ نتیجہ مرتب ہوتا ہے کہ کشتی کی
لمبائی 450 فٹ ، چوڑائی 75 فٹ میں تبدیل کرنے سے نتیجہ مرتب ہوتا قدیم نسخوں سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کناروں سے
کشتی جھکاؤ لیتے ہوئے بتدریج اوپر کی طرف اٹھائی گئی تھی یہاں تک کہ دونوں کنارے
30 فٹ اوپر جا کر اس طرح ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے کہ اوپر محض ایک کیوہٹ جگہ
باقی بچی تھی۔ کشتی کا فرش مستطیل تھا یعنی 75 فٹ چوڑا اور 450 فٹ لمبا۔ کشتی کئی
منزلہ تھی۔ جدید دور کے ماہرین جہاز سازی کا خیال ہے کہ یہ کشتی ترقی یافتہ
ٹیکنالوجی کی بہترین مثال تھی۔۔ کشتی کو ہوا ، طوفانی پانی ، بارش ، کیچڑ اور مٹی میں پھنسنے سے
محفوظ رکھنے کے لیے اس سے بہتر پیمائش ممکن نہیں تھی۔“
(کتاب : خاتم النبیین محمد رسول
اللہ ﷺ ، جلد سوم)
حضرت
نوحؑ کستی اور بحری جہاز کی صنعت کے بانی ہیں۔ اللہ نے حضرت نوحؑ کی معرفت یہ علم
نوعِ آدم کو عنایت کیا۔
کشتی کے تیرنے کی بطاہر وجہ اچھال
کی قوت ، کشتی کی کثافت کا مجموعی طور پر پانی کی کثافت سے کم ہونا ، کشتی ک اپنے
وزن سے زیادہ مقدار میں پانی ہٹانا اور دیگر صلاحیتیں ہیں۔ یعنی مادی شعور کی
دریافت کردہ مقداریں ہیں۔ درحقیقت کشتی کے تیرنے کی وجہ اللہ کا حکم ہے۔ جب اللہ
کا حکم نہیں ہوتا۔۔۔کشتی ڈوب جاتی ہے۔
نکتہ : کشتی
اور جہاز لکڑی یا لوہے سے بنتے ہیں۔لکڑی اور لوہا اللہ نے پیدا کیا اور پانی بھی
اللہ کی تخلیق ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ کشتی پانی پر تیرے تو وہ حکم کی پابند ہے۔
کشتی اور پانی کے مابین تمام قوتیں ، اچھال ، ثقل ، کثافت وغیرہ بھی اس حکم کی
تعمیل کرتی ہیں۔ جب اللہ کا حکم ہوتا ہے کہ کشتی ڈوب جائے تو تیرنے میں مدد دینے
والے تمام عوامل کام چھوڑ دیتے ہیں اور کشتی ڈوب جاتی ہے۔