Topics
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے،
۱۔ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے
ہیں۔ پس یہ نہیں لوٹیں گے۔“ (البقرۃ :
۱۷)
۲۔کیا اندھا اور دیکھنے والا برابر
ہو سکتے ہیں؟ پھر تم غور کیوں نہیں کرتے۔ (
الانعام : ۵۰)
۳۔ اور جو شخص اس دنیا میں اندھا رہا ، وہ آخرت
میں بھی اندھا اور راہ راست سے بھٹکا ہوا ہوگا۔
(بنی
اسرائیل : ۷۲)
آیات میں حواس خصوصاً بصارت کا ذکر
توجہ طلب ہے۔ دیکھنا ، سننا ، بولنا ، سونگھنا ، لمس اور تمام حواس مختلف نظر آتے
ہیں لیکن یہ ایک ہی صلاحیت کا عکس (مظاہرہ ) ہیں اور اپنی اصل میں ایک ہیں ۔ حواس
میں اشتراک کی وجہ سے ہر حس میں دوسری حس کی صفات موجود ہیں۔
مثال : زید
کہانی کے مطالعے میں منہمک ہے۔ کہانی میں سیاہ روشنائی سے لکھی ہوئی سطور ہیں۔
کوئی آواز موجود ہے نہ کہانی سے متعلق تصویریں کاغذ پر ہیں لیکن زید کہانی پڑھتے
ہوئے ہر کردار او ر واقعہ کو دماغ کی اسکرین
پر حرکت میں دیکھتا ہے، کرداروں اور ماحول کی آوازیں سنتا ہے، خوش بو بدبو
کا احساس ہوتا ہے حتی کہ وہ خود کو کہانی کی دنیا میں زندہ دیکھتا ہے۔
مطالعہ کرتے ہوئے اس کا ظاہری وجود
بستر یا کرسی پر ہے ، صرف نظریں صفحات پر مرکوز ہیں اور ذہن الفاظ کی معنویت کی
تلاش میں ہے۔ حواس میں ربط نہ ہو تو ذہن الفاظ کو دیکھنے کے مرحلے سے آگے نہیں
بڑھے گا۔ اگر ذہن الفاظ سے آگے نہ بڑھے تو کیا تحریر کو پڑھنے کا مقصد پورا
ہوگا۔۔۔؟ نہیں ہوگا ۔ کیا تصور کی صلاحیت
کام کرے گی۔۔؟ نہیں کرے گی۔
حواس میں اطلاع قبول کرنے یا
سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ قرآن کریم میں نگاہ ، بصارت یا بصیرت یعنی دیکھنے کی حس کا
تذکرہ زیادہ ہے جس سے ایک بات یہ سمجھ آتی ہے کہ قرآن کریم میں تمام حواس کو
مجموعی طور پر نگاہ کا نام دیا گیا ہے۔
مولانا روم ؒنے فرمایا،
آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
ترجمہ : آدمی نگاہ ہے ۔ نگاہ کے
علاوہ سب مٹی کا خول ہے۔ نگاہ یہ ہے کہ وہ دوست کو دیکھتی ہے۔
قارئین ! قرآن کریم گہرے تفکر کا
تقاضہ کرتا ہے۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ ہم نے اپنی آیات کا سمجھنا آسان کر دیا ہے۔ ہے
کوئی سمجھنے والا۔۔؟
قرآن کریم میں ہے کہ اگر اس دنیا
میں کوئی اندھا رہے تو مرنے کے بعد بھی اندھا رہے گا۔ سطحی طور پر پڑھا جائے تو
معانی یہ سمجھ میں آتے ہیں کہ جس فرد کی گوشت پوست کی آنکھیں کام نہ کرتی ہوں تو
وہ بعد از مرگ بھی نابینا رہے گا۔
قرآن کریم میں بصارت سے متعلق آیات
کا مطالعہ کیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ یہاں ظاہری نگاہ اور آنکھوں کا
تذکرہ نہیں ہو رہا بلکہ یہ کسی اور طرح کی بینائی اور آنکھ کا ذکر ہے۔
آدمی جانتا ہے کہ جب ظاہری حواس
معطل ہوتے ہیں تو وہ خود کو کسی اور دنیا میں چلتے پھرتے دیکھتا ہے ، روتا ہے،
ہنستا ہے۔ بیداری میں بھی ایسے لمحات آتے ہیں جب وہ ماحول سے بے خبر ہو کر تصور
میں خود کو ایک اور دنیا میں دیکھتا ہے۔ واضح ہوتا ہے کہ حواس یا نگاہ ظاہری رخ تک
محدود نہیں بلکہ ان کی اصل کچھ اور ہے۔
تین مثالیں پیشِ خدمت ہیں۔
۱۔زید 15 سال کا طالب علم ہے۔
چیزوں کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اماں نے کھانا پکانے کے لیے ماچس
خریدنے بھیجا۔ بازار جا کر ایک دکان سے ماچس کا پوچھا تو جواب ملا کہ ماچس نہیں
ہے۔ دوسری دکان سے بھی یہی جواب ملا۔ تیسری دکان میں دکاندار کی جگہ اس کا دوست
نگرانی کے لئے بیٹھا تھا جس نے ماچس سے متعلق لا علمی کا اظہار کیا۔ اگلی دکان میں
ماچس مل گئی لیکن کھول کر دیکھنے سے پتہ چلا کہ نمی کے سبب تیلیوں سے بارود اتر
رہا ہے ۔ مایوس ہو گیا کہ ماچس نہیں مل رہی۔
زید کو بازار میں اپنا دوست
زاہد نظر آیا جس کے ہاتھ میں ماچس کا پیکٹ
تھا۔ استفسار پر زاہد نے ایک دکان کا پتہ بتایا۔ زید فوراً وہاں گیا اور ماچس مل
گئی خوشی ہوئی لیکن گھر جاتے ہوئے سوالات نے تشویش میں مبتلا کر دیا۔
سوچئے __ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو اس دنیا میں
اندھا ہے ، وہ اُس دنیا میں بھی اندھا اٹھے گا۔ مفہوم یہ ہے کہ آدمی جس حال میں
دنیا سے اٹھتا ہے، اعراف میں اس کا مقام وہ ہے جو دنیا میں تھا۔
·
جس
دکان سے ماچس ملی تھی ، وہ اکثر وہاں سے چیزیں خریدتا تھا۔ آج وہاں جانے کا خیال
کیوں نہیں آیا؟
·
گھر سے
نکلتے وقت نگاہ یا حواس نے راہ نمائی کیوں نہیں کی؟
زید کو
افسوس ہوا کہ سب مجھے ذہین سمجھتے ہیں لیکن میری سمجھ اتنا کام نہ کر سکی کہ صحیح
جگہ پہنچا دے جہاں سے ضرورت پوری ہو۔ یہ آنکھیں ،
کان اور دماغ ہو کر اندھوں کی طرح ٹٹولنے جیسی حالت ہے۔ کیا میں اندھا ہوں؟
گھر
پہنچ کر ماچس اماں کو دی اور ایک طرف بیٹھ گیا۔ اماں نے پوچھا ، کیا سوچ رہے ہو؟
اس نے
کہا ، بازار کھنگالنے کے بعد مشکل سے ایک دکان سے ماچس ملی۔ کیا میرے سننے ،
دیکھنے یا سمجھنے میں نقص ہے؟
اماں
بولیں، کیسی باتیں کر رہے ہو ؟
زید نے
کہا، اگر میرا دیکھنا یا سمجھنا درست ہوتا تو میں پہلے اس دکان پر کیوں نہیں گیا
جہاں سے ماچس ملی __؟
اماں کے پاس جواب نہیں تھا۔
۲۔ اسکول میں زید کے استاد پوری
کلاس کو تانبے کی کان کے دورے پر لے جاتے ہیں جہاں بچے تانبے کی دھات کے حصول کے
علم کا استاد کی نگرانی میں مشاہدہ کرتے ہیں۔ بعد میں سوال و جواب کا وقفہ رکھا
جاتا ہے جس میں کان میں کام کرنے والے ماہرین سے طلبا پوچھتے ہیں کہ پہاڑ میں
تانبے اور دیگر دھاتیں پتھروں اور چٹانوں میں موجود ہیں مگر نظر نہیں آتیں۔ پھر
کیسے پتہ چلتا ہے کہ کس پتھر میں کون سی دھات ہے اور کتنی مقدار میں موجود ہے؟
ماہرین نے طلبا کو سمجھایا کہ یہ
طویل اور پیچیدہ عمل ہے۔ ہم پہاڑوں میں جا کر پتھروں کا معائنہ کرتے ہیں ،
لیبارٹری میں لاتے ہیں، پیس کر ان پر تجربات کرتے ہیں پھر پتہ چلتا ہے کہ ان میں
کون سی دھات موجود اور غیر موجود ہے اور کون سی دھات کتنی مقدار میں ہے۔ دھات کی
تلاش میں تجربے کے دوران ناکامی بھی ہوتی ہے اور کامیابی بھی ملتی ہے۔
تانبے کی کان سے واپس آتے ہوئے زید
کے ذہن میں چند سوالات گردش کر رہے تھے۔
v ہماری نگاہ پتھروں کو دیکھ کر سطح سے کیوں پلٹ
آتی ہے۔۔؟
v نگاہ کو پتھر کے اندر دھاتوں اور عناصر
کا علم کیوں نہیں ہوتا۔۔؟
v پتھر پیس کر یعنی ذرّات میں تبدیل کر کے
ہم چہرے پر لگی دو آنکھوں اور دماغ میں بھیجہ کی مدد سے پتھر میں موجود عناصر کا
مشاہدہ کیوں نہیں کرتے جبکہ کر سکتے ہیں۔۔؟
v ہم ایک شے کا سہارا لے کر دوسری شے کو
سمجھنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں جبکہ نیند ،
خیال اور تصور کی دنیا میں پلک جھپکتے ہزاروں میل دور مقامات دیکھ لیتے ہیں اور
وہاں آتے جاتے ہیں یعنی پتھروں اور
دیواروں کے اندر دیکھنے والی نگاہ ہمارے اندر ہے، ہم اس سے واقف ہیں مگر
نیند اور تصوارتی دنیا کا حصہ سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ نیند میں دیکھنے
والی نگاہ کو بیدار کیوں نہیں کرتے۔۔؟
۳۔ زید آنکھوں پر سیاہ پٹی باندھ کر دوست کا
ہاتھ پکڑتا ہے اور پُر فضا مقام کی طرف جاتا ہے جہاں آبشاریں ، خوب صورت درخت ،
پھولوں کی بیلیں اور سر سبز پہاڑ ہیں، مطلع صاف اور آسمان پر کہیں کہیں بادل کے
ٹکڑے ہیں۔
زید دوست سے ماحول میں مناظر کی
تفصیل پوچھتا ہے۔ دوست ماحول کی منظر کشی کرتا ہے۔ کچھ دیر بعد زید پٹی اتارتا ہے
تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ دوست کی بتائی ہوئی تفصیل سے جو تصویر ذہن میں بنی،
وہ ذاتی حیثیت میں ماحول کو دیکھنے سے یکسر مختلف تھی۔ دل میں یہ بات آئی کہ اگر
وہ آنکھوں پر سے سیاہ پٹی کھول کر اس مقام کو خود نہ دیکھتا تو اصل تصویر سے واقف
نہ ہوتا بلکہ ساری عمر ذہن میں بنی ہوئی illusion تصویر کو ماحول کی اصل تصویر سمجھتا۔
محقق لیبارٹری میں چیزوں کے مرائنے
اور مشاہدے کے لیے اندر موجود کائنات کے دور دراز گوشوں تک رسائی رکھنے والی نگاہ
کو نظر انداز کر کے ایسی نگاہ اختیار کرتا ہے جو الوژن دکھا کر اصل تصویر چھپا
لیتی ہے۔ وہ مادی ذرائع پر انحصار کرتا ہے اور ان کی دی گئی معلومات کو اپنا علم
اور اپنی تحقیق تصور کرتا ہے ۔ دور بین، خورد بین ، آلات ، مشینیں دراصل اپنی جگہ
پر مخلوقات ہیں، یہ منفرد احساس اور طبیعت رکھتی ہیں۔ بلا شبہ ان کی ایجاد کارنامہ
ہے جس سے تحقیق و تلاش میں کسی حد تک مدد ملی ہے اور نوعِ آدم کی زندگی سہل ہوئی
ہے لیکن روحانی سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ ایجادات matter کی حدود میں دیکھتی اور دکھاتی ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ان کو
ایجاد کرنے والا ذہنmatter
کے غلاف میں بند ہے۔
” زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لئے بنایا۔ اس میں ہر طرح کے
بکثرت لذیذ پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں۔“ (الرحمٰن
: ۱۰۔۱۱ )
ہر شے material کے غلاف میں بند ہے۔ گہرائی میں دیکھنے سے غلاف خود بخود اٹھ جائے
گا۔ پتھر کے اندر بڑے بڑے سوراخ ہوتے ہیں لیکن نظر نہیں آتے۔ اس میں اتنا خلا ہے
کہ کیڑے کی پیدائش بھی ہوتی ہے اور اس کی غذا کا سامان بھی ہوتا ہے۔
روحانی سائنس دان فرد کی توجہ قرآن
کریم کی آیات کی طرف مبذول کرتے ہیں جو بتاتی ہیں کہ حقیقی نگاہ اور فریبِ نظر میں
فرق ہے۔ اصل نگاہ اور فہم بندے کے اندر موجود ہے۔ اگر بندہmatter سے ماورا دیکھنے والی نگا ہ سے اس دنیا میں واقف نہیں ہوتا تو وہ
مرنے کے بعد کی دنیا میں illusion
میں مبتلا رہتا ہے۔ الہامی کتب نے
الوژن میں بند نگاہ کو ” اندھا“ اور الوژن سے آزاد نگاہ کو ”بینا“ کہا ہے۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں،
”قرآن کریم میں بیان ہوا ہے کہ اس
زندگی میں اگر اندھا پن ہے اور بے نور آنکھیں تو اُس زندگی میں بھی اندھا پن اور
بے نور آنکھیں مقدر بن جاتی ہیں۔اگر اس دنیا میں آنکھیں ہیں اور ایسی آنکھیں ہیں
جو اللہ کے نور کا مشاہدہ کرتی ہیں تو اُس دنیا کے اندر بھی مشاہدہ کرنے کی صلاحیت
موجود ہوتی ہے۔
خاتم النبیین سیدنا حضور ﷺ کا
ارشاد ہے،
” مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ
کے نور سے دیکھتا ہے۔“
پیغمبر آخر الزماںﷺ جو کچھ فرماتے
ہیں ، وہ حقیقت ہے جس میں رد و بدل نہیں ہوتا۔ نور کی نظر سے دیکھنے والا بندہ
نورانی دنیا کا مشاہدہ کرتا ہے۔ اگر نور کا مشاہدہ کرنے والی آنکھ مادی دنیا میں
نہیں کھلی تو مرنے کے بعد بھی آدمی اندھا رہتا ہے۔“