Topics

کائنات ہم سے مخاطب ہے

ایک کتب خانے سے پتہ چلا کہ فی الحال ناول کی کاپی نہ مل سکے گی۔ وہ مایوس ہو کر گھر جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوا۔ اگلے اسٹیشن پر ایک مسافر عجلت میں ٹرین سے اترا اور سیٹ پر کچھ بھول گیا۔ انتھونی نے آواز دی لیکن وہ جا چکا تھا۔ قریب جا کر دیکھا تو۔۔۔

بارش کی آمد آمد ہے۔ آسمان پر گہرے سیاہ بادل ہیں۔ تھوڑی دیر میں گھن گرج کی آواز آتی ہے جسے سن کر زمین پر رہنے والے بارش کا انتظار کرتے ہیں۔ٹھنڈے بخارات جس سے ٹکراتے ہیں ۔ ہوا ان بخارات کی حرکت ، درجہ حرارت میں کمی اور پھر ان کو اکٹھا کر کے بڑے قطروں کی شکل دینے میں معاونت کرتی ہے۔ بادلوں سے قطرے ٹپکنے کا آغاز ہوتا ہے اور چند لمحوں میں ہزار در ہزار قطرے قطار در قطار زمین کی طرف رخ کر لیتے ہیں۔ ہر دو قطروں کے درمیان مخصوص فاصلہ ہے۔

کائنات کی ہر شے ، ذرّہ اور قطرہ باحواس ہے ، اللہ کی تسبیح بیان کرتا ہے، جس مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے، اس سے واقف ہے اور اسے پورا کرنے کا پابند ہے۔ یہ منظر دیکھ کر لاشعور سے قریب فرد کے ذہن میں نقوش ابھرتے ہیں۔ ہر نقش اپنے جامے میں ایک ہے لیکن ایک نہیں ہے۔ ہر نقش ایک دوسرے کے راز کا امین ہے ۔ جب انفرادی قطرے اجتماعیت کے جلوس میں چلتے ہیں یعنی بستے ہیں تو سوکھی زمین جل تھل ہو جاتی ہے۔

بارش کے قطرے کو بغور دیکھیں تو اس کے اندر باقی قطروں ، بادلوں ، کھیت کھلیانوں اور آبادیوں کا عکس نظر آتا ہے۔ شکل (۱) دیکھئے۔

جیسے جیسے قطرہ نیچے آتا ہے، ماحول کی روشنی اور عکس جذب کر کے منعکس اور منعطف کرتا ہے۔ کیا یہ عمل اطلاعات کی وصولی ، ان کو سمجھنے کی کوشش اور انہیں افرادِ کائنات تک بھیجنا نہیں ہے__؟ جب کہ مادی علوم دریافت کر چکے ہیں کہ روشنی کی ہر لہر گرد و پیش اور دور دراز کی اطلاعات (تصویریں) لے کر سفر کرتی ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو قطرے کی حیات س شعور پر گفتگو غیر روایتی لگے لیکن قطرے کا شعور ، ہر مخلوق کا شعور ہے کیوں کہ زمین پر جسم کی ابتدا اسی سے ہوئی ہے۔ زمین پر ساڑھے سات ارب سے زیادہ آدمی ہیں۔ سب کا ذہن خیال کو ریڈیو ریسیور کی طرح قبول کرتا ہے ، معنی پہناتا اور اس میں موجود تفصیلات کے بارے میں سوچتا ہے۔ ذہن کمپیوٹر پراسیسر ، ٹرانسمیٹر یا براڈ کاسٹر کے طور پر کام کرتا ہے اور ہمہ وقت اطلاعات وصول کرتا اور نشر کرتا ہے۔ شکل (۲) دیکھئے۔

اطلاع کا منبع (سورس) شعور سے ماورا ہے۔ سمجھانے کے لیے اسے لاشعور کا نام دیا گیا ہے۔ اطلاع کائنات میں پھیلتی ہے اور ہر خاص و عام کے ذہن پر دستک دیتی ہے۔

