Topics
کتاب کے علم سے واقف بزرگ آصف بن
برخیا نے پلک جھپکنے سے پہلے بھاری بھر کم تخت سینکڑوں میل کی مسافت سے حضرت
سلیمان ؒکے دربار میں منتقل کر دیا۔ قرآن کریم میں بیان یہ واقعہ علوم و رموز کی
دستاویز ہے جس پر غور کرنے سے ہر بار نئی جہت روشن ہوتی ہے۔
تخت منتقل کرنے سے پہلے تخت کا
محلِ وقوع، شکل ، وزن ،حجم اور باقی مقداروں کا درست علم ہونا ضروری ہے۔ غلطی کی
گنجائش نہیں ورنہ تخت صحیح حالت میں نہیں پہنچے گا۔ علاوہ ازیں حضرت سلیمان ؒ کے
دربار سے ملک سبا کی ملکہ بلقیس کے تخت تک کا درست فاصلہ اور سمت معلوم ہونا بھی
ضروری ہے۔
۱۔ بزرگ آصف برخیا کو ان تمام
چیزوں اور مقداروں کا علم کیسے ہوا__؟
۲۔ کیا وہ پہلے کبھی ملکہ کے دربار
گئے تھے اور تخت کی تفصیل سے واقف تھے؟
الہامی کتب کے مطالعے سے معلوم
ہوتا ہے کہ کم از کم خاکی وجود کے ساتھ آصف بن برخیا ملک سبا یا ملکہ کے محل کبھی
نہیں گئے۔ جب ہدہد نے ملک سبا کے حالات سے حضرت سلیمانؒ کو آگاہ کیا تو دربار میں
موجود آصف بن برخیا اس حوالے سے خاموش رہے۔ بیان کی تصدیق کے لئے حضرت سلیمانؒ نے
ہد ہد کو ملکہ کے نام خط دے کر بھیجا۔ خط سن کر جب ملکہ دربارِ حضرت سلیمان کی
طرف روانہ ہوئی تو حضرت سلیمانؒ نے دربار میں اشخاص سے پوچھا کہ ملکہ کے آنے سے
پہلے اس کا تخت کون لا سکتا ہے__؟
جن عفریت نے جواب دیا کہ وہ دربار ِ برخاست ہونے سے پہلے تخت حاضر کر دے گا۔ آصف
بن برخیا نے کہا کہ میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت حاضر کر سکتا ہوں (اور تخت موجود
ہو گیا) یہ جواب کیا ظاہر کرتا ہے__؟
تخت حاضر کرنے کا مرحلہ اس کے بعد کا ہے جو اہم ہے۔
دور دراز اجنبی جگہوں اور اشیا کی
درست اور مکمل معلومات کسی بھی ظاہری واسطے یا میڈیم سے حاصل کرنا کیا ممکن ہے؟
قرآن کریم میں حضرت سلیمانؒ کے
واقعہ میں یہ امر اظہر من الشمس )سورج
کی طرح روشن (ہے کہ نہ صرف ایسا
کرنا ممکن ہے بلکہ قرآن کریم اس علم کو سمجھنے اور سیکھنے کی دعوت دیتا ہے__ الہامی کتابوں میں انبیائے کرام علیہم
السلام کے واقعات اور قصص کا مقصد نوعِ جنات کو ان علوم کے حصول کی طرف راغب کرنا
ہے۔
سائنسی ترقی کے اِس دور میں حضرت
آصف بن برخیا کے عمل کو سمجھنا مشکل نہیں۔ ریڈیو، ٹی وی، انٹر نیٹ ، موبائل فون
اور سیٹلائٹ فون سے دنیا کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے کی معلومات۔۔ آواز ، تصاویر
اور تحریر وغیرہ کی شکل میں آسانی سے حاصل کی جاتی ہیں۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ
پیغامات کی ترسیل لہروں کے ذریعے ہوتی ہے۔ یہ برقی مقناطیسی لہریں ہیں جن کی
فریکوئنسی کی وسعت (Range) لامحدود ہے۔
¨
کیا
انسانی ذہن زمین اور کائنات کے دور دراز گوشوں میں لہروں کے ابلاغ اور ان کو قبول
کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟
¨
ذہن کس
قسم کی لہریں استعمال کرتا ہے؟
¨
ان
لہروں کی اصل کیا ہے؟
¨
ان کا
علم حاصل کرنا کیسے ممکن ہے؟
دو
شاخہ :
دو شاخہ کو دستی (ہنڈل) سے پکڑ کر
ربڑ کے ٹکڑے پر زور سے مارا جاتا ہے تو دونوں شاخیں ایک ہی فریکوئنسی میں ہلتی ہیں
حالاں کہ ربڑ کے ٹکڑے سے صرف ایک شاخ ٹکراتی ہے اور دوسری آزاد رہتی ہے۔ ہونا یہ
چاہئے کہ ٹکرانے والی شاخ میں ارتعاش پیدا ہو اور دوسری شاخ ساکت رہے لیکن دوسری
شاخ بھی پہلی شاخ کے ساتھ یکساں فریکوئنسی میں حرکت کرتی ہے۔
اس کی وجہ کیا ہے__؟
طالبات وطلبا جانتے ہیں کہ ایسا
ایک مخصوص طرزِ عمل کی وجہ سے ہوتا ہے جسے تحقیق و تلاش (سائنس) گمک Ù کہتی ہے۔ گمک یہ ہے کہ اگر دو یا زیادہ اشیا کی قدرتی فریکوئنسی
ایک ہو اور سب قریب قریب موجود ہوں تو ایک شے میں پیدا ہونے والا ارتعاش باقی اشیا
میں منتقل ہوگا اور سب ایک ہی فریکوئنسی پر تھر تھرانے لگیں گی۔ شاخ دوسری شاخ سے
مس ہوئے بغیر حرکت منتقل ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ اسی طرح کا ایک اور دو شاخہ رکھ
دیں تو یہ ارتعاش اس میں بھی منتقل ہوگا۔ دو شاخہ یا گھنٹے سے پیدا ہونے والی
لہریں آواز ہیں۔ روشنی اور برقناطیسی لہریں بھی اسی طرزِ عمل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔
ذہن میں خیالات مسلسل آتے ہیں۔
۱۔ خیالات کی لہروں کی نوعیت اور
اصل کیا ہے؟
۲۔ کیا ذہن خیالات کی لہریں قبول
کر کے کسی مخصوص ہدف یا مقام کی جانب نشر کر سکتا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ تحقیق و تلاش میں
ابھی تک خیالات کے اصل منبع اور ان لہروں کی نوعیت کے بارے میں کوئی سراغ نہیں
لگایا جا سکا۔ ایسا ضرور ہے کہ جذباتی اتار چڑھاؤ کے نتیجے میں دماغی ردِّ عمل کا
معائنہ مختلف طریقوں سے کیا جاتا ہے ، دماغ میں ہونے والی کیمیائی اور برقی
تبدیلیوں سے مختلف اندازے لگائے جاتے ہیں لیکن خیالات کیا ہیں؟ کہاں سے وارد ہوتے
ہیں اور کس قسم کی لہروں کے دوش پر سفر کرتے ہیں؟ تحقیق و تلاش اس بارے میں خاموش
ہے البتہ تجربات اور کوششیں جاری ہیں۔
·
ماں
اور اولاد زمین کے دو مختلف مقامات پر ہیں__ خدا نخواستہ اولاد کسی خطرے سے دو چار ہوتی ہے تو واقعات شاہد ہیں
کہ میلوں میل دور ماں یا باپ بے چینی اور اضطراری کیفیت کا اظہار کرتے ہیں اور
رابطہ کر کے خیریت دریافت کرنا چاہتے ہیں جب کہ ان کے درمیان کسی قسم کا کوئی
ظاہری ربط یا اطلاع موجود نہیں۔
·
ایک
شخص کو دوست کا طویل عرصے بعد خیال آیا۔ چند لمحوں یا گھنٹوں بعد وہ سامنے ہوتا ہے
یا اس کا فون آجاتا ہے۔
Ù گمک ( گونج ۔Resonance)
عموماً ایسی صورتِ حال کو ہم معمول
سمجھتے ہیں یا اتفاق کہہ کر گزر جاتے ہیں جب کہ ان واقعات میں دو یا دو زیادہ
ذہنوں کا خیالات کی ایک فریکوئنسی پر کام کرنے یا ان میں ایک ہی خیال کے تبادلے کا
قانون مخفی ہے۔ شیر خوار بچوں کی ضروریات سے ماں غیر محسوس طریقے سے واقف ہو
جاتی ہے۔ بچہ کمرے میں اور ماں صحن میں ہے۔ بچے کو بھوک لگتی ہے ، ماں کے ذہن میں
خیال آتا ہے کہ جا کر دیکھوں ، کہیں بچہ بھوکا تو نہیں۔ ضروری نہیں کہ بچہ ہر دفعہ
رو کر اپنی ضرورت سے مطلع کرے۔ اِدھر بھوک کا تقاضہ پیدا ہوتا ہے__ اُدھر ماں گہری نیند سے بیدار ہو جاتی ہے۔
المیہ ہے کہ ہم لگے بندھے ذہن سے معمولی نظر آنے والے عوامل کے پس پردہ غیر معمولی
میکانزم کو دیکھنے کی کوشش نہیں کرتے اور نظر انداز کر دیتے ہیں۔
زید کو گھر بیٹھے خیال آیا کہ نہر
کے کنارے سیر کرنی چاہیے۔ تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر نہر کا منظر تصور میں
گھوم گیا۔ کنارے پر ہلکے گلابی رنگ میں گلِ سہ پہری کھلے ہوئے نظر آئے۔ یہ ایک
پھول دار آبی پودا ہے۔
زید باغ و بہار کے خوشگوار خیالات
میں موٹر سائیکل پر سوار ہو کر نہر کی جانب روانہ ہوا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ نہر
کے کنارے گلِ سہ پہری سے بھرے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ کی صناعی کا خوب صورت منظر
پیش کر رہے تھے۔
تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر کنارے پر
چلتے ہوئے نظر ایک پودے پر رکی۔ زید نے گلِ سہ پہری کا ایسا پودا کبھی دیکھا نہیں
تھا۔ عام گلِ سہ پہری کے ہلکے گلابی رنگ کے پھولوں کی بجائے اس پودے کے پھولوں کا
رنگ گہرا شوخ گلابی تھا جس میں کہیں کہیں ہلکا جامنی رنگ جھلک رہا تھا۔ پھول رنگ
اور حسن میں اپنی مثال آپ تھے۔ یہ پودا نہر سے ہٹ کر سڑک کی دوسری جانب چھوٹی
کھائی کے قریب تھا۔
کچھ دور ایک کسان ٹریکٹر کے ذریعے
کھائیاں بھرنے میں مصروف تھا، کھائیوں کے اندر اور کناروں پر اگے پودے ، ٹریکٹر پر
لگے بلیڈ سے کٹ کر مٹی میں شامل ہو رہے تھے۔ لگتا تھا کہ ایک دو گھنٹے تک کسان
پودے تک پہنچ جائے گا جس کا روپ گلِ سپہ پہری کے تمام پھولوں میں منفرد تھا۔ اس نے
پودے کو محفوظ رکھنے کی درخواست کی لیکن کسان آمادہ نہ ہوا۔
زید نے اس کی قلمیں بنا کر محفوظ
جگہ لگانے کا فیصلہ کیا۔ کچھ عرصے میں قلمیں نئی جگہ اگ آئیں اور دراز قد پودے
پیدا ہوئے۔ پھول کھلے تو جس نے دیکھا ، حیرت کا اظہار کیا کہ اس رنگ میں گلِ سہ
پہری پہلے نہیں دیکھے تھے۔ بعد میں علم ہوا کہ یہ اس پھول کی نایاب نسل ہے۔
س : زید کو گھر بیٹھے نہر کا خیال
کیسے آیا کہ خیال کی طاقت نے نہر کی طرف متوجہ کر کے وہاں جانے پر مجبور کر دیا؟
ج : گلِ سہ پہری کے پودے نے ہزاروں
لاکھوں آدمیوں کو خیال بھیجا۔ سب نے اس خیال کو نظر انداز کر دیا۔ زید کا ذہن اس
وقت یکسو تھا، اس کے ذہن میں نہر کی تصور بنی جسے اس نے قبول کیا اور سفر شروع کر
دیا۔
محترم قارئین ! کسی بھی نوع کے
مذکر مؤنث کے سراپے یا گوشت پوست کے جسم سے ذہن کو الگ کیا جائے تو کیا باقی جسم
کو ہم ایک شخصیت یا فرد کہہ سکتے ہیں؟ گوشت پوست کا جسم ذہن کے بغیر اپنا تعارف
اور تشخص کھو دیتا ہے۔
ذہن فرد کی اصل ہے۔ یہ مخصوص تفکر
کا نام ہے اور تفکر کی بنیاد لہر ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ذہن لہروں کی اصل پر قائم
ہے__
یہی لہریں مختلف صورتوں میں کائنات کے مظاہرہ کی بنیاد ہیں۔ اس طرح ہر فرد کا ذہن
کائنات کے تمام افراد اور مظاہر سے منسلک ہے ، ان کو پیغام دے سکتا ہے اور پیغام
وصول کر سکتا ہے۔ دن رات کے کتنے ہی تجربات اس کے شاہد ہیں۔
ماں ہزاروں میل دور اولاد کو درپیش
صورتِ حال پر فکر مند ہوتی ہے اور اس کی تصدیق بھی ہو جاتی ہے لیکن ماں اور اولاد
اس طرزِ عمل کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بچہ گفتگو کے بغیر لہروں سے والدین کو
اپنی ضروریات سے آگاہ کرتا ہے ، والدین سمجھتے ہیں مگر نہیں سمجھتے۔ گلِ سہ پہری
کا نایاب پودا اپنی نسل بچانے کے لیے کسی فرد سے پیغام رسانی کرتا ہے اور ہزاروں
میں سے ایک فرد جنگلی جانور ، درخت اور ستارے ہمیں پیغامات بھیجتے ہیں۔ وہ کیا
کہتے ہیں___؟
بزرگ آصف بن برخیا کا واقعہ ٹیلی
پیتھی اور Telekinesis (خیال
کے ذریعے کسی شے کو تحریک دینا)کے علوم سمجھنے کی دعوت ہے۔کتاب کا علم رکھنے والے
بندے آصف بن برخیا نے کس قانون کے تحت تخت منتقل کیا؟
محترم عظیمی صاحب ؒفرماتے ہیں،
” جب آپ تخت کا ذکر کریں گے تو
دماغ کی اسکرین پر تصویر بنے گی۔آصف بن برخیا نے ارادہ کیا کہ تخت منتقل ہو تو ذہن
میں تصویر بنی۔ انہوں نے تصویر کے negative
کو شاہی دربار میں positive کر دیا۔“
محترم عظیمی صاحب ؒ نے اس قانون کی
توجیہہ ذیل میں بیان کی ہے۔
” ہر شے چاہے وہ تنکا ہو یا پہاڑ ،
ایکویشن پر قائم ہے۔ سرکل بنائیے اور اس کے بیچ میں خط ڈال دیجئے یا لکیر بنا
دیجئے۔ دائرے میں بنی ہوئی لکیر پر ذہن روک کر غور سے دیکھیے۔ دو ٹرائی اینگل بن
گئے۔ ایک لکیر اور ڈال دیجئے۔ اب یہ چار ٹرائی اینگل ہیں۔ سرکل میں ملانے سے کسی
نہ کسی مخلوق کی تصویر بن جائے گی۔ جب بھی آپ شکل بنائیں گے۔ اس میں ٹرائی اینگل
لازمی ہوگا اور ٹرائی اینگل کی base
دائرہ ہوگی۔ ٹرائی اینگل اشیا کو ظاہر کرتا ہے اور دائرہ بتاتا ہے کہ ہر شے پر
اللہ محیط ہے۔“