Topics
اللہ رب العزت فرماتے ہیں،
” اور بے شک ہم نے داؤدؑ کو اپنی
طرف سے فضل عطا کیا۔ اے پہاڑو! اس کے ساتھ تسبیح کرو اور پرندہ ۔ اور ہم نے اس کے
لئے لوہے کو نرم کر دیا کہ کشادہ زر ہیں بناؤ اور کڑیوں کے جوڑنے میں اندازہ رکھو
، اور اچھے عمل کرو۔ تم جو کرتے ہو بے شک میں اس کو دیکھ رہا ہوں۔“ (سبا : ۱۰۔۱۱)
آیات میں لوہے یعنی دھات کی طبعی
خصوصیات بیان کی گئی ہیں اور ایک طرح سے ان تمام دھاتی خصوصیات کا ذکر کیا گیا ہے
جو دھات کاری اور دھات پر مبنی صنعت کی اصل ہیں۔ فارمولا یہ بتایا گیا ہے کہ لوہے
یا کسی بھی دھات کو روایتی طریقوں سے ہٹ کر حسبِ منشا شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ اس کی
آیات اور الفاظ شے کی خصوصیات کا احاطہ کرتے ہیں اور لامحدود وسعت رکھتے ہیں۔ جیسے
النّا یعنی ہم نے نرم کر دیا ۔ اس لفظ کا مصدر ل ی ن جس کے معنی نرمی
کے ہیں۔ ایسی نرمی جو دباؤ ضرب یا مخصوص طریقے سے لگائی گئی قوت کے نتیجے میں
آسانی سے اپنی حالت تبدیل کر لے اور مزاحمت نہ کرے۔ لوہا اور باقی دھاتوں میں
مشترک خصوصیت یہ ہے کہ مسلسل گرم کرنے سے ان میں درجہ بدرجہ نرمی آتی ہے حتی کہ
ایک خاص درجہ حرارت پر یہ پگھل جاتی ہیں۔ نرم دھاتوں کی خصوصیت یہ بھی کہ ایک ہی
مقدار میں دبانے سے یکساں پھیلتی ہیں۔ اس طرح دھات کو کوٹ کر پھیلاتے اور چادریں
بناتے ہیں۔
آیت میں ایک لفظ سٰبغٰت ہے
جس مصدر س ب غ ہے۔ مطلب کشادہ یا کھلا ہونا ہے یعنی لوہے کو یکساں پھیلا کر
پہلے چادر کی صورت دی گئی ہے پھر اس سے کشادہ اورکھلی زرہیں بنائی گئی ہیں تاکہ
پہننے والے کی حفاظت ہو اور وہ ان کو پہن کر آزادانہ حرکت کرے۔ محقق دھاتوں کے
پھیلنے کی صلاحیت کو (malleability)
کا نام دیتے ہیں۔
زرہیں کشادہ ہونے کا مطلب لوہے کو
خوب پھیلانا یعنی یکساں موٹائی کی چادر بنانا پھر جسم کی بناوٹ کے مطابق ڈیزائن
تیار کرنا ہے تاکہ پہن کر تنگی محسوس نہ ہو۔ نرم ہونے کے بعد ہر دھات میں دباؤ جذب
کر کے پھیلنے کی گنجائش مختلف ہوتی ہے۔ سونے چاندی میں یہ گنجائش زیادہ ہے۔ خالص
سونے کا پنچ ملی میٹر( ایک انچ کا پانچواں حصہ ) قطر کا موتی پھیلا کر تقریباً
ساڑھے پانچ مربع فٹ کے ورق میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ایسا ایک ورق جاپان کے
”توئی“ عجائب گھر میں موجود ہے۔ چاندی کے پھیلنے کی صلاحیت بھی سونے جیسی ہے۔
پلاٹینم ، پیلاسیئم ، تانبا اور المونیم دھاتوں کے بھی ورق بنائے جا سکتے ہیں۔