۱۔ جب ایک اطلاع پوری کائنات میں پھیلتی ہے تو اس کے کیا نتائج ہوتے ہیں؟

۲۔ اطلاع زمین سے باہر سیاروں ، کہکشاں اور دنیاؤں میں لازماً سفر کرتی ہے۔ وہاں کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

فرد دانستہ نادانستہ ہر دوسرے فرد سے ربط میں ہے۔ نشانیاں اور واقعات بے شمار ہیں جو باور کراتے ہیں کہ ہم وسیع نظام کا حصہ اور ہر شے سے ہم رشتہ ہیں۔

مثال : مشہور برطانوی اداکار انتھونی باپکنز کی زندگی میں مذہب اور روحانیت کی خاص اہمیت نہیں تھی۔ 1973ء میں ایک ناول سے ماخوذ فلم میں اپنے کردار کی تیاری کر رہا تھا۔ خیال آیا کہ اصل ناول کا مطالعہ کرنا چاہیئے تاکہ کردار بخوبی نبھا سکے۔

وہ علی الصباح لندن کے ایک بڑے کتب خانے میں گیا لیکن ناول نہیں ملا۔ پھر فرداً فرداً شہر کے تمام بڑے کتب خانوں میں تلاش کیا۔ صبح سے شام ہوگئی۔ ایک کتب خانے سے پتہ چلا کہ فی الحال ناول کی کاپی نہ مل سکے گی۔ وہ مایوس ہو کر گھر جانے کے لیے ٹرین میں سوار ہوا ۔ اگلے اسٹیشن پر ایک مسافر عجلت میں ٹرین سے اترا اور سیٹ پر کچھ بھول گیا۔ انتھونی نے آواز دی لیکن وہ جا چکی تھی۔ قریب جا کر دیکھا تو کتاب رہ گئی تھی۔ پتہ چلا کہ یہ وہی ناول ہے جسے صبح سے ڈھونڈ رہا تھا۔ ناول کا مطالعہ کر کے عمدگی سے کردار نبھایا اور کئی ایوارڈ وصول کیے۔ یہ واقعہ اس کے لیے راہ نما بن گیا۔

تحقیق و تلاش کی دنیا میں بہت سے انکشافات اور ایجادات اس طرح کے واقعات کی مرہونِ منت ہیں لیکن معنی پہنانے سے قاصر رہنے کی وجہ سے ہم ان کو اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں۔ ایسا بھی ہوا کہ بعض نے خواب میں اپنی تلاش کا حل کسی منظر یا تصویر کی شکل میں دیکھا ، بیداری کے بعد تجربہ کیا اور مطلوبہ نتائج حاصل ہوئے۔

علمِ نفسیات : 1920ء میں سوئس ماہرِ نفسیات کارل یمگ اس قسم کے واقعات کی درجہ بندی کی کر کےSynchronicity یعنی ہم آہنگی یا زمانی اتفاق کا تصور پیش کیا۔ اس کے مطابق یہ واقعات نہیں بلکہ کائناتی حقائق سے متعلق ہیں جن سے ہم لاعلم ہیں۔ کارل ینگ کو یقین تھا کہ ذہن اور کائنات آپس میں منسلک ہیں اور یہ واقعات کائنات کا ہمارے ذہن سے تبادلہ خیال ہیں لیکن ہم عصر محققین نے اس تصورکو تسلیم نہیں کیا۔ اعتراض یہ تھا کہ اس کی مادی توجیہ موجود نہیں۔ پھر ایسی دریافت سامنے آئی جس نے انہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔

مادی سائنس بتاتی ہے کہ بنیادی ذرّات ، خواہ مادی (الیکٹران ، پازیٹران) ہوں یا روشنی کے ذرّات (فوٹان) جوڑوں کی صورت میں پیدا ہوتے ہیں۔پیدائش کے فوراً بعد ان کی محوری گردش کا رخ اپنے جوڑے سے مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ مثلاً روشنی کی دو شعاعیں جو مخصوص مقداروں پر مشتمل ہیں، ایک نقطے پر جمع ہوتی ہیں تو جھماکا ہوتا ہے جس سے دو الیکٹران وجود میں آتے ہیں۔ ایک الیکٹران کی محوری گردش کلاک وائز اور دوسرے کی اینٹی کلاک وائز ہوتی ہے لیکن محققین کے نزدیک یہ صورت حال اتنی سادہ نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ الیکٹران کا مقام ، حالت (توانائی) اور محوری گردش کا رخ بیک وقت معلوم کرنا ممکن نہیں۔ کسی الیکٹران کی گردش کا رخ جس لمحے معلوم کیا جائے ، اس سے عین ایک لمحہ پہلے ہو سکتا ہے کہ الیکٹران کی گردش وہ نہ ہو یا یہ مختلف گردشوں کا مرکب ہو لیکن جس لمحے اس کی گردش کا رخ معلوم کیا جائے، عین اسی لمحے اس کے جڑواں الیکٹران کی گردش الٹ سمت میں ہوگی ، چاہے وہ کائنات میں جہاں کہیں ہو۔۔ یعنی الیکٹران نے لمحے کی تاخیر کے بغیر دوسرے کنارے پر موجود جڑواں الیکٹران کو اپنی گردشی سمت کا پیغام بھیجا جسے قبول کر کے اس نے اپنی سمت مخالف رخ میں تبدیل کر لی۔ واضح رہے کہ یہ پیغام رسانی روشنی رفتار سے کہیں زیادہ ہے ۔

اُس وقت آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت کی رُو سے قرار دیا جا چکا تھا کہ کائنات میں کوئی شے روشنی کی رفتار سے تیز نہیں۔ آئن اسٹائن نے کوانٹم طبیعات کے بارے میں بارہا ناپسندیدگی ظاہر کی اور جڑواں ذرّات کے تعلق(Quantum Entanglementer) اور طرزِ عمل کو پراسرار فاصلاتی عمل(Spooky Action at a Distance) کا نام دیا۔

ملک آسٹریا کے نوبیل انعام یافتہ ماہرِ طبیعات وولف گینگ پالی کا شمار کوانٹم طبیعات کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ چند صدمات کی وجہ سے اس کی زندگی درہم برہم ہوگئی اور وہ شدید ذہنی پریشانی میں مبتلا ہوگیا۔ کسی نے اسے معالج پال ینگ کے بارے میں بتایا۔ اس وقت پال ینگ ، ذہن اور کائنات کی ہم آہنگی کی تصویر پر کتاب لکھ چکا تھا۔ اس کی زندگی بھی ان واقعات سے دو چار رہی جن کی شعوری توجیہ سمجھ سے باہر تھی۔ وہ جڑواں ذرّات کے طرزِ عمل پر بھی حیران تھا۔

دونوں کی ملاقات ہوئی اور علاج کے کئی سیشن ہوئے۔ وہ حیران رہ گئے کہ ان دونوں پیش آنے والے واقعات میں ذہن اور خارجی دنیا کا جو تعلق ظاہر ہوا ، وہ جڑواں ذرّات کے باہمی تعلق سے ملتا ہے۔ وہ متفق ہوئے کہ ذہن اور نفسیات کا کائنات سے گہرا اور مخفی تعلق ہے۔ نیز کہ زندگی میں بہت سے مقامات پر فطرت ہم سے کسی نہ کسی روپ میں مخاطب ہوتی ہے۔ ملاقات کا نتیجہ یہ رہا کہ ذہن اور خارجی دنیا الگ نہیں ، ذہن پوری کائنات سے منسلک ہے۔

یہ گفتگو مقالے کی شکل میں شائع ہوئی۔ اسے ”پال ینگ کا قیاس“ کا نام دیا گیا۔ مادہ پرست محققین کی قابلِ ذکر تعداد نے اس کی حمایت کی۔ پال ینگ نے کہا کہ سچے خواب اور ایسے واقعات کو عقلی توجیہ نہ ہونے کی بنا پر جھٹلانا لاعلمی ہے۔

رب العالمین اللہ کا ارشاد ہے ،

۱۔ جب وہ کسی شے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہے کہ ہو جا ، وہ ہو جاتی ہے۔ (یٰس : ۸۲)

۲۔ سن رکھو ، بے شک اللہ ہر شے پر محیط ہے۔ (حٰمۤ السّجدۃ : ۵۴)

اللہ تعالی نے کُن فرمایا ۔۔ کائنات ظاہر ہوگئی۔ دنیائیں ، کہکشائیں ، نظام ہائے شمسی ، انواع اور تمام افراد ایک حکم سے پیدا ہوئے۔ اللہ تعالی کا حکم سب پر محیط ہے۔ حکم کا محیط ہونا ایک طرف مخلوقات کے پیدا ہونے کا سبب ہے تو دوسری طرف تمام تخلیقات کو ہم رشتہ کرتا ہے۔

لفظ ”محیط“ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ اول ، آخر، ظاہر اور باطن یعنی ہر شے پر محیط ہے۔ اس طرح امرِ الہٰی کے میڈیم سے کائنات کا ہر گوشہ اور فرد ، دوسرے گوشے اور فرد سے وابستہ ہے۔ دیکھنے والا سمجھے نہ سمجھے ، کائنات میں جا بجا ایک ہستی کے محیط ہونے کی نشانیاں ہیں۔ معمولی نظر آنے والا واقعہ بھی معمولی نہیں ہوتا، یہ قدرت کی طرف سے مسلسل راہ نمائی ہے۔

خانوادہ سلسلہ عظیمیہ فرماتے ہیں،

”ساری کائنات میں ایک ہی شعور کار فرما ہے اور اس کے ذریعے غیب و شہود کی ہر لہر دوسری لہر کے معنی سمجھتی ہے، چاہے یہ لہریں کائنات کے دو کناروں پر واقع ہوں۔ غیب و شہود کی فراست و معنویت کائنات کی رگِ جاں ہے جو خود ہماری اپنی رگ جاں ہے تفکر اور توجہ کر کے ہم اپنے سیارے اور دوسرے سیاروں کے آثار و احوال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں اور انسانوں ، حیوانات ، جنات اور فرشتوں کی حرکات و سکنات ، نباتات اور جمادات کی اندورنی تحریکات بھی معلوم کر سکتے ہیں۔ مراقبہ کی مسلسل مشق اور ارتکازِ توجہ سے ذہن کائناتی لاشعور میں تحلیل ہو جاتا ہے اور ہمارے سراپا کا معین پرت اَنا کی گرفت سے آزاد ہو کر ضرورت کے مطابق ہر چیز دیکھتا ، سمجھتا اور حافظے میں محفوظ کر دیتا ہے۔      (کتاب : مراقبہ)۔

انعکاس ۔ جب روشنی کی شعاع کسی ہموار اور چمکدار سطح سے ٹکراتی ہے تو اسی سمت میں واپس پلٹ جاتی ہے۔یہ انعکاس (Reflection) یعنی منعکس ہونے کا عمل ہے۔

انعطاف۔جب روشنی کی شعاع کسی لطیف میڈیم یا واسطے سے کثیف واسطے)جیسے پانی( میں داخل ہوتی ہےتو اپنے محور سے تھوڑا ترچھی ہوجاتی ہے۔ یہ Reflection یعنی انعطاف یا منعطف ہونا کہلاتا ہے۔

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم