Topics

ابھی ۔۔ آتش فشاں سو رہے ہیں

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے،

          ” جب زمین اپنی پوری شدت کے ساتھ ہلا دی جائے گی اور زمین اپنے اندر کے سارے بوجھ نکال کر باہر ڈال دے گی۔“

                                                                                      ( الزلزال : ۱۔۲)

          قرآن کریم میں تفکر سے شعور کو وسعت ملتی ہے اور اسی مناسبت سے علم اور سمجھ عطا ہوتی ہے۔ کائنات میں کوئی شے یا عمل ایسا نہیں جس کی وضاحت قرآن کریم میں نہ ہو۔ جیسے کہ مذکورہ آیت پر تفکر کیا جائے تو علوم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

          زلزلہ کے معنی زور سے ہلا دینا کے ہیں۔ اوپر دی گئی آیت میں زمین کا شدت سے ہلنا بیان کیا گیا ہے۔ زمین کے اندر ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں کہ ان کے اثرات سطح زمین پر زلزلوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ زلزلوں کی ایک بڑی وجہ آتش فشانی عمل ہے۔

          ماہرین ارضیات کے مطابق زمین کے بطن میں انتہائی گرم سیال مادہ موجود ہے جس کے گرد مختلف قسم کی ٹھوس تہیں کروی ( موٹی رسی کی مانند ) صورت میں لپٹی ہوئی ہیں۔ اوپری تہ قشرارض کہلاتی ہے اور اس کے اوپر ہم چلتے ، پھرتے اور سکونت اختیار کرتے ہیں۔ 1960 ء تک ماہرین ارضیات متفق تھے کہ قشر ارض پرت در پرت منقسم ہے۔ یہ نظریہ ابھی تک قائم ہے۔ قشر ارض کی پرتیں Tectonic Plates کہلاتی ہیں۔ محققین نے انہیں 17 بڑے حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ یہ پلیٹیں ہمہ وقت متحرک ہیں۔ جہاں ایک پلیٹ دوسری پلیٹ کے اندر دھنس رہی ہے یا دوسری پلیٹ کے ساتھ رگڑ کھا کے ایک طرف سرک رہی ہے ، وہاں شدید دباؤ کی وجہ سے سطح ِ زمین کی چٹانوں نے پہاڑی سلسلوں کی صورت اختیار کر لی ہے۔ پہاڑوں کی پیدائش سے متعلق یہ نظریہ حقیقت سے کتنا قریب ہے ، یہ الگ موضوع ہے۔ بہر حال باطنی علوم کے ماہرین نے پہاڑوں کی تخلیق اور نشو نما سے متعلق فارمولے بیان کئے ہیں۔

          روحانی سائنس کا منبع مفروضات اور مادی حواس کے بجائے وحی کے علوم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ روحانیت میں شک و شبہ اور تغیر کی گنجائش موجود نہیں۔

          روحانی علوم کے مطابق پہاڑ باشعور مخلوق ہیں۔ یہ پیدا ہوتے ہیں، جوان ہوتے ہیں اور سانس لیتے ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ پہاڑوں کا بنیادی مادہ ٹھوس اور جما ہوا ہے جب کہ قرآن کے مطابق پہاڑ جمے ہوئے نہیں بلکہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں۔

          وضاحت ہوتی ہے کہ پہاڑوں کا بنیادی مادہ ٹھوس کے بجائے بادلوں کی لطیف اور تصعیدی ( اُڑ جانے والا ۔volatile) خصوصیات کا حامل ہے۔ کسی غیر جانب دار محقق اور سائنس دان کے لیے یہ بات انقلاب آفریں دریافت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

          پہاڑوں کی ایک قسم آتش فشاں پہاڑ ہیں جو وقفہ وقفہ سے زمین کے اندر ابلتا سیال یعنی لاوا اگلتے ہیں۔ لاوے کے ساتھ دھوئیں ، گیس ، راکھ اور گرد و غبار کے مر غولے برآمد ہوتے ہیں۔ جس مقام پر Tectonic پلیٹیں آپس میں ٹکراتی یا رگڑ کھاتی ہیں ، وہاں قشر ارض اور نچلی ٹھوس سطحوں میں دراڑیں پیدا ہوتی ہیں جو ابلتے ہوئے لاوے کے زون تک جا سکتی ہیں۔ چناں چہ لاوا ایسی ہی کسی دراڑ سے باہر نکلتا ہے۔ انتہائی گرم لاوا باہر کھلی فضا میں آ کر دہانہ سے مخروطی شکل میں پھیل کر جمتا رہتا ہے اور آتش فشاں پہاڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

          زمین میں موجود سیال اور آتش فشانی نظام کے متعلق محققین کا خیال یہ بھی ہے کہ زمین کے اندر لاوے کے زون سے سطح زمین تک سرنگ نما سلسلوں (channels) کا جال پھیلا ہوا ہے ۔ پلیٹوں کی حرکت کی وجہ سے جہاں سے کسی چینل کا منہ کھلتا ہے وہاں سے لاوا ابلنا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ عمل اس قدر توانائی اور گڑ گڑاہت کے ساتھ واقع ہوتا ہے کہ سطح زمین پہ زلزلے آجاتے ہیں۔

                   جب تک آتش فشاں پہاڑ سے لاوا ، گیسیں ، راکھ اور گرد و غبار خارج ہونے کا عمل جاری رہتا ہے ، انہیں بیدار (active) آتش فشاں کا نام دیا جاتا ہے۔ جب یہ عمل رک جائے تو اسے خوابیدہ (dormant) آتش فشاں کہتے ہیں۔ اگر خوابیدگی کا عمل زیادہ طویل ہو جائے تو ایسے پہاڑوں کو مردہ (extinct) آتش فشاں کہا جاتا ہے۔

          دل چسپ بات یہ ہے کہ حتمی طور پر کسی آتش فشاں پہاڑ کو مردہ قرار دینے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں کیوں کہ تجربات موجود ہیں کہ بعض مردہ قرار دیئے گئے آتش فشاں پہاڑ اچانک بیدار ہو گئے۔ کسی آتش فشاں کو بیدار ، خوابیدہ یا مردہ کہنے کی اصطلاحات محض صورت حال کا تعین کرنے کے لئے ہیں۔

          کرہ زمین پر دریافت ہونے والے آتش فشاں پہاڑوں میں زیادہ تعداد ان آتش فشانوں کی ہے جنہیں خوابیدہ قرار دیا گیا ہے۔ بظاہر یہ پہاڑ پر سکون ہیں لیکن ان کے دوبارہ پھٹنے کے اوقات معلوم کرنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں ہوا اس لیے یہ اپنی نوعیت میں انتہائی خطرناک ہیں۔

          کرہ ارض پر آتش فشاں پہاڑوں کی زیادہ تعداد بحرالکاہل کے ساحلوں کے قریب دریافت کی گئی ہے۔ ان میں زیادہ تر خوابیدہ حالت میں ہیں۔

          یہ علاقہ ایک کڑے کی شکل میں نیوزی لینڈ ، آسٹریلیا ، نیوگنی ، ملائیشیا ، انڈونیشیا ، فلپائن ، چین ، کوریا ، جاپان ، مشرقی روس ، کینیڈا ، میکسیکو ، وسطی امریکہ اور جنوبی امریکہ کے تمام مغربی ساحلوں تک پھیلا ہوا ہے۔ درمیان میں ہوائی اور دوسرے جزائر بھی اس میں شامل ہیں۔ اس علاقہ میں بیدار اور خصوصاً خوابیدہ آتش فشاں پہاڑوں کی اتنی کثرت ہے کہ اسے آگ کے کڑے یا حلقہ آتش (Ring of Fire) کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

          بحرالکاہل کے علاوہ زیادہ تر خوابیدہ اور نسبتاً کم تعداد میں بیدار آتش فشانوں کی بڑی تعداد بحر ہند ، بحر اوقیانوس ، بحیر ہ روم اور تمام برا عظمی علاقوں میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔

          قارئین ! ایسے گلوب جن پر بیدار اور زیادہ تر خوابیدہ آتش فشانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جب غور سے ان کا مطالعہ کیا جائے تو پہاڑوں کا مخصوص پیٹرن واضح ہوتا ہے جو کڑوں (ring) کی شکل میں ہے۔ محترم عظیمی صاحب رقم طراز ہیں۔

          ” لاشعور دیکھتا ہے کہ پپیتے کی طرح زمین پر گول کڑوں (ring) کی طرح پہاڑ ہیں۔ گول کڑوں (ring) کی طرح پہاڑوں نے زمین کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے۔۔ زمین مسلسل محوری اور طولانی گردش میں سفر کر رہی ہے۔۔ اس گردش کو پہاڑ کے گول گول کڑے کنٹرول کرتے ہیں۔۔ یہ پہاڑ میخوں کی طرح زمین میں گڑے ہوئے ہیں۔“

          اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

          ” تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کیسے بچھائی گئی؟                   (الغاتیہ : ۱۷۔۲۰)

          ” کیا یہ واقعہ نہیں ہے کہ ہم نے زمین کو فرش بنایا اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا۔“   ( النبا : ۶۔۷)

          کرہ زمین کے قیام اور مضبوطی کے لیے قدرت نے اس میں پہاڑ رکھے ہیں اور انہیں میخوں سے تشبیہ دی ہے۔ میخ کا مطلب یہ ہے کہ پہاڑ کا آدھا حصہ سطح زمین کے اوپر اور آدھا اندر ہے۔ اسی طرح پہاڑ کا توازن برقرار رہتا ہے ، وہ ڈھلکتا نہیں۔ طبیعات کے مطابق زمین کو باندھ کر رکھنے والی شے کشش ثقل ہے جو ہر شے کو زمین کے مرکز کی طرف کھینچتی ہے۔ پہاڑی سلسلے زمین کو کڑوں کی شکل میں جکڑے ہوئے ہیں۔

          سوال یہ ہے کہ کیا کشش ثقل کا کڑے (ring) کے پیٹرن سے کوئی تعلق ہے؟ غیر جانب دار تفکر کی خصوصیت یہ ہے کہ اللہ کے فضل اور رسول اللہ ؐ کی رحمت سے بندہ شے کی کنہ تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔

          بحرالکاہل کا تقریباً تمام ساحلی علاقہ جسے آتشی کڑا (Ring of Fire) کہا گیا ہے ، تقریباً 40 ہزار کلو میٹر (25 ہزار میل) طویل ہے۔ یہ کڑا سینکڑوں آتش فشاں پہاڑوں سے پُر ہے اور ان میں 80 سے 90 فی صد آتش فشاں ابھی سو رہے ہیں۔

          وکی پیڈیا کے مطابق یہاں 452 آتش فشاں ہیں جو دنیا کے کل بیدار اور خوابیدہ آتش فشاؤں کا 75 فی صد سے زائد ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کسی بھی لمحہ بیدار ہو سکتے ہیں اور ان کے بیدار ہونے سے بڑے پیمانہ پر ماحولیاتی و جغرافیائی تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

          دنیا بھر میں زیادہ تر زلزلے اور سونامی اس علاقہ میں ریکارڈ کئے گئے ہیں۔دنیا کے کل 90 فی صد زلزلے اور بڑے زلزلوں میں 81 فی صد اس خطہ میں آتے ہیں۔

          ماہرین ارضیات (Geology) کے مطابق اس کی وجہ بحر الکاہل کی پلیٹ (Pacific Plate) کا دیگر پلیٹوں کے ساتھ رگڑ کھانا اور ٹکرانا ہے۔

 

          سال 2018ء آتش فشاں پھٹنے اور زلزلوں کی تعداد کے حوالے سے نمایاں رہا۔ جنوری 2018ء میں فلپائن کے کوہ مایون کے پھٹنے کا عمل شروع ہوا اور تقریباً ایک ماہ تک جاری رہا۔ فروری میں انڈونیشیا کا کوہ سنا بنگ (Sinabung) پھٹا اور دھوئیں کے بادل وسیع و عریض علاقہ میں پھیل گئے۔ جون 2018ء میں گوئٹے مالا میں آتش فشاں پھٹنے سے 100 سے زائد اموات ہوئیں۔ محققین کے مطابق زمین پر کسی بھی لمحہ اوسطاً دس سے بیس کی تعداد میں آتش فشاں پھٹنے کا عمل وقوع پزیر ہو سکتا ہے۔

          بعض خوابیدہ آتش فشاں ایسے ہیں جو اگر چہ طویل عرصہ سے پر سکون ہیں لیکن ماہرین کے خیال میں ان کے پھٹنے سے کرہ ارض پر انقلابی ، ماحولیاتی اور جغرافیائی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔

          ایسے آتش فشاں جو ایک ہزار مکعب کلو میٹر ( 240 مکعب میل) سے زیادہ لاوے اور دوسرے مواد پہ مشتمل مادہ کا حجم خارج کریں ، عظیم آتش فشاں (super volcano) کہلاتے ہیں۔

          امریکی ریاست وایومنگ کے Yellowstone نیشنل پارک میں موجود Yellowstone Caldera بہت بڑا نشیب ہے۔ یہ دراصل ایک عظیم آتش فشاں کا دہانہ ہے، جہاں سے نیچے زمین کے مرکزی حصہ تک جانے والا لاوا چینل موجود ہے۔

          البتہ جو بات تعجب خیز اور دل چسپ ہے وہ اس دہانہ کے نتیجہ میں قشر ارض سے تھوڑے فاصلہ پر موجود انتہائی حرارت کا ایک مقام ہے۔ یہاں سے میگما اوپر آکر ذخیرہ کی صورت میں اکٹھا ہو گیا ہے۔ اسے زیر زمین لاوے کی ایک جھیل سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ لاوے کے اس بڑے ذخیرہ کے عین اوپر موجود زمین کا ٹکڑا نیچے دھنس گیا ہے جس نے بڑے دہانہ کی شکل اختیار کر لی ہے۔

          ماہرین کے مطابق اس دہانہ کے بننے کا عمل پچھلے ہزار سال میں رفتہ رفتہ انجام پایا ہے۔ یہ عظیم آتش فشاں بظاہر خاموش ہے لیکن نیچے موجود ابلتے ہوئے سیال میگما کی بے پناہ حرارت کی وجہ سے قریب و جوار میں گرم پانی کے چشموں کو جنم دیتا ہے۔ میگما کا یہ بڑا ذخیرہ سطح ِ زمین سے محض تین میل کے فاصلہ پر زیرِ زمین واقع ہے۔

          ماہرین ارضیات کی تحقیق کے مطابق اگر مستقبل میں Yellowstone کا آتش فشاں پھٹتا ہے تو اس کے اثرات کرہ ارض پر محیط ہو سکتے ہیں۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کا بڑا حصہ اس سے شدید متاثر ہو سکتا ہے اور زہریلی گیسوں کی انتہائی بڑی مقدار کرہ زمین کو تہس نہس کر سکتی ہے۔

 

          ایک اور عظیم خوابیدہ آتش فشاں جو ماہرین کے خیال میں یلو اسٹون سے بڑا ہے، Toba کے نام سے انڈونیشیا میں ہے۔ بعض ارضیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ آج سے تقریباً 75 ہزار سال پہلے اس آتش فشاں کے پھٹنے کی وجہ سے زمین پر موجود انسانی آبادی کا 90 سے 95 فی صد ہلاک ہو گیا تھا۔ اس اندازہ میں نقص ہونا عین ممکن ہے البتہ اس سے یہ ضرور ظاہر ہوتا ہے کہ Toba آتش فشاں کس قدر ضخیم ہے۔

          ماہرین کا خیال ہے کہ پچھلے پچیس لاکھ سال کے دوران Toba سب سے بڑے پیمانہ پر پھٹنے والا آتش فشاں ہے جو آخری بار 75 ہزار سال پہلے پھٹا۔ اگر مستقبل میں یہ آتش فشاں بیدار ہوتا ہے تو کرہ زمین پر آبادی معدوم ہونے کا خطرہ ہے۔

          جھیل Toba دراصل اس آتش فشاں کے دہانہ کا نشیب ہے جس کی لمبائی 100 کلو میٹر ، چوڑائی 30 کلو میٹر اور گہرائی تقریباً 505 میٹر تک ہے۔ یہ انڈونیشیا کے جزیرہ سماٹرا کے شمالی حصہ میں واقع ہے۔ Toba انڈونیشیا کی سب سے بڑی جھیل ہونے کے ساتھ دنیا میں کسی آتش فشانی دہانہ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔

          تفکر طلب امر یہ ہے کہ آتش فشانی دہانہ پر پانی کا ذخیرہ موجود ہونے سے آتش فشانی عمل سست ہوگا یا اسے مہمیز ملے گی۔۔؟

          عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

          ” زمین کے اندر گرم سیال مادہ زمین کی اوپری سطح کی طرف آتا رہتا ہے ۔ جب کسی طرح سے پانی اس مادہ کی طرف پہنچ جائے تو وہ بھاپ بن جاتا ہے۔ آتش فشاں سے نکلنے والے بخارات میں سب سے زیادہ کثرت بھاپ کی ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھاپ ہی وہ بنیادی اور متحرک قوت ہے جو دوسرے مادوں اور گیسوں کو زور سے باہر دھکیلتی ہے۔ ان مادوں میں کلورین ، گندھک ، پگھلا ہوا لوہا اور گیسوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ عام ہے۔“

          مضمون میں مثال کے لیے دو معروف اور عظیم خوابیدہ آتش فشانوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ زمین پر درجنوں ایسے خوابیدہ آتش فشاں موجود ہیں جو Super Volcano کے گروہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ خوابیدہ آتش فشانوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے جو دنیا کو کڑوں میں گھیرے ہوئے ہیں۔

          آتش فشاں پہاڑوں کو عموماً تباہی و بربادی کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ ان کی غیر موجودگی میں زمین کا اپنا وجود ، ماحول ، معدنیات ، زر خیزی اور وسائل سب خطرے میں پڑ جاتے ہیں۔

          آتش فشاں کا ظاہری روپ آگ ، لاوا اور زلزلہ ہے لیکن انہیں کی وجہ سے قدرتی وسائل کے خزانے مخلوق کے لیے مہیا ہوتے ہیں۔

          کتاب ” محمد رسول اللہ ﷺ ۔ جلد دوم“ میں تحریر ہے،

          ”نقصان کے ساتھ ساتھ زلزلوں کے روشن پہلو بھی ہیں۔ گرم پانی کے معدنی چشمے زلزلوں کا تحفہ ہیں۔ شفا بخش اثرات کے حامل ان چشموں کا پانی بہت سے مریضوں کے لیے آب ِ حیات ثابت ہوا ہے۔ زلزلوں سے معرض وجود میں آنے والی جغرافیائی تبدیلیوں سے چٹانوں کے نشیب و فراز بدل جاتے ہیں اور آبشار اور جھرنے زمین کی رونق میں اضافہ کرنے لگتے ہیں۔ زلزلوں سے زمین کے اندر بہت سی کار آمد معدنیات سطح ِ زمین پر ظاہر ہو جاتی ہیں۔“

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم