Topics

ہم شے کے دیکھنے کو دیکھتے ہیں

پرندے ہوا میں اڑتے ہوئے پَ اوپر نیچے ہلاتے ہیں۔ ایک مرتبہ پَ ہلانے کا مطلب ہے کہ پَ اوپر سے نیچے جائے یعنی ہوا نیچے دھکیلے اور دوبارہ اوپر لے جائے۔ پرندوں کی فی سیکنڈ پَر ہلانے کی تعداد مختلف ہے۔ عقاب ، چیل اور گدھ جیسے پرندے ایک سیکنڈ میں ایک سے دو دفعہ پَر ہلاتے ہیں۔ کوّے دو سے تین مرتبہ اور عام چڑیا 15 مرتبہ پَر ہلاتی ہے۔ ایک سیکنڈ میں پَر پھڑ پھڑانے کی سب سے زیادہ تعداد پرندوں میں شکر خورے (Hummingbird) کی ہے جو 50 سے 80 مرتبہ پروں کو جنبش (حرکت دینا ) دیتا ہے۔

حشرات میں یہ تعداد زیادہ ہے۔ کیمرا بتاتا ہے کہ شہد کی مکھی ایک سیکنڈ میں 250 مرتبہ پَر ہلاتی ہے۔ تجربات کے مطابق ہم کھلی آنکھوں سے پروں کے ہلنے کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں بشرطیکہ پَ ہلانے کی تعداد فی سیکنڈ پانچ مرتبہ ہو۔ اس کے بعد پَ آپس میں مَدغم (یک جان ۔ملے ہوئے)نظر آتے ہیں۔ اُڑتی چڑیا کے پَر ہلتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن رفتار تیز ہونے کی وجہ سے پروں کی حرکت کا الگ الگ دیکھنا ممکن نہیں۔ شہد کی مکھی اور شکر خورے کے پرواز دوران پَر نظر نہیں آتے، دھندلا ہیولا نظر آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ دیکھنے کی مذکورہ سکت اور کمزور کا تعلق ظر سے ہے یا ذہن سے؟

سائنسی تجزیہ : کیمرا فی سیکنڈ جتنی تصاویر یا بصری اطلاعات لینس سے اسکرین یا فلم پر منتقل کرتا ہے ، کیمرے کا ” فریم ریٹ“ کہلاتا ہے۔ مثلاً 10 تصاویر فی سیکنڈ منتقل کرنا ”فریم ریٹ دس“ کہلائے گا۔ اگر فریم ریٹ 80 کا کیمرا شکر خورے کی دوران پرواز فلم بندی کرتا ہے تو اس کے پروں کی حرکت کی فریکوئنسی 80 ہوگی۔ ریکارڈ ہونے والی فلم دلچسپ منظر دکھاتی ہے۔ ریکارڈ ہونے والی فلم دلچسپ منظر دکھاتی ہے۔ شکر خورے کے پَر ساکن نظر آتے ہیں جیسے وہ ایک حالت میں پرواز کر رہا ہو۔ اگر کیمرے کا فریم ریٹ پرندے کی حرکت کے مساوی ہو جائے تو حرکت ”نظر“ نہیں آتی بلکہ شے ساکن نظر آتی ہے۔انسانی آنکھ کا ممکنہ فریم ریٹ کیا ہے؟

تجربات کے مطابق انسانی آنکھ اندازاً ایک ہزار بصری اطلاعات پتلی اور عدسے میں سے گزار کر ریٹینا (Retina ۔ شبکیہ ۔ پردہ چشم) پر منتقل کرتی ہے یعنی اس کا فریم ریٹ تقریباً ایک ہزار ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہم ایک سے ہزار فریکوئنسی کی حرکات میں کہیں بھی نظر مرکوز کر کے شے کی حرکت کو واضح دیکھ سکیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ جب حرکت کی فریکوئنسی پانچ سے تجاوز کرتی ہے تو منظر مبہم اور پھر دھندلا ہو جاتا ہے۔ کیوں__؟

آنکھ کے پچھلے حصے میں بصری اعصاب پُتلی اور لینس سے آنے والی تصاویر وصول کرنے اور دماغ تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ یہ اعصاب روشنیوں کی مختلف فریکوئنسی کے محدود حصے (Bandwidth) میں کام کرتے ہیں لہذا اس مرحلے پر تقریباً نسف یعنی 500 تصاویر یا بصری اطلاعات ضائع ہو جاتی ہیں۔ پھر دماغ میں باقی 500 اطلاعات پہنچتی ہیں اور تجزیے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ دماغ اطلاعات کو من و عن قبول کرنے کی بجائے فرد کی افتاد طبع اور رحجان کے مطابق تحریف شدہ خلاصہ تیار کرتا ہے جو محض 30 سے 60 اور کبھی 150 کی بصری اطلاعات پر مشتمل ہوتا ہے۔ فرد مختصر اور تحریف شدہ بصارت کو درست اور مکمل سمجھتا ہے۔ اس طرح سائنس کی رو سے ہم آنکھ کی بھیجی گئی کُل اطلاعات کا تین سے پانچ فی صد دیکھتے ہیں۔ باقی 95 سے 97 فی صد اطلاعات میں کیا کچھ ہے، ہم دیکھنے سے قاصر ہیں۔

محقق تسلیم کرتے ہیں کہ پوری طرح سمجھا نہیں جا سکا کہ آنکوں کا حتمی فریم ریٹ ، آنکھ ، بصری اعصاب اور دماغ کے اندر پراسینگ کے اشتراک سے وژن کس طرح بنتا ہے۔ زیادہ تر نتائج اور تحقیق اندازوں پر مشتمل ہے جن میں تبدیلی ہو سکتی ہے لیکن یہ طے ہے کہ ہم وہ نہیں دیکھتے جو آنکھ دیکھتی ہے۔ دماغ (فرد کی طرز فکر ) کُل میں سے چند اطلاعات میں معنی شامل کر کے جو دکھاتا ہے، ہم وہ دیکھتے ہیں۔ہر دنیا میں بشمول مٹی کے ہمارے دیکھنے کا واسطہ ”روشنی“ ہے۔ روشنی کیا ہے__؟

تحقیق و تلاش کے مطابق برقی مقناطیسی لہروں کا ایک محدود مجموعہ جو سات رنگوں کی روشنیوں پر مشتمل ہے، یہ ان رنگوں کی باہمی آمیزش سے جو رنگ بتاتا ہے ، ہم صرف ان رنگوں کو دیکھتے ہیں۔ ہم روشنی کی شعاعیں ، سورج کی کرنیں ، چاند کی چاندنی اور مصنوعی روشنی دیکھتے ہیں۔ روشنی کی اصل شکل کیا ہے؟ سوال حل طلب ہے۔

ہم عموماً کرنیں اور شعاعیں دیکھتے ہیں لیکن فضا گرد و غبار سے پاک ہو اور شعاع کا کوئی ہدف نہ ہو تو ہم شعاع نہیں دیکھ سکتے۔ کیوں نہیں دیکھ سکتے ؟ کرن یا شعاع کا عکس دیکھتے ہیں، شعاع نہیں دیکھتے۔ اس کی مثال خلا ہے۔ خلا میں سورج کی طرف نہ دیکھیں تو باقی آسمان سیاہ نظر آتا ہے۔ خلا میں میں کوئی شے سورج کی روشنی کا ہدف نہ بنے تو سورج کی روشنی نظر نہیں آتی۔ ہم سورج کی روشنی کے منعکس ہونے کو دیکھتے ہیں۔

مشہور ہے آئن اسٹائن نے ہائی اسکول میں استاد محترم سے پوچھا کہ جب ہم حرکت کرتی ہوئی شے کی رفتار کے برابر اس کے ساتھ حرکت کرتے ہیں تو وہ شے ہمیں ”ساکن“ نظر آتی ہے جیسے ہم سو میل فی گھنٹے کی رفتار سے چلتی ریل میں سوار ہیں تو ڈبے کے اندر بشمول ہمارے ہر شے کی رفتار یہی ہے لیکن ہر شے کو سکون کی حالت میں دیکھتے ہیں۔ اگر ہم روشنی کی رفتار سے حرکت کریں تو روشنی کی شعاع کس حالت میں نظر آئے گی__؟ کیا روشنی کی لہروں یا لہروں کے ذرّے نما پیکٹ (فوٹان) کا تفصیلی معائنہ کر سکیں گے__؟

   استاد محترم سوال کی نوعیت پر حیران ہوئے لیکن کوئی جواب نہ دے سکے

   سوال آئن اسٹائن کے لیے معمہ بن گیا اور ” نظریہ اضافیت“ کی بنیاد بنا جس کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ کوئی بھی مادی شے روشنی کی رفتار سے حرکت نہیں کر سکتی۔ روشنی کی لہر ( فوٹان) کا اس رفتار میں معائنہ ممکن نہیں اور یہ کہ روشنی کی رفتار ہمیشہ ”مستقل“ رہتی ہے۔ بہر حال یہ سوال قائم ہے کہ روشنی کی لہر یا فوٹان کی اصل شکل اور ہیت کیا ہے__؟

30 جون 1905ء کو آئن اسٹائن نے “ On The Electrodynamics Of Moving Bodies” کے عنوان سے ،قالہ شائع کیا جس کے صفحہ تین پر تحریر کا ترجمہ یہ ہے ،

” ابھی تک ہم یہی کہتے ہیں کہ مقام الف اور مقام ب کے اوقات ، وقت الف اور وقت ب ہیں۔ ہم نہیں جان سکے کہ مقام الف اور مقام ب کا مشترک ایک ہی وقت ہے ۔ ہم کسی طرح یہ نہیں جان سکتے کہ وہ مختلف مقامات کا وقت ایک ہی ہے جب تک ہم یہ فرض نہ کر لیں اور اس مفروضے کو بنیادی تعریف نہ مان لیں کہ روشنی ہمیشہ مقام الف سے مقام ب اور مقام ب سے مقام الف یعنی یعنی دونوں سمتوں میں بالکل ایک جتنے وقت میں سفر کرتی ہے۔“ یعنی روشنی ہمیشہ ہر سمت میں معین وقت میں معین فاصلہ طے کرتی ہے، یہ مفروضہ ہے۔ روشنی کی رفتار معلوم کرنے کے لیے بہت سے تجربات کئے جا چکے ہیں۔ محققین نے روشنی کی رفتار ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ بتائی ہے لیکن تمام تجربات روشنی کے انعکاس پر مبنی ہیں ۔ انعکاس دو طرفہ سفر ہے۔ مقام الف سے بے اور پھر ب سے الف تک پہنچنا۔ ایسا تجربہ نہیں کیا جا سکا جس میں روشنی کے ایک سمت میں سفر کی رفتار معلوم کی جا سکی ہو۔

2009ء میں معتبر سائنسی جریدے ” امریکن جرنل آف فزکس “ میں تحقیق شائع ہوئی جس میں روشنی کی یک طرفہ رفتار معلوم کرنے کا دعویٰ کیا گیا لیکن کچھ عرصے میں یہ رد ہو گیا۔ اس تجربے میں روشنی کی دو طرفہ رفتار معلوم کی گئی تھی لہذا مذکورہ جریدے نے بھی اس تحقیق کی تردید کر دی۔ پھر روشنی کی اصل رفتار کیا ہے اور ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ کی مقدار کا کیا مطلب ہے__؟

محققین کا قیاس ہے کہ ٹائم اسپیس کے تانے بانے میں اجرام فلکی اور دیگر موجودات جس رفتار سے متحرک ہیں ، وہ ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ ہے۔ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس کی مشاہداتی فی تصدیق شاید ہی ممکن ہو۔

ڈاکٹر ڈان لنکن موجودہ زمانے کے مشہور ریاضی دان اور محقق ہیں۔ وہ 2012 ء میں اہم ذیلی ایٹمی ذرّے Higgs Boson دریافت کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے اور ایٹمی سائنس کے ادارے ” فرمی ایکسی لیٹر لیبارٹری“ میں محقق ہیں۔ وہ کہتے ہیں،

” یہ خیال کہ ہم ٹائم اسپیس میں ایک لاکھ 86 ہزار دو سو 82 میل فی سیکنڈ سے متحرک ہیں اور روشنی کی بھی یہی رفتار ہے ، در اصل آئن اسٹائن کے استاد ہر مین منکاؤسکی کا خیال تھا۔ ان سے آئن اسٹائن کو منتقل ہوا لیکن دونوں استاد اور شاگرد وضاحت نہ کر سکے کہ ٹائم اسپیس میں کائنات کی حرکت کی یہ رفتار کیوں ہے اور کس طرح معلوم ہوئی۔“

دیکھنے کے لیے روشنی واسطہ ہے۔ ہم آنکھیں کھولتے ہیں، ماہرین ِ امراضِ چشم کے مطابق باہر سے روشنی آنکھوں میں داخل ہوتی ہے، برقی رَو کی صورت میں دماغ تک پہنچتی ہے اور پراسینگ کے بعد جو شبیہ دماغ کے اندر بنتی ہے، ہم اُسے ” دیکھنا“ سمجھتے ہیں۔ اس روشنی کے علاوہ ہم خواب یعنی شعور میں بھی دیکھتے ہیں۔ وہاں نظر ہزاروں گنا تیز کام کرتی ہے۔ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ خواب اوربیداری میں ہم اندر میں اسکرین پر بنے ہوئے عکس کو دیکھتے ہیں۔ یہ عکس فرد کے رحجان کے مطابق بنتا ہے۔ اس عکس میں کتنا فریب اور کتنی حقیقت ہے جب کہ سائنسی تحقیقات کے مطابق ذہن ہمیں تصویر کا صرف تین سے پانچ فی صد حصہ دکھاتا ہے اور وہ بھی تحریف شدہ ہوتا ہے۔

روشنی کی اصل اور اس کی رفتار سے متعلق مادی سائنس کے علوم معمے سے دو چار ہیں۔حتمی نتیجے تک پہنچنے کے لیے جاننا ضروری ہے،

¨   دیکھنے کی حقیقت کیا ہے؟

¨   کائنات کی حقیقی رفتار کیا ہے؟

¨   اندر میں اسکرین پر بننے والے عکس یا تصویر کا ماخذ (Source) کیا ہے؟

¨   ٹائم اسپیس کا کیا کردار ہے؟


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم