Topics

5,500 سیارے

محققین اب دوسرے سیاروں پر زندگی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ سلیکان سے بنی ہوئی مخلوق شیشے جیسی ہو سکتی ہے۔ اگر وہ ہمارے سامنے آئے تو خون کا رنگ کچھ اور ہوگا۔

          کائنات میں تین مخلوقات ممتاز ہیں،

          آدمی ۔۔۔ جنات ۔۔۔ فرشتے

          احسن الخالقین اللہ فرماتے ہیں،

          ۱۔ اُس نے انسان کو ٹھیکری جیسے سوکھے سڑے گارے سے بنایا اور جنات کو آگ کی لپٹ سے پیدا کیا۔

                                                                                      (الرحمٰن : ۱۴۔۱۵)

          ۲۔ تعریف اللہ کے لیے ہے جو آسمانوں اور زمین کا بنانے والا اور فرشتوں کو پیغام رساں مقرر کرنے والا ہے جن کے دو ، دو تین تین اور چار چار پر ہیں۔ وہ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہتا ہے، اضافہ کرتا ہے۔ ( فاطر :۱)

          آدمی سڑے ہوئے گارے سے بنا ہے۔ اچھا گارا بنانے کے لیے مٹی میں سے کنکر اور تنکے وغیرہ الگ کرکے بھر بھری یا سفوف نما شکل دی جاتی ہے۔ چھوٹے بڑے ذرّات میں تبدیل ہونے سے مٹی کا سطحی رقبہ بڑھتا ہے اور پانی زیادہ سے زیادہ جذب ہوتا ہے۔ مٹی میں پانی ملا کر گوندھنے سے حاصل شدہ گارے کا رنگ بھورا ہوتا ہے۔ کچھ وقت کے لیے نم رہنے دیں تو رنگ سیاہی مائل ہو جاتا اور سڑاند ظاہر ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں اس حالت کو ”حماءِِ مسنون“ کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے۔

          گارے کی یہ حالت کسی بھی شکل میں ڈھلنے کی بہتر صلاحیت رکھتی ہے۔ یہ خشک ہونے پر سیاہ ، بھورے پھر سفید رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس کو پکا کر تیار کئے جانے والے برتن زیادہ نفیس اور مضبوط ہوتے ہیں اور پکنے پر بجنے کی واضح آواز پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس مٹی سے بنائے گئے مخصوص برتن ساز کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔

          دیہاتوں میں کچے مکانات میں رہنے والے لوگ گارے کو پانی میں رکھتے ہیں یہاں تک کی وہ سڑ کر سیاہ ہو جاتا ہے پھر دیواروں اور چھتوں پر اس کا لیپ کرتے ہیں ۔ یہ بارش اور دھوپ میں عام گارے سے زیادہ دیر پا ہوتا ہے۔

          مٹی میں سلیکان ، المونیم ، آکسیجن ، کاربن ، ہائیڈ روجن ، نائٹروجن اور نمی (پانی) سمیت تمام عناصر موجود ہیں۔ ان کی مقداروں میں کمی بیشی سے مٹی پتلی ، چکنی ، پتھریلی ، نرم ، سخت یا مختلف رنگوں میں تبدیل ہوتی ہے۔کاربن کے مرکبات سے مٹی میں چپک اور ربر جیسی لچک پیدا ہوتی ہے کیوں کہ کاربن کے ایٹم لمبائی کے رخ پر چار یا چھ اطراف میں جال بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جال میں دوسرے عناصر کے ایٹموں کو بھی استعمال میں لاتے ہیں۔

          جسم کے بنیادی اجزا میں مٹی کے تمام عناصر ہیں لیکن اس کی بناوٹ میں کاربن کا کردار اہم ہے۔۔ یہ دوسرے عناصر سے مل کر زمین کے مکینوں کے لیے بناتا ہے۔

          کاربن باشعور مخلوق ہے (ہر شے باشعور ہے) یہ کس ایجنسی کے دیے ہوئے پروگرام یا ہدایات پر پیچیدہ نوعیت کے اعضاء تشکیل کریم میں روح کی صلاحیتوں کے بارے میں پڑھیے۔

 

          جنات: کی تخلیق آگ کے شعلے سے ہوئی ہے ۔ قرآن کریم کی ایک آیت میں ” نار السموم“ کے الفاظ ہیں۔ عربی لغت کے مطابق نار سموم ایسی آگ ہے جس میں دھواں نہ ہو اور درجہ حرارت عام آگ کی نسبت ناقابل ِ بیان ہو۔

          مادی سائنس کہتی ہے کہ جب آگ کا درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہوتا ہے تو اس میں گیسوں کے ایٹموں سے الیکٹران جدا

ہونے لگتے ہیں اور نیوٹرل ذرّات ، باردار ذرّات (Ions) میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اس کو پلازما کا نام دیا جاتا ہے جو مادے کی چوتھی حالت ہے۔

          آگ شے کو پورا جلانے کی بجائے تھوڑا جلاتی ہے تو دھواں پیدا ہوتا ہے۔ سائنس کہتی ہے کہ آگ لگنا تکسیدی× کیمیائی تعامل ہے۔ اس دوران حرارت اور روشنی کی شکل میں خارج ہونے والی توانائی کو ہم آگ کہتے ہیں یعنی ہیٹ انرجی۔

×تکسید Oxidation} – کسی عنصر یا مرکب کا ہوا میں آکسیجن سے کیمیکل ری ایکشن (کیمیائی تعامل) کرنا ہے-{

          درجہ حرارت انتہائی زیادہ ہونے پر آگ کے اندر گیسیں پلازما یعنی چارج شدہ ذرّات میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ خیال رہے کہ آگ کی تخلیق کے اسباب مختلف صورتوں میں مختلف ہیں۔

__________

فرشتے نور سے تخلیق کئے گئے ہیں۔ خالق ِ ارض و سما کا ارشاد ہے،

          ” اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔“        (النّور : ۳۵)

مٹی ، آگ ، پلازما ، روشنی اور توانائی سب کی بنیاد نور ہے۔ مادی علوم نور کا احاطہ نہیں کر سکتے۔

          کائنات میں لاشمار دنیائیں ہیں۔ انسان ، جنات اور فرشتے ہر زمین پر آباد ہیں۔محققین 1992ء سے قبل کسی سیارے پر آبادی کے قائل نہ تھے۔ تب نظامِ شمسی سے باہر کوئی سیارہ دریافت نہیں ہوا تھا۔ 1992 ء کے بعد اب تک 5،500 سے زیادہ سیارے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ان میں کئی سیاروں پر زندگی کے آثار ہو سکتے ہیں۔

          2023ء میں امریکا کی میسا چیو سٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی اور وسکا نسن یونیورسٹی کی تحقیقات میں محققین نے بر ملا اظہار

کیا کہ }” زندگی کی اکائی ”خلیے“ کے بارے میں ہمارے نظریات محدود فکرکی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔ ہم اس قابل نہیں ہو سکے کہ دوسرے سیاروں پر زندگی کے آثار دیکھ سکیں۔“{

          مادی سائنس نے ابھی تک خلیے کو ان عناصر کی حد تک سمجھنے کی کوشش کی ہے جو سیارہ زمین کے ماحول میں ہیں۔ دیگر دنیاؤں کا ماحول الگ ہونے سے جانداروں کے خلیوں کا مسالا مختلف ہے۔ مثال کے طور پر وہاں کاربن کی مقداریں مختلف ہو سکتی ہیں۔ سیارہ زمین زمین پر H2O کو پانی سمجھا جاتا ہے ، ممکن ہے کہ کسی اور زمین پر پانی کے عناصر مختلف ہوں۔ کہیں بنیادی مائع امونیا ہو اور کہیں میتھین گیس۔۔ یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم میں بیان ” ماء“ کے تصور کی اصل کو سمجھنے کی طرف متوجہ ہے۔

          عناصر ہر جگہ یکساں ہیں ، ان کی مقداریں مختلف ہیں۔ ان ہی عناصر سے ہر زمین پر لباس تخلیق ہوتا ہے۔۔۔ ماحول بدلنے سے لباس کی نوعیت بدل جاتی ہے لیکن عناصر کی اصل تبیل نہیں ہوتی ۔۔۔ کاربن ،کاربن ہی رہتا ہے۔

          ہماری زمین پر خلیے اور DNA میں کاربن کا کردار بنیادی ہے۔ عناصر کے دَوری جدول× میں سلیکان ، کاربن کے گروپ کا ایک عنصر ہے اور بہت سی کیمیائی اور طبعی خواص میں کاربن سے مشابہ ہے۔ کاربن کی طرح سلیکان سے چکنائی اور تیل تیار کیا گیا ہے البتہ مشابہت کے باوجود یہ سیارہ زمین پر ماحول کے فرق کی وجہ سے کاربن کی جگہ نہیں لے سکتا۔ عین ممکن ہے کہ ماحول بدلنے پر یہ کاربن کی جگہ لےلے۔ امکان موجود ہے کہ سلیکان کسی اور زمین پر مخلوق کے مادی لباس کا بنیادی جزو ہو۔

          محققین کا خیال ہے کہ سلیکان سے بنی مخلوق شیشے کی مانند ہو سکتی ہے، وہ ہمارے سامنے آئے تو خون کا رنگ کچھ اور ہوگا۔ تحقیق و تلاش اب تسلیم کرتی ہے کہ دوسرے سیاروں میں مادے کی بنیاد ہماری زمین سے مختلف ہو سکتی ہے۔ واضح رہے کہ محترم عظیمی صاحب کئی دہائیوں قبل یہ انکشاف کر چکے ہیں کہ ہر سیارہ آباد ہے۔ انہوں نے کتاب ” آگہی “ میں لکھا ہے،

          ” ہر سیارے میں انسان اور دوسری مخلوق آباد ہے۔ مخلوق کہیں ٹرانسپیرنٹ ہے۔ کہیں ٹھوس مادہ سے تخلیق ہوئی ہے۔ کہیں قد کاٹھ میں بہت بڑی ہے ۔ کسی سیارے پر بہت چھوٹی ہے۔“

          محقق مادے کی چوتھی حالت پلازما پر لیبارٹری میں تجربات سے دریافت کر چکے ہیں کہ پلازما× سے لباس بننا ممکن ہے۔ قابلِ تحسین ہے کہ سائنس کو مادی حواس اور الات کی محدودیت کا ادراک ہونے لگا ہے اور ان کی توجہ کا رخ الہامی کتابوں میں بیان حقائق کی جانب ہو رہا ہے۔

          کسی زمین پر آدمی کا رنگ ، روپ اور قد کاٹھ مختلف ہونا ممکن ہے لیکن وہ زندگی کے سارے تقاضے پورے کرتا ہے۔ فرق صرف مادے کی نوعیت کا ہے۔ بنیادی تفکر یا روح ہر جگہ ایک ہے۔ روح نے مختلف زمینوں پر دستیاب عناصر سے لباس بُن لیا ہے۔

           مثال پانچ زمینوں کے پانچ آدمی اکٹھے ہیں۔ ایک کا تعلق سیارہ زمین سے ہے۔ دوسرے کا جسم شیشے جیسا شفاف ، تیسرے کا مجسمے کی طرح ٹھوس ، چوتھے کا دھات کی طرح چمکدار اور پانچویں کا جسم ربر کی مانند لچک دار ہے۔ وہ ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران لیکن متفق ہیں کہ بنیادی طور پر ہم ایک نوع کے افراد ہیں۔

×دَوری جدول ) Periodic Table اب تک دریافت کے گئے تمام عناصر کا چارٹ۔ اس میں تمام عناصر کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اُن ایٹمی نمبر کے لحاظ سے ترتیب سے رکھا گیا ہے۔)

×پلازما (مضمون کے دوسرے صفحے پر جنات کی تفصیل میں ہے کہ پلازما انتہائی بلند درجے کی حرارت ہے۔)

 

 

 

 

          خلاصہ مختلف سیاروں پر آدمی کے نوعی لباس میں تنوع کے ذکر کے بعد بات کرتے ہیں فرشتے ، جنات اور انسان کے لباس کی۔

          جو اعضاء آدمی میں ہیں ، وہی تھوڑے مختلف انداز اور تناسب میں جنات میں ہیں۔ فرشتے بھی کم و بیش یہی سراپا رکھتے ہیں۔ تینوں نوعیں الگ ہیں، تخلیق کا مسالا مختلف لیکن مخلوقات میں یہ تینوں اتنے ملتے کیوں ہیں۔۔؟ اس لئے کہ انتظامی لحاظ سے یہ کائنات کے اہم رکن ہیں اور ان کا کردار باقی تخلیقات سے مختلف ہے۔

          جس طرح ہم سوت ، ریشم ، اون یعنی مختلف مادوں سے بنے لباس پہنتے ہیں ، ان کی حرکات جسم کے تابع ہوتی ہیں اور جسم روح کے تابع ہے، اسی طرح تمام زمینوں پر نوعِ آدم کی اصل ایک ہے اور سب روح کے تابع ہیں۔ روح دستیاب مقداروں کے مطابق لباس بُنتی ہے۔ اسی طرح ہر طرح ہر زمین پر موجود آگ کی مخصوص مقداروں سے نوعِ جنات کا لباس بنتا ہے۔ جو جنات جس زمین پر رہتے ہیں ، وہاں کے مطابق ان کے لباس میں عناصر کی مقداریں کم زیادہ ہوتی ہیں لیکن ہر زمین پر ان کے دھاگوں میں فاسفورس غالب ہے۔ یہی صورت فرشتوں کی ہے۔ لاشمار دنیاؤں کے لباس میں فرق کی وجہ ماحول ہے لیکن روح ہر جگہ ایک ہے۔

          مادی لباس پیچیدہ اور حیرت انگیز مشین ہے جس کا مادی علوم ابھی تک احاطہ نہیں کر سکے۔ وہ اس کا کوئی بھی عضو یا پرزہ بنانے سے عاجز ہیں جب کہ روح کی صلاحیت یہ ہے کہ وہ اللہ کے دیے ہوئے علم سے ایک خاص وقت کے لیے کوئی لباس بُنتی ہے اوراس کے ذریعے تحریکات ظاہر کرتی ہے۔

          روح کائنات میں تمام تخلیقات کی ترکیب اور بناوٹ کا علم رکھتی ہے۔ روح کا عارف انسان کائنات میں کھربوں زمینوں پر آباد مخلوقات سے واقف ہو جاتا ہے ، دوسری زمینوں کی سیر کرتا ہے اور نیابت کے منصب پر فائز ہو کر اپنی ڈیوٹی پوری کر سکتا ہے۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم