Topics

آنکھ میں 30 ہزار لینس

یہ جسم کے مخصوص حصوں کو رگڑ کر الٹرا ساؤنڈ سگنل پیدا کرتی ہیں۔ ان کے بڑے دشمن چمگاڈر ہیں جو آواز کی لہروں سے اپنے شکار کا اندازہ کرتے ہیں ۔ یہ پتنگے الٹرا ساؤنڈ سگنل پیدا کر کے چمگاڈر کے پیدا کردہ سگنلوں میں خلل پیدا کرتے ہیں تاکہ شکار بننے سے محفوظ رہیں۔

          حشرات الارض ۔۔۔ حیوانات میں سب سے بڑا اور متنوع گروہ ہے۔ ان کا تعلق حیوانات کی غیر فقاری× شاخ سے ہے۔ اس گروہ میں موجود ہر نوع ساخت اور خصوصت کی بنا پر منفرد ہے۔ بیش تر حشرات ان روشنیوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جنہیں آدمی دیکھنے سے قاصر ہے۔ سماعت ، لمس اور شامہ کے حواس ان میں حیران کن حد تک حساس اور فعال ہیں۔

          حشرات الارض کی زندگی کا ہر پہلو عجائبات سے بھر پور ہے۔ قرآن کریم کی تین سورتیں نحل ، نمل اور عنکبوت کے نام سے ہیں۔

          علاوہ ازیں قرآن کریم میں حشرات الارض کے گروہ کی آٹھ انواع کا ذکر ہے جن میں مچھر (بعوحتہ) ، مکھی ( ذباب) ، شہد کی مکھی (نحل) ، مکڑی ( عنکبوت)، چیونٹی ( نمل)، پتنگے ( فراش ) ، ٹڈی دَل ( جراد ) ، جوں ( قمل) شامل ہے۔

          ۱۔       ” بے شک اللہ کو اس بات سے کوئی عار نہیں کہ وہ مثال دے جیسے مچھر یا اس سے بڑھ کر۔“ ( البقرہ : ۲۶)

          ۲۔       ” بے شک جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی پیدا نہیں کر سکتے اگر چہ وہ سب اس کام کے لیے جمع ہو جائیں

                   اور اگر ان سے مکھی کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس چیز کو اس سے چھڑا نہیں سکتے۔“   ( الحج: ۷۳)

          ۳۔      ” اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو وحی کی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ٹیٹوں پر چڑھائی ہوئی بیلوں میں

                   اپنے چھتے بنا ۔“      ( النحل: ۶۸)

          ۴۔      ” ایسے لوگوں کی مثال جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں کا کار ساز بنا لیا ہے مکڑی کی مثال جیسی ہے جس نے اپنے

                   لئے گھر بنایا اور بے شک سب گھروں سے زیادہ کم زور ہے مکڑی کا گھر۔ کاش یہ لوگ جانتے۔“ ( العنکبوت: ۴۱)

          ۵۔       ” یہاں تک کہ جب یہ سب چینٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چینوٹی نے کہا۔ اے چینیٹیو! اپنے بلوں میں چلی

                   جاؤ، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلیمان علیہ السلام اور اس کے لشکر تمہیں کچل ڈالیں اور انہیں خبر بھی نہ ہو۔“

                   (النمل : ۱۸)

          ۶۔       ” جس دن سارے لوگ بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہو جائیں گے۔“      ( القارعۃ : ۴)

          ۷۔      ” پھر ہم نے بھیجا ان پر طوفان اور ٹڈی دَل اور جوئیں۔“           ( الاعراف : ۱۳۳)

          ان آیات سے حشرات کی اہمیت اور حیران کن صفات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ اللہ تعالی نے حشرات الارض کی انواع کا ذکر مثالوں سے مختلف پیرایوں میں فرمایا ہے اور نوع آدم کو دعوت دی ہے کہ وہ گروہ حشرات پر تفکر کریں اور ان کے اندر چھپی ہوئی اللہ کی نشانیوں سے واقف ہوں۔

          حشرات پر کام کرنے والے ایک امریکی ادارہ کے مطابق اب تک حشرات کی نو سے دس لاکھ اقسام معلوم کی جا سکی ہیں جو زمین پر حشرات کی اصل تعداد کے مقابلہ میں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حشرات کے خاندان اوراقسام میں اتنا زیادہ تنوع ہے کہ روزانہ کے حساب سے سینکڑوں اقسام دریافت کی جائیں اور ان کی درجہ بندی کی جائے پھر بھی یہ سلسلہ ختم نہ ہو۔

          حشرات کی انواع اور ان کی ذیلی اقسام کی تعداد کے بارے میں ماہرین حیاتیات حتمی نتیجہ پر متفق نہیں۔ محتاط اندازہ کے مطابق بیس لاکھ اقسام کی انواع موجود ہو سکتی ہیں۔ یہ اندازہ بھی لگایا گیا ہے کہ حشرات کی اقسام تیس کروڑ سے زائد ہو سکتی ہیں۔

          حقیقت یہ ہے کہ حشرات الارض کی تعداد اور اقسام بتانے سے ماہرین قاصر ہیں۔

          چینٹیوں کی بعض قسمیں بڑی کالونیاں بناتی ہیں۔ محققین کا خیال ہے کہ ان کالونیوں میں لاکھوں چیونٹیاں بستی ہیں، دیمک کی ایک کالونی میں 60 ہزار سے 20 لاکھ تک افراد بستے ہیں جب کہ ایک ٹڈی دَل میں اربوں ٹڈیاں موجود ہوتی ہیں۔

          حشرات کا اتنی بڑی تعداد میں موجود ہونا ان کے حجم اور ان میں افزائش نسل غیر معمولی صلاحیت پر منحصر ہے۔ ایک اندازہ کے مطابق دیمک کی ملکہ روزانہ تقریباً 30 ہزار انڈے دیتی ہے۔

          خام اندازہ کے مطابق کرہ ارض پر ایک آدمی کے مد مقابل حشرات کی تعداد بیس کروڑ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔

 

          حشرات میں حواس : حشرات الارض میں حواس سے متعلق اعضا کی ساخت ممالیہ اور دوسرے فقاری حیوانات سے بالکل مختلف ہے۔

          بصارت : حشرات کے حواس میں سب سے عجیب و غریب حس بصارت کی ہے۔ وجہ ان کی آنکھوں کی منفرد ساخت ہے۔ عموماً آنکھ کے حوالہ سے تاثر ابھرتا ہے کہ یہ لینس پر مشتمل کیمرہ ہے جس میں روشنی کو کم یا زیادہ کرنے کا انتظام ہے لیکن کیڑوں میں آنکھ کی صورت اور ساخت بالکل الگ ہے۔ محقق اسے مرکب آنکھ(compound eye) کہتے ہیں۔

          کمپاؤنڈ آنکھ ایک لینس کے بجائے سینکڑوں اور بعض اوقات ہزاروں لینسوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ تمام لینس الگ الگ شبیہ بنانے کے بجائے ایک مرکز پر روشنی کا ارتکاز کرتے ہیں۔ نتیجہ میں انتہائی واضح اور روشن ایک شبیہ بنتی ہے۔

          محقق کہتے ہیں کہ یہ ہمارا اندازہ ہے کہ الگ الگ لینس مل کر ایک شبیہ بناتے ہیں ورنہ حشرات کی آنکھ سے چیزیں کتنی واضح اور کیسی نظر آتی ہیں اس کے بارے میں کیڑا ہی بتا سکتا ہے۔

          دوسری اہم بات یہ ہے کہ حشرات کی آنکھیں زیادہ تر 300o سے 360o کے قریب تک کروی زاویوں میں دیکھ سکتی ہیں۔ یعنی بیک وقت دائیں بائیں ، اوپر نیچے، سامنے حتی کہ کسی حد تک پیچھے بھی دیکھ سکتی ہیں۔

          مزید یہ کہ مرکب آنکھوں کے علاوہ کیڑوں میں سادہ آنکھیں بھی عموماً موجود ہوتی ہیں۔ کسی حشرہ میں اگر دو آنکھیں مرکب ہیں تو دو ، چار یا چھ سے مراد ایک لینس پر مشتمل آنکھ ہے۔ چناں چہ مرکب اور سادہ دونوں طرح کی آنکھیں مل کر بصارت کی حس کو غیر مؑمولی ہیت اور فعالیت بخشتی ہیں۔

          مرکب آنکھ کی مثال جدید دور میں pixel اور ان سے مل کر بننے والی تصویر سے دی جا سکتی ہے۔سینکڑوں ہزاروں لینس ایک منظر کو چھوٹے چھوٹے تصویری ٹکڑوں یا پکسل میں تقسیم کر کے دوبارہ یک جا کرتے ہیں۔ اس سے منسلک سادہ آنکھیں کو اندھیرے اور روشنی کے اعتبار سے واضح کرتی ہیں۔ اس طرح دماغ تمام بصری اطلاعات کی واضح کرتی اور اعلیٰ تصویر بناتا ہے جس کی مدد سے کیڑا گرد و پیش سے باخبر رہتا ہے۔

          حشرات میں ایک نوع ڈریگن فلائی ہے جس کی دو مرکب آنکھوں میں ہر ایک پر تقریباً تیس ہزار لینس نصب ہیں۔ ایک آنکھ ایک نصف کرہ کی صورت میں ہے۔ چناں چہ دونوں نصف کرے مل کر 360o کا بصری میدان تخلیق کرتے ہیں۔ اس کے برعکس آدمی (انسان نہیں) کی آنکھ تقریباً 140o کے بصری میدان میں دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

          اسی طرح مکڑی (Spider) کی زیادہ تر اقسام میں آنکھوں کے چار جوڑے موجود ہیں۔ ہر جوڑا حجم میں دوسرے سے مختلف ہے۔ مکڑی کی آنکھیں سادہ اور مرکب ساخت کے بین بین (درمیان) ہیں۔

          اگر مکڑی کی آنکھ کا ایک جوڑا منظر کو واضح کرتا ہے تو دوسرا روشنی کی کمی بیشی کو ناپتا ہے۔

          تیسرا گرد و پیش کی حرکات وضاحت سے دیکھتا ہے اور چوتھا رنگوں میں تمیز کرتا ہے۔

          اس طرح مکڑی ایک جوڑے سے تمام بصری اطلاعات وصول کرنے کے بجائے چار جوڑوں سے منقسم اطلاعات وصول کرتی ہے جس سے بصری کارکردگی کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔

           سماعت : حشرات میں سماعت کی حس کسی مخصوص حصہ یا عضو کے بجائے جسم کے مختلف حصوں اور بعض اور بعض میں تو تمام جسم میں پھیلی ہوتی ہے۔ یعنی سارا جسم یا زیادہ تر حصے صوتی ارتعاش کے لیے کان کے پردہ کی طرح حساس ہیں۔ بعض کے پردوں کا نچلا حصہ سماعت کا کام کرتا ہے ۔ بعض حشرات کے پیٹ اور ٹانگوں پہ موجود حساس جھلی آواز کی لہریں قبول کرتی ہے۔

          پتنگوں کی ایک قسم (hawkmoths) الٹرا ساؤنڈ لہریں سننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ جسم کے مخصوص حصوں کو رگڑ کر الٹرا ساؤنڈ سگنل پیدا کرتی ہیں۔ ان کے بڑے دشمن چمگارڈر ہیں جو آواز کی لہروں سے اپنے شکار کا اندازہ کرتے ہیں۔ یہ پتنگے الٹرا ساؤنڈ سگنل پیدا کر کے چمگاڈر کے پیدا کردہ سگنلوں میں خلل پیدا کرتے ہیں تاکہ شکا ر بننے سے محفوظ رہیں۔ ہاک موتھ کی سننے اور آواز پیدا کرنے کی صلاحیت آدمی سے زیادہ ہے۔ اسی طرح جھنگر کی بعض اقسام 80 ہزار ہرنز سے اوپر الٹرا ساؤنڈ پیدا کر سکتی ہیں جب کہ آدمی 20 سے 20 ہزار ہر ٹز تک کی آوازیں سنتا ہے۔

 

           دوسرے حواس: حواس کےہر شعبہ میں حشرات غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جھنگر کئی اعتبار سے عجیب و غریب خصوصیات کے حامل ہیں۔ یہ زیرِ زمین سترہ دن تک لاروا اور پیوپا کی حالت سے گزر کر بلوغت کے مرحلہ میں داخل ہوتے ہیں اور گرمیوں میں صبح سے شام تک مختلف آوازیں نکالتے ہیں۔ان میں آواز پیدا کرنے کے مخصوص اعضا پیٹ کے اندر موجود ہیں جب کہ سماعت کے لیے دھڑ اور ٹانگوں کے کچھ حصے مخصوص ہیں۔

          ایک قسم کے جھنگر ایسے ہیں کہ 100 ڈیسیبل (decibel) سے زیادہ طاقت ور آواز پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ اتنی بلند آواز ہے کہ ہمارے کانوں کے لیے تکلیف دہ۔ بعض جھینگر جس فریکوئنسی کی آواز پیدا کرتے ہیں وہدوسرے جانوروں کی سماعت کے لیے نقصان دہ اور آدمی کے لیے ناقابل سماعت ہے۔

          صوتی اور برقی مقناطیسی ارتعاش محسوس کرنے کے لئے حشرات کے سر پر قدرت نے اینٹینا نصب کیا ہے۔ نر مچھر اپنے اینٹینا سے مادہ مچھر کے پروں کی رفتار ، ارتعاش اور ممکنہ فاصلہ کا اندازہ کرتے ہیں۔ ان میں موجودہ اینٹینا اپنی ساخت میں انتہائی حساس اور فریکوئنسی کی وسیع حدود کے لیے بنا ہے۔

           پیغام رسانی: حشرات میں لہروں کے ذریعے تبادلہ خیال ، کیمیائی مرکبات کی مدد سے اپنی نوع کے دوسرے افراد کو آگاہ کرنا اور مختلف حرکات کے زریعے خبردار کرنا عام ہے۔ یہ ایسے طریقہ کار ہیں جو نوع آدم میں عام نہیں۔

          مثال کے طور پر ایک آدمی دوسرے کا شکر گزار ہے اور اظہار کے لیے الفاظ کی مدد سے شکریہ کہتا ہے۔ لگے بندھے اصول کے تحت دوسرا فرد ردِ عمل میں شکریہ یا اس جیسا دوسرا لفظ ادا کرتا ہے۔

          حشرات اور دوسرے حیوانات میں تبادلہ خیال کا جو طریقہ مروج ہے اس میں مخاطب سامعین کو کوڈز پر مبنی مختصر اطلاع بھیجتا ہے جسے وصول کنندہ ڈی کوڈ کر کے تفصیلی معانی میں سمجھتا ہے۔ اس طرح کم وقت مین تیز اور مؤثر پیغام رسانی انجام پاتی ہے۔

          الفاظ استعمال کئے بغیر تبادلہ خیال حشرات میں عام ہے کیوں کہ اطلاع جب الفاظ کا جامہ نہیں پہنتی تو اپنے عمل میں زیادہ مؤثر اور تیز تر ہوتی ہے۔ باطنی علوم کے ماہرین یہاں ” انا کی لہروں “ کا قانون متعارف کرواتے ہیں۔ اطلاع نشر اور وصول کرنے کا تیز ترین طریقہ انا کی لہروں پر مبنی ہے۔

          شیخ عظیمی فرماتے ہیں:

          ” دیکھا گیا ہے کہ گونگا آدمی اپنے ہونٹوں کی خفیف جنبش سے سب کچھ کہہ دیتا ہے اور سمجھنے کے اہل سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔یہ طریقہ بھی پہلے طریقہ کا عکس ہے۔ جانور آواز کے بغیر ایک دوسرے کو اپنے حال سے مطلع کر دیتے ہیں۔ یہا ں بھی انا کی لہریں کام کرتی ہیں۔ درخت آپس میں گفتگو کرتے ہیں۔ یہ گفتگو صرف امنے سامنے کے درختوں میں ہی نہیں ہوتی بلکہ دور دراز درختوں میں بھی ہوتی ہے جو ہزاروں میل کے فاصلے پر واقع ہیں۔ یہی قانون جمادات میں بھی رائج ہے۔ کنکروں ،پتھروں ، مٹی کے ذرّوں میں من و عن اسی طرح تبادلہ خیال ہوتا ہے۔“

          حشرات اور عقل و شعور : حشرات اپنی جسامت میں جتنے چھوٹے ہیں، عقل و شعور اور فہم و فراست میں اتنے بڑے ہیں۔ تعمیرات ، انجینیرنگ ، باغ بانی ، طب ، کان کنی غرض ہر وہ شعبہ جس پر نوع آدم نازاں ہے، حشرات الارض ان شعبوں میں آدمی سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔ واضح مثال یہ ہے کہ آدمی نے حشرات کے طریقہ کار سے سیکھا ہے اور اسے اپنے انداز میں نقل کیا ہے۔ روبونکس میں حشرات اور ان کی کارکردگی کی ہر حوالہ سے نقل کی کوشش کی جاتی ہے۔ ایئر کنڈیشنگ کے نظام سے یہ مخلوق اپنے باوا آدم کے زمانہ سے واقف ہے۔ اسی طرح لاسلکی نظام کے تحت ابلاغ اور برقی مقناطیسی پیغام رسانی حشرات الارض میں فطری طور پر موجود (Built-in) ہے جب کہ نوع آدم میں موبائل فون کی ایجاد کو عقل کا عظیم کارنامہ قرار دیا جاتا ہے۔

          کتاب ” قلندر شعور “ میں چیونٹیوں کی کئی اقسام اور ان کی صلاحیت بیان کی گئی ہے۔ ان میں چند کا مختصراً ذکر پیشِ خدمت ہے۔

           باغ بان چیونٹیاں: چینوٹیوں کی ایک قسم باغ بان ہے۔ پھپوند کے باغات لگاتی ہیں اور کمال مہارت سے باغوں کی افزائش کرتی ہیں۔ باغ مکان کی گیلریوں اور خانوں میں بنائے جاتے ہیں۔ چیونٹیوں کے لئے ان کی حیثیت پھولوں کے باغ کی ہے۔ چیونٹیاں ان باغات کو بطور غذا استعمال کرتی ہیں اور ابادی کے تمام افراد اس غذا سے مستفید ہوتے ہیں۔

          انجینیئر چیونٹیاں: انجینیئر چیونٹیاں ہنر مندی کا اعلیٰ نمونہ ہیں۔ بڑا کمرا تعمیر کرتی ہیں جو شاہی محل کت طور پر استعمال ہوتا ہے۔ یہاں ملکہ قیام کرتی ہے۔ مزدور اور کارکن ملکہ کی خدمت گزاری میں مصروف رہتے ہیں۔ شاہی محل گیلریوں کے ذریعے ہر طرف ملا ہوتا ہے۔ گیلریوں میں غذا کو ذخیرہ کرنے کے لیے جگہ جگہ عام خانے ہوتے ہیں۔ بعض خانوں میں مزدور کارکن رہتے ہیں۔ قلعہ کی بناوٹ اس طرز پر کی کجاتی ہے کہ پانی اور تپش سے محفوظ رہے۔

          فوجی چیونٹیاں: زیادہ تر خانہ بدوش ہوتی ہیں، طور طریقے فوجیوں سے ملتے جلتے ہیں۔ جس طرح فوجی کیمپ اور جنگلوں میں زندگی بسر کرتے ہیں اسی طرح کا طرز رہائش ان کا ہے۔ قافلہ کی شکل میں سفر کرتی ہیں۔ ملکہ مصاحیبین کے وسط میں ہوتی ہے۔ جو کیڑا راستہ میں حائل ہوتا ہے ، محافظ چیونٹیاں اسے ہلاک کر دیتی ہیں۔ دن بھر سفر کے بعد رات کے وقت کسی درخت پر ستون کی شکل میں جمع ہو جاتی ہیں۔

          ان کے جمع ہونے انداز دل چسپ ہے۔ اکٹھے ہوتے وقت یہ گیلریوں کی طرح درمیان میں راستہ چھوڑتی جاتی ہیں تاکہ ہوا کا گزر ہو۔ گویا تنفس کت سائنسی اصولوں سے واقف ہیں۔ رات میں آرام کرتی ہیں۔ سورج طلوع ہوتے ہی پہلے ایک درجن چیونٹیاں علیحدہ ہو جاتی ہیں ، اس طرح ایک کے بعد ایک قافلہ روانہ ہوتا ہے۔

          کائنات میں چھوٹی سے چھوٹی یا بڑی سے بڑی ہر تخلیق اللہ کی سناعی کا مظہر ہے ۔ جو لوگ دن رات اللہ کی سناعی میں غور و فکر کرتے ہیں ، ان کا مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی شے بے مقصد پیدا نہیں کی۔

( حشرات کی ایک قسم ایسی ہے جسے میت کی خبر ہو جاتی ہے اور وہ فوراً اس کے اندر گھر بنانے پہنچ جاتی ہے۔ ڈیڈ باڈی میں انڈے دیتی ہے، انڈے کیڑے بنتے ہیں اور کیڑے مٹی کے وجود کو ذرّات میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ فرد کی موت کس وقت واقع ہوئی ، متعلقہ ماہرین جاننے کے لیے انہی حشرات کی مدد لیتے ہیں۔ وہ مردہ جسم سے کیڑے اٹھاتی ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ سب سے بڑا نمونہ لیا جائے۔ کیڑے کی نشونما کی اسٹیج کو دیکھتے ہوئے ہوئے فرد کے مرنے کے وقت کا تعین کیا جاتا ہے۔ ماہرین کیڑے کی افزائش سے کیڑے کی عمر کا تعین کرتے ہیں اور اس کی مدد سے یہ بھی دیکھتے ہیں کہ فرد کی موت کس درجہ حرارت میں واقع ہوئی۔

           

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم