Topics

شمال جنوب کیا ہے؟

اللہ رب المشرقین اور رب المغربین ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے،

۱۔ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے ، اسی طرف اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا۔      (البقرۃ   :    ۱۱۵)

۲۔ تم انہیں غار میں دیکھتے تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھا جاتا ہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے۔    (الکہف : ۱۷)

دونوں آیات میں مشترک موضوع سمتیں یا اطراف ہیں۔ قرآن کریم کی متعدد آیات میں سمتوں کا ذکر ہے۔

 مشرق اور مغرب کیا ہے ؟ مشرق کا مادہ شرق ہے ، لغوی معنی سورج کے نکلنے کے ہیں۔ اسی طرح مغرب ، غرب سے ہے جس کے لغوی معنی سورج ڈوبنے یا غروب ہونے کے ہیں۔ ہم سیارہ زمین پر رہتے ہیں جہاں پیدائش سے لے کر موت تک سمتوں کے جس نظام کو تسلیم اور اس کا مشاہدہ کرتے ہیں، نہیں معلوم یہ نظام کب سے ہے۔ آیت کے دوسرے حصے میں ہے کہ اللہ کی جستجو میں  جس طرف یکسو ہو جاؤ ، اللہ اسی طرف ہے۔ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس تلاش میں توجہ جس جانب ہو، سمتوں کی نفی ہو جاتی ہے۔

مثال  :      سورج طلوع ہونے کے وقت یا مغرب سے تھوڑی دیر پہلے جب آسمان روشن اور صاف ہو ، اس پر نظریں مرکوز کرنے سے ذہن سمتوں سے آزاد محسوس ہونے لگتا ہے۔ ان اوقات میں سورج انتہائی کناروں پر ہوتا ہے ، آسمان کے وسطی اور اطراف کے حصے خالی نظر آتے ہیں اور نگاہ کسی شے کو مرکز  یا حوالے کا مقام (Point of Reference) نہیں بناتی۔ فرد کو سمت کے تعین کے لئے حوالے کا مقام درکار ہے اور بظاہر زمین پر حوالے کا سب سےواضح مقام سورج ہے۔ قرآن کریم میں شمال جنوب ، اوپر نیچے ( فوق ، تحت ) اور ایسے ڈائی مینشن جو مادی شعور سے ماورا ہیں ، ان کا ذکر بھی ہے۔

دوسری آیت اصحابِ کہف سے متعلق ہے جس میں سیارہ زمین پر سمتوں کے نظام کی تفصیل اور اس سے منسلک عجائبات کا انکشاف ہے۔

مسلمان موجد ، محقق اور جغرافیہ دان جن میں  یعقوب ابن طبری ، ابراہیم الفزری ، الخوارزمی ، البیرونی ، الفارابی ، الجزری شامل ہیں ، انہوں نے سیارہ زمین کے سمندروں اور براعظموں کی نقشہ سازی اور جغرافیہ و ضع کرنے میں انقلابی کارنامے سر انجام دیئے ، اپنی تصانیف میں جہاں کئی آیات کا حوالہ دیا ہے ، وہاں سورۃ کہف کی مذکورہ آیت کو بھی تفکر کی بنیاد بنایا۔

غار میں اصحاب کہف کی طویل نیند ، جسم کا گلنے سڑنے سے محفوظ رہنا، طویل نیند میں صحت کا برقرار رہنا اور بیدار ہونے پر حواس کا صحیح حالت میں ہونا__ سب کا تعلق طلوع و غروب اور شمال جنوب یعنی سمتوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

ان نکات کو مثال سے سمجھیں۔

مثال :  زید غار کے قریب کھڑا ہے۔ اس کا رخ مشرق  کی طرف ہے۔ سورج نکلتا ہے اور درجہ بدرجہ اس طرح بلند ہوتا کہ روشنی غار میں داخل نہیں ہوتی۔ خط ِ استوا اور قطب ِ شمالی کے علاوہ شمالی نصف کرے کے تمام علاقوں

میں سورج طلوع ہونے ، آسمان میں بلند ہونے ، نصف النہار کے مقام سے گزرتے ہوئے زوال اور غروب ہونے مقام کا راستہ ایک قوس کی شکل کا ہے۔ پاکستان میں گرمیوں میں مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ سورج تقریباً شمال مشرق سے نکلتے ہوئے جنوب کی طرف آسمان میں بلند ہوتا ہے اور نصف النہار سے گزر کر دوبارہ شمال کی جانب نیچے جا کر شمال مغرب میں غروب ہو جاتا ہے۔

گرمیوں کے برعکس سردیوں میں یہ قوس کافی چھوٹی ہوتی ہے۔ قارئین مئی اور جون  کے مہینے میں اس کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔

۱۔ اگر غار کا دہانہ مشرق کی جانب ہو تو سورج طلوع ہوتے ہی روشنی غار میں داخل ہوگی لہذا واضح ہوتا ہے کہ غار کا داخلی راستہ مشرق کی طرف نہیں۔

۲۔ سورج مشرق سے زید کے دائیں ہاتھ یعنی جنوب سے قوس کی شکل میں بلند ہوتا نصف النہار تک پہنچتا ہے۔ زید کا دایاں حصہ جنوب کی جانب ہے جو روشن ہے جبکہ مخالف سمت (شمالی حصہ) سائے میں ہے  یوں اس امکان کی نفی ہوتی ہے کہ غار کا داخلی راستہ جنوبی طرف ہے ورنہ جنوب سے روشنی داخل ہوسکتی ہے۔

۳۔ زوال کے دوران سورج دوبارہ شمال کی طرف سے نیچے آتا ہے اور شمال مغرب میں غروب ہو جاتا  ہے۔ دہانہ مغرب کی سمت ہو تو غروب کے وقت غار میں روشنی داخل ہوسکتی ہے۔

۴۔ اگر غار کا داخلی راستہ شمال کی جانب ہو تو روشنی غار میں داخل نہیں ہوتی کیونکہ کہ طلوع ہونے کے بعد سورج دائیں جانب (جنوب) ہٹ جاتا ہے اور غروب ہوتے ہوئے غار کے عقب ( جنوب) سے افق کی طرف چھپ جاتا ہے۔

درجِ ذیل سوالات اہم ہیں۔

۱۔ غار کا داخلی راستہ ایسی سمت (شمال) میں ہے جہاں سے روشنی کا داخلہ ممکن نہیں۔ کیا دوسری سمتوں کے تعامل سے شمال سے غار میں مخصوص توانائی پیدا یا ذخیرہ ہو سکتی ہے۔۔؟

۲۔ اس طرح یہ اخذ کرنا غلط تو نہیں کہ  شمال کو دوسری سمتوں پر امتیاز حاصل ہے؟

 ۳۔ کیا شمال سے لہریں غار میں ذخیرہ ہوتی  رہیں اور غار کو سورج کی روشنی سے اس لئے بچایا گیا کہ روشنی کے بہاؤ میں خلل واقع نہ ہو؟

۴۔ تحقیق و تلاش شمال کو کیا اہمیت دیتی ہے؟

جدید جغرافیہ میں شمال کو معیاری اور پوائنٹ آف ریفرنس یعنی حوالے کا مقام قرار دیا جاتا ہے۔ مسلمان محققین سے قبل اکثر جغرافیہ دانوں نے دیگر سمتوں کو معیار کے طور پر مقرر کیا مگر  مسلمان ماہرین نے شمال کو معیاری اور بنیادی سمت مقرر کیا اور انہی کے اصولوں پر آج کا علمِ جغرافیہ قائم ہے۔

قرآن کریم میں دن رات کے آنے جانے پر تفکر کا بارہا حکم ہے۔ آج ہم جانتے ہیں کہ دن رات زمین کی اپنے محور پر گردش سے بنتے ہیں۔ مسلمان محققین نے زمین کی حرکت کو مد نظر رکھتے ہوئے دائرہ اور کروی آلات ایجاد کئے جنہیں اصطرلاب کہا جاتا ہے۔ یہ آلہ زمین ، اس کی محوری گردش اور سطحِ زمین سے نظر آنے والے ستاروں کی حرکات کے مطالعہ میں بے حد مفید تھا۔ اصطرلاب فارسی لفظ ستارہ یاب سے ماخوذ ہے کیونکہ فارس و خوارزم کے مسلمان محققین نے اسے ایجاد کیا۔ یورپ او ر امریکہ کے عجائب گھروں میں اصطر لاب محفوظ ہیں۔ ان کی ساخت اور افادیت کے محققین قائل ہیں۔

یورپی محقق حیران تھے کہ مسلمانوں نے ہزار بارہ سو سال قبل یہ علم کہاں سے حاصل کیا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ اس منبع قرآن کریم ہے تو حقیقت پر پردہ ڈالنے کے لئے انہوں نے اسے قدیم یونانیوں کے علم سے منسوب کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہوئے۔ اصطرلاب کی بناوٹ دیکھ کر یورپی اقوام نے بہت سے آلات ایجاد کئے۔

اگرچہ  شروع میں بنائے گئے اصطر لاب میں شمال کی سمت کو بنیاد نہیں بنایا گیا۔ بعد میں مزیدتحقیق سے شمال کو بنیاد کے طور پر مقرر کیا گیا۔ سمت عربی لفظ ہے جس کی جمع السموت ہے۔ یہ یورپی زبانوں میں Azimuth میں تبدیل ہوگیا۔

مسلمان محقق زمین کے افق زمین کے افق سے جب کسی سیارے یا ستارے کی بلندی معلوم کرنا چاہتے تو اصطرلاب کو فضا میں ستارے کی جانب بلند کرتے اور اصطر لاب پر درج پیمانوں کی مدد سے ستارے کا زاویہ افق سے معلوم کرتے۔ پھر وہاں سے شمالی سمت کے ساتھ بننے والا زاویہ معلوم کرتے ۔ یہ زاویہ اصطر لاب السموت کہلاتا ہے کیونکہ اس  میں کم از کم تین بنیادی سمتیں ہیں۔

۱۔ نظر سے ستارے کی سمت

۲۔ ستارے سے افق کی سمت

۳۔ افق سے زمین کے شمال کی سمت

آج محقق یہی طریقہ استعمال کرتے ہیں۔

( مسلمانوں نے قمری و شمسی کیلنڈر ، موسم کے ردو بدل اور ان کے اثرات پر انقلاب آفریں تحقیقات کیں۔ وضاحت ہوتی ہے کہ وہ زمین کی محوری گردش ، اینٹی کلاک وائز  حرکت اور گردش میں انتہائی شمال نقطے یعنی قطب شمالی کی اہمیت سے آگاہ ہو چکے تھے۔)

زمین محور کے گرد ایک چکر تقریباً 24 گھنٹے میں مکمل کرتی ہے۔ محور شمال یا بائیں 23.5 ڈگری تک جھکا ہوا ہے، ایک آدھ ڈگری کم زیادہ ہوجائے تو نظام ِ زندگی کو خطرہ لا حق ہو سکتا ہے۔

زمین کی محوری گردش اینٹی کلاک وائز ہے۔ اس شمال کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔شمال اور شمالی قطب کو اوپر کی سمت اور جنوب یا جنوبی قطب کو نیچے کی سمت کہا جاتا ہے۔ شمال جنوب اور دیگر سمتیں اصل میں کیا ہیں؟

 مثال :  گیند ہوا میں معلق ہے۔ زید سے تقریباً ڈیڑھ فٹ فاصلے پر اور زمین سے تین فٹ بلند ۔ وہ اوپر سے گیند کو دیکھ کر بتاتا ہے کہ اس کی گردش اینٹی کلاک وائز ہے۔ گیند دوبارہ فضا میں بلند ہوتی ہے اور زید کے سر سے تھوڑا اوپر ڈیڑھ فٹ کے فاصلے پر معلق ہو جاتی ہے۔ وہ نیچے سے دیکھ کر کہتا ہے کہ گردش کلاک وائز ہے۔ گیند کی حرکت تبدیل نہیں ہوئی لیکن زاویہ نگاہ بدلنے سے گردش مخالف سمت نظر آئی۔

 محققین کے مطابق  شمال یا شمالی قطب کی ایک بنیادی تعریف یہ ہے کہ  کرہ یا کرہ نما جسم جس محور کے گرد گھوم رہا ہے ، محور میں جس مقام پر گردش اینٹی کلاک وائز نظر آئے ، وہ شمال ہے جب کہ کلاک وائز جنوب ہے۔

مقناطیسی لہروں کا بہاؤ :

زمین کے اندر مقناطیسی لہریں شمالاً جنوباً بہتی ہیں۔ زمین کا گردشی محور  بھی شمالاً جنوباً ہے ۔ اس محور کے دو بنیادی مقامات یعنی شمال اور جنوب اپنی جگہ قائم رہتے ہیں لیکن کسی قطب نما کی سوئی مختلف صدیوں اور دہائیوں میں عین شمالی قطب کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ معمولی دائیں یا بائیں طرف اشارہ کرتی ہے۔ اس وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ مقناطیسی لہروں کا شمالی قطب ، جغرافیائی شمالی قطب سے مختلف کوئی مقام ہے تاہم یہ امر واضح ہے کہ مقنا طیسی لہریں بہرحال شمالاً جنوباً ہی بہتی ہیں۔

محقق مقناطیسی لہروں کے منبع کا براہ راست مشاہدہ ابھی تک نہیں کر سکے۔ اس کی وجہ  یہ ہے کہ وہ ان لہروں کا ماخذ زمین کے اندر پگھلی ہوئی دھاتوں کی حرکت کو قرار دیتے ہیں جبکہ ان تک پہنچ کر ان کا مشاہدہ کرنا ٹیکنالوجی کے اعتبار سے ناممکن ہے۔ روحانی علوم واضح کرتے ہیں کہ شمال اور جنوب کے بنیادی مقامات یعنی قطبین اپنی جگہ قائم رہتے ہیں۔ سائنسی نظریے میں اس حوالے سے ابہام کی وجہ  غیر جانبدار تحقیق اور براہ راست مشاہدے کی کمی ہے۔ شمال اور جنوب کی روحانی اہمیت اور توجیہ کیا ہے۔ مضمون کے بقیہ حصے میں اگلے شمارے میں پڑھیں۔

***********

 

جہاں مادی علوم کی انتہا ہوتی ہے ، وہاں روحانی علوم کی ابتدا ہوتی ہے۔

محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،

” زمین کی کشش کی بنیاد شمال ہے۔“

باطنی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ شمال کی حیثیت source کی ہے جہاں سے کشش کی قوت زمین کے اندر پھیل کر محیط ہو جاتی ہے۔

مادی علوم میں شمال کی جانب ہی مقناطیسی شمالی قطب کا مقام قرار دیا جاتا ہے جو مقناطیسی قوت کا منبع ہے۔ زمین کے اندر مقناطیسی قوت کس وجہ سے ہے ، محققین اس کی وجہ پگھلی ہوئی دھاتوں نکل اور لوہے  کی حرکت کو قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ایک dynamo کا فعل سر انجام دیتی ہے۔ ان کے نزدیک اس لاوے سے زمین کا ایک مقناطیسی میدان بن جاتا ہے لیکن تحقیق و تلاش (سائنس) نے جب کبھی پگھلی ہوئی دھاتوں کے اس عمل کی لیبارٹری میں نقل کی تو کوئی مقناطیسی میدان  پیدا نہ ہو سکا لہذا یہ مفروضہ مستقبل میں تبدیل یا رد ہو سکتا ہے کہ زمین کی مقناطیسی قوت کی وجہ پگھلی ہوئی دھاتوں کی حرکت ہے۔

باطنی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ لہروں کا منبع شمال ہے۔ لہروں کا بہاؤ قطبین کے درمیان جاری رہتا ہے۔ قطبین سے مراد شمال اور جنوب  کی سمتیں ہیں۔ لہروں کی شمالاً جنوباً گردش سے مقناطیسی قوت پیدا ہوتی ہے اور جب گردش شرقاً غرباً ہوتی ہے تو اس سے پیدا ہونے والی کشش زمین کے اجزا کو منسلک اور پیوست رکھتی ہے۔

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،

”زندگی کا پہیہ شمال سے ہے اور وہاں سے جنوب تک پھیلتا ہے۔“

زندگی اور اجسام میں پھیلاؤ کی مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں جیسے بیج سے تنا ، تنے سے پودا ، پودے سے درخت اور درخت میں پھل۔

مثال : نارنگی کے پودے پر نارنگی لگتی ہے۔ نارنگی کے پھول کی بارآوری مکمل ہوتی ہے تو پھل بننے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ابتدا میں پھل چنے یا اس سے چھوٹے سائز کا ہوتا ہے ۔ جس مقام پر پھل ڈنڈی کے ساتھ پیوست ہوتا ہے ، وہاں سے غذا پھل کے اندر ذخیرہ ہوتی رہتی ہے حتی کہ بڑے سائز کی خوش نما نارنگی بن جاتی ہے۔ پھل کے اندر عین درمیانی نقطے کو مرکز کہا جا سکتا ہے لیکن اصل مرکز وہ مقام ہے جہاں سے نارنگی پودے سے پیوست رہتی ہے اور جہاں سے اسے غذا کی ترسیل ہوتی ہے۔ مرکز کے عین مخالف سمت میں نارنگی پر ہلکا دائرہ نظر آتا ہے ۔ اس طرز کا مشاہدہ اکثر پھلوں میں کیا جا سکتا ہے۔ اگر مرکز کو شمال  کا نام دیا جائے تو مخالف سمت میں موجود ہلکے دائرے کو جنوب کہہ سکتے ہیں۔

پھل کی نشو نما جنوب میں ہورہی ہے اور نشو نما کے لیے جو وسائل اور توانائی حاصل ہوتی ہے وہ شمال سے آرہی ہے۔ سمجھنے کی بات یہ بھی ہے کہ غذا اس دائرے میں سفر کرتی ہے جس دائرے میں اسے جڑوں سے ہدایت ملتی ہے۔

تحقیق و تلاش کے مطابق زمین کا محور شمال کی جانب تقریباً 23.5 ڈگری جھکا ہوا ہے۔ محور کا وہ حصہ جہاں دائروی حرکت صعودی یا اینٹی کلاک وائز ہے ، وہ شمال ہے۔ شمالی قطب کے بہت اوپر خلا سےزمین کی گردش کو دیکھا جائے تو زمین اینٹی کلاک وائز گردش نظر آتی ہے۔

دوسری جانب جنوب سے دیکھا جائے تو ساری زمین کلاک وائز گردش میں نظر آتی ہے۔

سوال یہ ہے کہ اصل گردش کون سی ہے؟

روحانی سائنس سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ اینٹی کلاک وائز حرکت ہے جسے صعودی حرکت کہتے ہیں یعنی وہ حرکت جو ذہن کو زمین کی کشش سے نکال کر اعلیٰ حواس میں داخل کرتی ہے۔

کلاک وائز حرکت نزولی حرکت ہے۔ یہ اعلیٰ سے ادنیٰ مقام کی طرف سفر کرتی ہے۔ موجودہ مادی علوم کے ماہرین بھی اینٹی کلاک وائز حرکت کو صعودی اور کلاک وائز کو نزولی حرکت سمجھتے ہیں پھر بھی وہ ان کی اصل تک نہیں پہنچ سکے اور باوجود اتنی ترقی ، ایجادات اور تحقیق کے ، وہ ان سوالوں کے جواب حاصل نہیں کر سکے کہ

۱۔ کشش ِ ثقل کا ماخذ کیا ہے؟

۲۔ کششِ ثقل کی اصل کیا ہے؟

۳۔ اسے تسخیر کرنا کیسے ممکن ہے؟

۴۔ مقناطیسی قوت کا ماخذ کیا ہے؟

یہی سوال برقی اور نیو کلیائی قوت کے حوالے سے ہیں۔ ان کے جواب مختلف مفروضات سے دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر صحیح جوابات تک رسائی ہو جاتی تو محققین کے لیے کشش ِ ثقل کو کسی شے میں حسب منشا رکھنا ممکن ہوتا۔

مقناطیسی قوت جسے دھاتی تاروں میں متحرک کر کے برقی توانائی حاصل کی جاتی ہے ، کا کششِ ثقل سے کیا رشتہ ہے؟

روحانی ماہرین عقدہ کشائی کرتے ہیں کہ شمال زمین کا پاور اسٹیشن ہے۔ اکائی وقت (سیکنڈ) میں منتقل ہونے والی توانائی کو پاور یا طاقت کا نام دیا جاتا ہے۔ توانائی کسی بھی شکل میں ہو ، اس کی بنیاد لہر ہے اور لہر حرکت ہے ۔ حرکت کی مقداروں میں کمی بیشی سے لہروں کی فریکوئنسی بدلتی ہے اور لہر دوسری لہر میں تبدیل ہوجاتی ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے،

”اور ہم نے لوہا نازل کیا ، اس میں شدید سختی ہے اور لوگوں کے لیے فائدے ہیں۔“      (الحدید : ۲۵)

آیت میں لفظ ” نازل کیا“ پر زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ عام مشاہدہ یہی ہے کہ لوہا اور دیگر معدنیات زمین کے اندر سے کان کنی کے ذریعے نکالی اور تلاش کی جاتی ہیں لیکن آیت کے الفاظ سے واضح ہے کہ لوہا اور جتنے وسائل ہیں، وہ زمین پر نازل کئے جاتے ہیں۔ قدرت انہیں بارش کی شکل میں زمین کے سارے خطوں میں پھیلا دیتی ہے۔ وسائل کا نزول لہروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ لہریں مقداروں کے مطابق مادی قالب اختیار کر کے کہیں لوہا بن جاتی ہیں ، کہیں تانبا ، سونا اور کوئلہ وغیرہ ۔ جتنے وسائل ہیں، سب لہروں کی مختلف شکلیں ہیں۔

موجودہ سائنس (تحقیق و تلاش ) میں ایک نظریہ جسے String Theory کہتے ہیں، اب شعبہ بن چکا ہے ۔ یہ مضمون میں بیان کئے گئے روحانی سائنس کے فارمولے کے مطابق ہے کہ ہر چیز لہروں سے بنی ہے تاہم اسٹرنگ تھیوری ابتدائی مراحل میں ہے اور تحقیق جاری ہے۔

اسٹرنگ تھیوری کا لب لباب یہ ہے ،

ایٹم کے ذرّات لہر کی مختلف حرکات ہیں ۔ اگر لہر کی فریکوئنسی ، طول ِ موج ، حرکت کے رخ اور مقداروں میں سے کوئی ایک تبدیل ہو جائے تو ذرّے کی ہیت بدل جاتی ہے۔

 مثال :  لچک دار اسپرنگ کو محور کے گرد عمودی سمت میں گھمانے سے الیکٹران بنتا ہے۔ اسی اسپرنگ کو افقی سمت گھمانے سے پروٹان بنتا ہے۔ اس کی حرکت ، رخ ، رفتار وغیرہ میں جو تبدیلی کی جائے گی ، نیا ذرّہ وجود میں آئے گا۔

شمال کے مقام پر نازل ہونے والی لہریں زمین کے وجود میں پھیل کر مخلوقات کے لئے وسائل کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ لہریں شمالاً جنوباً قطبین کے درمیان بہہ کر مقناطیسی میدان بناتی ہے اور شرقاً غرباً پھیل کر ثقل پیدا کرتی ہیں۔

زمین کا محور شمالاً جنوباً ہے۔ اس کے گرد ہونے والی گردش محوری حرکت کہلاتی ہے جبکہ سورج کے گرد زمین کے اپنے مدار میں ہونے والی گردش کو طولانی حرکت کہتے ہیں۔ یہ مشرق اور مغرب کے متوازی یا شرقاً غرباً ہے۔

شمال اور جنوب میں بہنے والی لہریں جو اصحابِ کہف کے غار میں قدرت کے نظام کے تحت ہیں، ذخیرہ ہو گئیں ۔ قرآن کریم میں اس کا ذکر تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ ان کے جسدِ خاکی سلامت رہے۔ اس کی وجہ اللہ کے حکم سے غار پر شمال اور جنوب میں بہنے والی لہروں کا غلبہ تھا۔

پیغمبر ادریس ؑ اور پیغمبر یوسف ؑ نے شمالاً جنوباً دور کرنے والی لہروں کے فارمولے کا اطلاق اہرام کی تعمیر میں کیا ۔ اہرام میں اشیا گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے تادیر محفوظ رہتی ہیں۔

نظریہ رنگ و نور کے بانی محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،

” زمین کی بیلٹ دو حرکات پر چل رہی ہے۔ ایک محوری اور دوسری طولانی ۔ محوری حرکت شمالاً جنوباًسیکنڈ کے ہزارویں حصے میں تعطل کے بغیر جاری ہے اور یہی صورت طولانی حرکت کی ہے۔ اہرام میں محوری حرکت کے ساتھ تین زاویوں پر عمارت کا قیام ہے۔ محوری حرکت ایک circle ہے جو گھڑی کے funnel  کی طرح ہے۔ اوپر  سے نیچے اور نیچے سے اوپر ہر سرکل بلا توقف حرکت میں ہے۔ محوری گردش طولانی گردش کو مغلوب رکھتی ہے۔ طولانی حرکت کے برعکس محوری حرکت میں لہریں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور کسی بھی چیز کے اوپر روشنی کے جال کو برقرار رکھتی ہیں۔“

یہ الفاظ گہرائی سے معمور اور غور طلب ہیں۔ گھڑی کا فنل ایک اسپرنگ ہے جس کی شکل اسپائرل جیسی ہے۔ جس گھڑی میں یہ نصب ہو اس گھڑی میں اسپائرل کی ضرورت نہیں رہتی۔ مخصوص مدت کے بعد اسپرنگ کو حرکت دی جاتی ہے اور یہ گھڑی  کو فعال رکھتا ہے۔ سارا اسپرنگ ایک دائرے میں بند ہوتا ہے ۔ وہ دائرہ گھڑی کا ڈائل ہے۔ گھڑی کا دائرہ گھڑی کا محیط ہے۔ فنل اسپرنگ میں توانائی ایک سرے سے دوسرے سرے تک اور پھر دوسرے سے پہلے تک دور کرتی ہے بالکل اسی طرح جیسے تالاب میں مرکز سے لہریں شروع ہو کر تالاب کے محیط یا دیواروں سے ٹکراتی ہیں پھر مرکز کی جانب پلٹ جاتی ہیں۔

شمال زمین کی توانائی کا مرکز ہے۔ اس مرکز سے لہریں پھیلتی ہیں اور جنوب میں اکٹھی ہوتی ہیں ۔ جنوب سے دوبارہ شمال کی جانب پلٹتی ہیں۔ اس طرح زمین کا کوئی ذرّہ ان لہروں سے محروم نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ حی و قیوم ہے، زندہ رکھتا ہے اور زندگی کے وسائل عطا فرماتا ہے۔ وسائل لہروں کی شکل میں زمین پر نازل ہوتے ہیں اور قرآن کریم میں علوم سے یہ انکشاف ہوتا ہے کہ ان لہروں کا مرکز شمال ہے۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم