Topics

سائنس اور علمِ حقیقی

وجود کی عارضی حالت جس میں وجود ہونے نہ ہونے سے تقسیم ہو ، اسے امکان کہتے ہیں۔ امکان سے مراد شک ہے اور کائنات میں شک نہیں۔

”جب سورج لپیٹ لیا جائے گا ، اور جب تارے بے نور ہو جائیں گے ، اور جب پہاڑ چلائے جائیں گے اور جب بیانے والی اونٹنیاں بے کار ہو جائیں گی ، اور جب وحشی جانور جمع کئے جائیں گے اور جب دریا آگ ہو جائیں گے ، اور جب جانیں جوڑ دی جائیں گی ، اور جب اس لڑکی سے جو زندہ دفنا دی گئی ہوگی ، پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر ماری گئی ؟ اور جب اعمال نامے کھولے جائیں گے، اور جب آسمان کا پردہ ہٹا دیا جائے گا اور جب دوزخ کی آگ بھڑکائی جاے گی اور جب بہشت قریب لائی جائے گی ، اس وقت ہر شخص کو معلوم ہو جائے گا کہ وہ کیا لے کر آیا ہے۔“

( التکویر : ۱۔۱۴)

مذکورہ آیا میں لفظ ” اِذَا“ کی تکرار ہے۔ قرآن کریم میں اس طرح کے دو الفاظ ”اِذَا“ اور  ”اِذَا“ کثرت سے استعمال ہوئے ہیں جو زمان و مکان ( ٹائم اینڈ اسپیس ) میں کسی امر کے ہونے کو بیان کرتے ہیں اور تعین کرتے ہیں کہ کوئی واقعہ ازل سے ابد تک کے وقفے میں کس جگہ اور کس وقت پیش آئے گا۔ لغوی اعتبار سے ”اِذَا“ مستقبل کی طرف اشارہ کرتا ہے،” اِذْ“ ماضی اور ”اِذَا“ حال اور مستقبل قریب کے لیے ہے۔

سورہ تکویر کی آیات میں اِذَا کی تکرار ہے۔ ان آیات میں کہکشاؤں ، ستاروں اور سیاروں کی سطح پر ہونے والے واقعات ، مخلوقات کے اعمال کا منفی اور مثبت ریکارڈ ، زمین کی زندگی کے بعد اعراف اور دوسرے عالمین میں پیش آنے والے واقعات کا ذکر ہے یعنی آئندہ جو کچھ ہوگا ، اس کا تعین کے ساتھ احاطہ کیا گیا ہے ۔

واقعات __ واقعہ کی جمع ہے۔ وقعت ، واقعہ واقع ہونا ، محل وقوع اور موقع اردومیں استعمال ہونے والے الفاظ ہیں جن کا روٹ ورڈ یعنی مصدر ”قع“ ہے۔ قع کسی کام کے ہونے کی تمام حالتوں کو بیان کرتا ہے۔

کوئی واقعہ کب اور کس مقام پر پیش آئے گا، پیش آنےسے پہلے وہ کس حالت میں اور کہاں پر موجود ہے، جاننے کے لئے بڑی بڑی تجربہ گاہیں بنائی گئی ہیں اور تحقیقات کس سلسلہ جاری ہے۔

آئزک نیوٹن نے کائنات کے میکانزم کو ریاضی کے فارمولوں میں بیان کرنے کی کوشش کی۔ جولائی 1687ء میں نیوٹن کی کتاب ” قدرت کے فلسفے کے ریاضیاتی اصول“ منظر عام پر آئی۔ کتاب میں اشیا کی حرکات ، کائناتی تجاذب اور سیاروں کی حرکت کے قوانین شائع ہوئے جن کو شہرت ملی۔ یہ قوانین انیسویں صدی کے نصف تک طبعی سائنس کا تعارف بنے رہے ۔ پھر ایٹم اور ایٹم کے مرکزہ پر تحقیق کے دور کا آغاز ہوا اور  کوانٹم طبیعات کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کےتحت ایٹم میں الیکٹران اور دوسرے ذرّات کا کھوج لگانے کی کوشش کی گئی تاہم ایٹم اور اس کے ذرّات حجم کے اعتبار سے اتنے چھوٹے ہیں کہ ان کو  نہیں دیکھا گیا۔ بعد  کے محققین کو الیکٹران اور دوسرے ایٹمی ذرّات کے حوالے سے ایسے شواہد ملے جو نیوٹن کے فارمولوں کی حدود سے باہر تھے ۔ مثلاً ،

۱۔الیکٹران کا ذرّے اور لہر کی شکل میں دہرا پن۔

۲۔ الیکٹران کی توانائی ، حرکت ، مقام اور سمت کا درست اندازہ لگانا۔

۳۔ ایٹم میں ذرّات کا طرز عمل اور ماہیت قلب۔

ان نکات کو نیوٹن کے مذکورہ قوانین سے سمجھنا ممکن نہیں لہذا نئے قوانین وضع کئے گئے جس کے مجموعے کو کوانٹم طبع قوانین کہا گیا۔

²²²²

تمہید کا مقصد کوانٹم طبیعات اور اس سے پہلے کی طبیعات کا پس منظر پیش کرنا ہے۔جب تحقیق و تلاش کو نظر نہ آنے والے ذرّات کے طرز عمل سے حیرت ہوئی تو نتیجہ کیا کہ کائنات میں بڑے عوامل اور واقعات سمجھنے کے لئے ایٹمی ذرّات کی خصوصیات اور حرکات سمجھنا ضروری ہیں۔ ایٹم کا بیرونی حصہ الیکٹران پر مشتمل ہے اس لئے سب سے پہلے الیکٹران کی خصوصیات جاننے کی کوشش کی گئی۔ واضح رہے کہ مادی اشیا جن کو ہم دیکھتے ، کھاتے ، پیتے اور چھوتے ہیں، سب الیکٹران کی خصوصیات کا مظاہرہ ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ وہ کوانٹم طبیعات کے فارمولوں سے الیکٹران اور ایٹم کے دوسرے ذرّات کی خصوصیات کے بارے میں ایک حد تک جان سکتے ہیں۔ الیکٹران کے حوالے سے تحقیق میں بڑا مسئلہ اس کے مقام اور توانائی کو ایک وقت میں معلوم کرنا ہے۔ دوسرا مسئلہ یہ جاننا ہے کہ ایٹم کے مرکز یا الیکٹران کی حرکت اور تعداد میں جو کمی بیشی ہوتی ہے ، اس کے اثرات ہمارے حواس پر کیسے مرتب ہوتے ہیں۔ اگر الیکٹران بیک وقت ذرّے اور لہر کی خصوصیات رکھتا ہے تو ذرّے اور لہر کا ادراک کیسے کیا جائے؟

محققین کہتے ہیں کہ الیکٹران ہمہ وقت ذرّے اور لہر کے طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کرتا بلکہ کسی وقت ذرّے کے طور پر عمل کرتا ہے اور کسی وقت لہر کے طور پر۔ جبکہ کوانٹم طبیعات کی رو سے ایٹم کے ذرّات بشمول الیکٹران ہر وقت ایسی حالت میں ہوتے ہیں جس کو ہم ہرطرح کے طرز عمل کا مجموعہ کہہ سکتے ہیں۔

مثال  :   زید طالب علم ہے ۔ اس نے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال ﷭ کی کتاب ” بانگ درا“ نہیں پڑھی۔ اس کے دوست اسلم کو معلوم نہیں کہ زید نے یہ کتاب پڑھی ہے یا نہیں۔ اسلم زید سے پوچھتا ہے کہ تم نے ”بانگ درا“ پڑھی ہے؟ وہ جواب میں کہتا ہے چونکہ تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے کتاب پڑھی ہے یا نہیں  اس لئے تم دونوں امکانات سامنے رکھو اور ان کو ایک تصور کرو۔ یہی تمہارے سوال کا جواب ہے۔ اسلم سٹپٹا کر پوچھتا ہے ، بھئی یہ کیسا جواب ہے؟ زید کہتا ہے ، کوانٹم طبیعات کی رو سے درست جواب یہی ہے۔

قارئین یہ کوئی پہیلی یا لطیفہ نہیں بلکہ کوانٹم طبیعات کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔ تاریخ کی مسند کتب میں درج ہے کہ شعبے کے بانی محققین میں سے اکثر اس منطق سے بیزار تھے۔ آئن اسٹائن نے بھی کوانٹم طبیعات کے نظریات کو نا پسند کیا لیکن جھٹلایا نہیں۔

ایرون شر وڈنجر کوانٹم طبیعات کے بانیوں میں سے تھا۔ ایک وقت میں کسی شے ے ہونے یا نہ ہونے اور متضاد صورت حال کو ایک سمجھنے کا نظریہ اس کا قائم کردہ ہے۔ آسٹریا میں شر وڈ نجر کی قبر کے کتبے پر اس کی بیان کی گئی مساوات کندہ ہے۔

سادہ الفاظ میں مساوات کو اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ ایٹم یا خلا میں الیکٹران کی نشان دہی اس طرح کی جائے گی کہ الیکٹران کی لہر دراصل الیکٹران کی موجودگی کے امکان کو ظاہر کرتی ہے۔ اس امکان کو ایک احاطے میں یکساں پھیلا دیا جائے اور الیکٹران کی موجودگی کو ہر لمحہ اور ہر جگہ تصور کیا جائے۔ یہ مساوات اصل حالت میں پیچیدہ اور مشکل ہے۔ قارئین کے لئے عام الفاظ میں لبِ لباب بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

مذکورہ مساوات کی کوانٹم طبیعات میں کلیدی حیثیت ہے۔ اس کا بنیادی اصول یہ ہے کہ جب تک فرد الیکٹران کا مقام یا حالت جاننے کی کوشش نہ کرے ، اسے ہر جگہ ایک حالت میں موجود سمجھے۔ اس طرز فہم کوsuper position  کہا جاتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ذرّہ کس طرف ہے اور کس حالت میں ، اگر ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی تو اس ذرّے کی حرکت میں خلل پیدا ہوگا۔ ایسے میں فرد الیکٹران یا ذرّے کی اصل حالت اور مقام کا اندازہ نہیں لگا سکتا۔

شر وڈ نجر نے 1935 ء میں آئن اسٹائن سے گفتگو کے دوران میں اپنے نظریے کو عام شعور سے منسلک کرنے کے لئے خیالی تجربہ پیش کیا جسے لوگوں نے سراہا۔

تجربہ :    لوہے یا اسٹیل کے بند ڈبے کے اندر بلی ہے۔ ڈبے میں تابکار مادے کی کچھ مقدار رکھی ہے جس سے چھوٹا بم منسلک ہے۔ بم پھٹنے سے بلی ہلاک ہو جاتی ہے ۔ ڈبہ لیبارٹری میں ہے ، محقق کچھ وقفے کے بعد ڈبہ کھولے گا تو نتیجہ دو میں سے ایک ہوگا ۔ بم پھٹ گیا ہے اور بلی مر گئی ہے یا بم نہیں پھٹا اور بلی زندہ ہے۔

 کوانٹم طبیعات کے ماہرین کہتے ہیں کہ تجربے کا اصل نتیجہ ڈبہ کھولنے سے پہلے صورت حال ہے اور وہ یہ کہ بلی بیک وقت  دونوں حالت میں موجود ہے یعنی زندہ اور مردہ ہونے کا مجموعہ ہے اگر محقق کو ڈبہ کھولنے کے بعد  بلی زندہ نظر آتی ہے تو ایسے میں بلی کا مردہ ہونا کسی دوسری اسپیس اور ڈائی مینشن میں منتقل ہو گیا ہوگا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شروڈ نجر نے اپنے خطوط اور تحریروں میں کئی مرتبہ اظہار کیا کہ بلیاں سخت ناپسند ہیں۔ خیالی تجربے سے اس کی بلیوں کے لئے ناپسندید گی ظاہر ہوتی ہے۔ بعد کے مصنفین نے الفاظ میں سختی کم کرنے کے لئے بم کے بجائے زہریلی گیس کے الفاظ لکھے۔

آئن اسٹائن نے 1950 ء میں شروڈ نجر کو خط لکھا ، ” لاؤ (Laue) کے علاوہ تم وہ واحد ماہر طبیعات ہو ، جو سمجھتا ہے کہ حقیقت کے تصور کو سمجھنا تقریباً ناممکن ہے۔ اکثر محقق یہ دیکھنے سے قاصر ہیں کہ وہ حقیقت کے ساتھ کتنا خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت تجربے یا مشاہدے سے ماورا ہے۔ البتہ ان کا استدال تمہارے اس تجربے سے رد ہو جاتا ہے جس میں تم نے بلی+تابکار ایٹم + ایمپلی فائر+ بارود کو ایک ڈبے میں جمع کیا ہے۔ بلی کے زندہ اور مردہ ہونے کو ایک دوسرے سے الگ نہ سمجھنا در اصل لہر کے طرز عمل ( ویو فنکشن) کو بیان کرتا ہے جبکہ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ مشاہدہ کیا جائے یا نہ کیا جائے، بلی کا زندہ یا مردہ ہونا اپنی جگہ حقیقت ہے۔ یہ سمجھنا غلط ہے۔“

اس تجربے کی کوانٹم طبیعات میں سنگِ میل کی حیثیت ہے حالانکہ یہ تجربہ خیالی ہے۔ سائنسی جرائد میں ایک ذرّے کی بیک  وقت کئی جگہوں پر موجودگی کے دعوے ہیں تاہم یہ تجربات ایٹم کے ذرّات تک محدود ہیں۔ کچھ محققین نے اعتراض کیا ہے کہ محض تخیل کی بنیاد پر کوانٹم طبیعات کے نظریات استوار نہیں کئے جانے چاہئیں ۔ جواب  میں کہا جاتا ہے کہ کمپیوٹر میں استعمال ہونے والے نیم موصل آلات جیسے ٹرانزسٹر ، مائکر و چپ ، پراسیسر وغیرہ جو کام انجام دیتے ہیں  وہ دراصل متضاد صورت حال کے مجموعی طرز عمل کا اظہار ہیں۔ غیر جانب دار ذہن کہتا ہے کہ مشاہدے کے بغیر تخیل کو کسی نتیجے سے جوڑنا انصاف نہیں۔

حقائق اور روحانی علوم :  قرآن کریم کے قصص اور آیات میں کائنات کی ابتدا سے لے کر انتہا تک ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بات سند ہے اور اس میں امکان کی گنجائش نہیں۔ جو خواتین و حضرات قرآن کریم میں تفکر کرتے ہیں ، ان کو بصیرت عطا ہوتی ہے اور وہ ازل سے ابد تک ہونے والے واقعات کو ایک نقطے میں دیکھ لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ ایک شے ہر عالم میں کس حالت میں موجود ہے یعنی جو شے مخصوص شکل میں نظر آتی ہے ، اس کی الیکٹران ، پروٹان اور دوسرے ایٹمی ذرّات کی دنیا میں کیا صورت ہے۔

 کائنات میں جتنی حالتیں ہیں ، سب پر اللہ کی صفات محیط ہیں۔ یعنی زمان و مکان میں کوئی شے جس حالت اور شکل میں ہے، اس میں ابہام نہیں۔

” اس نے سات آسمان اوپر تلے بنائے۔ کیا تو رحمٰن کی آفرینش میں کچھ نقص دیکھتا ہے؟ ذرا آنکھ اٹھا کر دیکھ۔ بھلا تجھ کو کوئی شگاف نظر آتا ہے ؟ پھر دوبارہ نظر کر تو نظر تیرے پاس ناکام اور تھک کر لوٹ آئے گی ۔“

(الملک : ۳۔۴)

کوانٹم طبیعات اس ابہام پر مبنی ہے کہ جس شے کو ہم نے  دیکھا نہیں وہ ” ہونے اور نہ ہونے کی “ دونوں حالتوں میں ہے۔ اس کے برعکس  صاحب یقین خواتین و حضرات کسی شے کو دیکھتے ہیں تو ان کی نظر ظاہری حالت کے بجائے علم شے پر ہوتی ہے ، اس لئے شے اصل میں جس حالت میں ہے ، وہ اسے دیکھتے ہیں اور انہیں ہر عالم میں شے کی وہی شکل نظر آتی ہے  جو علم شے میں ہے۔ تفکر اور تجربہ وحی کے علوم کی روشنی میں کیا جائے تو ابہام ختم ہو جاتا ہے ۔ محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،

” حقیقت ایک ہوتی ہے ہزاروں لاکھوں نہیں، حقیقت میں تغیر نہیں ہوتا۔ اللہ کے علاوہ ہر چیز فانی ہے۔“۔

 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم