Topics
کمرے میں سات ضرب پانچ فٹ کی
پینٹنگ سے پانچ انچ دور کھڑا ہے ، اس ہدایت کے ساتھ کہ سامنے دیکھنے کی اجازت ہے ،
گردن گھما کر دائیں بائیں یا اوپر نیچے دیکھنا منع ہے۔
زید کو پانچ انچ کے فاصلے سے دو
تین چھوٹے پودے نظر آتے ہیں، ان میں چھوٹے چھوٹے پھول ہیں۔ پتّوں کی چوڑائی ،
موٹائی اور رگیں واضح ہیں۔ وہ کینوس کی بُنائی (دھاگوں کا تانا بانا) کو تہ
در تہ رنگوں کے پیچھے باآسانی دیکھا جا سکتا ہے ۔ پودوں کے آس پاس کیا ہے اور
پینٹنگ میں اور کیا کچھ ہے، ابھی اس پر واضح نہیں ہوا۔
زید پانچ انچ پیچھے ہٹتا ہے تو
پودوں کے آس پاس جنگلی گھاس اور جڑی بوٹیاں نظر آتی ہیں۔ گردن گھمائے بغیر آہستہ
آہستہ مزید پیچھے جاتا ہے تو تفصیلات واضح ہوتی ہیں یہاں تک کہ پینٹنگ اور زید کے
درمیان چھ فٹ کا فاصلہ قائم ہو جاتا ہے۔ پینٹنگ کو ایک نظر میں دیکھنے کے لئے یہ
مناسب فاصلہ ہے۔۔۔ وہ دیکھتا ہے کہ حسین منظر ہے۔ پہاڑ ، آبشار ، دریا ، پتّوں اور
پھلوں سے لدے درخت ، گھاس ، جنگلی پھول ، کھیت ، دور افق پر ہلکی دھند ، فضا میں
بادل وغیرہ اس کا حصہ ہیں۔ تجربے سے زید کو علم ہوا کہ چھ فٹ کے فاصلے سے پینٹنگ
کے تمام حصوں کو الگ الگ دیکھا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ نگاہ ایک وقت میں ایک حصے
پر مرکوز ہوتی ہے، باقی حصے قدرے دھندلے ہو جاتے ہیں۔
سات ضرب پانچ فٹ کی پینٹنگ کو
دیکھنے کے لئے پانچ انچ سے شروع ہونے والا فاصلہ بڑھتے بڑھتے چھ فٹ تک پہنچا لیکن
یہاں سے بھی پوری پینٹنگ کا ایک نظر میں احاطہ نہ ہو سکا۔
وجہ کیا ہے __؟
زید اسپیس (منظر) کو تقسیم کر کے
دیکھنے سے واقف ہے اور پوری تصویر کو ایک ساتھ دیکھنے کی بجائے ٹکڑوں میں دیکھتا
ہے۔
فہم فاصلے میں اضافے کا تقاضہ کرتی
ہے تاکہ پینٹنگ کو اکائی کے طور پر دیکھے اور سمجھے لیکن فاصلہ کتنا ہو؟ اگر چہ
دیکھنے کا تعلق معین فاصلہ قائم ہونے سے ہے لیکن اس فاصلے سے بھی پوری تصویر پر
ایک ساتھ نظر نہ ٹھہرے تو پھر کیا ہو__؟
مزید پیچھے جانے سے تفصیلات غیر واضح ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں تصویر کو ایک نظر میں
دیکھنے کا طریقہ کیا ہے؟
ہر مصور فاصلے کے تقاضے سے واقف
ہوتا ہے۔ وہ ایک وقت میں تصویر کے ایک جز کو پینٹ کرتا ہے اور تھوڑی دیر بعد چند
فٹ پیچھے جا کر کینوس کو دیکھتا ہے تاکہ پینٹنگ ایک نظر میں دیکھ لے۔ ایسا کرنے سے
چند اہم امور میں مدد ملتی ہے۔
۔ تصویر کا مجموعی تاثر برقرار
رہتا ہے۔
۲۔ تمام اجزا صحیح جگہ پر رہتے
ہیں۔
۳۔ تناظر(Perspective) کے مطابق رنگ کرنے یعنی دوری، نزدیکی اور
گہرائی کا تاثر پیدا کیا جاتا ہے۔
اگر مصور پینٹنگ کا بار بار دور سے
جائزہ نہ لے تو مناظر میں گہرائی، دوری اور نزدیکی کا تاثر متاثر ہوتا ہے اور
مناظر سپاٹ نظر آتے ہیں۔ اس کی مثال مصر میں فراعین کے آثارِ قدیمہ میں مقبروں اور
اہراموں کے اندر دیواروں پر مصوری ہے جس میں بادشاہ اور سلطنت کے امور کی تفصیلات
ہیں۔ حیران کُن طور پر اُس دور کے مصوروں نے دانستہ یا نادانستہ فاصلہ بڑھا کر
نگاہ کو زیادہ سے زیادہ اسپیس دینے کی اہمیت کو نظر انداز کیا جس سے تصویروں میں
قریب دور کا تاثر نہیں رہا۔
دیکھنے کی طرح سننے کے لئے فاصلہ
ضروری ہے۔ ڈھول پر ضرب لگاتے ہی کان کو ڈھول کے چمڑے کے اتنا قریب کریں کہ کان کے
بیرونی حصے سے چند انچ کا فاصلہ رہے۔ ایسے میں کان کا پردہ اتنے کم فاصلے سے پیدا
ہونے والی آواز سے بہت بلند حیطہ (Amplitude)
ر تھر
تھراتا ہے۔ ہم ایک خاص فاصلے سے ڈھول کی آواز کو سمجھتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ڈھول اور کان کے درمیان فاصلہ کم ہونے سے آواز انتشار میں بدل جاتی ہے اور کان کے
پردے کی خرابی کا اندیشہ ہوتا ہے۔
منہ خلا ہے۔ ہوا اس کے مختلف حصوں
سے گزرتی اور زبان سے مس ہوتی ہے تو آوازیں پیدا ہوتی ہیں جن کی علامتی شکل حروفِ
تہجی کہلاتی ہے۔ منہ ، ڈھول ، بانسری یا کسی بھی شے کے اندر اور اطراف میں خلا
موجود نہ ہو تو آواز ظاہر نہیں ہوتی۔ ظاہر ہونے کے بعد آواز کی لہروں میں شدت ہوتی
ہے یعنی لہروں کی توانائی بلند ہوتی ہ۔ جیسے جیسے لہریں فضا میں سفر کرتی ہیں ،
توانائی کی مقداریں سماعت کی سکت کے مطابق معتدل ہوتی جاتی ہیں۔ طویل فاصلہ طے
کرنے کے بعد ان کی مقداریں کم ہو جاتی ہیں یعنی پست ہوتی جاتی ہیں۔گفتگو کے علاوہ
ہم منہ سے کھاتے پیتے ہیں اور قسم قسم کے ذائقے محسوس کرتے ہیں۔ منہ کا اندورنی
حصہ خلا ہے۔
مثال : میز
کے دونوں سرے دو جہتیں ہیں۔ درمیانی فاصلہ بھی جہت ہے کہ اس نے دونوں سروں کی
شناخت قائم رکھی ہے۔ یہ درمیانی فاصلہ خلا ہے۔ درحقیقت پوری میز خلا ہے اور میخوں
کے سہارے کھڑی ہوئی ہے۔
خلا کے اندر جو کچھ ہے ، وہ خلا کی
شکل ہے۔ منہ میں دانت اور زبان بھی خلا کی شکلیں ہیں۔ دانت کا کام غذا کو توڑ کر
ذرّات میں تبدیل کرنا اور پیسنا ہے۔ ذرّات میں تبدیل ہونا کیا __؟ بڑے ٹکڑوں کا چھوٹے ٹکڑوں اور ذرّات میں
تبدیل ہونے سے شے کا سطحی رقبہ بڑھ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں غذا کے اندر خلا کی
مقدار بڑھ جاتی ہے۔ نوالہ منہ میں جاتا ہے تو چھوٹا ہوتا ہے لیکن چبانے پر پھیل
جاتا ہے ، غذا کے ذرّات میں فاصلہ بڑھ جاتا ہے ۔ جب فاصلہ زبان میں خلا کی مقداروں
سے ہم آہنگ ہوتا ہے تو ذائقے کا احساس ہوتا ہے۔
زبان میں خلا کس طرح موجود ہے؟
زبان کا جائزہ لیں ، اس کی سطح
کھردری ہے۔ درمیان میں ، کناروں اور نوک پر کھردرا پن ہے۔یہ انتہائی چھوٹے کھمبی
سے ملتے جلتے ابھار ہیں جن کو Papillae
کا نام دیا گیا ہے ۔ ابھار کہیں چھوٹے اور کہیں بڑے ہیں۔ تعداد ایک ہزار تک ہو
سکتی ہے۔ ہر بڑے ابھار کے اندر مزید چھوٹے ابھار ہیں جو taste
buds کہلاتے ہیں۔ محقق کہتے کہ یہ تعداد میں آٹھ
ہزار ہو سکتے ہیں۔ ہر چھوٹے ابھار کے اندر 150 سے 400 تک ذائقے سے متعلق عصبی
خلیات ہوتے ہیں جو ذائقے کی نوعیت ، شدت اور ہر قسم کی اطلاعات دماغ تک پہنچاتے
ہیں۔ مختصر یہ کہ منہ میں غذا چبانے اور ذائقہ محسوس کرنے کے مراحل خلا کی تقسیم
در تقسیم سے گزرتے ہیں۔
ریاضی اور سائنس کی رُو سے دیکھیں
تو خلا کی تقسیم سے خلا کی مقداروں میں اضافہ ہوتا ہے۔ منہ میں نوالہ چبانے کی
مثال آپ نے پڑھی ۔ سمجھنے کے لئے دوسری مثال پڑھئے۔
مثال : لکڑی
کے ایک مکعب (cube)جس کی
چھ مربع (square) شکل کی سطحیں ہیں ، درمیان سے
کاٹ کر دو تقسیم کرنے سے دو چھوٹے ٹکڑے حاصل ہوتے ہیں۔ ان ٹکڑوں کے اطراف کی کُل
سطحیں اب دو گنا (بارہ) ہیں۔ مجموعی رقبہ اصل مکعب کی سطحوں سے زیادہ ہو گیا۔ شے
جتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوتی ہے ، اس کی سطح کا رقبہ بڑھتا ہے۔ رقبہ خلا کی پیمائش
ہے۔ شے کو تقسیم کرنے سے اس کے اندر موجود خلا میں اضافہ ہوتا ہے۔
سونگھنے کا معاملہ پڑھیے۔ ناک کے
نتھنے دو خلا ہیں۔ اندر بالوں سے خلا کی مقدار بڑھتی ہے۔ذرّات ناک میں داخل ہوتے
ہیں، خلا میں سے گزرتے ہیں ، کچھ بالوں اور اطراف سے چپک جاتے ہیں اور کچھ ناک میں
موجود بو کے عصبی خلیات تک پہنچتے ہیں جو بو کی معلومات دماغ تک پہنچاتے ہیں۔ بو
کا صحیح تاثر وصول کرنے کے لئے ذرّات کا ناک اور بالوں کے خلا سے گزرنا ضروری ہے۔
محققین کا خیال ہے کہ ذائقے کی حس
کا 80 فی صد چھونے کی حس پر مشتمل ہے۔کھانا کھاتے ہوئے ذائقے کے ساتھ خوش بو کا
احساس نہ ہو تو ذائقے کا احساس نہیں ہوتا۔ منہ کے اندر پیچھے کی طرف گلے میں ناک
کا حصہ بھی کھلتا ہے، کھانے کی خوش بو وہاں سے بھی ناک میں پہنچتی ہے۔ سونگھنے اور
چکھنے میں شے زبان اور ناک سے مس ہوتی ہے۔
جسم کی بیرونی جِلد میں چھونے کی
حس کے مخصوص عصبی خلیات کا جال پھیلا ہوا ہے جو فرد کو سرد و گرم ، اشیا کی نرمی ،
کھردرے پن ، سختی ، تکلیف یا دیگر عوامل سے آگاہ کرتا ہے۔
جسم بھی خلا ہے۔ چھونے کی اطلاعات
برقی رَو میں تبدیل ہو کر دماغ تک پہنچتی ہیں۔ پیر میں چوٹ کی اطلاع پانچ چھ فٹ کا
فاصلہ طے کر کے دماغ خلا نہ ہو تو دماغ نہیں جان سکتا کہ کون سا عضو کہاں پر ہے
اور وہ باہر یا اندر کے کس عمل سے متاثر ہوا ہے۔
خلا ، اسپیس یعنی فاصلہ وہ مشترک
قدر ہے جس کے بغیر مادی حواس کام نہیں کرتے۔
نکتہ : ہم
بصارت کی حس کے ذریعے شے کو دیکھتے ہیں۔ سننے ، چکھنے ، سونگھنے اور بولنے کی
اطلاعات دماغ میں پہنچ کر تصویریں بنتی ہیں۔ کسی اطلاع کی تصویر دماغ میں نہ بنے
تو اطلاع کے معانی سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
اصل یہ ہے کہ حواس کی بنیادی حیثیت
نگاہ ہے۔ جسم سے ٹھنڈی چیز مس ہوتی ہے تو ٹھنڈ سے متعلق جتنی اشیا ہیں ، دماغ کی
اسکرین پر ان کی تصویریں بن جاتی ہیں۔ ان کو دیکھ کر آدمی اندازہ لگاتا ہے کہ کون
سی شے جسم سے مس ہوئی ہے۔ سننے ، دیکھنے ، چکھنے ، چھونے ، بولنے اور جتنے حواس
ہیں ، سب نگاہ سے منسلک ہیں۔ نگاہ تب کام کرتی ہے جب شے ہدف بنے اور نگاہ اور شے
کے درمیان اسپیس (فاصلہ) ہو۔
کائنات ، دنیا ، ماحول اور سراپا ،
ان کا ذکر اسپیس ، ڈائی مینشن یا فاصلے کے بغیر نہیں ہوتا۔ زید اور بکر الگ اس لئے
ہیں کہ ان کی اسپیس ایک دوسرے سے جدا ہے۔ یہ دونوں اسپیس کے مختلف روپ ہیں۔ اگر ان
کی اسپیس ایک ہوتی تو یہ دو کی بجائے ایک ہوتے۔
اسپیس کا تعلق جسم کے ساتھ ساتھ
حواس سے بھی ہے۔ حواس تعارف ہیں __
ان کی مقداریں مختلف قسم کے فہم اور ذہن بناتی ہیں لہذا حواس کے بغیر فرد کا تذکرہ
نہیں ہوتا۔
سوالات پر غور کیجئے۔
۱۔ کائنات کی تخلیق کیسے ہوئی ؟
۲۔ اس میں ڈائی مینشن کیسے بنے؟
۳۔ حواس یا اسپیس کا آپس میں کیا
ربط ہے؟
۴۔ حواس اور اسپیس میں بنیادی اور
ثانوی حیثیت کس کی ہے؟
۵۔ زندگی کے نصف حصے خواب میں ہم
کس طرح سنتے ، دیکھتے اور چھوتے ہیں؟
۶۔ بیداری کی طرح نیند میں نگاہ
فاصلہ طے کرتی ہے۔ شے نگاہ کا ہدف بنتی ہے اور اس کے مطابق کیفیات اور تاثرات ظاہر
ہوتے ہیں۔ یہ کس اسپیس اور کون سے حواس کا ذکر ہے؟
سائنسی نظریہ : محقق
ڈائی مینشن کی تخلیق حواس اور ڈائی کے ربط کو مشاہدے یا تجربے کی بنا پر نہیں
جانتے۔ تخلیقِ کائنات سے متعلق مفروضات میں وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی آئی ہے ۔ ان
میں مشہور نظریہ ” عظیم دھماکے کا نظریہ (Big
Bang Theory) ہے
جس کی
مختلف شکلیں
موجود ہیں۔
ابتدا میں
اسے بڑی
مقبولیت ملی
لیکن اب اس
پر تعداد
میں محققین
کے اعتراضات
ہیں۔ بہرحال
ڈائی مینشن
کی تخلیق
سائنس میں
بنیادی سوال
ہے۔
چارلس
ڈارون نے
1859ء میں زیادہ
تفصیل سے
بیان کیا۔
نظریہ ارتقا
کیا ہے؟
” زمین پر
موجود تمام
انواع بشمول
آدم ، ایک منبع یا
شے سے
پیدا ہوتے
ہیں۔ ابتدا
میں نامیاتی
مرکبات بنے
جنہوں نے
بالآخر یک
خلوی جاندار
کی شکل
اختیار کر
لی۔ یک
خلوی سے
کثیر خلوی
جاندار پیدا
ہوئے۔ وقت
گزرنے کے
ساتھ ان
میں تنوع
اور بہتری
آتی رہی
اور مختلف
ماحول اور
ضروریات کے
مطابق مخلوقات
زمین پر
پھیل گئی۔“
اس نظریے میں حیات کو کیمیائی
مرکبات اور ان کے ہیر پھیر کی رو سے سمجھا جاتا ہے۔ اس کے مطابق جانور اور پودے
کیمیائی مرکبات سے بنی خودکار مشینیں ہیں۔ مادّہ پرست محققین اس نظریے کو پسند
کرتے ہیں اور اسے سائنس کا ایک بنیادی نظریہ قرار دینے پر بضد ہیں جب کہ یہ سوالیہ
نشان ہے۔
ڈارون کے نظریے کے مطابق حواس درجہ
بدرجہ تخلیق ہوتے رہے۔ ان کی ساخت اور کارکردگی میں ترقی ہوتی رہی۔ وہ کہنا یہ
چاہتے ہیں کہ حواس کی حیثیت ثانوی ہے جب کہ ڈائی مینشن جن میں حواس کام کرتے ہیں
ان کی حیثیت بنیادی ہے۔
ڈارون کے نظریہ ارتقا کے مطابق
حواس کی تخلیق پر غیر جانبدار محققین کے سوالات اور اعتراضات موجود ہیں۔ بنیادی
سوال یہ ہے کہ لیبارٹری میں کیمیائی مرکبات سے ابھی تک ایک بھی یک خلقی جاندار
جیسے امیبا وغیرہ تخلیق نہیں کی جا سکا۔امیبا (Amoeba) میں کیمیائی مرکبات کو یکجان کرنے اور
نظریہ ارتقا کے مطابق مخصوص صورتِ حال سے گزارنے کے بعد امیبا جیسے سادہ یک
خلوی جاندار آسانی سے پیدا ہونے چاہیئں لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ سوال ہے کہ اگر
ایک خلیے یعنی سادہ ترین زندہ شے کو نظریہ ارتقا کے تحت تخلیق کرنا ممکن نہیں تو
اتنی بڑی کائنات اور مخلوقات کی تخلیق سے متعلق ڈارون کا نظریہ کیسے درست ہو سکتا
ہے؟
کیمیائی مرکبات سے متعلق ایسے دعوے
بھی کئے گئے ہیں کہ انہیں یکجان کر کے زندہ خلیے بنائے گئے ہیں لیکن بعد میں
انکشاف ہوا کہ پہلے سے موجود زندہ خلیوں کا ڈی این اے بیج کے طور پر لے کر اس کی
نشو نما کی گئی اور دعویٰ کیا گیا کہ کیمیائی مرکبات سے زندہ خلیے پیدا کئے گئے
ہیں۔ مادی سائنس میں بھی ابھی تک حواس اور ڈائی مینشن کی تخلیق اور ان کے باہمی
ربط سے متعلق معلوم نہیں کیا جاسکا۔
سائنس درحقیقت کھوج لگانے اور
جاننے کا غیر جانبدار طریقِ کار ہے۔ غیر جانبداری سے کی گئی سائنسی پیش رفت الہامی
تعلیمات کے دروازے تک پہنچ جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے جانبدار اور مادہ پرست سوچ اس
راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
حواس ، ڈائی مینشن اور الہامی
تعلیمات :
احسن الخالقین اللہ تعالیٰ فرماتے
ہیں،
” اور اے نبی ﷺ! لوگوں کو یاد دلاؤ
وہ وقت جب تمہارے رب نے بنی آدم علیہم السلام کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا
اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا، کیا میں نہیں ہوں تمہارا رب؟
انہوں نے کہا ” جی ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔ ہم اس پر گواہی دیتے ہیں'۔ یہ ہم نے اس
لئے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔“ (الاعراف : ۱۷۲)
آیت سے واضح ہے کہ نوعِ آدم کے
تمام افراد جو پیدا ہو کر گزر چکے ہیں ۔ دنیا میں موجود ہیں یا آئندہ ظاہر ہوں گی،
ان کی تخلیق خالقِ کائنات کے حکم سے ایک ہی مرحلے میں ہوئی۔ نوعِ آدم کے اربوں
کھربوں افراد عالمِ ارواح میں موجود تھے۔ سب نے اللہ کی ربویت کا اقرار کیا کہ جی
ہاں! آپ ہمارے رب ہیں۔
اقرار کرنا ایک رخ ہے ، اس کی
انجام دہی کے لئے حواس کی منتقلی دوسرا رخ ہے۔
اقرار کے وقت نوعِ آدم علیہم
السلام اور دیگر افراد کس اسپیس میں تھے اور اسپیس یا ڈائی مینشن یعنی ابعاد کی
تخلیق کیسے ہوئی؟
صاحب یقین ہستیاں فرماتی ہیں،
” افراد ِ کائنات کو جب تک ابعاد
(ڈائی مینشن) منتقل نہیں ہوئے تھے، اس وقت تک انہیں زمان اور مکان کا احساس نہیں
تھا۔ عالم ِ ارواح میں صرف شے وجود ہے۔ اس کے بعد حرکت نہیں ہے۔ جب کائنات میں
ڈائی مینشن بن گئے یا سماعت اور بصارت کے نقوش منتقل ہوگئے تو کائنات میں حرکت
پیدا ہوگئی۔ حرکت ہی زمان و مکان ہے۔“
زمان و مکان کیا ہے؟
زمان وقت اور مکان اسپیس (فاصلہ)
ہے۔ زمان حرکت اور مکان کا مظاہرہ ہے قارئین ! آیئے، اس بات کو مساوات کے طور پر
قانون کے تحت سمجھتے ہیں۔
۱۔ کُن _ افراد ِ کائنات کی تخلیق__ کائنات کے افراد کو زمان و مکان (ڈائی مینشن) کا احساس نہ ہونا
یعنی حواس بیدار نہ ہونا۔
۲۔ افرادِ کائنات میں حواس کی
منتقلی سے پہلے کی حالت __
الستُ بربکم__اقرار __ حواس کی منتقلی _ حواس کی حرکت سے ڈائی مینشن کا احساس ہونا__ ڈائی مینشن کے احساس سے زمان و مکان کا علم ہونا۔
۳۔حواس میں حرکت__ فاصلہ طے کرنا ، اس دوران وقت کا مظاہرہ__زمان و مکان کے تانے بانے__ زمان و مکان کے ایکٹو ہونے سے کائنات کے
تانے بانے میں حرکت۔
نکتہ: مادی
طرزوں میں غور و فکر کرنے سے ہم زمان و مکان اور ڈائی مینشن کی تخلیق سے متعلق
درست نتیجے پر نہیں پہنچتے نہ حواس اور ڈائی مینشن میں تعلق سامنے آتا ہے۔ کیوں؟
قرآن کریم میں موجود کائناتی سائنس
بتاتی ہے کہ ڈائی مینشن اور مکانیت (اسپیس) جس میں ہم موجود ہیں ، ہمارے حواس کی
حرکت سے ظاہر ہوئے ہیں۔ حرکت کا مطلب ڈائی مینشن ہے۔ نگاہ حرکت کے لئے بیرونی ڈائی
مینشن یا اسپیس کی محتاج نہیں بلکہ نگاہ اندر میں ارادے کے تحت حرکت میں آتی ہے اور
ڈائی مینشن کو ضرورت کے مطابق تخلیق کرتی ہے۔
مضمون کا خلاصہ پڑھئے۔
رب العالمین اللہ تعالیٰ نے مخلوق
کو حواس منتقل کئے اور ان میں انسان کو احسنِ تقویم بنایا۔ بات انسان کی ہورہی ہے،
آدمی کی نہیں۔ احسنِ تقویم سے مراد تمام مخلوقات میں حواس کی سب سے اعلیٰ یا زیادہ
فریکوئنسی انسان کو عطا کی گئی ہے۔ وہ ہزاروں میل دور شے کی جنبش کو زمین کے دوسرے
کنارے پر محسوس کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ احسنِ تقویم کی فریکوئنسی سے واقف ہو
قرآن کریم میں ارشاد ہے،
” ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر
تخلیق کیا ہے۔ پس وہ اسفل سافلین میں پڑا ہوا ہے۔“
(التین
: ۴۔۵)
حواس کی خصوصیت ہے کہ یہ حرکت کو
طرح طرح سے ظاہر کرتے ہیں۔ کبھی حرکت سننے کے عمل میں استعمال ہوتی ہے ، کبھی
دیکھنے ، چکھنے ، چھونے اور بولنے کے عمل میں۔ حواس میں حرکت سے مکانیت (اسپیس)
ظاہر ہوتی ہے اور حرکت کا وجود میں داخل ہونا جس کو اطلاع کہتے ہیں، زمانیت ہے ۔
اللہ تعالیٰ نے ڈائی مینشن اور مکانیت کی تخلیق کا علم نوعِ آدم علیہم السلام کو
عطا فرمایا ہے۔ اسی بنا پر علمائے باطن نے انسان کو کائناتِ صفیر سے تشبیہ دی ہے۔