ورق انتہائی پتلی تہ ہے جب کہ چادر
نسبتاً موٹی تہ ہے۔ بعض دھاتوں میں دباؤ کے تحت پھیلنے کی صلاحیت زیادہ ہوتی ہے۔
لوہا پھیلاتے وقت خصوصاً زرہ بناتے ہوئے یہ تعین کرنا ضروری ہے کہ لوہے کی چادر کی
موٹائی کم از کم اتنی ہو کہ ہتھیار کا وار برداشت کر سکے۔ لوہے کی سختی اور مضبوطی
قائم رکھنے اور ممکنہ حد تک سب سے پتلی تہ یا چادر بنانے میں نسبت قائم کرنے کی
مقداریں معین ہیں۔
حضرت داؤد ؑ زرہ کے لئے خام یا کسی
دوسری شکل کے لوہے کو نرم کر کے پھیلاتے تھے حتی کہ وہ یکساں موٹائی کی چادر میں
تبدیل ہو جاتا۔ پھر مضبوطی کے لیے ضرورت کے تحت موٹائی قائم رکھتے ہوئے اسے شانوں
، سینے اور پیٹ کی بناوٹ کے مطابق موڑ دیتے ۔ سر اور منہ کی حفاظت کے لئت ہیلمنٹ
(خود) بناتے ، بازو اور پیروں کی حفاظت کے لیے زرہ کی ساخت ان اعضا کے مطابق ہوتی
تھی۔
حضرت داؤد ؑ کے زمانے میں پورے جسم
پر زرہ پہننے کا طریقہ رائج تھا کیونکہ معرکہ طالوت و جالوت میں بیان کیا گیا ہے
کہ ظالم جالوت جو دیو قامت اور قوی ہیکل تھا، سر تا پا زرہ میں ملبوس میدانِ جنگ
میں اترا۔ حضرت داؤد ؑ نے فلاخن (غلیل نما ہتھیار)کے پہلے وار سے اسے ہلاک
کر دیا۔
دھاتوں کو حرارت کے ذریعے نرم کر
کے ، کوٹ کر یا پگھلا کر دوبارہ پتلی تہوں میں جمانے سے دھاتوں کی چادریں بنائی
جاتی ہیں جن سے گاڑیوں اور مشینوں کے اہم پرزے اور آلات بنتے ہیں۔ ریل گاڑیوں ، ہوائی
جہازوں ، مال بردار اور مسافر بردار بحری جہازوں ، میزائلوں اور جنگی طیاروں کے
علاوہ توپ خانے کی مشینوں کے بیرونی حصے اور ساخت اسی دھاتی خاصیت کے مر ہونِ منٹ
ہیں۔ وہ ممالک جو گاڑیوں ، ہوائی جہازوں اور جنگی جہازوں کی صنعت میں آگے ہیں،
دھات کی اس خصوصیت کے علم کے بغیر یہ ایجادات نہیں کر سکتے ۔ چناچہ قران کریم میں
دھاتوں کا موم کی طرح پھیل کر تہ ، چادر یا ورق کی صورت اختیار کرنا اور حسبِ منشا
کسی بھی شکل میں ڈھالنے کی خاسیت کا تفسیلی بیان ہے اور لفظ سٰبغٰت اس کا
احاطہ کرتا ہے۔
علیم و حکیم اللہ کا فرمان ہے :
”اور ہم نے قرآن کو سمجھنے کے لئے
آسان کر دیا، پس کوئی ہے جو اسے سمجھے؟“ (القمر : ۱۷)
اللہ تعالی نے حضرت داؤد ؑ کو دھات
کی صفات کا علم عطا فرمایا جن سے وہ حسبِ اشیا بنا لیتے تھے۔ اس میں جو امر عجیب و
غریب ہے ، وہ یہ کہ حضرت داؤد ؑ روایتی طریقوں یعنی بھٹی میں آگ دہکا کر شدید گرم
کر کے ، ہتھوڑوں کی ضربیں لگا کر اور دھات کاری کے مروجہ طریقے کام میں لانے کے
بجائے دھات کو ہاتھوں میں پگھلاتے تھے۔ لوہا ان کے ہاتھوں میں ، جتنا چاہتے ، نرم
ہو جاتا ، وہ اسے پھیلا کر پتلا کر لیتے یا کھینچ کر تار بنا دیتے۔
سوال یہ ہے کہ یہ کون سا علم ہے؟
قرآن کریم میں بیان کئے گئے اس علم کی وضاحت پیش کرنے سے تحقیق و تلاش (سائنس)
قاصر ہے۔
لوہے کے پگھلنے کا درجہ حرارت 1538
ڈگری سینٹی گریڈ ریکارد کیا گیا ہے۔ اس کچھ درجے پہلے لوہے میں موم کی طرح اتنی
نرمی ہوتی ہے کہ مطلوب قالب میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ موم کی مثال نرم کے لئے دی جاتی
ہے ورنہ لوہا نرم حالت میں موم سے زیادہ لچک دار اور مضبوط ہے۔ محققین نے نرم حالت
میں لوہے کی لچک پلاسٹک سے کئی درجے زیادہ قرار دیا ہے۔
۱۔ پانی 100 ڈگری سینٹی گریڈ ابلتا
ہے۔
۲۔ ہر قسم کا گوشت اوسط 63 ڈگری
سینٹی گریڈ تک کھانے کے لئے گل جاتا ہے۔
۳۔ انسانی جسم کا اوسط درجہ حرارت
25 درجے سے بڑھ جائے تو آدمی کو گرمی محسوس ہوتی ہے۔ 35 سے بڑھے تو پسینہ نکلتا ہے
اور 40 سے زیادہ ہونے پر موسم ناقابلِ برداشت ہوتا ہے ۔ 60 درجے تک جسم کا اپنا
درجہ حرارت برقرار رکھنے کا نظام بے کار ہو جاتا ہے یعنی زائد حرارت سے موت واقع
ہو سکتی ہے۔ حرارت کا درجہ اس سے زیادہ ہونے پر تھرمامیٹر یا دوسرے آلے سے معلوم
کرتے ہیں ، ہاتھ لگا کر تجربہ نہیں کر سکتے ۔ پھر 1500 ڈگری سینٹی گریڈ یا اوپر کے
درجہ حرارت پر لوہے کو براہ راست ہاتھ میں پکڑ کر موڑنا یا کوئی شکل دینا کیسے
ممکن ہوا؟
لوہا دہکنے پر بھورے سرخ سے گہرے
سرخ، گہرے سرخ سے شوخ سرخ، شوخ سے نارنجی ، نارنجی سے سبزی مائل زرد اور پھر زرد ،
زرد سے دودھیا سفید 1300 درجے تک پہنچنے پر روشن سفید اور 1538 درجے یعنی پگھلنے
کے بعد ہلکی نیلاہٹ لئے مزید روشن سفید ہو جاتا ہے۔ نامیاتی مادے مثلاً
لکڑی اور گوشت وغیرہ اس درجہ حرارت پا راکھ ہوجاتے ہیں مگر حضرت داؤد ؑ کا ہاتھ
سلامت رہا۔ لوہا ہاتھ میں پگھلانے میں کون سا فارمولا استعمال ہواا؟
تفکر سے درج ذیل نکات واضح ہو تے
ہیں:
۱۔ لوہا نرم ہونے کے لئے جو
توانائی درکار ہے وہ حضرت داؤدؑ کے ہاتھوں میں یکجا ہوجاتی۔
۲۔توانائی منتقل کرتے ہوئے کمی
بیشی کرنا۔ یعنی جہاں سے لوہے کو موڑنا ، پھیلانا یا کھیچنا مقصود ہوتا، حسبِ
ضرورت توانائی منتقل کر دیتے۔
۳۔ اس دوران ہاتھ توانائی سے متاثر
نہ درجہ حرارت کے اثرات مشکل پیدا کرتے۔
۴۔ دھات پگھلانے اور مختلف چیزیں
بنانے کے لئے جو عل استعمال کیا گیا وہ مقداروں پر قائم ہے۔
۵۔ درجہ حرارت ، توانائی ، اشیا
میں نرمی اور سختی کے جو احساسات عام طور پر مادی جسم سے وابستہ ہیں، وہ مفروضہ
حواس کے مطابق جسم گوشت پوست سے بنا ہے اور اسے زندہ رہنے کے لئے خاس درجہ حرارت ،
نمی اور ہوا کا مخصوص تناسب اور دباؤ درکار ہے، جبکہ حضرت داؤد ؑ نے ہاتھوں کے
ذریعے لوہے کو موم کی مانند نرم کر دیا اور آگ پانی وغیرہ استعمال کئے بغیر لوہے
سے اعلیٰ معیار کی زرہیں اور دوسری اشیا بنائیں۔ وضاحت ہوتی ہے کہ ابن آدم کے اندر
ایسی قوت موجود ہے جو اپنی توانائی مادی جسم میں منتقل کر کے اس کی صلا حیتوں میں
حیرت انگیز اضافہ کر سکتی ہے۔ قرآن کریم اور الہامی کتابوں نے اس قوت کو روح کے
نام سے متعارف کروایا ہے۔
۶۔ اللہ تعالیٰ زمین و آسمان کا
نور ہیں۔ کائنات میں ہر شے نور اور روشنی کی مخصوص ترکیب ہے۔ اس طرح لوہا بظاہر سخت
مادہ ، جامد ، کثیف اور ٹھوس ہے لیکن اس کی اصل نور یا روشنی ہے۔ روشنی میں مزید
کتنی اور کون سی روشنیاں شامل کی کائیں کہ لوہے کی روشنی کی ترکیب متاثر نہ ہو مگر
اس میں سختی کی مقدار اتنی کم ہو جائے کہ مرضی کے مطابق شکل دی جا سکے۔حضرت داؤد ؑ
کو لوہے کی مقداروں اور ان میں تصرف کا علم تھا۔
احسن الخالقین اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے :
” اور ہم نے لوہا نازل کیا اس میں
شدید سختی ہے اور لوگوں کے لئے فائدے ہیں۔“ (الحدید
: ۲۵)
آیت میں لوہا نرم کرنے کا فارمولا
ہے۔ لوہا نازل کیا یعنی مقداروں کا خاص مجموعہ ایک شکل میں نازل ہو گیا۔ ان
مقداروں کے ساتھ ایک مخصوص مقدار کا الگ سے ذکر کرنے کی حکمت ہے۔ سختی کی مقدار
لوہے کی مقداروں کے ساتھ الگ بیان کی گئی ، اس میں کمی بیشی لوہے کو حسبِ ضرورت
نرم اور سخت بناتی ہیں۔
حضرت داؤد ؑ روشنیوں کی مخصوص
ترکیب (لوہا) میں ایک اور روشنی (سختی ) کی جس قدر چاہتے کمی بیشی فرماتے۔ وہ اپنے
اندر روشنی کے ذخیرے کو ارادے سے مرتکز کر دیتے تھے۔ اس طرح قرآن نے لوہے کی
مقداروں میں موجود سختی کی مقدار میں کمی بیشی کرنے اور اور اس سے ایجادات کرنے کے
علوم کے ساتھ روشنی کے ارتکاز کا علم بھی بیان فرمایا ہے۔ آج کی سائنس نے روشنیوں
کے ارتکاز کو ” لیزر“ کا نام دیا ہے۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں:
”حضرت داؤد ؑ کے قصے میں لوہے کی
ایھادات کا ظہور اور لیزر شعاعوں کے فارمولے کا ذکر ہے۔“
(کتاب : خاتم النبیین محمد رسول
اللہ ﷺ ۔ جلد سوم)۔