Topics

کوئی نہیں ….. مگر اللہ

ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ،

” یہ وہ لوگ ہیں کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ نہیں کوئی اللہ کے سوا ( لا الہ الا اللہ ) تو یہ سرکشی کرتے ہیں۔“        (الصٰفٰت :۳۵)

”پس جان لو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ( لا الہ الا اللہ ) اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مرد اور مومن عورتوں کے لئے بھی ۔“         (محمد : ۱۹)

قرآن کریم میں ” لا الہ الا اللہ “ کے الفاظ دو آیات میں جب کہ ” اللہ لا الہ الا “ کا ذکر کئی آیات میں ہے۔ لفظ ”لا“ جس کا معنی نہیں ہے، قرآن کریم میں 1،670 بار استعمال ہوا ہے۔

لا الہ الا اللہ کی ابتدا لافظ لا سے ہونا تفکر طلب ہے۔لا یا نہیں کی اہمیت کیا ہے__؟

غور و فکر سے ادراک ہوتا ہے کہ ہونے کے عرفان کے لئے کچھ نہ ہونے سے گزرنا کتنا ضروری ہے۔ نہ ہونے کے میکانزم کو سمجھے بغیر حقیقت سے واقف نہیں ہوتے۔

(ان الفاظ کو تین دفعہ پڑھنا ضروری ہے)

اللہ احد ہے ، ایک ہے۔ ایک سے شناسائی اس صورت ممکن ہے جب ایک کے سوا ہر شے کی نفی (لا) ہو جائے یا ہر شے صفر ہو جائے۔

نفی کو صفر سے ظاہر کیا جاتا ہے لہذا صفر یا نہ ہونے کا تصور ہمیشہ سے موجود ہے اگرچہ انسانی تہذیب میں صفر بہت دیر سے استعمال کیا گیا۔

ابتدائی زمانوں میں تجارت یا گنتی کے لئے علامات اور لکیریں استعمال کی جاتی تھیں۔ بعض اوقات کسی زبان کے حروف تہجی گنتی کے متبادل استعمال ہوتے۔ ایک چرواہے کے لئے یہ اہم تھا کہ اس کے پاس کتنی بکریاں ہیں۔ یہ خیال کہ بکری موجود نہیں یعنی بکریوں کی تعداد صفر ہے، چرواہے کے لئے بے معنی تھا غیر موجود شے کا تذکرہ نہیں ہوتا البتہ موجود شے غائب یا ختم ہو جائے تو اسے عدد میں کیسے بیان کریں؟

نکتہ : حروف کی اصل کیا ہے؟

حروف کی حیثیت پہناوے (لباس) کی ہے۔ ہم خیالات کو حروف یا الفاظ کے لابدے میں ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر آوازیں ہیں۔ ہر خطے میں آوازوں کی علامات مرتب کرنے سے زبان بنی۔ الفاظ تمام زبانوں میں مختلف ہو سکتے ہیں لیکن جن اشیا کے لئے بولے جاتے ہیں، ایک ہیں جیسے پانی ، واٹر، مادہ ، ایکوا ، جل وغیرہ سب ایک شے کے نام ہیں۔

الفاظ کی طرح اعداد کے نظام کی ابتدا ء وحی کے علوم یا الہامی کتب سے ہوئی۔ سات آسمان ، زمین کے سات طبقات ، چھ ایام میں کائنات کی تخلیق ، ماہ و سال کے نظام کا تعین الہامی کتب میں ہے۔ اعداد میں دس یا اعشاری نظام ، سیکڑا اور ہزار کا ذکر قرآن کریم کی ایات میں ہے۔ ایک مثال ”لیلۃ القدر خیر من الف شھر“ ہے۔

نکتہ ۲: متعدد ارا اور روایات بتاتی ہیں کہ لا یا کچھ نہ ہونے کو سب سے پہلے عدد کی شکل کس نے دی۔ مستند روایت میں نامور مسلم محقق و ریاضی دان محمد بن موسیٰ الخوارزمی کا نام ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ ریاضی کی شاخ الجبر اکابانی ہے۔ اس کی کتاب ” الجبروۃ المقابلتہ“ سے الجبرا کی اصطلاح سامنے آئی۔ یہ وہ پہلی کتاب ہے جس میں اس نے عربی لفظ لا کا استعمال ہند سے اور لفظ کے طور پر کیا جو آج بھی متعمل ہے۔ الخوارزمی کی بنائی ہوئی لا کی لفظی شکل ریاضی میں علامت ٪ کے طور پر لکھی جاتی ہے۔ ریاضی میں ٪ سے مراد نامعلوم مقدار یا شے ہے۔ الخوارزمی نے لا کو ہند سے کی شکل میں لکھنے کے لئے نقطہ یا چھوٹا دائرہ (O) بنایا اور اسے صفر کہا۔

محمد بن موسیٰ الخوارزمی کے ایجاد کردہ عربی ہندسے(۱۰،۹،۸،۷،۶،۵،۴،۳،۲،۱) جب یورپ پہنچے تو انہوں نے مختلف شکل اختیار کر لی (1,2,3,4,5,6,7,8,9,10) ۔

الخوارزمی اسلام کے ابتدائی دور کا محقق ہے۔ مسلمان محققین کی تحقیقات اور ایجادات کا مخرج و محرک قرآن کریم کی تعلیمات اور ان تعلیمات کی راہ نمائی میں کائنات میں تفکر تھا لہذا یہ کہنا درست ہے کہ الخوارزمی نے قرآن کریم میں بیان لا کے قانون کو الجبرا اور اعداد میں متعارف کروایا۔

976 میں الخوارزمی نے تحریر کیا،

”اگر حساب میں عشر (دہائی) کی جگہ پر کوئی عدد( ہندسہ) نمودار نہ ہو تو ایک چھوٹا نقطہ یا دائرہ اوپر سے نیچے ترتیب× میں لکھا جائے تاکہ عشر کی ترتیب باقی رہے۔“

یہ نقطہ یا دائرہ صفر ہے۔ الخوارزمی نے لا کونامعلوم کے لئے استعمال کر کے علمِ ریاضی میں انقلاب برپا کر دیا۔ آج ایکس  کے بغیر جدید علمِ ریاضی کا وجود ممکن نہیں۔

ایک کمرا ہے جس میں الماری ، میز ، کرسی ، صوفہ اور دیگر سامان ہے۔ استاد شاگرد کو کمرے میں بھیجتے ہیں کہ اشیا کی فہرست بنائے۔ اگلے روز دوبارہ بھیجتے ہیں۔ شاگرد دیکھتا ہے کہ کمرے سے سارا سامان اور بجلی سے منسلک چیزیں ہٹا دی گئی ہیں۔ وہ آکر باتا ہے کہ کمرا خالی ہے۔استاد پوچھتے ہیں، کمرے میں کتنی چیزیں ہیں؟ شاگرد کہتا ہے ، صفر۔استاد کہتے ہیں کہ تم سوچ سمجھ سے کام نہیں لے رہے۔ کیا واقعی کمرے میں کچھ نہیں اور سب صفر ہے؟

شاگرد ذہن پر زور دیتے ہوئے کہتا ہے کہ کمرے میں ہوا موجود ہے۔

استاد اسے ایک خاص ویکیوم پمپ دیتے ہیں جس سے ہوا کا ہر مالیکیول کمرے میں سے نکل سکتا ہے )اگرچہ آج تک ایسا کوئی پمپ ایجاد نہیں ہوا(۔وہ پمپ کے ذریعے کمرے سے ہوا کے تمام ذرّات نکال دیتا ہے۔

استاد پوچھتے ہیں کہ اب کمرے میں کیا ہے؟ شاگرد کہتا ہے کہ کمرا خالی ہے لیکن کھڑکی سے روشنی اندر آرہی ہے جس کا مطلب ہے کہ کمرے میں روشنی یا توانائی موجود ہے۔

استاد کھڑکی بند کرنے کو کہتے ہیں۔

اب کمرے میں کیا ہے؟

شاگرد کہتا ہے کہ ہوا کا کوئی ذرّہ ہے نہ روشنی۔لیکن روشنی کے لامحدود طیف (spectrum) کی مقداریں ہر حال میں موجود ہیں رہتی ہیں۔

× اوپر سے نیچے ترتیب میں لکھنے سے مراد ہے کہ اوپر یعنی دس ( پہلی دہائی) سے لے کر نیچے سب دہائیوں)بیس، تیس( میں ہندسے یعنی ایک دو تین چار پانچ وغیرہ کے ساتھ نقطہ لگادیا جائے جسے صفر کہا جاتا ہے۔

استاد مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کو بھی خارج کر دیا جائے تو باقی کیا رہا؟

شاگرد کہتا ہے کہ پورا کمرا خالی ہو جائے گا اور اس میں ہر شے کی مقدار صفر ہو جائے گی۔

استاد کہتے ہیں ، کمرا اب بھی خالی نہیں۔

وہ کیسے استاد جی؟

انہوں نے کہا ، کمرے کی اسپیس میں لمبائی ، چوڑائی اور اونچائی یعنی ڈائی مینشن موجود ہے اور جس جگہ کو خالی سمجھ رہے ہو، اس میں خلا ہے جس نے دیواروں ، فرش اور چھت میں فاصلہ پیدا کر کے کمرے کو قائم رکھا ہے۔

شاگرد نے پوچھا ، اگر خلا ختم کر دیں تو؟

استاد نے کہا، کمرا ختم یا زمین بوس ہو جائے گا۔ ہر شے جس کی شکل و صورت ہے ، بنیادی طور پر خلا ہے۔ خلا کا مطلب کچھ اور ہونے کا اقرار ہے۔ جس کو تم خالی کہہ رہے ہو، قدرت نے اسی شے )خلا( سے کمرے کا وجود قائم رکھا ہے۔

شاگرد گہری سوچ میں ڈوب گیا۔

قارئین کرام! جب عدم، کچھ نہ ہونے یا کسی شے کی مقدار کے صفر ہونے کا ذکر کرتے ہیں تو یہ اعتراف ہے کہ ہمیں ان مقداروں کا علم نہیں__یہ ہمارے لئے غیب ہیں،

کتاب مراقبہ میں لکھا ہے،

لا کا معنی نہیں یا نفی کا ہے ۔ لا ۔۔۔ اللہ کی ایک صفت کے انوار کا نام ہے۔ ایسی صفت جس کا تجزیہ ہم ذات انسانی میں کر سکتے ہیں۔ یہی صفت انسان کا لا شعور ہے۔ عمومی طرزوں میں لاشعور اعمال ی ایسی بنیادوں کو قرار دیا جاتا ہے جن کا علم عقلِ انسانی کو نہیں ہوتا۔ اگر ہم کسی ایسی بنیاد کی طرف پورے غور وفکر سے مائل ہو جائیں جس کو ہم یا تو نہیں سمجھتے یا سمجھتے ہیں تو اس کی معنویت اور مفہوم ہمارے ذہن میں صرف لاکا ہوتا ہے یعنی ہم اس کو صرف نفی تصور کرتے ہیں۔

اقتباس میں تفکر سے نکتہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک صفت کے انوار کا نام لا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار کائنات کی بساط ہیں۔

اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا۔

یعنی لا کے انوار کسی شے کو قیام بخشنے کے لئے ضروری ہیں ار محدود حواس سے مخفی ہونے کی وجہ سے یہ لا کے نام سے موسوم ہیں۔

ہم روز لا کی صفت سے رات کے حواس میں داخل ہوتے ہیں۔۔ مادی جسم کی نفی ہو جاتی ہے اور یہ ڈیڈ باڈی کی مانند ہو جاتا ہے۔

نفی ے کیا حاصل ہوتا ہے/

نیند کے دوران جسم کی بیٹری چارج ہوتی ہے، اس میں لاشعور سے توانائی ذخیرہ ہوتی ہے اور ہم چاق و چوبند اٹھتے ہیں۔ جسم اگر لا)نفی( کی کیفیت سے نہ گزرے تو اس کا وجود باقی نہیں رہے گا کیونکہ نیند ختم ہونے سے اعصاب کی فریکوئنسی صفر ہو جاتی ہے۔

بعض محققین سمجھتے ہیں کہ دس یعنی ایک اور صفر کا نظام آج کے دور کا ہے۔ یہ تصور درست نہیں کیونکہ قرآن کریم میں متعدد مرتبہ دس اور دس پر مبنی نظام کا ذکر کیا گیا ہے۔

۱۔ یہ پورے دس دن ہیں )البقرۃ (۱۹۶:

۲۔ اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر سو آدمی ایسے ہوں تو وہ ہزار منکرین پر بھاری رہیں گے کینکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھ نہیں رکھتے۔ )الانفال (۶۵:

۳۔جو کوئی نیکی کرے ، اس کے لئے دس گنا اجر ہے۔ )الانعام (۱۶۰ :

۔سوۃ الانفال کی آیت میں بیس ،دو سو ، سو اور ہزار کے الفاظ پ غور کریںتوبیس (10x2) ، دو سو (10x20) ، سو (10x10)اور ہزار (10x100) کے برابر ہے۔

آیات میں غور و فکر سے دس یا اعشاری نظام کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ محققین ایجادات کے لئے قدرت کی بنائی ہوئی چیزوں سے انسپائریشن لیتے ہیں۔

کسی شے کے قیام کے لیے بساط )بنیاد( کا ہونا ضروری ہے۔ بساط وجود کی اصل ہے او شعور سے مخفی ہے__مخفی شے شعور کے لئے غیب ہے ، دوسرے لفظوں میں لا )صفر( ہے۔ جیسے ہی شعور لا کے مرحلے سے گزرتا ہے ، اصل سامنے آجاتی ہے۔

کلمہ طیبہ پڑھتے ہوئے لا الہٰ کہتے ہیں یعنی پہلے اپنے وجود اور الوژن نظریات کی نفی کی جاتی ہے۔ یہ نفی ذہن کو ایسی زمین بنا دیتی ہے جس کی سرحدیں غائب ہو جاتی ہیں ۔ اس زمین میں داخل ہونے کے بعد فرد بے ساختہ اقرار کرتا ہے کہ الا اللہ__ اللہ کے سواکوئی معبود نہیں۔


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم