Topics
رب العالمین اللہ تعالی نے قرآن
کریم میں تخلیق کے رموز بیان کئے ہیں۔
”اور زمین میں الگ الگ خطے ہیں جو
ایک دوسرے سے متصل ہیں۔ انگور کے باغ ہیں، کھیتیاں ہیں، کھجور کے درخت ہیں جن میں
سے کچھ اکہرے ہیں اور کچھ دوہرے۔ سب کو ایک ہی پانی سیراب کرتا ہے ، مگر مزے میں
ہم کسی کو بہتر بنا دیتے ہیں اور کسی کو کم تر۔ ان سب چیزوں میں بہت سی نشانیاں
ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں۔“۔ (الرعد
:۴)
آیئے ! تخلیقی فارمولا سمجھنے کی
کوشش کریں۔
زمین
میں الگ خطے : آیت میں ' زمین میں الگ الگ خطے ہیں جو
ایک دوسرے سے متصل ہیں' کے الفاظ میں زمین کی ساخت اور بناوٹ کا ہر حوالے سے احاطہ
ہے۔ خطوں کے مفہوم میں زمین کے مرکز سے لے کر بیرونی سطح تک پیاز کے چھلکوں کی طرح
متصل طبقات ، زمین کے برا عظمی قطعات اور مزید چھوٹے بڑے علاقے ، ان کا زرخیزی اور
دیگر خصوصیات کے لحاظ سے مختلف ہونا ، سب شامل ہے۔
مختلف
اجناس : زمین ٹکڑوں یعنی مقداروں میں تقسیم ہے۔
ان ٹکڑوں میں متفرق نباتات یا تاثیر کے پھل اور پودے پیدا ہوتے ہیں جن کی انواع
اور ہر نوع میں اقسام آدمی کی شماریات سے زیادہ ہیں۔
ایک ہی
پانی کے بے شمار خواص: قدرت ایک مٹی پر مشتمل قطعہ زمین
کو ایک ہی پانی سےسیراب کرتی ہے اور اس پانی سے انواع و اقسام کے نباتات پیدا ہوتے
ہیں۔ پانی کو متفرق مخلوقات کے سانچوں میں ڈھالنے اور نشو ونما کا نظام زمین میں
ہے۔
آیت میں پانی کی عجیب ترین صلاحیت
کا بیان ہے کہ یہ کسی بھی مخلوق میں ڈھلنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ علاوہ ازیں پانی
میں کیمیائی تعامل کی صلاحیت تمام معلوم اشیا سے زیادہ۔
رب تعالیٰ کا فرمان ہے :
” اور ہم نے جاندار شے پانی سے
بنائی۔“ (الانبیاء : ۳۰)
حیوانات ، نباتات ، حشرات ، جمادات
اور ساری مخلوقات پانی سے تخلیق ہیں۔ موجودہ تحقیق و تلاش تسلیم کرتی ہے کہ ہر جان
دار کیمیائی مرکبات کی منفرد فیکٹری ہے۔ ہر پودے سے مختلف کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں۔ فقط ایک ننھے پودے
میں سینکڑوں اقسام کے کیمیائی مرکبات ہیں۔
آدمیوں اور جانوروں میں بھی یہی
نظام ہے۔ معدہ ، جگر ، پتہ ، لبلبہ ، آنتیں ، غدود حتی کہ سارا جسم ہزاروں اقسام
کے کیمیائی مرکبات پیدا کرنے کا کارخانہ ہے۔ قدرت کی صناعی دیکھئے کہ ہر نوع سے
مختلف کیمیائی مادے پیدا ہوتے ہیں۔
قرآن کریم میں پانی کی صفات رائج
علوم میں بیان کی گئی خصوصیات سے کہیں زیادہ ہیں اور ہم نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ
پانی ایسا کائناتی مظہر ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے ہر شے تخلیق فرمائی ہے۔
زمین تین حصے پانی اور ایک حصہ
خشکی ہے۔ سورج کی تمازت سے سمندروں کی سطح پر پانی بخارات میں تبدیل ہوتا ہے۔
بلندی پردرجہ حرارت میں کمی کی وجہ سے بخارات قدرے قریب آتے ہیں اور بادلوں کی شکل
اختیار کر لیتے ہیں۔ ہوائیں بادلوں کو ہزاروں میل فاصلہ طے کر کے مختلف علاقوں میں
لے جاتی ہیں۔ ہواکے دباؤ اور درجہ حرارت میں کمی کی بنا پر بخارات ضم ہو کر قطرے
بنتے ہیں اور بارش برستی ہے۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کم ہو جائے تو قطروں کے
بجائے اولے برستے ہیں۔ بخارات سے بارش تک پانی کئی حالتوں میں تبدیل ہوتا ہے۔
سمندر میں لاشمار نمکیات و مرکبات
حل ہیں۔ ان میں سوڈیم کلو رائیڈ نسبتاً بڑی مقدار میں ہے۔ سورج سے آنے والے فوٹان پانی
کی سطح سے ٹکراتے ہیں اور توانائی پانی میں منتقل کرتے ہیں۔ حرارت سے پانی کے
سالمات (مالیکیولز) کی حرکت میں تیزی آتی ہے۔ نتیجے میں وہ تیز رفتار سالمات جن کا
رخ اوپر کی جانب ہوتا ہے ، پانی کی سطح سالمات کی باہمی کشش ( surface
tension ۔ سطحی تناؤ) توڑتے ہوئے ہوا میں داخل ہوتے
ہیں۔
وسائل کی تقسیم کا ہر مرحلہ دلچسپ
ہے۔
سالمات پانی کی سطح سے باہر نکلنے
سے پہلے مائع (پانی کی ایک حالت) ہیں۔ جیسے ہی سطح آب سے ہوا میں داخل ہوتے ہیں،
گیس (بخارات) کہلاتے ہیں۔ جب کہ دونوں صورتوں میں یہ پانی ہیں ۔ رفتار اور ماحول
کے فرق سے ان کی شکل تبدیل ہو جاتی ہے۔
سمندری پانی کے سالمات میں نمک اور
دیگر عناصر کے ذرّات ملے ہوئے لیکن جیسے ہی پانی کے سالمات بخارات میں تبدیل ہوتے
ہیں (یعنی پانی سے ہوا میں داخل ہوتے ہیں) تو ان سالمات میں سے نمکیات وغیرہ کے
ذرّات الگ ہوجاتے ہیں اور سالمات خالص حالت میں آجاتے ہیں۔ البتہ ہوا میں موجود
گیسیں بعد ازاں معمولی مقدار میں پانی کے بخارات کے ساتھ کیمیائی تعامل کرتی ہیں
جن سے مختلف تیزابی ( کاربونک ایسڈ ، نائٹرک ایسڈ وغیرہ ) اور کھاد جیسی خصوصیات
کی حامل رطوبات پیدا ہوتی ہیں۔ یہ مرکب بارش میں شامل ہو کر بنجر زمین کے لئے
حیاتِ نو وسیلہ بنتا ہے۔
اشارہ
: مذکورہ عمل سے سمندر کے انتہائی کھارے
اور نباتات کے لئے غیر موزوں پانی کی تاثیر تبدیل ہوتی ہے اور وہ میٹھا ہونے کے
ساتھ زمین کے لئے وافر غذائیت کا حامل ہوتا ہے۔
سوال : پانی
سادہ کیمیائی یا طبعی مرکب نظر ہے لیکن غور طلب ہے کہ اتنے سادہ کیمیائی مرکب میں
بے پناہ خصوصیات کیسے پیدا ہوئیں کہ وہ کرہ ارض کے نظامِ حیات کو قائم رکھنے کے
بنیادی اسباب میں سے ایک ہے __؟
حیرت انگیز امر یہ ہے پانی دریاؤں
، سمندروں ، آبشاروں ، چشموں ، زیرِ ذخائر کے علاوہ لاشمار مخلوقات کے اجسام کا
حصہ اور حیات کا ذریعہ ہے۔ پانی ایک دائرہ مکمل کر کے دوبارہ زمین کے نظام میں
داخل ہو کر نئے سرے سے اپنا عمل دہراتا ہے اور اس کی کیمیائی ترکیب جوں کی توں
رہتی ہے۔
جس طرح دو یا تین گھنٹے کی فلم
دیکھنے کے بعد ہم چند سیکنڈ یا منٹ میں فلم کا بآسانی جائزہ لے سکتے ہیں، اسی طرح
ہزاروں سال کے دورانیے کا تصور کریں__نظر آتا ہے کہ
مخلوقات پانی پیتی ہیں اور استعمال کے باوجود ہزاروں سال سے پانی من و عن موجود
ہے۔ پانی پینے سے بظاہر لگتا ہے کہ مخلوق عامل اور پانی معمول ہے لیکن جب ہم
دیکھتے ہیں کہ پانی ہماری پیدائش سے پہلے موجود تھا اور بعد میں بھی موجود ہے ،
ہمارے پیدا ہونے سے یا مرنے سے پانی میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی تو ہم تسلیم کرنے
پر مجبور ہیں کہ فرد معمول اور پانی عامل ہے__ہم
پانی نہیں پی رہے ، پانی ہمیں پی رہا ہے۔
پانی
کی اقسام : پانی کی طرح کی مخلوقات میں ڈھل جاتا
ہے۔ یہ سب پانی کی اقسام ہیں۔ ان میں کیمیائی اعتبار سے پانی کا فارمولا اگرچہ وہی
رہتا ہے لیکن مختلف مرکبات اور عناصرکی آمیزش سے لاتعداد اقسام کے solution (محلول) اور روغنیات وغیرہ تخلیق پاتے ہیں۔ چونکہ ہر محلول منفرد
خصوصیات کی بنا پر نام اور تشخص رکھتا ہے لہذا اسے مخصوص قسم کے پانی سے تعبیر کیا
جاتا ہے۔
مثال کے طور پر شربت ، پانی کا
مشہور محلول ہے۔ پانی میں چینی ، رنگ ، خوشبو اور بعض اوقات گرم و سرد تاثیر کے
لئے مخصوص عرق حل کیا جاتا ہے۔ اب اس کا نام رکھ دیں ۔ نام دہرانے پر ہم ہمیشہ اسی
محلول کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔
چائے ، کافی ، دودھ ، خون ، لعاب ،
تولیدی مائع ، بارش کا پانی ، جوہڑ کا پانی ، دریا کا پانی ، سمندر کا پانی اور
کنوئیں کا پانی ، پھلوں کے رس ، تمام اقسام کے تیم حتی کہ گوشت پوست کے اجسام جو
بظاہر جمے ہوئے نظر آتے ہیں، سب پانی کی مختلف شکیلیں ہیں۔
سوال: کیمیا
کا طالب علم سوال کر سکتا ہے کہ تیل تو وافع آب خصوصیات رکھتا ہے پھر وہ پانی کی
منقلب شکل کیسے ہوا؟
جواب: تجزیہ
منکشف کرتا ہے کہ کسی بھی معدنی یا نباتی تیل کی تخلیق (سنھیز) دراصل پانی کے کاربن
، ہائیڈروجن اور بعض اوقات آکسیجن اور نائٹروجن وغیرہ کے مرکبات سے کیمیائی طور پر
یکجا ہونے سے عمل میں آتی ہے۔ تیل اور دوسری اقسام کی چکنائی اگرچہ کیمیائی طور پر
پانی کے محلولات نہیں لیکن پانی کے بغیر ان کا وجود نہیں ہے۔ وہ تمام مائع جو پانی
سے بظاہر مختلف کیمیائی فارمولا رکھتے ہیں، دراصل مختلف عناصر و مرکبات کے پانی
میں کیمیائی طور پر حل ہونے سے وجود میں آئے ہیں۔
قرآن
کریم میں ارشاد ہے:
۱، اور وہی ہے جس نے پانی پیدا کیا
آدمی پھر اس کے رشتے اور سسرال مقرر کئے اور تمہارا رب ساری قدرت رکھتا ہے۔ (الفرقان : ۵۴)
۲۔ اور انسان کو چاہئے کہ دیکھے وہ
کس چیز سے پیدا کیا گیا؟ پیدا کیا گیا اچھلتے ہوئے پانی سے ۔ جو نکلتا ہے پیٹھ اور
سینے کے بیچ سے۔ (الطارق : ۵۔۷)
۳۔ کیا وہ منی کا ایک نطفہ نہ تھا
جو ٹپکایا جاتا ہے۔ (القیمٰتہ : ۳۷)
آیات میں نوعِ آدم کو اپنی تخلیق
پر غور کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ جس مادے سے آدمی پیدا کیا گیا ہے وہ ایسا پانی ہے
کہ اس میں سرانڈ ہے۔ رائج علوم میں اس مادے کولوسی کا نام دیا گیا ہے۔
تجزیہ
: منی (سیمین ) کا کیمائی تجزیہ بتاتا ہے
ہے کہ یہ مختلف اجزا پر مشتمل ہے۔ اس کے جزو اعظم ، پانی میں پروٹین اور رغنیات (
جو خود پانی سے تخلیق ہیں) کی مخصوص اقسام حل ہیں۔ پروٹین اور روغنیات کی پانی میں
یکجائی کے لیے انزائم موجود ہیں۔ انزائم کی موجودگی کے دیگر مقاصد اس کے علاوہ
ہیں۔ شکر کے سالمات کی ایک مخصوص قسم فرکٹوز بھی اس محلول کا حصہ ہے۔
یہ پورا محلول نوعی بیج یعنی اسپرم
میں حرکت اور اسے زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اسپرم
کیا ہے__؟
مادی سائنس کی رو سے مخصوص خلیہ (cell) ہے جس میں جسم کے دوسرے خلیوں کی نسبت منفرد
خصوصیات ہیں۔ قرآن کریم کے مفہوم کے مطابق اسپرم کا ممتاز ترین وصف حرکت ہے یعنی
مخلوق کو پیدا کیا ، اچھلتے ہوئے پانی سے۔
محقق نے انسانی اسپرم کا جو سائز معلوم
کیا ہے وہ طول میں اندازاً پچاس سے ساٹھ مائیکرو میٹر
(میٹر کا دس لاکھواں حصہ)اور عرض میں پانچ
مائیکرومیٹر ہے۔ جب کہ اسپرم کے مدمقابل مونث تولیدی خلیہ یعنی بیضے کا سائز130
مائیکرو میٹر سے 200 مائیکرو میٹر ہے۔ یعنی بیضہ اسپرم ( بیج) کے لیے زمین کا
کردار کرتا ہے۔
خلیے کی ساخت میں مزید خلوی رطوبات
، مرکزہ ، مرکزے کے اندر کروموسوم اور ڈی این اے ، ڈی این اے میں نوعیونسبی ریکارڈ
کی حامل جینیاتی ترتیب وغیرہ ہیں۔ لکھنے کا مقصد خلیات کی حیاتیاتی ساخت اور
جزئیات بیان کرنا نہیں ، یہ بتانا ہے قرآن کریم نے تولیدی مائع کو ایسے پانی سے
موسوم کیا ہے جس میں حرکت ( اچھلتا ہوا پانی ) اور سڑاند ہے۔
تحقیق و تلاش جب منی ، اسپرم ،
بیضہ ، پرٹو پلازم اور سائٹو پلازم ، مرکزہ ، کروموسوم ، ڈی این اے اور جتنی ساخت
موجود ہیں، کا مطالعہ کرتی ہے تو نتیجے پر پہنچتی ہے کہ یہ سب پانی کی صورتیں ہیں۔
اشارہ
: پانی میں تخلیق کے لئے درکار ساری
مقداریں ہیں۔ جس تخلیق کی ضرورت ہے، اس کی مقداریں پانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں۔
قارئین
کرام! قرآن کریم کی تعلیمات تمام عالمین اور ادوار پر محیط ہیں۔ الہامی کتاب میں
پانی کے ذکر اور اوصاف پر تفکر سے سمجھ میں آتا ہے کہ جس طرح مادی وجود لباس اور
روشنی کا وجود اصل ہے ، اسی طرح پانی کا بھی ظاہری اور باطنی وجود ہے۔
پانی کا اصل وجود روشنی سے بنا ہے۔
روشنی سے بنے پانی کے اصل وجود کا لباس کسی اور سیارے ، حضیرے یا زون میں مختلف ہو
سکتا ہے۔ چناچہ ہم اخذ کر سکتے ہیں کہ کسی شے کو اس کے لباس سے جاننے کی کوشش کرنا
بالواسطہ طرز فکر ہے۔ بالواسطہ طرز فکر کے نتیجے میں کی جانے والی تحقیقات اصل تک
پہنچانے کے بجائے بھول بھلیوں میں گم کر سکتی ہیں۔
بلا واسطہ طرزِ فکر یہ ہے کہ ہم شے
کے لباس کو نظر انداز کر کے اصل کی طرف متوجہ ہوں اور غیر جانب دار ذہن سے تفکر کی
کوشش کریں۔
خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں:
” نوع ِ انسان میں باشعور اور
بلاصلاحیت افراد اپنی صلاحیتوں کو بالواسطہ کار آمد بنانے کے بجائے براہِ راست
استعمال کریں تو انسان مکانیت کی گرفت سے آزاد ہو کر لازمانی صلاحیتوں سے آشنا ہو
سکتا ہے سائنس دان اس مرحلے میں داخل ہوگئے ہیں کہ اگر وہ الٰہی قوانین کو سمجھ
لیں تو وہ اللہ تعالیٰ کے اس قانون سے فیض یاب ہو جائیں گے اور ان کے اوپر سے مقید
، مضطرب اور مغموم زندگی کا چولا اتر جائے گا۔ ان قوانین کو سمجھنے کا ذریعہ
انبیائے کرام کی تعلیمات ہیں۔“۔