Topics

خوف ناک آفت___ روشن امید

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں،

”وہی ہے جو تمہیں دکھاتا ہے بجلی ، ڈرانے اور امید دلانے کے لئے اور وہ بھاری بادل پیدا کرتا ہے اور گرج اس کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتی ہے اور فرشتے بھی ۔ اور وہ کڑکتی بجلیاں بھیجتا ہے اور انہیں وہ جس پر چاہتا ہے عین اس حالت میں گرا دیتا ہے جب کہ لوگ اللہ کے بارے میں جھگڑ رہے ہوتے ہیں اور اللہ بہت قوت والا ہے۔“

( الرعد : ۱۲۔۱۳)

اللہ تعالی نے کن فرمایا تو کائنات کی تمام مخلوقات کے ساتھ ایک مخلوق بجلی وجود میں آئی۔ بجلی باشعور اور باحواس مخلوق ہے جو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح کرتی ہے۔ محقق اسے توانائی کی بنیادی اقسام میں سے ایک تصور کرتے ہیں۔

قرآن کریم میں برقی توانائی کو سمجھنے کے لئے مربوط اور منظم انداز میں وضاحت مذکورہ آیت میں درج ہے۔ بجلی کے لئے قرآن کریم میں تین الفاظ استعمال ہوئے ہیں جنہیں ایک ترتیب میں رکھ کر تفکر کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کی اس عظیم تخلیق کو سمجھنا آسان ہے۔

پہلا لفظ برق ہے ۔ یہ اسم ہے اور اس کے معنی بجلی ، توانائی یا قوت کے ہیں ۔بجلی اور اس کا سورس کیا ہے اور بجلی کن چیزوں میں موجود ہے __؟

محترم قارئین ! برق یعنی بجلی وسیع پیمانہ پر موجود عوامل (Phenomena) کا احاطہ کرتا ہے۔ ان عوامل کا دائرہ اردگرد ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ اونی لحاف میں پیدا ہونے والا spark ، خشک بالوں میں موجود چارجز ، آسمانی بجلی کا چمکنا ، ایٹموں کا آپس میں جڑ کر مالیکیول بنانا ، لمس کا احساس ، اشیاکا ایک دوسرے سے رگڑ کھانا اور خلط ملط ہونا دراصل برقی توانائی کی وجہ سے ہے۔ برقی توانائی کو استعمال میں لانے سے بے شمار آلات وجود میں آئے۔ تحقیق و تلاش کے موجودہ دور میں توانائی اور اس کے طرز ِ عمل کو سمجھنا ناگزیر ہے کہ اگر توانائی کا سوئچ آف کر دیا جائے تو بجلی پر انحصار کی وجہ سے ٹیکنالوجی معدوم ہو جائے گی۔

سوالات : الیکٹران اور پروٹان پر چارجز مساوی لیکن مخالف صورت میں موجود ہیں مگر دونوں میں مادہ کی مقدار انتہائی غیر مساوی ہے ، ایسا کیوں ہے؟

ایک جواب یہ ہے کہ الیکٹران چوں کہ مرکز سے باہر معین فاصلہ پر گردش میں ہیں لہذا انہیں گردش انتہائی سرعت کے ساتھ جاری رکھنے کے لئے اور مدار قائم رکھنے کے لئے بہت کم مقدار مادہ اور زیادہ چارج رکھنا ضروری ہے ورنہ الیکٹران زیادہ وزنی ہونے کی وجہ سے اپنا مدار اور رفتار قائم نہ رکھ سکیں گے اور ایٹم سے فرار ہو جائیں گے۔ سوال کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اگر الیکٹران کا ہلکا ہونا اس کی گردش اور سرعت میں معاون ہے تو پروٹان کا وزن الیکٹران کے برابر کیوں نہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت ہے __؟

دلچسپ سوال یہ بھی ہے کہ اگر ایٹم میں موجود ذرّات پر چارجز کی نوعیت الٹ ہو تو کیا ایسے ایٹم کا وجود ممکن ہے __؟

 محققین نے لیبارٹری میں ایسے ایٹم کے بنانے کا دعویٰ کیا جو پازیٹران اور منفی پروٹان پر مشتمل ہے اور عام ایٹم کی طرح کام کرتا ہے ۔ محققین نے ایسے مادہ کو جو آخر الذکر قسم کے ایٹموں سے بنا ہو، ضد مادہ (antimatter) کا نام دیا ہے۔

اس سوال سے دوسرا سوال یہ مکلتا ہے کہ اگر یہ ممکن ہے تو موجودہ مادی کائنات الیکٹران (منفی) اور مرکز میں موجود پروٹان (مثبت) پر مشتمل ایٹموں سے ہی کیوں بنی ہے؟ کیا مرکز میں منفی اور بیرون میں مثبت چارجز کے ذرّات پہ مشتمل antimatter سے بنی کائنات کہیں موجود ہے __؟

قرآن کریم کے مطابق ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی تخلیق جوڑے کی شکل میں ہے ۔ اگر کائنات کا مادی رخ ہے تو لازماً matter کی ضد یعنی anti matter سے بنی کائنات کا وجود کیوں ممکن نہیں __؟

چارج (مثبت یا منفی) کی اصل کیا ہے __ ؟

الیکٹران پہ منفی اور پروٹان پہ مثبت چارج ہے۔ منفی اور مثبت سے قطع نظر ، چارج ایک قوت ہے۔ الیکٹران اور پروٹان نے یہ قوت کہاں سے حاصل کی __؟ الیکٹران یا پروٹان کے اندر وہ کیا شے ہے جو قوت پیدا کرتی ہے اور اس کا میکانزم کیا ہے __؟

محققین نے اس کے جواب کے لئے مفروضات قائم کئے ہیں لیکن ابھی انہیں حتمی طور پر جواب نہیں مل سکا کہ چارج کی اصل کیا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر سوال کا جواب مادی حواس سے ممکن ہو۔ آدمی جلد یا بدیر اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ لاشعور سے رابطہ قائم کرے کیوں کہ مادی حواس ، غیر حواس کے تابع ہیں اور جب تک بند ہ لاشعور سے واقف نہیں ہوگا، جواب تک پہنچنا ممکن نہین۔

 اللہ کے دوست __ عظیمی صاحب فرماتے ہیں:

” اگر کوئی صاحب بصیرت ان مقداروں سے واقف ہو جائے جو اشیا کی تخلیق میں کام کر رہی ہیں تو وہ مقداروں کو کم و بیش کر کے شے میں ماہیت قلب کر سکتا ہے۔ مقداروں کا علم اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ دھات سیسہ (lead) میں ایسی مقداریں موجود ہیں جو ایٹم کی قوت پر غالب آ سکتی ہیں۔“

برقی چارجز کی اصل اور ان کی قوت دراصل معین مقداریں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مقداروں کو ایک دوسرے سے متوازن کرنے کے لیے منفی اور مثبت کی صورت دے دی ہے اور آدمی کو اختیار تفویض کیا ہے کہ وہ کسی شے کی کنہ سے وقوف حاصل کرنا چاہے ، اسے نیوٹرل ذہن اپنانا ہوگا۔ تفکر کی تکمیل سے کنہ کا ادراک ہوتا ہے۔

تفکر کیا ہے__؟ غیر جانبدار طرز پر گہرائی میں غورو فکر ہے۔ شعوری سرگرمیوں سے توجہ ہٹا کر ایک نقطہ پر توجہ مرکوز کرنا یہاں تک کہ نقطہ گویا ہو جائے۔

صاعقہ یا صواعق : بجلی کے حوالہ سے قرآن کریم میں دوسرا لفظ صاعقہ جس کی جمع صواعق ہے۔ صاعقہ آسمانی بجلی کو کہتے ہیں ۔ آسمانی بجلی کیا ہے اور کیسے پیدا ہوتی ہے__؟

سمجھنے سے پہلے چارجز کے رویوں اور طرز عمل کو سمجھنا ضروری ہے۔ ایٹم میں مثبت چارج مرکز میں حالت سکون میں ہے جب کہ مقابل منفی چارج مرکز کے اطراف گردش میں ہے۔ سوائے ایٹمی اور نیوکلیائی تعاملات کے ، مرکز سے پروٹان الگ کرنا یا تبدیل کرنا شعوری دائرہ کار میں ممکن نہیں۔

چناچہ ایٹم کا بیرون جو الیکٹران پر مشتمل ہے کسی بھی شے پر مجموعی طور پر منفی یا مثبت چارج پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ جس سمت الیکٹرانوں کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے ، مجموعی چارج منفی کہلاتا ہے اور جس طرف بہاؤ کم ہوتا ہے ، چارج مثبت کہلاتا ہے۔

بادل حجم (سائز) کے اعتبار سے وسیع و عریض ہیں۔ بادلوں کی مختلف تہیں جب ایک دوسرے سے گزرتی ہیں تو بخارات کے اپس میں ٹکرانے سے بخارات کے الیکٹران یکساں ترتیب میں نہیں رہتے۔ جہاں ان کی مقدار زیادہ ہوتی ہے وہاں منفی اور بادل کے داسری جانب ان کی کمی کی وجہ سے مثبت چارج پیدا ہوتا ہے۔

چارج شدہ بادل زمین کے قریب ہوں تو اللہ تعالیٰ کے نظام کے تحت زمین پر بادل کے چارج کا مخالف چارج پیدا ہو جاتا ہے۔ اس عمل کو برقیات کی اصطلاح میں برقی امالہ یعنی electrostatic induction کہتے ہیں۔

اگر بادل پر موجود چارج کی مقدار اتنی زیادہ ہو کہ زمین اور بادل کے درمیان موجود ہوا سے نہ روک سکے تو بادل کے چارج کی بہت بڑی مقدار ہوا کی غیر موصل ( جس میں سے برقی رو نہ گزر سکے) دیوار کو توڑتی ہوئی زمین میں جذب ہو جاتی ہے ۔ اس عمل کے دوران بجلی کے بہت بڑے اسپارک ہوتے ہیں جنہیں صاعقہ یا آسمانی بجلی کہا جاتا ہے۔ برقی طبیعات کی اصطلاح میں یہ عمل electrostatic discharge (ESD) کہلاتا ہے۔

یہ ڈسچارج بادل کی ایک تہ سے دوسری تہ میں بھی ہو سکتا ہے ۔ زیادہ تر یہ ڈسچارج بادلوں کی تہ میں واقع ہوتا ہے۔ بادلوں کی مختلف تہوں میں برقی چارج کا پیدا ہونا ، گرم اور ٹھنڈی ہوا کے تھپیڑوں کا اس میں کردار ، نیوٹرل ہوا کا چارج ہو کر پلازمہ میں تبدیل ہونا حتمی طور پر آسمانی بجلی کا بادلوں کے اندر یا بادلوں سے زمین پر گرنا وغیرہ __یہ سب انتہائی پیچیدہ اور تفصیلی عمل ہے جس کی جزئیات کا احاطہ مضمون میں ممکن نہیں۔

قارئین کے لیے اجمالی خاکہ پیش کیا گیا ہے۔

قرآن کریم کے مطابق آسمانی بجلی زمین پر بسنے والے لوگوں کے لئے خوف ناک آفت بھی ہے اور روشن امید بھی ہے۔ محتاط اندازہ کے مطابق ہر سال دنیا میں آسمانی بجلی گرنے سے 6000 سے 24000 لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جب کہ 24000 تک زخمی ہوتے ہیں۔ املاک کا نقصان الگ ہے جس کا تخمینہ مشکل ہے۔ دوسری طرف آسمانی بجلی کا عمل واقع نہ ہو تو زمین کی فضا میں تخلیص ( صفائی یا نتھارنے) کا عمل رک جائے گا اور فضا تعفن اور سرانڈ سے بھر جائے گی۔ پودوں کو نائٹروجن اور نائٹروجن مرکبات مہیا ہونے کا ایک بہت بڑا ذریعہ آسمانی بجلی ہے۔

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں:

” بارش برستی ہے بجلی کڑکتی ہے، بجلی کی کڑک سے ، بارش کی بوندوں سے کھیتوں کو بیش بہا نائٹرجن مہیا ہوتی ہے۔“

محققین نے ابھی تک آسمانی بجلی کو محفوظ کرنے کا کوئی طریقہ ایجاد نہیں کیا جس سے یہ بے پناہ توانائی کام میں لائی جا سکے۔ اندازہ ہے کہ آسمانی بجلی کی ایک کڑک میں اتنی توانائی ہو سکتی ہے کہ وہ بجلی کے تمام سامان و آلات سے آراستہ 56 گھروں کو 24 گھنٹوں کے لئے بجلی مہیا کر سکتی ہے۔ اس حوالہ سے کئی اندازے لگائے گئے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آسمانی بجلی صاف ستھری اور سستی توانائی کا بہترین ذریعہ ہو سکتا ہے۔

آسمانی بجلی سے بچنے کا طریقہ :

ہیرا ایسا پتھر ہے جو آسمانی بجلی کے حوالہ سے حیرت انگیز خصوصیات رکھتا ہے۔ عظیمی صاحب فرماتے ہیں،

”ہیرے کی موجودگی میں آسمانی بجلی نہیں گرتی۔“

رعد: قرآن کریم میں آسمانی بجلی کے حوالہ سے تیسرا لفظ رعد استعمال ہوا ہے۔ رعد اسم ہے جس کا مطلب آسمانی بجلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی گرج ہے۔ یہ زوردار آواز ہے جو ٹوٹنے کی آواز جیسی کڑک سے نسبتاً طویل بھاری آواز میں تبدیل ہوتی ہے۔ رعد یا گرج سے آسمانی بجلی کی ہیبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آسمانی بجلی کی کڑک سے ہوا بہت زیادہ گرم ہو کر پھیلتی ہے اور آواز کی رفتار سے تیز لہریں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ عمل صوتی shock wave پیدا کرتا ہے جس کو عموماً گرج کا نام دیا جاتا ہے۔ بجلی کے کڑکنے سے ہوا کے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔

نجلی کے اسپارک کے اندرونی حصہ میں ایک سیکنڈ کے بیس ہزارویں حصہ (50 مائکرو سیکنڈ) کے اندردرجہ حرارت تقریباً 20 ہزار سینٹی گریڈ سے 30 ہزار سینٹی گریڈ تک ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ارد گرد کی ہوا انتہائی گرم ہو کر تیزی سے پھیلتی ہے، اسے shock wave کہتے ہیں۔ شاک ویومنبع سے مخروطی میں پھیلتی ہے اور زور دار گرج سنائی دیتی ہے۔

بعض اوقات اس کی شدت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ دیواریں لرز جاتی ہیں اور شیشے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اگر کوئی آدمی اس کے احاطہ اثر میں ہو تو کان کے پردے مستقل طور پر خراب ہو سکتے ہیں۔ البتہ اتنی شدید صورت حال بہت کم پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ گرج آواز کی ایک صورت ہے لہذا اس کی رفتار روشنی سے کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بجلی چمکنے کے کچھ وقفہ بعد گرج سنائی دیتی ہے۔

 

بجلی چمکنا…… روشنی کا انعکاس ہے۔ کائنات کی اساس نور ہے اور نور روشنی کی بنیاد ہے ۔ خالق کائنات اللہ آخری الہامی کتاب قرآن کریم میں نور کے بارے میں فرماتے ہیں،

” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق میں چراغ رکھا ہو، چراغ ایک فانوس میں ہو، فانوس کا حال یہ ہو کہ جیسے موتی کی طرح چمکتا ہوا تارا اور وہ چراغ زیتون کے ایک ایسے مبارک درخت سے روشن کیا جاتا ہو جو نہ شرقی ہے نہ غرطی ، جس کا تیل آپ ہی آپ بھڑکا پڑتا ہو چاہے آگ اس کو نہ لگے ۔ روشنی پر روشنی ۔ اللہ اپنے نور کی طرف جس کی چاہتا ہے راہ نمائی فرماتا ہے۔ وہ لوگوں کو مثالوں سے بات سمجھاتا ہے۔“

( النور : ۳۵)

اللہ تعالیٰ نے دیگر آسمانی کتابوں میں بھی روشنی کی طرف متوجہ کیا۔ توریت میں لکھا ہے،

” اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو جا اور روشنی ہوگئی۔“       ( کتاب ۔ پیدائش ، باب ۱، آیت :۳)

( قرآن کریم کے مطابق آسمانی بجلی زمین پر بسنے والے لوگوں کے لئے خوف ناک آفت بھی ہے اور روشن امید بھی ۔ محتاط اندازہ کے مطابق ہر سال دنیا میں آسمانی بجلی گرنے سے 6000 سے 24000 لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں جب کہ 24000 تک زخمی ہوتے ہیں۔)


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم