Topics

کیا دیکھا___؟

طلبا نے استاد محترم کی نگرانی میں تجربہ کیا۔

دس طلبا کو دستانے دے کر چھڑیاں دی گئیں۔ چھری کے آخری حصے میں اسپرنگ اور اسپرنگ کے دہانے پر مختلف مادوں سے بنے چھوٹے چھوٹے گیند تھے۔ کوئی گیند دھات ، کوئی ربڑ اور کوئی لکڑی سے بنا تھا۔ چھڑی لکڑی یا بانس کی تھی۔ اسپرنگ میں بھی تھوڑا بہت فرق تھا۔ طلبا کی آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر قطار میں کھڑا کیا گیا۔ سب کو ہدایت کی گئی کہ چھڑی کی مدد سے آہستہ آہستہ آگے بڑھیں۔ درمیان میں جو شے آئے، اسے اسپرنگ پر لگے گیند کی مدد سے ٹٹولیں تاکہ معلوم ہو کہ یہ کیا ہے۔ جو نام ذہن میں آئے ، ہاتھ بلند کر کے بتا دیں۔

کسی طالب علم نے درست جواب نہیں دیا۔

استادِ محترم نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ چیزوں کی شکل اور حجم سے پہلے واقف نہ تھے کہ ان کے خدوخال محسوس نہ کر سکے؟

طلبا نے کہا کہ ہمارے اور شے کے درمیان دستانے ، چھڑی ، اسپرنگ اور گیند حائل تھیں۔ معلومات جب اتنے میڈیم سے گزر کر ہم تک پہنچیں تو محسوسات بدل گئے۔

استاد نے پوچھا کہ تجربے کا کیا نتیجہ نکلا؟

طلبا نے بتایا کہ شے کو میڈیم کے ذریعے دیکھنے سے حقیقت پردے میں رہتی ہے۔

روزمرہ زندگی میں ہم چیزوں کو دیکھتے ہیں، ان کی آواز سنتے ہیں ، چکھتے ہیں، سونگھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں۔عموماً جاننے کی یہ کوشش کسی نہ کسی میڈیم کے ذریعے ہوتی ہے۔

الف    میز پر تام چینی کی سفید تھالی ہے۔ تھالی میں تازہ چمک دار سرخ سیب ہے۔

۱۔      سرخ رنگ ہمیں سرخ کیوں نظر آتا ہے؟

۲۔     دیگرمخلوقات سیب کا کیا رنگ دیکھتی ہیں؟

ماہرین کہتے ہیں کہ شواہد موجود ہیں کہ شہد کی مکھیاں ، مختلف حشرات ، بعض پرندے اور چوپائے سیب کو سرخ نہیں دیکھتے۔ کسی کو سیب جامنی، کسی کو سیاہ اور کسی کو دوسرے رنگ میں نظر آتا ہے۔ کس کی معلومات درست ہیں؟

محققین کے مطابق سیب روشنی منعکس کرتا ہے اس لئے سرخ نظر آتا ہے۔ جب سرخ روشنی کی لہر کا باریک بینی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ مخصوص frequency پر مشتمل برقناطیس (برقی+مقناطیس) لہر ہے۔ اس کی فریکوئنسی کے مخصوص نمبر کو سرخ کا نام دیا گیا ہے۔

۱۔      لہر بذاتِ خود کسی رنگ پر مشتمل نہیں یعنی بے رنگ ہے پھر سرخ رنگ کی حقیقت کیا ہے؟

۲۔     سرخ رنگ کا احساس کہا ں سے آیا؟

ب موسلا دھار بارش ہے۔ زید کمرے میں بستر پر بیٹھا ہے۔ ایک طرف الماری ہے اور دوسری طرف میز ، کرسی ہیں ، میز پر دو کتابیں ،نوٹ بک ، قلم اور دوات ہیں۔ ان کو دیکھ کر وہ اپنے بارے میں سوچتا ہے تو ذہن میں والدین ، بہن بھائی ، اسکول ، ہم جماعت اور اساتذہ کی تصویریں بنتی ہیں۔ سب کو ایک فریم میں دکھنے کی کوشش کرنے پر خیال آتا ہے کہ ان سب کی انفرادیت ہے۔ میں ان کو اپنا تعارف سمجھتا ہوں جب کہ یہ مجھ سے منسوب رشتے یعنی میڈیم ہیں۔ میں کسی کا بیٹا ، بھائی اور کسی کا دوست ہوں لیکن یہ میری اصل پہچان نہیں ہے۔ میں کون ہوں؟

وہ آنکھیں بند کر کے اپنے سراپا پر غور کرتا ہے__ سراپا کو زندگی اور ماحول کا احساس ہے۔ وہ خود سے کہتا ہے کہ میں ایک زندہ فرد ہوں لیکن ذہن میں سوال آتا ہے کہ میںکون ہے اور فرد کون ہے؟ کون کہہ رہا ہے کہ میں ایک زندہ فرد ہوں؟ ہونے کا احساس کہاں سے ملا؟ اگر ذہن چیزوں کا شعور دیتا ہے تو پھر جسم کی حیثیت کیا ہے؟

ساڑھے تین سو سال قبل مسیح میں چینی مفکر ژوانگ ژو گزرے ہیں جن کی تصنیف ژوانگ ژی تاؤ مت بنیادی کتاب ہے جس میں انسان اور کائنات کی حقیقت کے بارے میں فکری مواد موجود ہے۔ کتاب میں ایک خواب کا ذکر ہے۔

خواب : ژوانگ ژو نے دیکھا کہ وہ تتلی ہے جو اڑ رہی ہے ، باغ میں جاتی ہے ، پھولوں پر بیٹھ کر رس کشید کرتی ہے۔ وہ زندگی سے خوش ہے اور تتلی ہونے پر تشکر کا اظہار کرتی ہے۔ وہ نہیں جانتی کہ ژوانگ ژو کون ہے۔

ژوانگ ژو نیند سے بیدار ہوئے تو خواب کی کیفیات محیط تھیں۔ خود کو انسانی سراپا میں دیکھ کر سوچ میں پڑ گئے کہ آیا میں تتلی ہوں یا میرے جاگتے ہی تتلی سو گئی ہے اور اب وہ خواب میں خود کو ژوانگ ژو دیکھ رہی ہے؟ کیونکہ دونوں کے وجود میں ایک ہی ذہن کار فرما تھا۔ سوچ میں گم ہو گئے کہ وہ آدمی ہیں یا تتلی؟ اگر آدمی کا روپ الوژن ہے تو جاگنے کے بعد تتلی کہاں چلی گئی؟ انہوں نے کیا دیکھا اور حقیقت کیا ہے؟

اپنے ہونے کا احساس اور ماحول کے ادراک کا منبع× کیا ہے؟ تحقیق و تلاش(سائنس) ان کے درست جوابات تک نہیں پہنچ سکی۔ مفروضات قائم کیے گئے جن میں ایکتمثیل کا تصور× ہے۔ اس کا لب لباب یہ ہے کہ ہم ، ہمارا ماحول اور تاثرات سب تمثیل یا فلم ہیں۔ ہم جس دنیا (ڈائی مینشن) میں رہتے ہیں ، وہ فلم کا ڈسپلے ہے جس میں ہر شے ایک کردار ہے۔

اس نظریے میں گہرائی ہے لیکن مادے کو اصل سمجھنے والوں نے دلیل کے بغیر اس کی تردید کی جب کہ ایسے تجربات اور مشاہدات موجوو ہیں کہ جن کو جھٹلانا ممکن نہیں۔

نقلی ہاتھ : آدمی کرسی پر بیٹھا ہے۔ دونوں ہاتھ میز پر ہیں۔ ایک ہاتھ کے قریب رکاوٹ رکھ کر ربڑ یا پلاسٹک سے بنا مصنوعی ہاتھ رکھا جاتا ہے۔ محقق اصلی او ر نقلی ہاتھ کو وقفے وقفے سے مَس کرتا ہے ، چھڑی سے ہلکا رگڑتا ہے اور کبھی ہلکی ضرب لگاتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد آدمی کی کیفیت بدلتی ہے اور احساس ہوتا ہے کہ مصنوعی ہاتھ اس کے جسم کا حصہ ہے۔

یہ تجربہ ہزار مرتبہ مختلف لوگوں پر آزمائیں ، نتیجہ ایک ہی نکلے گا۔ بیشتر تجزیہ نگاروں نے اسے الوژن (ذہن کا فریب) کہا لیکن جس کے ساتھ یہ ہوا__اس کے احساسات گہرے ہیں۔ تجربہ کرنے والے بعض افراد اس غیر متوقع صورتِ حال سے خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان کے محسوسات مصنوعی ہاتھ میں کیسے منتقل ہوئے کہ اسے اپنا ہاتھ سمجھ لیا؟

یہ ورچوئل ریئلیٹی کا دَور ہے۔ آنکھوں پر مخصوص لینس یا اسکرین لگا دی جاتی ہے جس سے مناظر

 سہ جہتی( تھری ڈائی مینشنل) طریقے سے نظر آتے ہیں اور فرد خود کو اس ماحول کا حصہ سمجھتا ہے۔ کچھ خواتین و حضرات3D عینک کو خوف یا حیرت کے عالم میں اتار پھینکتے ہیں۔ یہ تجربات محققین کے لئے سوالات ہیں۔

اگر ہم صرف گوشت پوست یا matter سے بنے ہیں اور ہمارے جذبات و کیفیات کی اصل کیمیائی یا طبعی ہے تو ہمیں ان تجربات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا پرت یا رخ ہے جو ربڑ کے ہاتھ کو جسم کا حصہ ہونے کا احساس دلاتا ہے اور ہمیں ایک ماحول سے دوسرے ماحول میں اس طرح منتقل کرتا ہے کہ ہم باقاعدہ اس سے متاثر ہوتے ہیں؟

معمہ ّ : جانداروں کو تمام رنگ ایک جیسے نظر نہیں اتے۔ ذائقہ ، بو ، لمس اور سماعت کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ شہد کی مکھی بالائے بنفشی شعاعوں کو دیکھتی ہے۔ یہ کس طرح کے رنگ ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ شہد کی مکھی عام رنگوں کو ہم سے مختلف دیکھتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جو رنگ ہم دیکھتے ہیں ۔ وہ حقیقی ہیں یا شہد کی مکھی کو نظر آنے والے رنگ اصل ہیں؟ جب کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ شہد کی مکھی کی حسِ بصارت آدمی سے زیادہ ہے۔ ہم ایک یا آدھا میٹر دور پھول کی ساخت اور اس میں موجود رس نہیں دیکھ سکتے ۔ جو کچھ دیکھتے یا سنتے ہیں، کیا وہ خارج سے منتقل ہوتا ہے__؟ اگر اطلاعات خارج سے منتقل ہوتی ہیں تو ہر مخلوق کے لئے ان اطلاعات کی حیثیت یکساں ہونی چایئے یعنی آدمی جس طرح سرخ رنگ کو دیکھتا ہے__شہد کی مکھی کا مشاہدہ بھی یہی ہونا چاہیے۔

محقق پہلے اس نظریے کو تسلیم کرتے تھے کہ روشنی ہمارے اندر میں ہے جس سے ہم خارجی دنیا کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں__ بعد میں اسے رد کر کے نظریہ قائم کیا گیا کہ روشنی خارج سے اندر داخل ہوتی ہے۔ اب محقق پہلے نظریے کو دوبارہ سمجھنے کی کوشش میں ہیں ۔

محترم عظیمی صاحب نے نہایت آسان الفاظ میں ان تجربات کی اصل سے پردہ اٹھایا ہے۔

”سانپ ایک بڑے چوہے کو اس لئے نگل لیتا ہے کہ اسے چوہا چھوٹا نظر آتا ہے۔ اگر چوہا اتنا بڑ ا نظر آئے جتنا آدمی کو نظر آتا ہے تو سانپ اسے نہیں نگلے گا۔ معنی یہ ہوئے کہ چوہا سانپ کو اتنا بڑا نظر نہیں آتا جتنا بڑا آدمی کو نظر آتا ہے۔“              (کتاب : احسان و تصوف ۔ بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان ، ایم اے اسلامیات کے نصاب میں شامل ہے۔)

سانپوں کا وژن ایسا کیوں ہے؟ اس کی توجیہ یہ ہے کہ ہر آنکھ میں ایک نقطہ ہوتا ہے جو پھیلتا اور سکڑتاہے۔ پھیلنے اور سکڑنے کی مناسبت سے شے چھوٹی بڑی نظر آتی ہے جب کہ شے کا حجم معین ہے۔ اسے چھوٹا یا بڑا دیکھنا الوژن ہے۔ اس طرح دیکھنے میں ایسے میڈیم کا عمل دخل ہے جس میں گھٹنے بڑھنے کا میکانزم ہے۔

ہر مخلوق دنیا کو الگ طریقے سے دیکھتی اور محسوس کرتی ہے۔ یہ جبلت ہے۔ جبلت ماحول میں موجود طرزِ فکر سے بنتی ہے ، اس میں گھٹنے بڑھنے کا نظام کار فرما ہے جب کہ فطرت وہ نظام ہے جس میں تبدیلی اور تعطل نہیں ہے۔

۱۔ جبلی حواس اصل ہیں یا الوژن؟

۲۔ حقیقی حواس کون سے ہیں؟

۳۔ ژوانگ ژو کے خواب سے آپ کیا سمجھے؟

۴۔ محسوسات ایک دنیا سے دوسری دنیا میں کیسے منتقل ہوتے ہیں جبکہ مٹی کا جسم وہاں موجود نہیں ہوتا؟

۵۔ اگر آج کا محقق خواب کی دنیا کو تسلیم نہیں کرتا تو ورچوئل ریئلیٹی اور مصنوعی ہاتھ جیسے تجربات کا کس بنا پر اثبات کرتا ہے؟

مضمون میں پیش کی گئی مثالوں کے تین جز ہیں۔ الوژن ، ریئلیٹی اور زاویہ نگاہ ۔ زاویہ نگاہ ایسے میڈیم کے مطابق ہو جس میں گھٹنا بڑھنا ہے تو یہ الوژن ہے۔ اور زاویہ نگاہ قانونِ الٰہی کے ماتحت ہو جس میں تبدیلی نہیں تو یہ ریئلٹی ہے۔ ژوانگ ژو نے خواب میں خود کو تتلی دیکھا تو وہ سوچ میں پڑ گئے کہ میں تتلی ہوں یا ژوانگ ژو؟ یہ دونوں روپ میڈیم ہیں(گٹھتے بڑھتے ہیں یعنی الوژن ہیں) ، اس حقیقت کے تعارف کا جو حرکت کی شکل میں ان کے اندر موجود ہے۔ ژوانگ ژو کی یہ سوچ کہ میں کون ہوں__ وہ زاویہ نگاہ ہے جو ریئلٹی کا سراغ دیتا ہے۔

لکیروں میں تصویر

ہر ایجاد کے پیچھے خیال ، سوچ یا فکر کارفرما ہے۔ خیال کیا ہے اور اس کے ماخذ سے کیسے واقف ہوں؟

جب ذہن نے مضمون لکھنے کے لئے اس خیال کو قبول کیا تو گہرائی میں غوروخوض کی ابتدا ہوئی اور اطلاع تصویر میں ڈھلنا شروع ہوگئی۔ تصویر کی ابتدا آڑی ترچھی لکیروں سے ہوئی۔ ذہن میں مبہم خاکہ تھا۔ توجہ سے خاکہ واضح ہوا مگر اس میں رنگ نہیں تھے۔ رنگ شیڈز ہوتے ہیں کہ کان کی ساخت کیا ہو، ناک ستواں ہو یا چوڑی ، گال بھرے ہوئے ہوں یا بچکے ہوئے، آنکھیں بادامی ہوں یا پھر غزالی ، ہونٹ گلاب کی پنکھڑی ہوں ، پیشانی کشادہ ہو وغیرہ۔ یہ سب ایک رنگ کے مختلف شیڈز ہیں۔ رنگ مقدار اور شیڈز ذیلی مقداریں ہیں۔ بنیادی طور پر چہرہ کا رنگ ایک ہوتا ہے مگر ذیلی رنگوں میں فرق سے آنکھ ، ناک اور کان کی ساخت مختلف ہو جاتی ہے۔

میں جو تصویر بنا رہا تھا اس میں بظاہر آنکھ کان اور ناک نہیں تھی لیکن یہ بھی کسی کا وجود کا چہرہ ہے جس کے اپنے خدوخال ہیں۔ خاکہ میں رنگ بھرنے سے تصویر واضح ہوگئی ، وہ تصویر جو کاغذ پر منتقل ہونے سے پہلے ذہن میں تھی اور دیکھنے والوں نے ابتدا میں اسے لکیریں سمجھا۔ لکیروں میں جس تناسب سے ربط قائم ہوا، وہ تناسب تصویر کی پہچان بن گیا۔ ( دیکھئے شکل نمبر ۱)

تصویر کی جزئیات کیا ہیں__؟ وضاحت کے لئے غوروفکر کے اگلے مرحلہ کا آغاز ہوا۔ محققین نے علم اور تجربہ کے مطابق طبعی قوانین اور میسر ٹیکنالوجی بروئے کار لاتے ہوئے خیال کو مجسم صورت دی۔ ایجاد جس عمل کی انتہا ہے ، اس کی ابتدا خیال ہے۔

غور کرنے کا مقام ہے کہ جب تک ایجاد نے ممکن یعنی مادی قالب کی شکل اختیار نہیں کی، اس کی حیثیت ذہن میں اطلاع اور اس کے تنزلات یعنی واہمہ ، خیال ، تصور سے زیادہ نہیں۔ یہ مراحل غیر مادی ہیں۔ چنانچہ مادی حواس اس دنیا میں جس شے کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس شے کی بساط (اصل) غیر مادی حالت میں ہے۔ وہ بساط کیا ہے اور کیا اسے دیکھنا اور سمجھنا ممکن ہے__؟

مثال ۱: جدید ہوائی جہاز کی ایجاد امریکی رائٹ برادران کی کاوش ہے۔ ان سے پہلے لوگوں نے مختلف قسم کے گلائیڈ ربنا کر اڑان کی کوشش کی ، بعض کو کسی حد تک کامیابی ملی۔ البتہ رائٹ برادران دو متوازی پروں پر مشتمل گلائیڈر میں موٹر انجن نصب کر کے مختصر اڑان میں کامیاب ہوئے۔

جن لوگوں کو ہوا میں اڑنے کا خیال آیا انہوں نے توجہ خیال میں مرکوز کر دی۔ علم اور ذہنی استعداد کے مطابق عمل کا آغاز ہوا۔ اڑنے کی قدرتی مشینیں یعنی پرندے پہلے سے موجود تھے۔ ان کی جسامت ، ساخت ، پروں کے میکنزم ، ہوائی حرکیات (Aerodynamics) وزن بلحاظ حجم وغیرہ کا مطالعہ کیا گیا اور پھر اڑنے کے خیال کی تشریح کی گئی۔

سب سے پہلے پروں پر مشتمل مشین کا تصور پیدا ہوا۔ تصور بنیادی خاکہ یا ڈرائنگ کی صورت میں کاغز پر منتقل کیا گیا۔ نقائص دور کرنے کی کوشش شروع کی گئی۔ اس پرکشش ثقل ، ہوا کے دباؤ ، رفتار ، پروں کے ڈیزائن ، حجم اور دوسرے طبعی قوانین کا اطلاق کیا گیا حتی کہ خاکہ حتمی ڈرافٹ بن گیا۔ ڈرافٹ یا تصویر کے مطابق لکڑی ، لوہے اور دستیاب ٹیکنالوجی کی مدد سے پروں پر مشتمل ڈھانچہ بنایا گیا۔ مزید تجربات یا تحقیق سے نقائص کی اصلاح کی گئی۔ بالآخر محقق نے اس مشین پر پہلی پرواز کی۔

رائٹ برادران سائیکل کی فروخت کا کام کرتے تھے اڑنے کے خیال میں بے خیال ہوئے تو پروں پر مشتمل گلائیڈرز بنائے اور کامیابی سے مختصر پروازیں کیں۔

موٹر انجن ایجاد ہوا تو کچھ تبدیلیاں کر کے اسے گلائیڈر میں نصب کیا گیا اور ہوائی جہازوں کی صنعت کاری کا آغاز ہو گیا۔ اب تک صنعت میں بے تحاشا تری ہو چکی ہے۔ آواز کی رفتار سے تیز طیارے عام ہیں ، مسافروں اور تجارت و صنعت کے لیے انتہائی جسیم اور بھاری بھر کم جہاز ہوا کے دوش پر رواں دواں ہیں۔

ایجاد کے دو رخ ہیں۔

۱۔ مجسم یا مادی صورت             ۲۔ خیال اور تصور کا تانا بانا

دوسرے رخ کو نظر انداز کرنے سے لامحالہ پہلے رخ کی نفی ہو جاتی ہے۔ خیال اپنی وسعت میں لامحدود ہے، کسی قسم کی قید نہیں کہ اڑنے کے لئے کیا طریقہ اور ٹیکنالوجی استعمال کی جائے۔ حدود کا نفاذ سوچ بچار اور معنی پہنانے سے شروع ہوتا ہے اور معنی پہنانے کا تعلق ذہنی و علمی سطح ، معاشرتی طرزوں ، رویوں اور استعداد سے ہے۔ چنانچہ جس سطح اور وسعت کے حامل ذہن نے خیال پر کام شروع کیا، اسی مناسبت سے ایجاد عمل میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ دو مختلف خطوں میں بسنے والے افراد کو ایک خیال آتا ہے لیکن رونمائی مختلف ہوتی ہے ۔ یہاں تک کہ بنیادی نوعیت کے اوزار اور آلات دوسرے خطہ سے مختلف ہیں۔ یعنی خیال کا مادی رخ اپنی وسعت میں محدود ہے۔

حاصل کلام یہ ہے کہ اس دنیا میں جو شے مادی آنکھ سے نظر آتی ہے، دراصل غیر مادی لکیروں کے تانے بانے یا خاکہ پر قائم ہے۔ یہ خاکے (لکیریں) اس وقت بھی موجود تھے جب مادی جسم نہیں تھا۔ نقش موجود نہ ہو تو جسم نہیں بنتا۔ اسی طرح گھر بنانے کے لئے پہلے نقشہ بنتا ہے۔ سمجھنے میں آسانی کے لئے ایجادات کی مثال دی گئی ہے وگرنہ ہر شے نقوش اور تانے بانے پر قائم ہے۔

مثال ۲: فنون لطیفہ کا اہم ترین جز و فن مصوری ہے۔ اس فن کے اساتذہ نے مبتدی طلبا و طالبات کے لئے اصول و ضوابط اور طریق کار وضع کئے ہیں۔ عوام الناس میں مصوری کے حوالہ سے غلط فہمی یہ ہے کہ مصور خواتین و حضرات خیال میں گم ہو کر آڑی ترچھی لکیریں کھینچتے ہیں یعنی مصور کو تصویر بنانے کے لئے الگ سے مطالعہ اور مشق کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ خیال ناقص ہے۔

جس طرح دوسرے علوم میں طالب علم قدم بقدم چل کر ایک کے بعد ایک جماعت پڑھتے ہیں ، انہیں مسلسل محنت اور مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے ، یہی صورت فن مصوری کی ہے۔ پہلے لکیروں کا علم سکھایا جاتا ہے کہ سیدھی ، خم دار اور آڑی ترچھی لکیریں کس طریقہ سے مختلف شکلوں کا روپ اختیار کرتی ہیں اور ان کی پیمائش درست رکھنے کا کیا طریقہ ہے۔ مصوری کا طالب علم بخوبی واقف ہے کہ مبہم خاکہ ، واضح ڈرائنگ یا تصویر لکیروں کے جال پر قائم ہے جسے گراف کہتے ہیں۔

چہرہ کے خدوخال کی بنیاد ناک ہے۔ فن مصوری میں سب سے زیادہ ناک کی مشق کرائی جاتی ہے۔ ناک متوازن ہو تو تصویر خوب صورت بنتی ہے۔ناک چہرہ پر سب سے نمایاں ہوتی ہے۔ آدمی جب کسی چہرہ کو دیکھتا ہے پہلے ناک پر نظر پڑتی ہے۔ ناک دیگر خدوخال کو واضح کرتی ہے۔ (شکل نمبر ۲ پر غور کیجئے)

کاغذ پر موجود تصویر ہیئت اور وجود کے اعتبار سے دو ابعاد یعنی لمبائی اور چوڑائی میں بند ہوتی ہے۔ اس میں تیسری ڈائی مینشن موجود نہیں کیونکہ جن لکیروں پر تصور قائم کیا گیا ہے وہ لکیریں صرف دو ڈائی مینشن میں ہیں۔ اگر تصویر کی بنیاد تین ابعاد بنیں تو لازماً تصویر بھی ابعاد ثلاثہ میں مجسم صورت میں مظہر بنے گی۔

تحقیق و تلاش کے موجودہ دور میں اس کی مثال 3D پرنٹنگ ہے۔ کمپیوٹر میں 3D پروگرام میں لکیروں کے جال کی مدد سے ماڈل تشکیل دیا جاتا ہے جو آدمی ، جانور ، گاڑی یا کسی شے کا ہو سکتا ہے۔ ماڈل کے خدوخال ترتیب دیے جانے کے بعد پرنٹنگ کی کمانڈ 3D پرنٹر کو بھیجی جاتی ہے۔

پرنٹنگ کی کمانڈ میں شے کی تمام تفصیلات ہیں۔ 3D پرنٹر میں عام پرنٹر کی طرح سیاہی اور رنگوں کے بجائے مخصوص مادہ پاؤڈر کی صورت میں ہوتا ہے۔ خصوصیت یہ ہے کہ کسی بھی شکل میں ڈھالنے کے لئے حرارت پہنچائی جائے تو یہ ٹھوس حالت اختیار کر لیتا ہے۔

چنانچہ پرنٹ دی گئی اطلاع کے مطابق کسی بھی شے کے ماڈل کو مخصوص مادہ کی مدد سے ایک قالب میں ڈھال دیتا ہے ۔ ابعاد ثلاثہ میں موجود اس قالب کی بنیاد لکیروں کا وہ جال ہے جسے کمپیوٹر میں ترتیب دیا گیا۔

قارئین کرام ! جس طرح لکیروں کے بغیر خاکہ ، تصویر یا 3D مادل نہیں بنتا اسی طرح دنیا میں ہر شے لکیروں کے جال پر قائم ہے ورنہ ترتیب قائم نہیں ہوتی۔ سمجھنا مشکل نہیں کہ لکیروں کی حیثیت ان پر ظاہر ہونے والے قالب سے زیادہ اہم ہے کیونکہ جسے ہم مختلف نام دے رہے ہیں ، وہ انہی لکیروں پر قائم ہے۔ لکیریں جن پر مادی اجسام کا قیام ہے ، کیا ہیں؟ انہیں دیکھنا اور سمجھنا کیسے ممکن ہے__؟

امام سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں:

” جب اسکولوں میں ڈرائنگ سکھائی جاتی ہے تو ایک کاغذ جس کو گراف کہتے ہیں ڈرائنگ کی اصل میں استعمال ہوتا ہے۔ اس کاغذ میں گراف یعنی چھوٹے چھوٹے چکور خانے ہوتے ہیں۔ ان چکور خانوں کو بنیاد قرار دے کر ڈرائنگ سکھانے والےاستاد چیزوں ، جانوروں اور آدمیوں کی تصویریں بنانا سکھاتے ہیں، استاد یہ بتاتے ہیں کہ ان چھوٹے خانوں کی اتنی تعداد سے آدمی کا سر ، اتنی تعداد سے ناک ، اتنی تعداد سے منہ اور اتنی تعداد سے گردن بنتی ہے۔ ان خانوں کی ناپ سے وہ مختلف اعضا کی ساخت کا تناسب قائم کرتے ہیں جس سے تصویر بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔ گویا یہ گراف تصویروں کی اصل ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں اس گراف کو ترتیب دینے سے تصویریں بن جاتی ہیں۔ بالکل اسی طرح نسمہ کی یہ لکیریں تمام مادی اجسام کی ساخت میں اصل کا کام دیتی ہیں۔ ان ہی لکیروں کی ضرب تقسیم موالید ثلاثہ کی ہئتیں اور خدوخال بناتی ہیں ۔ لوح محفوظ کے قانون کی رو سے دراصل یہ لکیریں یا بے رنگ شعاعیں چھوٹی بڑی حرکات ہیں۔ ان کا جتنا اجتماع ہوتا جائے گا اتنی ہی اور اس طرز کی ٹھوس حسیات ترکیب پاتی جائیں گی۔ ان ہی کی اجتماعیت سے رنگ اور کشش کی طرزیں قیام پاتی ہیں ۔ اور ان ہی لکیروں کی حرکت اور گردشیں وقفہ پیدا کرتی ہیں۔ ایک طرف ان لکیروں کی اجتماعیت مکانیت بناتی ہے اور دوسری طرف ان لکیروں کی گردش زمانیت کی تخلیق کرتی ہے ۔“

مضمون کی ابتدا میں سوال تھا کہ خیال کا ماخذ کیا ہے ۔۔ خیال اطلاع ہے__ اطلاع کے نزول کے مراحل ہیں۔ ابتدا لکیروں سے ہوتی ہے۔ لکیریں پہلے مبہم ، اس کے بعد معمولی گہری اور پھر بتدریج گہری ہوتی جاتی ہیں ۔ لکیریں دراصل گراف پر حدود قائم ہونا ہے تاکہ فرد ان کی مدد سے لاشعور سے واقف ہونے کی کوشش کرے کیونکہ لاشعور لکیروں کی بنیاد ہے۔

قلندر بابا اولیاء ؒنے جامع اور واضح انداز میں مادی اجسام کی اصل ” لکیروں“ کی حقیقت بیان فرمائی ہے۔ یہ لکیریں جن روشنیوں سے بنی ہیں وہ نسمہ کی روشنیاں کہلاتی ہیں۔ نسمہ کی روشنی عام روشنی نہیں ہے۔ عام روشنی کو مادی نگاہ سے دیکھنا ممکن ہے جب کہ نسمہ کی روشنی کو صرف روح کی آنکھ دیکھتی ہے۔

یہ بھی وضاحت ہوتی ہے کہ نسمہ کی روشنیاں نہ صرف مادی اجسام کی تخلیق کا باعث ہیں بلکہ مادی حواس کی تخلیق بھی ان سے ہوتی ہے ۔ مادی جسم جس کو ہم مرتے دم تک اپنا اصل جسم سمجھتے ہیں ، نسمہ کی روشنیوں کے جال کے اوپر قائم ہے۔ حضور قلندر بابا اولیا ء ؒنے واضح انداز میں نسمہ کی روشنیوں کو بیان فرمایا ہے۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم