Topics
اللہ تعالیٰ کے حکم سے وجود میں آنے
والی ہر شے زمین (اسکرین) پر ظاہر ہوتی ہے اور مظاہرہ کر کے لوٹ جاتی ہے۔ زمین پر
آنا اصل سے گریز ہے اور مظاہرہ کر کے اصل کی طرف لوٹنا کشش ہے۔
کائنات میں ہر شے کشش اور گریز پر
قائم ہے۔ ظاہری حواس کشش کو مختلف نظر سے دیکھتے ہیں جب کہ باطنی حواس کا نقطہ نظر
اور ہے۔
محقق کے لیے کششِ ثقل اب تک معمہ
ہے۔ سائنس کی تاریخ میں کشش ِ ثقل سے متعلق جن دو نظریات کو صحیح سمجھا گیا ہے ،
ان کہ بنیاد بنا کر تحقیقات و تجربات کئے جاتے ہیں۔
پہلا نظریہ : نیوٹن
نے سترویں صدی عیسوی میں نظریہ ”کائناتی تجاذب“ پیش کیا۔نیوٹن کے مطابق ہر ذرّہ
(جسم) دوسرے ذرّے کو اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اجسام جتنے کثیف یا
وزنی ہوتے ہیں، ان کے درمیان کشش زیادہ ہوتی ہے تاہم فاصلہ بڑھنے سے کشش کم ہوتی
جاتی ہے۔
زمین سمیت دوسرے سیاروں اور ستاروں
کے گول ہونے کی وضاحت میں نیوٹن نے کہا کہ سیاروں کے ذرّات پہلے خلا میں بکھرے
ہوئے تھے ، کشش کی وجہ سے قریب آئے اور اینٹی کلاک وائز چکر کھاتے ہوئے ایک مرکز
کے گرد جمع ہوگئے۔ چونکہ ہر ذرّہ دوسرے ذرّے کو کھینچ رہا تھا لہذا یکساں مقدار
میں کھنچاؤ کی وجہ سے ذرّات کا مرکز سے فاصلہ یکساں ہو گیا اور کرہ ( سیارہ یا ستارہ)
وجود میں آگیا۔
ستاروں اور سورج کے گرد سیاروں کی
گردش کی وضاحت میں نیوٹن نے کہا کہ اجسام ( ذرّات) باہمی کشش کی وجہ سے ایک دوسرے
کی جانب بڑھتے ہیں۔ اگر ان کا رخ سیدھ میں ہے تو ٹکرانے کا خدشہ ہے ، رخ ترچھا
ہونے سے دونوں میں سے جس کا وزن کم ہوتا ہے ، وہ فاصلے اور رفتار کے اعتبار سے
مدار کی شکل اختیار کر کے بھاری جسم کے اطراف گردش کرتا ہے ۔ وزن برابر ہوں تو ایک
دوسرے کے گرد بھی گردش کر سکتے ہیں۔
غیر جانب دار ذہن سے دیکھا جائے تو
نیوٹن کا نظریہ بہت سے امور کی وضاحت نہیں کرتا۔ ان امور کو جاننے سے پہلے دوسرا
نظریہ پڑھیے۔
دوسرا نظریہ : آئن
اسٹائن نے کشش ِ ثقل سے متعلق جو نظریہ پیش کیا، نظریہ اضافیت کی ایک شاخ ہے۔ آئن
اسٹائن کہ کہنا ہے کہ کشش ِ ثقل کا میدان تھری ڈائی مینشن (لمبائی ، چوڑائی اور
اونچائی ) اور وقت کی مقدار کو ملا کر ڈائی مینشن کاا یک جال ہے۔ جال تنے ہوئے
کپڑے کی طرح ہے جس پر کوئی شے رکھی جائے تو وزن کے مطابق جال پر دباؤ پیدا ہوگا۔
مثلاً باریک لیکن مضبوط کپڑا افقی طور پر میدان میں تنا ہوا ہے۔ اس پر دس کلو گرام
وزنی فٹ بال لڑھکائی جائے تو وزن کی مناسبت سے جال جھک جائے گا ۔ جس مقام پر جال
جھکا ہے اس سے کچھ دور آدھا کلو کی ٹینس بال کو کپڑے پر لڑھکایا جائے تو وہ فٹ بال
سے دور گزرتے ہوئے اثر سے محفوظ رہے گی۔ ٹینس بال فٹ بال کے راستے سے گزرے تو
رفتار اور وزن کے مطابق رخ فٹ بال کی طرف ہو جائے گا۔ اگر ٹینس بال اس کے گرد ایک
چکر مکمل کرتی ہے تو دوسرے چکر میں داخل ہو جاتی ہے۔
بعض محققین نے بلیک ہول کو سمجھنے
کے لیے آئن اسٹائن کے نظریے سے مدد لی۔ اسٹیفن ہاکنگ نے اس پر مزید تحقیق کر کے
بلیک ہول سے متعلق نئے مفروضات قائم کئے۔
روحانی طالب جب اس نظریے پر غور
کرتا ہے تو اسے مثال میں سقم نظر آتے ہیں۔
۱۔ کپڑے کا جال دس کلو گرام وزنی
فٹ بال کا وزن کیسے برداشت کرے گا؟ وہ پورا جھک جائے گا۔
۲۔ اسی جال پر آدھا کلو وزنی بال
فاصلے پر سے کیسے گزرے گی اور دائرہ کیسے مکمل کرے گی؟ فٹ بال کا وزن ٹینس بال کو
اپنی جانب کھینچ لے گا۔
دراصل ابھی تک ایسا کوئی تجربہ
نہیں ہوا جو اس مفروضہ مثال کو ثابت کرتا ہو۔
دلچسپ صورت حال :
دوستوں اور دوسرے محققین نے آئن اسٹائن سے پوچھا کہ آپ نے ٹائم اور اسپیس کو ملا
کر ابعاد اربعہ کا تصور پیش کیا ہے ۔ ہم تھری ڈائی مینشن میں دیکھنے کے عادی ہیں ،
فور ڈائی مینشن کا تصور کس طرح کر سکتے ہیں؟
آئن اسٹائن نے ہنستے ہوئے جواب
دیا،
”میں خود اس کے تصور سے قاصر ہوں“
قارئین ! سائنس نے دیکھا نہیں،
دماغ میں جو کچھ آیا وہ لکھا ہے۔ روحانیت جو کچھ دیکھتی ہے ، وہ لکھتی ہے ،
روحانیت مشاہداتی علم ہے جب کہ سائنس لاشعور سے آنے والی تحریکات پر غور کر کے
لاشعور کو شعور کے معانی پہناتی ہے۔
آپ نے دونوں نظریات کا مختصر تعارف
پڑھا۔ ان میں چند مشترک نکات یہ ہیں:
۱۔ ہر جسم میں کششِ ثقل کی مقدار
مختلف ہے۔
۲۔ ان میں حرکت دائروی یا بیضوی
ہے۔
۳۔ اجسام کی مدار میں اور ایک
دوسرے کے گرد حرکت کشش ِ ثقل کی وجہ سے ہے۔
۴۔ کششِ ثقل کی حیثیت بنیادی اور
نتیجے میں پیدا ہونے والی دائروی حرکت ثانوی ہے۔ مثلاً محققین کہتے ہیں کہ چاند
زمین کے گرد ایک مدار میں چکر لگاتا ہے۔ ان کے بقول زمین اور چان میں بنیادی مقدار
باہمی کشش ہے جس کی وجہ سے چاند زمین کے گرد مدار میں گھومنے پر مجبور ہوا۔ البتہ
یہ مدار جس میں چاند زمین کے گرد گھوم رہا ہے، جداگانہ حیثیت نہیں رکھتا۔۔ اصل
حیثیت اور کارفرمائی کشش کی ہے ۔ دائرہ یا مدار محض راستہ ہے جو دو اجسام میں کشش
کے باہمی اثر سے ہوا۔
۵۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کششِ ثقل
ایسی قوت ہے جو برقی مقناطیسی قوتوں کی طرح جوڑے میں ہونے کے بجائے ایک مقدار پر
مشتمل ہے یعنی صرف کشش کی قوت ہے ، گریز کا ذکر نہیں۔
غیر جانبدار ذہن کے لیے یہ نکتہ
قابلِ قبول نہیں کیونکہ الہامی کتابوں اور قرآن کریم کے مطابق ہر شے جوڑے جوڑے
موجود ہے۔
خالق ِ کائنات اللہ تعالیٰ کا
ارشاد ہے :
” بے شک ہر شے اللہ کی طرف سے ہے اور
اللہ کی طرف لوٹ رہی ہے۔“ (البقرۃ : ۱۵۶)
کشش گریز اور گریز کشش سے قائم ہے۔
اللہ کے حکم سے وجود میں آنے والی ہر شے زمین (اسکرین) پر ظاہر ہوتی ہے اور مظاہرہ
کر کے لوٹ جاتی ہے ۔ زمین پر آنا اصل سے گریز ہے اور مظاہرہ کر کے اصل کی طرف
لوٹنا کشش ہے۔ زمین کی کششِ ثقل شے اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور اسل اپنی طرف کھینچ
رہی ہے ۔ ایک طرف کشش اور دوسری طرف گریز کی وجہ سے شے کا وجود قائم ہے۔ صرف گریز
ہو تو اصل یعنی لائف اسٹریم سے ربط ٹوٹ جائے اور شے ختم ہو جائے گی اور اگر صرف
کشش ہو تو فاسلہ پیدا نہ ہونے کی وجہ سے شے ظاہری نظر سے اوجھل رہتی ہے۔
محقق گریز کو نظر انداز کر کے کہتے
ہیں کہ کشش کا سبب ذرّات میں کھنچاؤ ہے جس سے مرکز سے ان کا فاصلہ برقرار اور
یکساں ہے۔ وہ نہیں سوچتے کہ کشش کی وجہ سے ذرّات کو ایک نقطے میں ضم ہو جانا چاہے
حالانکہ وہ بلیک ہول کے نظریے سے اشیا کا ایک ہونا تسلیم کر چکے ہیں۔ درحقیقت ہر
شے کا وجود کشش اور گریز کا ثبوت ہے۔
کشش اور گریز کی قوت سمجھنے کے لیے
اگلے صفحے پر تحریر آیت پر غور کیجیے۔ فرمان ِ الٰہی ہے:
” اور ان کے لیے ایک اور نشانی رات
ہے ہم اس کے اوپر سے دن ہٹا دیتے ہیں تو ان پر اندھیرا اچھا جاتا ہے۔ اور سورج ،
وہ اپنے مقررہ راستے پر چل رہا ہے۔یہ متعین کیا گیا ہے نہایت غالب خوب جاننے والے
کا۔ اور چاند کے لئے ہم نے اس کی منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ وہ دوبارہ ہو
جاتا ہے کھجور کی ٹیرھی پرانی ٹہنی کی طرح۔ نہ سورج کے بس میں ہے کہ چاند کو جا
پکڑ ے اور نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے ، اور سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں ۔“
( یٰس : ۳۷۔۴۰)
آیت میں اجرام ِ فلکی کی محوری اور
طولانی گردش کی بنیاد ، وجہ اور حدود کی پوری وضاحت ہے اور میکانزم کو یقین کے
درجے میں بیان کیا گیا ہے۔ جبکہ سائنس شبہات میں گھوم رہی ہے۔
حقیقی
نظریہ |
سائنسی نظریہ |
۱۔ سورج ، چاند ، سیاروں وغیرہ کے مدار مقرر ہیں جو اپنی حد سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ |
۱۔ اجرامِ فلکی کا ایک دوسرے کے مدار میں داخل ہونے اور
ٹکرانے کا ہمہ وقت احتمال رہتا ہے |
۲۔ مدار منازل میں تقسیم ہیں اور ہر منزل کی مقداریں معین ہیں۔ |
۲۔ مدار ایک ہے ، اس کی
منزلیں نہیں۔ |
۳۔ سورج اور چاند کے پاس راستہ بدلنے کی قوت اور اختیار نہیں سب کے اپنے مدار ہیں جن میں رہنے کے وہ پابند ہیں۔ |
۳۔ سورج اور چاند کے راستے کاتعین کشش ثقل کے تحت ہوتا ہے۔ |
قارئین
! اگر اجرامِ فلکی
کا اپنے
مدار کو
توڑنا ممکن
ہوتا تو
صد گاہوں
میں نصب
ہمہ وقت
کام کرتی
دور بینیں
ایسے مناظر
براہِراست ریکارڈ
کر لیتیں۔
مادی
حواس سے
نظر آنے
والے مناظر
اور محدود
ذہن سے
کی گئی
تحقیق کے
نتائج اصل
کے برخلاف
ہوتے ہیں۔
ابدالِ حق
قلندر بابا
اولیا نے
ایک مکتوب (۱۹ اگست ۱۹۶۳ء) میں تحریر فرمایا
ہے،
”چند خلا باز خلا میں جا چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ۱۰۰ میل سے زیادہ بلندی پر ایک تو بالکل بے وزنی کی کیفیت طاری ہو
جاتی ہے۔دوسرے یہ کہ زمین یا تو بالکل گول یا تقریباً نظر آتی ہے۔ ایک نے کہا ہے
کہ گیند نما نظر آتی ہے۔ ے نے خود بھی مشاہدہ میں دیکھا ہے کہ پیپیتہ کی صورت ہے۔
اب صحیح صورتحال سمجھنا چاہوں تو یہ نظر آئے گا یا محسوس ہوگا یا حقیقت منکشف یہ
ہوگی کہ ساڑھے تین ارب انسان اور چلنے
پھرنے والے چوپائے سب کے سب ٹانگوں کے بل زمین سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ہر انسان یہ کہتا
ہے کہ میں زمین پر پیروں کے بل چل رہا ہوں۔ سمجھ لو کہ وہ کتنی غلط بات کہہ رہا
ہے۔ جب سے نوعِ انسانی آبادہے، وہ تمام لوگ جن پر حقیقت منکشف نہیں ہوئی ہے یہی
کہتے ہیں، یہی سمجھتے ہیں۔ غور کرو کہ جب آدمی پیروں کے بل لٹک رہا ہے تو چل کیسے
سکتا ہے۔ لٹکنے کی حالت تو بالکل جبری ہے۔ اس کا یہ کہنا کہ میں چل رہا ہوں سراسر
غلط ہے۔ جبری حالت میں اس کا ارادہ بے معنی ہے۔“
اس قانون کے تحت کائنات میں ہر شے
معلق یعنی لٹکی ہوئی ہے۔ ماں کے پیٹ میں بچے کی عمومی حالت ، ہماری حالت کے
برعکس ہے۔ بچہ سر کے بل ہوتا ہے تو ڈاکٹر اسے درست حالت سمجھتے ہیں۔
سر کے بل ہونا (الٹا لٹکنا ) کیا
ہے؟
پیر چھت سے باندھ دیں۔ سر نیچے اور
پیر اوپر ہوگا۔ جو قوت پیروں کو نیچے آنے سے روکتی ہے وہی قوت پیروں کو چھت سے
باندھے رکھتی ہے۔ کشش ثقل نہ ہو تو الٹا لٹکنے کا تاثر ختم ہو جائے گا اور آدمی
پیروں کی طرف کو پستی اور سر کی طرف کو بلندی خیال کرے گا۔ زمین پر کھڑے ہو کر ہم
سمجھتے ہیں کہ وزن زمین پر پڑ رہا ہے۔ سائنس کے طلبا بخوبی جانتے ہیں کہ جس کو ہم
اپنا وزن سمجھتے ہیں وہ قوت یا کشش کا احساس ہے۔ کشش میں کمی بیشی سے احساس تبدیل
ہوتا ہے۔
خلاصہ
:زمین پر کششِ ثقل کے اثرات شعوری نظر سے
دیکھتے ہوئے محققین نے اجرامِ فلکی اور کائنات کے دیگر حصوں پر بھی کشش کے قوانین
کا اطلاق کیا جو انہوں نے زمین پر رہ کر بنائے۔ یہ قوانین ٹھوس شواہد اور براہ ِ
راست مشاہدے کے بجائے قیاس پر مبنی ہیں۔ ان کے مطابق صرف کشش کی وجہ سے ستارے اور
سیارے گول یا بیضوی مداروں میں گھومتے ہیں۔ اگر یہ درست ہوتا تو محض کشش کی بنا پر
انہیں ایک دوسرے میں ضم ہو جانا چاہیے تھا۔ حرکت صرف کشش سے اور گریز کے ظاہرے کا
نام ہے۔ محققین کہتے ہیں کہ ہم زمین پر چل رہے ہیں جبکہ روحانی سائنس دانوں نے
بتایا ہے کہ ہم چل نہیں چل رہے ، لٹکے ہوئے ہیں۔ تحقیق و تلاش نے مشاہدے کے بغیر
نظریات قائم کر کے کائنات کو جس طرح سمجھنے کی کوشش کی ہے، اس میں سقم ہے۔ روحانیت
میں مفروضے کی گنجائش نہیں، علم کی بنیاد مشاہدہ ہے۔ اللہ تعالی ٰ نے قرآن میں جا
بجا متوجہ کیا ہے کہ جن حواس سے تم دنیا کو دیکھتے ہو ، وہ فریبِ نظر ہیں۔ الہامی
کتابوں کی روشنی میں کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو تحقیق و تلاش بند گرہیں
کھلتی ہیں۔