Topics

تبادلہ خیال

باعث ِ تخلیق ِ کائنات ، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کے معجزات روحانی علوم کا لازوال خزانہ ہیں۔ ہر معجزہ کائناتی علوم کی روشن کتاب ہے جسے سمجھنے کی تمام صاحبِ یقین خواتین و حضرات کو دعوت دی گئی ہے۔

رسول پاکﷺ کے بعض معجزات نباتات ، جمادات اور حیوانات سے گفتگو سے متعلق ہیں۔ یہ نوعیں فہم اور شعور رکھتی ہیں اور ماحول اور مخلوقات سے واقفیت رکھنے کے علاوہ خیالات کا تبادلہ کرتی ہیں۔

معجزاتِ رسول ﷺ میں سے دو پیش ہیں :

۱۔ جنات کی ایک جماعت نے حضور پاکﷺ سے سوال کیا کہ آپﷺ کے پیغمبر ہونے کی گواہی کون دے گا؟ آپ ﷺ نے ایک درخت کی طرف اشارہ کرتے کرتے ہوئے فرمایا، یہ درخت گواہی دے گا۔ آپ ﷺ نے اس درخت سے پوچھا کہ میں کون ہوں؟ درخت نے گواہی دی کہ آپﷺ اللہ کے فرستا دہ بندے  اور آخری نبیﷺ ہیں۔ یہ دیکھ کر جنات کی جماعت ایمان لے آئی۔

۲۔ حنین جذع کا معجزہ جس میں کھجور کے تنے نے رسول پاک ﷺ سے جدا ہونے کے غم میں آہ و زاری کی جسے مسجد نبوی ﷺ میں صحابہ کرام نے بھی سنا۔ آپﷺ نے کھجور کے تنے پر دست شفقت رکھا۔ وہ چپ ہوگیا مگر بچے کی طرح ہچکی لگی ہوئی تھی۔ حضور پاکﷺ نے فرمایا ،” اگر تو پسند کرے تو میں تیرے لیے دعا کروں اور اللہ تعالیٰ تجھے جنت الفردوس میں اس مقام پر جگہ دے جہاں میں ہوں۔ تو وہاں ابد تک آباد تک رہے ۔ انبیا اور اولیا تیرے پھل کھایا کریں۔“

کھجور کے تنے نے عرض کیا ، ایسا ضرور فرمایئے۔ آپ ﷺ کھجور کے تنے کو مسجد میں دفن کروا دیا۔

غور کیجئے___ ایک معجزے میں رسول کریمﷺ نے شاداب درخت اور دوسرے میں خشک و بریدہ درخت سے گفتگو فرمائی۔ شاداب درخت نے آپﷺ کے نبی ہونے کی گواہی دی۔ وہ آپﷺ کے نبی ہونے کا علم رکھتا تھا اور اسے شعور تھا کہ نبی ہونے کا کیا مطلب ہے۔

رائج علوم سر سبز درخت کو زندہ تصور کرتے ہیں اور کٹے ہوئے درخت کو مردہ کہتے ہیں۔ مضمون میں بیان کئے گئے دوسرے معجزے میں ” مردہ درخت“ نے رسول کریمﷺ سے فریاد کی او ر شدت غم سے رویا پھر جنت الفردوس میں حضور پاک ﷺ کی قربت کی نوید سن کر خوشی کا اظہار کیا۔ ان معجزات سے حیات و ممات کے راز سے بھی پردہ اٹھتا ہے۔

معجزات سے عیاں ہے کہ نباتات کا شعور آدمی ( نہ کہ انسان) کے شعور سے بہتر ہے کیونکہ نباتات اور جمادات کے کسی فرد نے اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کو تسلیم کرنے سے انکار نہیں کیا جبکہ آدمیوں  کی کثیر تعداد نے آپ ﷺ کے پیغام کو نہیں سنا۔ کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب تک ، احسنِ تقویم انسان بننے  کا شرف حاصل نہیں کرتا، اس کا شعور نباتات و جمادات اور حیوانات سے پست ہے؟

” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اسے اسفل سافلین میں پھینک دیا۔“              (التین  :      ۴۔۵)

اسفل سافلین کی تعریف یہ ہے :

” ہم نے انسان کو سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا ۔“     (الحجر : ۲۶)

 سوال  :   آدمی کے علاوہ سائنسی ترقی اور ایجادات کسی اور مخلوق نے کیوں نہیں کیں__؟

جواب :  آدمی جسمانی ساخت ، خصوصاً ہاتھو ں کی ساخت کی بدولت ایجادات کے قابل ہوا۔

بندر کی ساخت تقریباً آدمی کے مشابہ ہے لہذا مثالیں موجود ہیں کہ بندر تربیت حاصل کر کے ماہرانہ انداز میں مشینیں چلا سکتے ہیں لیکن گائے ، بھینس ، بکری ، گھوڑے ، اونٹ اور زرافہ وغیرہ کی جسمانی ساخت ایسی نہیں کہ وہ مشینیں چلائیں یا عمارتیں تعمیر کریں۔  چناچہ ا ن کو بے شعور اور غیر ناطق قرار دینا نا سمجھنے کا اعتراف ہے۔

معمار عمارتیں اور پل بنانے میں ید طولیٰ رکھتا ہے، وہ طبیب کو اس وجہ سے جاہل قرار نہیں دے سکتا کہ طبیب کو تعمیرات کا علم نہیں۔ دونوں کے علم میں فرق ہے اور دونوں باشعور ہیں۔ حیوانات ، نباتات اور جمادات زندگی کی طرزوں اور تقاضوں کا اسی طرح شعور رکھتے ہیں جس طرح آدمی کو زندگی کا شعور ہے۔

ریشم کے کیڑے کا بنایا ہوا ریشم ، سیپ میں سچے موتی ، درختوں کے پھول ، پھل اور لکڑی وغیرہ سب قدرت کی صناعی کے مظاہر ہیں جو مادی علوم اور وسائل بروئے کار لاکر بھی تخلیق نہیں کئے جا سکتے۔ مصنوعی ریشم کا معیار قدرتی ریشم سے کم تر ہے اس لئے اعتراف کرنے میں عار نہیں کہ ریشم بنانے کے لئے کیڑے کا علم آدمی سے زیادہ ہے۔

فی الوقت تحقیق و تلاش یہ ہے کہ پودے جذبات اور موسیقی دونوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ موسیقی آواز ہے جس کی لہروں میں مخصوص ترتیب اور نظم موجود ہے۔ آواز کی بے ہنگم لہریں جنہیں  شور کہا جاتا ہے ، پودوں پر  اثر انداز ہوتی ہیں۔ آواز سے پودوں کا متاثر ہونا موجودہ تحقیق کے مطابق کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے لیکن جذبات اور رویوں سے پودوں کا متاثر ہونا کیا ہے __؟ آواز لہر ہے پھر جذبات و احساسا ت کیا ہیں؟

مثال :  دو آدمی ایک درخت سے کچھ فاصلے پر کھڑے ہیں۔ پہلا مخصوص لَے میں بانسری بجاتا ہے اور دوسرا دیکھتا کہ بانسری کی آواز  سن کر درخت میں سر شاری اور بے خودی کی کیفیت پیدا ہوئی ۔ اب پہلا آدمی بانسری رکھ کر درخت کو محبت سے دیکھتا ہے اور دل ہی دل میں طویل عمری اور نسل پھیلنے کی دعا دیتا ہے۔ اسی دوران دوسرا آدمی درخت کے اندر خوشی اور ممنونیت کی کیفیات محسوس کرتا ہے۔

بانسری کی آواز بانس کے کھو کھلے تنے کے اندر مخصوص دباؤ اور اتار چڑھاؤ کے ذریعے پھونکی گئی ہوا سے پیدا ہونے والا ارتعاش ہے۔ درخت کا بانسری سے متاثر ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن آدمی کا درخت کو محبت سے دیکھنا اور دل میں دعا دینا تو آواز نہیں ! پھر درخت تک یہ اطلاع کیسے پہنچی__؟

سمجھنا محال نہیں کہ درخت تک اطلاع ایسی لہروں کے ذریعے پہنچی ہے جو موجودہ دور میں دریافت نہیں ہوئیں لیکن وجود رکھتی ہیں اور اس قدر لطیف ہیں کہ ان کا کسی آلے سے اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔

 سوال  :    ایسی لہروں کے بارے میں جنہیں کسی آلے کی مدد سے محسوس نہیں کیا جا سکتا ، کس طرح یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ وجود رکھتی ہے__؟

 جواب   :   آلات اپنی فریکوئنسی اور حدود سے ماورا کام نہیں کرتے جبکہ یہ لہریں موجودہ آلات کی سکت سے باہر ہیں ۔ جب تک برقی مقناطیسی لہریں دریافت نہیں ہوئی تھیں ان کے ذریعے دنیا بھر میں پیغام رسانی ممکن نہیں تھی۔

پرانے زمانے میں پیغام رساں کبوتروں اور ڈاک کے نظام کے تحت مواصلات کا شعبہ قائم تھا۔ اس وقت کے محققین کے لئے برقی مقناطیسی لہروں کا کوئی تصور نہیں تھا اگرچہ برقی مقناطیسی لہریں ابتدائے آفرینشن سے موجود ہیں۔ کائنات کی وسعت لا محدود ہے۔ جب تک دنیا ہے ، محققین ایجادات کرتے رہیں گے۔ چناچہ موجودہ دور کا محقق بھی خیالات کی لہروں سے متعلق اسی طرح خاموش ہے جس طرح کچھ عرصہ پہلے محقق برقی مقناطیسی لہروں اور ان کی خصوصیات سے نابلد تھا۔

رسی لچک دار مادے سے بنی ہے۔ رسی کو باقاعدہ وقفوں سے حرکت دی جائے تو اس میں لہریں پیدا ہوتی ہیں۔پانی کی سطح پر بھی لہریں پیدا کرتی ہیں۔ ٹھوس اور جامد اشیا میں بھی لہریں پیدا ہوتی ہیں جیسے زلزلے یا دھماکے سے پیدا ہونے والی لہریں۔ آواز کی لہریں ہوا ، پانی یا ٹھوس مادے میں سفر کرتی ہیں۔ ایسی تمام لہروں کو سفر کرنے کے لئے کسی واسطے ( میڈیم) کی ضرورت ہے۔ محقق کا خیال ہے کہ میڈیم کے بغیر لہروں کا وجود زیر ِ بحث نہیں آسکتا۔ بجلی دریافت ہونے کے بعد آواز کو برقی سگنل کے ذریعے تیز اور طویل فاصلے تک بھیجنے کے تجربات کئے گئے اور بالآخر ٹیلی فون ایجاد ہوا۔

صوتی لہریں ایک سرے سے برقی سگنلوں میں تبدیل ہو کر مخصوص فاصلہ طے کرتے ہوئے دوسرے سرے پر دوبارہ صوتی لہروں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

مرئی روشنی جو برقی مقناطیسی لہروں کی ایک قسم ہے ، کے ذریعے آواز تار کے بغیر دور تک بھیجنے کے لئے محققین نے تجربات کئے اور فوٹو فون نامی الہ ایجاد کیا۔ اسالے میں آواز کو پہلے برقی سگنل میں تبدیل کیا جاتا تھا جس سے لچک دار مادے سے بنے آئینے میں ارتعاش پیدا ہوتا تھا۔ آئینہ ارتعاش کو دور ایک اور آئینے میں روشنی کی لہروں میں منعکس کرتا جہاں یہ دوبارہ برقی سگنل اور پھر آواز میں سنایا جاتا۔ فوٹو فون کے لئے دھوپ کی موجودگی اور فاصلہ محدود ہونا ضروری تھا تاکہ روشنی رکاوٹ کے بغیر آئینوں کے درمیان سفر کر سکے۔

اس وقت محققین نے اسے اپنی سب سے بڑی ایجاد قرار دیا لیکن صرف دن کے وقت دھوپ میں قابل عمل ہونے اور محدود فاصلے تک کام کرنے بشرطیکہ درمیان میں کوئی رکاوٹ نہ ہو، کی وجہ سے یہ الہ بالآخر متروک ہو گیا۔ مزید تجربات اور نئی ٹیکنالوجی کی بدولت تقریباً 100 سال بعد فائبر آپٹکس کے ذریعے روشنی کے سگنلوں کو دنیا میں کہیں بھی بھیجنے  میں  کامیابی حاصل ہوئی۔

 ایک اور محقق نے روشنی کے علاوہ ایک اور قسم کی برقی مقناطیسی لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کے تجربات کئے جس کے نتیجے میں ریڈیو ایجاد ہوا۔ اس میں آواز کی لہریں برقی سگنلوں اور پھر مخصوص برقی مقناطیسی لہروں میں تبدیل کی جاتی ہیں جنہیں چارج کی گئی مرتعش سطح (ٹرانسمیٹر) سے نشر کیا جاتا ہے۔ یہ نشریات زمین کے بڑے علاقے میں پھیل جاتی ہیں اور کسی بھی مقام پر موجود ریڈیو کا آلہ انہیں قبول کر کے دوبارہ آواز میں تبدیل کر دیتا ہے۔

گزشتہ دہائیوں کے تجربات اور نئی تحقیقات کی بدولت 1990ء میں لاسلکی نظام مواصلات میں انقلاب آگیا۔ نیم موصل مادوں کی دریافت اور ان کی افادیت کی بنا پر حجم کے الات کی صنعت ممکن ہوئی۔ قصہ مختصر کہ آج ہر خاص و عام کے ہاتھ میں ایک آلہ ہے جس سے دنیا میں کہیں بھی رابطہ کرنے کے ساتھ ساتھ  تصاویر اور آواز بھیجنا ممکن ہے۔ لاسلکی انٹرنیٹ اس میں مزید اضافہ ہے۔ زمین کی فضا میں موبائل فون ، انٹرنیٹ ، ریڈیو اور ٹی وی وغیرہ کی لہروں کا اس قدر ہجوم ہے کہ شاید ہی کوئی گوشہ خالی ہو۔

سوال :  خشکی ، سمنددروں ، میدانوں ، پہاڑوں ، ریگستانوں ، شہروں ، دیہاتوں ، ہر کمرے ، تہ خانے اور کھلی جگہ پر موبائل فون اور انٹر نیٹ وغیرہ کی غیر  مرئی لہریں موجود ہیں اور ہمہ وقت متحرک ہیں۔ کیا درخت ، پودے ، جانور اور جتنی مخلوقات ہیں ، ان لہروں سے متاثر ہوتی ہیں__؟

محقق دلیل دے سکتا ہے کہ لہروں کو قبول کرنے والے احساس آلات کے علاوہ یہ کسی پر اثر انداز نہیں نہیں ہوتیں ۔ لیکن ___ ہم دیکھتے ہیں کہ خیالات کی لہریں جنہیں سائنس ابھی تک دریافت نہیں کر سکی ( مگر ان کے تاثرات کو تسلیم کرتی ہے) وجود رکھتی ہیں اور بظاہر آنکھیں ، کان ، اور ناک نہ رکھنے والے درختوں اورپودوں کو متاثر کرتی ہیں۔ اسی طرز پر مواصلات کی برقی مقناطیسی لہریں  بھی تمام اشیا پر اپنے تاثرات مرتب کرتی ہیں کیونکہ یہ اشیا  زمینی اسپیس کا حصہ ہیں۔ اس مظہر کو مضمون میں تلاش کریں اور دوبارہ پڑھیں۔ جس طرح فضا میں قدرتی گیسوں کے علاوہ دیگر گیسوں کے داخل ہونے پر فضا آلودہ ہو جاتی ہے اور جانداروں کی صحت کے لئے موزوں نہیں رہتی اسی طرح فضا میں بے تحاشا برقی مقناطیسی لہروں کا ہجوم توانائی کی ایسی آلودگی پیدا کرتا جس سے جسمانی نظام خصوصاً اعصاب کا متاثر ہونا لازم ہے۔

واضح رہے کہ ہوا میں بے ہنگم اور بے ترتیب آوازیں شور کی آلودگی کہلاتی ہیں کیونکہ شور سے اضمحال اور بے سکونی پیدا ہوتی ہے۔

لہریں میڈیم یا  بظاہر کسی میڈیم کے بغیر سفر کریں، ان کے اندر توانائی کی معین مقدار ہے۔ لہروں کے اندر توانائی __ فریکونسی کی صورت میں ہے۔

رب ذوالجلال کا فرمان ہے :

”ہر چیز کے لئے اس کے ہاں ایک  مقدار مقرر ہے۔“            (الرعد      :         ۸)

آیت کے مطابق ہر مخلوق مقداروں کا منفرد اور مخصوص مجموعہ ہے۔ الہامی قانون کی رو سے تمام تخلیقات کی اصل لہر ہے جس کی طول موج یا فریکوئنسی ہر مخلوق کے اعتبار سے معین ہے۔

 نکتہ ۱ :       شے کی بنیاد لہر ہے اور شے کے اعتبار سے لہر کی مقداریں معین ہیں۔ لہر کا وصف مسلسل حرکت ہے۔ حرکت میں تسلسل سے لہر کا وجود برقرار رہتا ہے اور وہ مقررہ راستوں پر سفر کرتی ہے۔محققین نے آواز اور برقی مقناطیسی لہروں سے متعلق معلوم کیا ہے کہ یہ اپنے منبع سے شمال ، جنوب، مشرق، مغرب ، اوپر اور نیچے ایک جیسی مقداروں میں پھیلتی ہیں۔ مثلاً زید لہروں کی جن مقدار سے تخلیق ہوا ہے، وہ زید کے تشخص کے حوالے سے معین ہیں۔ اتنی بڑی کائنات میں یہ لہر صرف زید کے لئے مخصوص ہے۔ لہر ہر سمت ایک طرح سے پھیلتی ہے اور مسلسل حرکت میں رہتی ہے۔ لہر کا یہ وصف تموج کہلاتا ہے ۔ چناچہ زید کا  تموج زید سے پوری کائنات میں مسلسل پھیل رہا ہے ۔ ایسا نہ ہو تو کسی کو زید کا خیال نہیں آئے گا۔ زید کو جو خیالات آتے ہیں وہ دیگر اشیا اور مخلوقات کے تموج ہیں۔

نکتہ ۲:  چونکہ ہر شے لہر ہے جس کا تموج کائنات میں پھیل رہا ہے لہذا سب کی اصل ایک ہے اور اسی بنا پر وہ دوسری اشیا سے رشتہ رکھتی ہیں۔ جب ہمیں کائنات کے دور دراز گوشوں سے کوئی خیال ائے تو اس کا مطلب ہے کہ ہمارا اس گوشے سے رشتہ ہے۔ ہم اور وہ گوشہ ( ستارہ ، سیارہ ، آدمی یا کوئی اور مخلوق) دونوں کی بنیاد لہر ہے لہذا لہر __ لہر کو قبول کر کے تبادلہ خیال کرتی ہے۔

محترم عظیمی صاحب نے کتاب ” ٹیلی پیتھی“ میں تبادلہ خیال کے قانون کے بارے میں لکھا ہے کہ

” خیالات کی منتقلی کا نام زندگی ہے۔ ہم اپنے علاوہ دوسرے فر دکو اس لئے پہچانتے ہیں کہ اس تشخص کے کیالات ہمیں منتقل ہو رہے ہیں۔ اگر زید کے خیالات اور خیالات کا مجموعہ زندگی ، بکر کے دماغ کی اسکرین پر نشر نہ ہو تو بکر ، زید کو  نہیں پہچانتا۔ درخت کی زندگی میں کام کرنے والی وہ لہریں جن کے اوپر درخت کا وجود قائم۔ اگر آدمی کے اندر  منتقل نہ ہوں تو آدمی درخت کو نہیں پہچانے گا۔“

رحمتہ للعالمین حضرت محمد ﷺ کائنات کے ہر ذرّے کو  اللہ تعالیٰ کے حکم سے وسائل تقسیم فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات میں آپﷺ کو کائنات کی ساخت، تخلیقی اور انتظامی امور کا علم عطا کیا ہے۔

تمام انبیائے کرام اور آخری نبیﷺ کے معجزات ظاہر ہونے میں ایک حکمت یہ ہے کہ خواتین وحضرات ان علوم کی جستجو کر کے آدمی کے دائرے سے نکل کر ” احسن تقویم “ کے دائرے میں داخل ہوں۔۔

 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم