Topics
” اس نے زمین اور آسمانوں کو برحق پیدا کیا
ہے اور تمہاری صورت بنائی اور بڑی عمدہ بنائی ہے ، اور اسی کی طرف آخر تمہیں پلٹنا ہے ۔“ (التغابن : ۳)
” وہی تو ہے جو تمہاری ماؤں کے پیٹ
میں تمہاری صورتیں جیسی چاہتا ہے ، بناتا ہے۔“ (آل عمران : ۶)
” وہ اللہ اللہ ہی ہے جو تخلیق کا
منصوبہ بنانے والا ہے اور اس کو نافذ کرنے والا
ہے ، اس کے لیے بہترین نام ہیں۔“ (الحشر
: ۲۴)
ان تین آیات کے علاوہ بھی قرآن
کریم میں متعدد آیات ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی صفت ”
المصور“ کا ذکر ہے۔ بصور کم اور مصور کا مصدر ”صور“ ہے جس کے لغوی معانی شکل و
صورت میں ظاہر کرنا ، صورت گری کرنا یا شکل ، خدوخال اور رنگ روپ کو ظاہر کرنے کے
ہیں۔ مصور اسم فاعل ہے یعنی جو صورت گری کرتا ہے یا شکل و صورت اور خدوخال میں کسی
شے کو ظاہر کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفت ” المصور“ کا
جن آیات میں ذکر ہے ان میں غور و فکر سے
یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ احسن الخالقین ہیں جو کسی بھی شے کو منشا اور
مرضی کے مطابق پیدا فرماتے ہیں اور مخلوقات میں ترتیب و تنوع قائم رکھتے ہیں۔
زندگی کے قیام کے لیے وسائل مہیا کرتے ہیں اور ہر تخلیق کو منفرد و یکتا صورت عطا
فرماتے ہیں۔
تفکر سے وضاحت ہوتی ہے کہ محض ایک
دنیا نہیں ، بے حساب دنیائیں اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی ہیں۔ ان میں مخلوقات کا
اعداد و شمار ممکن نہیں ۔ اتنے بڑے نظام میں ہر تخلیق کی شکل و صورت جدا ہونا ،
اللہ رب العالمین کی قدرت کاملہ ، عظیم ترین خالق اور صفت ”المصور“ ہونے کا اظہار
و اعلان ہے۔
بلا شبہ اللہ کریم نے اپنی تخلیقی
صفات نوع آدم کو عطا کی ہیں لیکن انسان اللہ تعالیٰ کے تخلیق کردہ و وسائل کے
ذریعے ہی کوئی شے بنا سکتا ہے اور اللہ کی صفت ”المصور“ کے تحت بنائی ہوئی چیزوں
کی صورت گری بھی کرتا ہے۔ شکل و صورت تخلیق کرنا، اللہ تعالیٰ کی صفت ہے۔ اللہ نے
انسان کو اپنی صفات کا علم عطا کیا ہے جس میں صفت ”مصور“ شامل ہے مگر خالق کائنات
نے واضح کر دیا ہے کہ اللہ تخلیق کرنے والوں میں بہترین خالق ہے۔
قارئین کرام ! تاریخ میں بڑے نام
اور مصور گزرے ہیں جن کے فن پارے دنیا کے مختلف عجائب گھروں اور آرٹ گیلریوں کی
زینت ہیں۔ مصور کی مہارت اور شہرت اور تصویر کے تاریخی ہونے کی بنا پر کئی فن پاروں کی قیمتیں دسترس سے
باہر ہوتی ہیں کہ ہر شخص نہیں خرید سکتا ۔
ہر دور اور زمانہ میں مصور خواتین
و حضرات نے مناظر فطرت ، معاشرت ، فکشن ، تہذیب و تمدن اور جمالیات کی مختلف طرزوں
پر جو ہر دکھائے۔
ایک مصور کو خیال کا آنا ، کیال پر
توجہ مرکوز ہونا ، خیال کا تصور بننا ، تصور میں گہرائی پیدا ہونا اور بنیادی خاکہ
(Sketch)
کی صورت میں کاغذ پر منتقل کرنا، خاکہ میں مزید تفصیلات کو واضح کرنا اور آخر میں
رنگ کر کے حتمی شکل میں لانا ، بظاہر سادہ اور سیدھا عمل ہے لیکن روحانی علوم کے
ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ اگر اس عمل پر تفکر کیا جائے تو اللہ کی تخلیقی
صفات کا ادراک ہونا ممکن ہے۔
مثال : مصور اسٹوڈیو میں بیٹھا ہے، ایزل (easel) پر کورا سفید کینوس لگا ہے ، ساتھ ہی میز پر
مختلف رنگوں کے پینٹ اور متعلقہ سازو سامان ہے۔ مصور کے ہاتھ میں سادہ کاغذ کی نوٹ
بک اور دوسرے ہاتھ میں پنسل ہے۔ اسی ہاتھ سے چہرہ ٹکائے مصور گہری سوچ میں ہے کہ
دفعتاً کوئی خیال آنے پر چند مبہم خاکے کاغذ پر بنا دیتا ہے۔ خاکے بنانے کے بعد
دوبارہ گہری سوچ میں داخل ہوتا اور خاکے کے واضح ہوتے چلے جاتے ہیں۔ الغرض اس عمل
کو متعدد بار دہرانے سےا یک وقت ایسا آتا ہے کہ اب مصور کے خیال میں خاکے اس قابل
ہو چکے ہیں کہ انہیں کینوس پہ منتقل کیا جائے۔ چناچہ مصور خاکوں کو مزید وضاحت اور
تفصیل کے ساتھ کینوس پہ منتقل کرتا ہے۔
یہاں بھی سوچ بچار کا عمل جاری ہے۔
حتی کہ کینوس پر خاکے اتنے واضح ہو جاتے ہیں کہ مصور ان میں رنگ کرنے کا فیصلہ
کرتا ہے۔ بے رنگ خاکے کو رنگوں کی دنیا میں لانے کے لیے مصور دوبارہ تفکر میں ڈوب
جاتا ہے۔ رنگ ، اندھیرے روشنی ۔ رنگوں کے شیڈز اور مخصوص امتزاج اور سارے تصوری
لوازمات پورے کرتا ہے اور پینٹنگ کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔
ظاہراً پینٹنگ جسمانی عمل ہے لیکن
مصور جو کچھ پینٹ کرتا ہے اسے غور و فکر کی غیر مرئی دنیا سے مادی دنیا میں منتقل
کرتا ہے۔ پینٹنگ کا عمل مختلف مراحل سے گزر کر آخر کار مکمل ہوتا ہے۔
مصور کینوس سے چند قدم پیچھے ہٹ کر
پینٹنگ کا جائزہ لیتا ہے اور اطمینان و خوشی کی تصویر بن جاتا ہے کیونکہ طویل عمل
بخوبی انجام پذیر ہوا۔
تصویر نمائش میں لگتی ہے اور
ناظرین تصویر کو دیکھ کر تخیل کی دنیا میں چلے جاتے ہیں اور خود کو تصویر کا حصہ
محسوس کرتے ہیں۔
تصویر یا پینٹنگ کیا ہے؟ یہ ایک
منظر ہے جس میں حیرت انگیز درخت ہیں جو ہماری زمین پر موجود درختوں سے مختلف ہیں۔
منظر میں سنہری رنگت کے لوگ ہیں جن کا قد کاٹھ ، لباس اور جسمانی ہیئت ہم سے قدرے
مختلف ہے لیکن دیکھتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ
یہ کسی دوسرے سیارہ کے انسان ہیں۔
منظر میں پرندے بھی ہیں اور پس
منظر میں دو پہاڑ ہیں جن پر سفید گلابی
رنگ کے بادل منڈ لا رہے ہیں۔ الغرض سارا منظر کسی اور دنیا کا لگتا ہے جس میں
انسان ، چرند ، پرند ، درخت ، پہاڑ ، ماحول ، آب وہوا اور سب کچھ ہمارے سیارہ سے
بہت مختلف ہے۔
اس پینٹنگ کے بارے میں ناظرین کا
عمومی تاثر بنتا ہے کہ سب مصور کی ذہنی اختراع ہے یا تخیل کی کرشمہ سازی ہے اور
اسے فکشن یا فینٹیسی کے زمرہ میں شامل کر لیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ مصور خود بھی اس
پینٹنگ کو اپنے ذہن کی تخلیق سمجھتا ہے۔
بلا شبہ مصور
کا ذہن اس سارے کام میں مصروف رہا لیکن جو خیالات مصور کو آئے ، اس نے پر
توجہ دی اور تفکر کیا ، وہ خیالات کہاں سے اور کیسے آئے؟ اگر کہیں سے ائے ہیں اور
مصور کے ذہن نے قبول کر کے ، تفکر کی مدد سے سمجھ کر کینوس پر منتقل کیا ہے تو پھر
اس میں مصور کی اختراع کیا ہوئی؟ جب تک مصور کو خیال نہیں ایا ، وہ کیال کہاں تھا،
کس صورت اور ہیئت میں موجود تھا؟
مقصد کلام یہ ہے کہ خیال آئے بغیر
فرد تصور کر سکتا ہے اور نہ تصویر کو پنسل یا برش کی مدد سے کسی سطح ( کاغذ یا
کینوس) پر منتقل کر سکتا ہے۔ جب کام پورا ہو جاتا ہے تو ہم اس کام کو غیر حقیقی
اور فکشن سے تعبیر کر دیتے ہیں ۔ جبکہ خیال اگر موصول نہ ہو تو فرد ہرگز تصویر
نہیں بنا سکتا۔ جس عمل کی بنا پر آدمی تصویر کشی کرتا ہے اور اپنے تخیل پہ نازاں
ہوتا وہ غیر حقیقی کیوں کر اور کیسے ہو سکتی ہے؟
قارئین کرام ! کیال کے علم یا سائنس پر توجہ
نہیں دی گئی اور اس کی اہمیت و حقیقت کو صحیح طور پر نہیں سمجھا گیا۔زندگی کا کوئی کام بشمول مصوری ، ایجادات ، تحریر نگاری
حتیٰ کہ چلنا پھرنا ، کھانا پینا اور ہنسنا بولنا خیال کے بغیر زیرِ بحث نہیں آتے۔
قرآن کریم میں بار بار مختلف
پیرایوں میں نظام کائنات میں تفکر کی دعوت دی گئی ہے ۔ تفکر کیا ہے؟ خیال پہ توجہ
مرکوز کرنا اور اس کی کنہ سے واقف ہونا تفکر ہے۔ گویا قران کریم میں کیال کے علم
کو جاننے اور سمجھنے کی دعوت دی گئی ہے۔
روحانی علوم کے ماہرین نے خیال کے
قرآنی علم کو وضاحت سے بیان کیا ہے اور خیال کی حقیقت سے آگاہی دی ہے ۔ ہم جن
خیالات کو فکشن سے تعبیرکرتے ہیں ، ضروری نہیں کہ وہ فکشن ہوں، اس لئے کہ دوسرے
سیارہ یا نظام شمسی سے لہریں اپنے اندر اس دنیا کی اطلاعات لے کر ہامرے سیارہ کی
طرف سفر کرتی ہیں۔ جو خیال وقتاًوقتاً موصول ہوتے رہتے ہیں ان کا تعلق زمین کے کسی
حصہ ، کسی مخلوق ، نظام شمسی کے کسی سیارہ یا کائنات کے بعید گوشوں سے ہوتا ہے۔
شہنشاہ ہفت اقلیم حضرت بابا تاج
الدین ناگپوری ؒ اسرارِ خیال کی عقدہ کشائی ان الفاظ میں کرتے ہیں:
” کہکشانی نظاموں اور ہمارے درمیان بڑا مستحکم رشتہ ہے۔ پے در پے کو خیالات
ذہن میں آتے ہیں وہ دوسرے نظاموں اور ان کی آبادیوں سے ہمیں موصول ہوتے رہتے ہیں۔
یہ خیالات روشنی کے ذریعے ہم تک پہنچتے ہیں۔ روشنی کی یہ چھوٹی بڑی شعاعیں خیالات
کے لاشمار تصویر خانے لے کر آتی ہیں ۔ ان ہی تصویر خانوں کو ہم اپنی زبان میں تو
ہم ، خیال ، تصور اور تفکر وغیرہ کا نام دیتے ہیں۔ سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہ ہماری
اختراعات ہیں لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ تمام مخلوق کی سوچنے کی طرزیں ایک نقطہ مشترک
رکھتی ہیں ۔ وہی نقطہ مشترک تصویر خانوں کو جمع کر کے ان کا علم دیتا ہے ۔ علم نوع
اور فرد کے شعور پر منحصر ہے۔ شعور جو
اسلوب اپنی انا کی مقدار کے مطابق قائم کرتا ہے تصویرخانے اس ہی اسلوب کے سانچے
میں ڈھل جاتے ہیں۔“
ذہن کو کائناتی لہریں قبول کرنے
والا ریسیور کہہ سکتے ہیں جو کائنات میں
پھیلی لہروں کو قبول کر کے اپنی ساخت کے
مطابق پراسیس کرتا ہے۔ رسیور میں نقائص ہوں تو لہریں مسخ شدہ حالت میں وصول کرنا
الگ بات ہے۔ ریڈیو سیٹ جب تک مخصوص فریکوئنسی کی لہروں کی جانب مرکوز نہ ہو تو ان
لہروں میں مخفی معلومات حاصل نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح ہم اپنے ذہن کو مخصوص خیالات
(لہروں) کی جانب متوجہ کر دیں تو وہ خیالات زیادہ واضح اور روشن موصول ہوتے ہیں۔
یہی عمل عرف عام میں تفکر کہلاتا ہے۔
تفکر کے ذریعے کائنات کے دور دراز
گوشوں سے آنے والی لہروں سے ربط قائم کر کے ہم کائنات کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ ارد
گرد کی اشیا میں غور کرنے سے ان کی کنہ سے وقوف حاصل ہوتا ہے۔
جب ذرّہ پر تفکر کیا گیا تو دوسرے
الفاظ میں ذرّہ کی لہروں سے ربط قائم
ہونے سے ذرّہ کے علوم ذہن کی وسعت کے
مطابق سائنس دانوں کو منتقل ہوئے۔ یہی صورت حال دوسری ایجادات کی ہے۔
دلچسپ صورت حال : انسانی تخیل پہ مبنی بے شمار ناولز ، فلمیں یا
تصویریں ایسی ہیں جنہیں ماورائیت ، فکشن ، تخیلاتی یا فرضی تصور کیا جاتا ہے اور
محض ذہن کی اختراع سمجھا جاتا ہے کیونکہ جس گرد و بیش اور ماحول سے ہم مانوس ہیں
یہ اس سے مختلف ہیں۔ چونکہ یہ خیالات ہمارے لئے اجنبی ہیں اس لئے ان پر غور کرنے
کے بجائے فرضی کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔
تصور کیجیے کہ سیارہ زمین سے روشنی کی لہریں
ہماری نوع اور ماحول کے تصویر خانے لیے کسی دوسرے
آباد سیارے تک پہنچتی ہیں ، وہاں متوجہ ذہن سےٹکراتی ہیں اور ذہن کی ساخت
وہیئت کے مطابق پراسیس ہو کر کینوس پہ منتقل ہو جاتی ہیں یا کوئی شخص ان خیالات کو
یک جا کر کے فلم بنا لیتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس سیارہ کے انسان ہماری شکلیں
،جسمانی ساخت اور ماحول کو دیکھ کر حیران اور محفوظ ہوتے ہوں۔
اللہ تعالیٰ
احسن الخالقین ہیں، عظیم ترین مصور ہیں اس لیے کہ اللہ کی صفات میں سے ایک
”المصور“ ہے۔ ہر آباد سیارہ میں موجود انسانوں ، نباتات و جمادات کی شکلیں اور
صورتیں __فن پارے ہیں۔
تاج الاولیا __بابا
تاج الدین ؒ فرماتے ہیں:
” انسان لاشمار سیاروں میں آباد
ہیں اور ان کی قسمیں کتنی ہیں اس کا اندازہ قیاس سے باہر ہے۔ یہی بات فرشتوں اور
جنات کے بارے میں کہہ سکتے ہیں۔“
محترم قارئین ! اگر ہم لامتناہی
اور وسیع و عریض کائنات کا مطالعہ کرنا چاہیں اور اس میں موجود انسان ، جنات ،
فرشتوں اور دوسری مخلوقات سے غیر مبہم اور واضح ربط قائم کرنا چاہیں تو یہ کس طرح
ممکن ہے__؟
اس وقت ممکن ہے
کہ جب ہم اپنا ذہن تمام اطراف اور اشیا سے ہٹا کر خیال کو ایک خیال میں
مرتکز کردیں،کائناتی لہروں سے ہمارا ربط قائم ہو اور ہم اللہ کی منشا کے مطابق
کائنات کا حتی المقدور وقوف حاصل کریں۔