Topics

مٹی اور تخلیقی فارمولے

ہم قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں تو ابتدا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے کرتے ہیں۔ سورۃ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

” تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو عالمین کا رب ہے۔ رحمٰن اور رحیم ہے۔“   (الفاتحہ : ۱۔۲)

رب وہ ہستی ہے جو عالمین کی تخلیق کے بعد ان کے قیام کے لئے تمام وسائل مہیا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ” رب العالمین “ کی حیثیت سے اپنا تعارف ۴۲ مرتبہ کروایا ہے۔ اللہ رب العالمین نے آخری پیامبر اور محبوب ترین ہستی ، حضرت محمد ﷺ کے تعارف کے لیے ” رحمتہ للعالمین “ کا انتخاب کیا۔

” اور ہم نے آپؐ کو نہیں بھیجا مگر عالمین کے لیے رحمت بنا کر ۔“     (الانبیآء : ۱۰۷)           

عالمین ، عالم کی جمع ہے۔ عالم کا ترجمہ اردو میں عموماً جہان کیا جاتا ہے۔ جہان کا وسیع تر مفہوم کائنات میں جاری و ساری کوئی بھی چھوٹے سے چھوٹا یا بڑے سے بڑا نظام ہے خواہ وہ ایٹم یا اس کے ذیلی ذرّات کا نظام ہو، خلیہ کا نظام ہو، یک خلوی اور کثیر خلوی جان داروں کا نظام حیات ہو، نور کا نظام ہو ، کسی کرہ کا نظام ہو، نظام شمسی ہو یا پھر بہت بڑا کہکشانی نظام، سماوات اور اعداد و شمار سے ماورا زمین__ سب عالمین کے مفہوم میں آتے ہیں۔ یہ سارے ان گنت نظام ہمہ وقت وسائل کے محتاج ہیں جو اللہ تعالیٰ تسلسل سے فراہم کرتے ہیں۔

مخلوق کی شناخت احتیاج اور تغیر ہے جب کہ خالق کی ذات احتیاج اور تغیر سے پاک ہے۔ عالمین تغیر کے عمل سے گزر کر فنا ہوتے ہیں اور نئے عالمین ظاہر ہوتے ہیں___ فنا ، بقا میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

فنا اور بقا لازم و ملزوم ہیں۔ الشیخ عظیمی فرماتے ہیں :

” اللہ تعالی ٰ نے فرمایا ' ہو جا' تو کائنات تخلیق ہوگئی۔ انسان ، حیوانات ، نباتات ، جمادات ، زمین اور آسمان میں جتنی بھی مخلوقات ہیں سب وجود میں آگئیں۔ اب اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے مخلوق اور خالق کے درمیان ایسی ہستی کی ضرورت تھی جو ہستی خالق سے قریب ترین بھی ہو لیکن مخلوق ہو چنانچہ جو ہستی پیدا فرمائی اس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

اول ماخلق اللہ نوری

” اللہ نے سب سے پہلے میرا نور تخلیق کیا۔“

اللہ تعالیٰ نے اپنے اور مخلوق کے درمیان تعارف کے لئے رسول اللہ ﷺ کے نور کو تخلیق کیا۔ کسی مخلوق میں سکت نہیں ہے کہ کائنات میں جاری نظام کی تجلیات کو براہ راست قبول کر سکے۔

کائنات عالمین پر مشتمل ہے۔ ہر عالم یا نظام کی بقا نور محمدی ﷺ ہے جو کائنات کی تخلیق سے پہلے خلق ہوا۔ بلا شبہ آپ ﷺ تمام انبیائے کرام علیہم السلام میں سب سے آخر میں تشریف لائے لیکن آپﷺ کا نور کائنات میں پہلی تخلیق ہے۔ اس طرح کائناتی تخلیق کے فارمولوں سے آپﷺ کو بدرجہ اتم آگاہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ تمام عالمین کے لیے رحمت ہیں۔ ان عالمین میں ایک ہماری زمین بھی ہے۔ ہر نظام میں تخلیقی فارمولے کام کرتے ہیں۔

معجزات کے ظہور کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نوع آدم کو تخلیقی فارمولوں کے علوم کی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ تحقیق و تفکر کی صلاحیتیں ان علوم کے حصول کی کوشش میں صرف کریں۔

کرہ ارض ، عالم عناصر ہے۔ عناصر کی تفہیم وقت کے ساتھ تبدیل ہوئی ہے۔ پہلے عناصر اربعہ کی اصطلاح رائج تھی یعنی زمین اور اس میں موجود موالید ثلاثہ چار عناصر کے خلط ملط سے تخلیق پاتے ہیں جو آگ ، پانی ، ہوا اور مٹی ہیں۔ بعد ازاں تحقیق و تلاش سے عناصر کو مزید گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ اب ان کی تعداد محققین نے کم و بیش 118 متعین کی ہے جن میں 94 قدرتی طور پر پائے جاتے ہیں ، باقی 24 لیبارٹری میں مصنوعی طریقوں سے ترتیب دیئے گئے ہیں۔

مصنوعی طریقوں سے ترتیب دینا ، نئے سرے سے بنانا ہرگز نہیں ہے بلکہ قدرتی عناصر میں تاب کار ذرّات داخل کر کے جو مادہ بنتا ہے، ایٹمی نمبر کے اعتبار سے منفرد ہونے کی وجہ سے نیا عنصر کہلاتا ہے۔

مختصراً یہ کہ عناصر ذرّات سے مل کر بنے ہیں۔ ذرّات مزید چھوٹے ذرّات پہ مشتمل ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ جس ذرّہ کو بھی جزولا یتجزیٰ کی حیثیت حاصل ہے وہ مرکب روشنی ہے جس میں اسپیس یعنی مادی خواص پیدا ہو گئے ہیں۔ وضاحت ہو جاتی ہے کہ مادہ کی بنیاد روشنی ہے اور روشنی کی بنیاد نور ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ءؒنے تخلیق کی بنیاد روشنی کو ”نسمہ“ کے نام سے متعارف کروایا ہے۔ ابدال ِ حقؒ فرماتے ہیں:

”نسمہ وہ مخفی روشنی ہے جس کو نور کی روشنیوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور نور و ہ مخفی روشنی ہے جو خود بھی نظر آتی ہے اور دوسری مخفی روشنیوں کو بھی دکھاتی ہے۔“

آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے معجزات میں تخلیقی فارمولوں کی آگاہی یعنی عناصر اور موالید ثلاثہ میں آپ ﷺ کے تصرفات نوع آدم کو مادہ کی بنیاد نسمہ اور روشنیوں سے آگاہی دیتے ہیں۔

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے اللہ تعالیٰ کے خصوصی فضل و کرم اور حضور اکرم ﷺ کی شفقت و عنایت سے آپﷺ کے معجزات کی سائنسی طرزوں میں توجیہات کتاب ” محمد رسول اللہ ﷺ جلد دوئم“ میں وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں۔ ان کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ معجزات رسول اللہ ﷺ دراصل کائناتی فارمولوں کا اظہار ہیں جن میں تفکر کرنے سے اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے ان فارمولوں کی آگہی عطا فرماتے ہیں۔

قارئین کرام! آئیے تفکر کی پیغمبرانہ سنت پر عمل کرتے ہوئے الشیخ عظیمی کی بیان کردہ توجیہات کی روشنی میں معجزات نبوی ﷺ کے علوم پر غور و فکر کریں۔

۱۔ مٹی کے عناصر :

¬  ہجرت کی رات رسول اللہ ﷺ نے تلواروں سے لیس کفار کی جماعت کی طرف مٹھی بھر مٹی پھینکی تو ان کی آنکھوں پر پردہ پڑ گیا اور وہ آپﷺ کو دیکھ نہ سکے۔

” سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام کا ہجرت کے وقت ایک مٹھی بھر مٹی دم کر کے پھینکنا اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ حضور علیہ اصلوٰۃ والسلام کو مٹی یعنی زمین کے تمام عناصر پر پورا پورا تصرف حاصل ہے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مٹھی بھر مٹی پھینکی اور اللہ کے ارشاد کے مطابق دشمنوں کی آنکھوں میں پردہ پڑ گیا تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ مٹی کے عناصر سے جتنی بھی تخلیقات عمل میں آتی ہیں وہ سب متحرک ہو گئیں۔“                   (کتاب : محمد رسول اللہ ؐ جلد دوئم )

زمین کی اوپری سطح جس پر ہم چلتے پھرتے ہیں، فصلیں اگاتے ہیں، مکان بناتے ہیں ” قشرارض“ کہلاتی ہے۔ اس میں قریباً سب معلوم عناصر کم و بیش تناسب میں موجود ہیں لیکن جو عناصر نسبتاً زیادہ مقدار میں ہیں ان میں بلحاظ کمیت آکسیجن 47 فیصد ، سلیکان 27 فیصد ، ایلمونیم آٹھ فیصد ، لوہا پانچ فیصد ، کیلشیم چار فیصد اور میگنیشیم، پوٹاشیم اور سوڈیم دو فیصد ہے۔

ہر مادی عنصر منفرد و طبعی و کیمیائی خصوصیات ، ادراک اور تشخص رکھتا ہے۔ عناصر کی ان خصوصیات کا اظہار بھی ایک دوسرے کی نسبت مختلف ہے۔یہ عناصر انفرادی دائرہ میں اور ایک دوسرے سے مل کر مختلف اور حیرت انگیز تخلیقات وجود میں لاتے ہیں۔ یہ مادی زاویہ نظر ہے۔

علمائے باطن مٹی کو عناصر کا آمیزہ قرار دینے کے ساتھ اس کے تخلیقی پہلو کو بھی آشکار کرتے ہیں۔

” روحانیت کی زبان میں مٹی کا مطلب صرف مٹی نہیں بلکہ یہ ایسا مظہر ہے جس میں تخلیقی فارمولے برسرِ عمل ہیں اور ردو بدل ہو کر مختلف تخلیقات کا روپ اختیار کرتے ہیں۔“   (کتاب : تذکرہ قلندر بابا اولیا ءؒ)

عناصر آپس میں مل کر یا انفرادی طور پر اپنے اندر چھپی ایسی خصوصیات کا مظاہرہ کر سکتے ہیں کہ بینائی عارضی یا مستقل طور معطل ہو جائے۔ مٹی عموماً پھینکتے سے ایسی غیر معمولی صفات کا مظاہر ہ نہیں ہوتا جو ہجرت کی رات آپ ﷺ کے پھینکنے سے ہوا۔ چنانچہ حضور پاک ﷺ نے مٹی کے عناصر کی ان خصوصیات کو غالب کر دیا جن سے بینائی مغلوب ہو جائے۔

غزوہ بدر کے موقع پر رسول اللہ ﷺ نے چند کنکریاں مٹھی میں لے کر کفار کے لشکر کی طرف پھینکیں تو ہوا کا طوفان آگیا۔ جس سے کافروں کی آنکھیں اور نتھنے مٹی سے بھر گئے۔ اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کے اس عمل کے بارے میں ارشاد فرمایا:

” سو تم نے انہیں نہیں مارا لیکن اللہ نے مارا ، اور تو نے نہیں پھینکی مٹھی خاک جس وقت پھینکی تھی لیکن اللہ نے پھینکی اور کرنا چاہتا تھا ایمان والوں پر اپنی طرف سے خوب احسان ، تحقیق اللہ ہے سنتا ، جانتا ۔“   (الانفال : ۱۷)

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ نے غزوہ بدر کے موقع پر فرشتوں کی مدد اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشر کردہ پیغام کی ترسیل کے نظام کا تفصیلی ذکر فرمایا ہے۔

” سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب جنگ بدر میں مسلمانوں کے لیے دعا فرمائی تو اللہ تعالی نے اس دعا کو قبول کیا اور نظام تکوین (administration) کے تحت ملا اعلیٰ نے دعا کی قبولیت کو ملائکہ روحانی تک پہنچایا، ملائکہ روحانی نے ملائکہ سماوی تک دعا کی قبولیت کا اعلان کیا اور چوتھے درجہ کے فرشتے جن کو ملائکہ عنصری بھی کہا جاتا ہے یہ پیغامات قبول کر کے کفر کے مقابل آگئے اوراس طرح اللہ نے نصرت اور فتح عطا فرمائی۔“

کنکریاں( یا مٹی) عناصر کا مجموعہ ہیں، جب آپ ﷺ نے کفار کی جانب پھینکیں تو ان عناصر میں موجود انرجی کو اللہ تعالیٰ نے متحرک کر دیا جس نے ہوا کو طوفان میں بدل دیا۔ یعنی عناصر میں ایسی خصوصیات مخفی ہیں جو عام حالات میں سامنے نہیں آتیں البتہ علم نبوت کے زیر ِ اثر انہیں عمل میں لایا جا سکتا ہے۔

دوسری اہم بات یہ کہ ملائکہ عنصری جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ، عناصر پر متعین فرشتے ہیں اور عناصر کے ظاہری اور چھپے ہوئے خواص سے واقف ہیں۔ ہوا کا طوفان آنے سے یہ نکتہ بھی سامنے اتا ہے کہ ملائکہ عنصری ہوا کے طوفان ، گرد و باد ، سمندری طوفان اور تمام قدرتی آفات وغیرہ پہ متعین کردہ فرشتے ہیں۔ یعنی یہ فرشتے عناصر کی دنیا میں معاملات کی فہم رکھتے ہیں۔

حضرت محمد ﷺ کی حاکمیت کائنات پر قائم ہے۔ تمام کرہ ہائے عناصر پہ آپ ﷺ کا تصرف قائم ہے اور آپﷺ جس طرح چاہیں عناصر کو کام میں لا سکتے ہیں۔

۲ ۔ ذرّہ ذرّہ میں رحمت کا ظہور :

محمد رسول اللہ ﷺ رحمتہ للعالمین ہیں، رحمت کا واسطہ نہ ہو تو کائنات ، تجلیات الہٰی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ اس طرح کائنات کا ہر ذرّہ سرور کائنات ﷺ کی رحمت کے وسیلہ سے قائم ہے۔

ذرّہ کی رائج سائنسی تفہیم ایٹم ہے۔ ایٹم کی بنیاد بالآخر روشنی ہے۔ ذیلی ایٹمی ذرّات ، ایٹم سمیت ہمہ وقت حرکت میں ہیں۔ یہ حرکت ارتعاشی بھی ہو سکتی ہے محوری اور طولانی بھی۔ ذیلی ذرّات میں سے ایک ذرّہ الیکٹران ہے۔ الیکٹران ہمہ وقت طولانی و محوری گردش قائم رکھتا ہے۔ سوچنا یہ ہے کہ گردش اور حرکت کے لیے الیکٹران توانائی کہاں سے لیتا ہے؟

زمین کی عمر کے بارے میں مادی سائنس دانوں نے مختلف اندازے لگا رکھے ہیں کہ زمین کئی ارب سال پرانی ہے ۔ اتنی طویل ترین مدت میں الیکٹران بدستور گردش میں ہیں اور اس میں ذرّہ بھر بھی تعطل واقع نہیں ہوا۔ گردش اور حرکت کے لیے توانائی کی ضرورت ہے۔ ہزاروں لاکھوں سالوں میں مسلسل حرکت کا مطلب یہ ہے کہ کسی ذریعہ سے ذرّات کو توانائی بہم پہنچتی رہے تا کہ ذرّہ قائم رہے ، فنا نہ ہو۔

محققین نے وضاحت کے لیے یہ مفروضہ قائم کیا ہے کہ الیکٹران کی محوری اور طولانی گردش مستقل رہنے کی وجہ یہ ہے کہ الیکٹران ایک وقت میں توانائی (انرجی) کے ایسے لیول میں موجود ہوتا ہے جس میں توانائی کی مقدار خود کار طریقہ سے بحال رہتی ہے۔ البتہ الیکٹران جب کسی دوسرے سے برتر یا کم تر درجہ میں آتا ہے تو اس منسابت سے توانائی جذب یا خارج کرتا ہے۔ اس مفروضہ کی مدد سے کئی عوامل کی تشریح کی گئیں۔ یہ سوال بہرحال موجود ہے کہ توانائی کو مستقل بنیادوں پر قائم رکھنا کیسے ممکن ہے__؟

دوسرا اعتراض یہ بھی ہے کہ ابھی تک توانائی کے مستقل قیام کے حوالہ سے قائم کئے گئے نظریات مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں لہذا کسی نظریہ پر اکتفا کرنے سے مراد نامکمل معلومات کو کافی سمجھنا ہے جو کسی صورت معقول نہیں۔ البتہ باطنی علوم کے ماہرین نے یہ عقیدہ نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔

کتاب ” محمد رسول اللہ ﷺ جلد دوم“ میں تحریر ہے :

”حضور ﷺ عالمین میں موجود ہر شے کے لیے رحمت ہیں۔ رحمتہ للعالمین ہونے کی حیثیت سے کائنات کا ہر ذرّہ اس بات سے واقف ہے کہ ہماری بقا کا انحصار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت کے اوپر ہے۔“

محترم قارئین! اس ایمان افروز اقتباس سے یہ سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ عناصر کی اکائی ، ذرّات کا قیام کن مستقل بنیادوں پر قائم ہے۔

کائنات کا ذرّہ ذرّہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی رحمت کے نور سے فیڈ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام عالمین سمیت ذرّات اور ذرّات پر مشتمل مادی دنیا بقا اور حیات آشنا ہیں۔ معجزات میں تفکر کرنے سے مادی دنیا اور اس کی بساط کو صحیح صورت میں سمجھنا ممکن ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور جو کچھ اس کے اندر ہے نوع انسانی کے لیے مسخر کر دیا ہے لیکن تسخیری فارمولوں کو سمجھنے کا اہل وہی قرار پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پیغمبران کرام علیہم السلام کی تعلیمات بالخصوص آخری کتاب قرآن کریم پر تفکر کرے اور باطن در باطن معنی و مفہوم جاننے کی کوشش کرے۔

انبیائے کرام کے روحانی علوم سے واقف قدسی نفس خواتین و حضرات ہر دور میں موجود رہے ہیں اور اب بھی موجود ہیں۔ یہ ہستیاں اولاد آدم کو باور کراتی ہیں کہ امتی ہونے کی حیثیت سے ہمارا فرض ہے کہ ہم تاج دار کائنات ﷺ کے علوم سے مستفیض ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں اور تمام فکری و تحقیق صلاحیتیں اس علم کو حاصل کرنے کے لیے وقف کر دیں۔ یہ علوم تسخیر کائنات اور اللہ کے عرفان کے علوم ہیں۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم