Topics

روزہ کی اسپیس

عظیم روحانی سائنس دان حضور قلندر بابا اولیا ء ؒنے قدرت کے ان سربستہ رازوں سے پردہ اٹھایا ہے جو عوام الناس کے لیے معمہ تھے اور جن سے واقف ہونے کی محققین (scientists)  کو شش کر رہے ہیں۔

مثلاً مادہ کی کنہ کیا ہے؟ یعنی الیکٹران اور اس قبیل کےانتہائی چھوٹے ذرّات کی حقیقی ماہیت کیا ہے ، وقت کیا ہے اور اس کی انتہائی چھوٹی اکائی کی مقدار کیا ہے، ٹائم اسپیس کا آپس میں کیا رشتہ ہے اور یہ کس طرح ایک دوسرے سے منسلک ہیں ، اسپیس کیا ہے؟ وغیرہ

محققین نے ان سوالات کے جوابات تلاش یا فرض کئے ہیں البتہ دونوں کی حیثیت مفروضات سے زیادہ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ محققین ابھی تک حقیقی اور حتمی جواب کیوں نہیں جان پائے__؟

سادہ جواب یہ ہے کہ وہ مادی حواس کے خول سے نہیں مکلا چاہتے اور نہ ہی مادہ کے علاوہ کسی ڈائمینشن یا غیر مادی اسپیس کا وجود ماننے کو تیار ہیں۔

باطنی علوم کے ماہرین مادی کشش سے آزاد حواس کا تعارف کرواتے ہیں ، ایسے حواس جو آسمانی دنیاؤں اور فرشتوں کی اسپیس میں کام کرتے ہیں۔ علمائے باطن ان پروگراموں کی تشریح اور غرض و غایت سامنے لاتے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر نوع آدم کا کوئی بھی فرد اپنی اصل یعنی روح سے واقف ہو سکتا ہے۔

الہامی پروگرام سے مراد عبادات ہیں جو باطنی حواس سے تعارف کا ذریعہ ہیں۔ ان میں ایک روزہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ہر امت پر فرض کیا ہے۔

روزہ قدرت کا عطا کردہ ایسا پروگرام ہے جو ناسوت کی کثیف اسپیس سے غیب کی لطیف اسپیس میں داخل کرتا ہے۔ یہ کوئی فلسفہ یا تھیوری نہیں___ سراسر عمل ہے۔ روزہ کے پروگرام پر اللہ کی رضا کے  مطابق عمل کیا جائے تو آدمی غیب کی اسپیس میں داخل ہو کر غیب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ غیب کی اسپیس سے مادی شعور اس طرح ناواقف ہے جیسے ہمارے کان 20Hz سے نیچے اور 20000Hz اوپر کی فریکوئنسی کی آوازوں سے نا آشنا ہیں یا جس طرح ہماری آنکھوں کے لئے الٹرا وائلٹ یا اس سے آگے روشنیاں اندھیرے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ کوئی بھی عبادت دراصل اللہ کی منشا کے مطابق مادی حواس کو مغلوب کر کے غیب کی دنیا میں داخل کرنے کا پروگرام ہے۔

روزہ کے پروگرام کا میکانزم کیا ہے __؟

مادی اسپیس سے غیب کی اسپیس میں داخل ہونے کے لئے مادی حواس کا پردہ ہٹنا ضروری ہے۔ اس کے لئے طاقت درکار ہے جو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے روزہ تقویٰ کے حصول کا سریع الاثر پروگرام ہے۔

مساوات (ایکو یشن ) یہ بنی __

روزہ---تقویٰ---لاشعوری کیفیات میں اضافہ --- غیب کے حواس کا متحرک ہونا یا غیب کی اسپیس میں داخل ہونا۔

ابدالِ حق فرماتے ہیں۔۔

”زہد کا جذبہ جتنا مضبوط ہوگا ، لاشعور اتنا ہی قوی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا ہوں۔ اللہ کے لئے تقویٰ اختیار کرنا لاشعور کو طاقت دیتا ہے۔ آپ جتنا تقویٰ اختیار کریں گے لاشعور اتنا ہی قوی ہو جاتا ہے۔“

قارئین کرام ! المیہ یہ ہے کہ عبادات کے ظاہری پہلوؤں پر تو زور دیا گیا لیکن ان کے باطنی رخ پر تفکر نہیں کیا گیا۔ کہا جائے کہ روزہ زمان و مکان کی قید سے آزاد کر کے غیب کی دنیا میں داخل کرنے کا نہایت تیز رفتار پروگرام ہے تو روایتی شعور اسے اجنبیت کے دائرہ میں دیکھتا ہے۔ اشد ضرورت ہے کہ جن مقاصد کے لئے قدرت نے عبادات خصوصاً روزہ کا پروگرام تخلیق فرمایا ہے ان مقاصد سے واقفیت حاصل کی جائے۔ محدود تشریح اور فہم سے بالا تر ہو کر اس کے آفاقی رخ کو سمجھا جائے۔

محقق اس بات سے کسی نہ کسی حد تک واقف ہیں کہ رفتار میں اضافہ سے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں رفتار میں اضافہ کی مناسبت سے دو مقامات کے درمیان کا فاسلہ طے کرنے میں کم وقت درکار ہوتا ہے۔ بظاہر سادہ سی بات اپنے اندر بہت گہارائی رکھتی ہے۔

دوسری طرز ذہن کی رفتار ہے جس پر مادی سائنس بے ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی۔ جس طرح ہمارے کام مخصوص فریکوئنسی کی حدود سے آگے پیچھے کی آوازیں نہیں سن سکتے۔ ہمارا ذہن بھی مخصوص  فریکوئنسی کی حدود میں کام کرتا ہے۔ بالفاظ دیگر مادی حواس مجموعی طور پر روشنی کی مخصوص طول موج کی حدود کے اندر کام کرتے ہیں۔ اس رینج سے باہر کوئی بھی مخلوق یا دنیا مادی حواس کے لئے غیب ہے۔ اگر ہم غیبی دنیا یا مخلوق کا مشاہدہ کرنا چاہیں تو بجز اس کے کوئی چارہ نہیں کہ گیب کے حواس کی نظر سے دیکھا جائے۔ غیب اور مادی حواس میں فرق سورج اور چراغ جیسا ہے کہ سورج کے سامنے چراغ کی روشنی معدوم ہے۔

مثال :    فرشتے اللہ کی نوری مخلوق ہیں۔ ہر انسان کے ساتھ بیس ہزار فرشتے مختلف ذمہ داریوں کے ساتھ سرگرم عمل ہیں۔ ان میں سے دو کراماً کاتبین ہیں جو اعمال ریکارڈ کرتے ہیں ۔ فرشتوں کا ہمہ وقت ہمارے ساتھ موجود رہنا اور ہمارا ان سے یکسر بے خبر ہونا اس بات کی وضاحت ہے کہ ہمارے حواس روشنیوں کی جس فریکوئنسی کے اندر کام کرتے ہیں، فرشتے اس کی حدود میں نہیں آتے۔ جب تک ہم اپنے لاشعوری حواس سے واقفیت حاسل کر کے ان کا استعمال نہیں سیکھ لیتے ، فرشتوں اور دوسری گیبی مخلوقات کے لیے ہماری حیثیت نا بینا فرد کی ہے۔

غور فرمائیں کہ جب تک ہم کسی مخلوق کو دیکھنے کی سکت سے محروم ہیں ، اس سے خود کو افضل مخلوق قرار دینا اپنا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔

روزہ کا پروگرام مادی حواس کو اس طرح ترتیب دیتا ہے  کہ سننے ، دیکھنے ، محسوس کرنے اور بولنے کی طرزیں اس فریکوئنسی پر کام کرنے لگتی ہیں جن پر لاشعوری حواس قائم ہیں۔ نتیجہ میں لاشعوری دنیا ظاہر ہو جاتی ہے ، ہم فرشتوں کو دیکھ لیتے ہیں اور زمان و مکان کی گرفت سے آزاد ہو کر غیب کی دنیا کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ سائنس کی زبان میں کہا جائے کہ روزہ کے پروگرام سے مادی حواس ، لاشعوری حواس کے تبع ہو کر ان سے synchronize جاتے ہیں۔

” روزہ جسمانی امراض کا مکمل علاج اور روحانی قدروں میں اضافہ کا مؤثر عمل ہے، برائیوں سے بچنے کے لیے ڈھال ہے۔ روزہ رکھنے سے جسمانی کثافتیں دور ہوتی ہیں اور آدمی کے اندر لطیف روشنیوں کا بہاؤ تیز ہو جاتا ہے۔ روشنیوں کے تیز بہاؤ سے آدمی کے ذہن کی رفتار اتنی زیادہ ہو جاتی ہے کہ اس کے سامنے فرشتے آجاتے ہیں اور وہ غیب کی دنیا میں خود کو چلتے پھرتے دیکھ لیتا ہے۔“      (تجلیات)

لیلۃ القدر __ روزہ کے حواس کی انتہائی وسعت ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے ،

” ہم نے ا س قرآن کو شب قدر میں نازل کیا ہے اور تم کیا جانو کہ  شب قدر کیا ہے۔ شب قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔ فرشتے اور روح اس میں اپنے رب کے اذن سے ہر حکم لے کر اترتے ہیں ۔ وہ رات سراسر سلامتی ہے طلوع فجر تک ۔“       (القدر : ۱۔۵)

روزہ کے حواس رمضان المبارک میں بتدریج اتنی وسعت اختیار کر لیتے ہیں کہ ایک ہزار مہینوں کی اسپیس احاطہ میں اجاتی ہے۔ حواس کی جس رفتار سے ہم روز مرہ زندگی گزارنے کے عادی ہیں اگر ان سے باہر  نکلنے کی کوشش نہیں کی تو گیب سے واقفیت نہیں ہوگی۔

قرآن کریم میں ایمان لانے والوں کی تعریف بیان کی گئی ہے  کہ جو لوگ ایمان لاتے ہیں وہ غیب کا مشاہدہ کرتے ہیں ۔ غیب ان کے لیے غیب نہین رہتا ۔۔ ظاہر ہو جاتا ہے۔ روزہ کے پروگرام پر عمل کر کے غیب کے حواس سے واقف ہونا الہامی پروگرام کا مقصد ہے ۔ شعوری اور لیلۃ القدر کے حواس سے متعلق کتاب ” خطبات ملتان“ میں لکھا ہے،

” اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر کے حواس کی رفتار ایک ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ اس حساب سے لیلۃ القدر کے حواس کی رفتار تقریباً چودہ کروڑ چوالیس لاکھ میل فی گھنٹی ہوتی ہے۔

آپ ریل میں بیٹھے ہیں۔ ریل 150 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ہے۔ اب تو ریل گاڑیاں تین تین سو میل کی رفتار سےبھی چلتی ہیں۔ آپ ریل میں کھڑکی کے پاس بیٹھے ہیں، باہر درخت ہیں، تار کے کھمبے ہیں، لیکن آپ ان کھمبوں کو نہیں گن سکتے۔ کیوں نہیں گن سکتے؟ اس لئے نہیں گن سکتے کہ شعور کی رفتار 150 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کم ہے۔“

روزہ اللہ کی رضا کے لئے شعوری لوازمات کے ترک کا پروگرام ہے۔ شب بیداری ، فواحش و منکرات سے پرہیز ، اللہ سے ربط کا مسلسل احساس یعنی صلوٰۃ اور لیلۃ القدر کی نعمت سے مزین ایک مربوط نظام ہے جس میں لاشعوری حواس کی تحریک کا مکمل اہتمام ہے۔ یہ ہم پر ہے کہ روایتی اندا ز  فکر سے ہٹ کر روزہ کے باطنی پہلو کو تلاش کریں اور اس نعمت سے سر فراز ہوں۔

روزہ ذہنی رفتار کو تیز کرنے کا مؤثر پروگرام ہے۔ آدمی کا شرف یہ ہے کہ وہ اپنے اندر واقف ہو یعنی اسے روح کا عرفان حاصل ہو جس سے انسان واقف ہے۔

آدمی مٹی ہے __ انسان مٹی نہیں۔ مٹی کے حواس میں زندگی گزارنا حیوانات سے بھی کم تر درجہ کی زندگی ہے۔ لاشعوری حواس سے واقفیت کی بنا پر غیب کی دنیا کا دروازہ کھلتا ہے جس میں داخل ہو کر آدمی اپنے شرف انسانیت سے آگاہ ہو جاتا ہے۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم