Topics
مقام الف سے ب تک فاصلہ 10 میل ہے
جسے زید روزانہ پیدل چل کر طے کرتا ہے۔ فاصلے کی مقدار یا طوالت معین ہے لہذا ذہن
پر اس کا تاثر یکساں قائم ہونا چاہئے لیکن کبھی زید کو لگتا ہے کہ وہ 20 میل چلا
ہے اور کبھی کہتا ہے کہ آج طوالت کا احساس نہیں ہوا۔ دراصل ذہن 10 میل کے فاصلے کا
ایک اندازہ قائم کر کے اسے آئندہ کے لئے بطور اکائی استعمال کرتا ہے۔ بظاہر سادہ
معاملہ ہے لیکن اس میں ٹائم اسپیس کی حقیقت اور ہمارے شعور سے متعلق سوالات ہیں۔
کیا ٹائم اسپیس کا تسلسل جداگانہ
حیثیت رکھتا ہے یا ہمارے ذہن کے تابع ہے؟ اگر وقت اور فاصلے کا تانا بانا ذہن سے
الگ وجود رکھتا تو ذہنی کیفیت خواہ کیسی ہو ، ایک ہی فاصلہ روزانہ طے کرنے پر
محسوسات ایک ہوتے۔ اگر ٹائم اسپیس ہمارے ذہن سے منسلک ہیں تو کیا ہم ان میں حسبِ
منشا تبدیلی کر سکتے ہیں؟
زید دوست کے ساتھ پیدل سفر پرتھا۔
آس پاس کھیت کھلیان اور درخت تھے۔ ڈھائی تین میل کے فاصلے پر بڑا اور بوڑھا برگد
کا درخت تھا جہاں مسافر دوپہر کی تپتی دھوپ گزار کر آگے بڑھتے۔ کچھ فاصلہ طے ہوا
تو زید اور دوست کو درخت کے نیچے دو چو پایوں کے سفید ہیولے نظر آئے۔ دوست نے غور
سے دیکھنے کی کوشش کی اور کہا ، لگتا ہے، یہ بوہلی نسل کے خطرناک کتے ہیں۔ ہمیں
یہاں رک جانا چاہیے۔ زید نے تائید کی۔ اس ثنا میں جانور ان کی طرف بڑھے۔ فاصلہ کچھ
کم ہوا تو پتہ چلا کہ لمبے قد کے بکرے تھے۔ ززید اور دوست اپنی نادانی پر مسکرا
دیے۔ ان کا ذہن اس طرف کیوں نہیں گیا کہ یہ بچھڑے ، بکرے یا کوئی بے ضرر سبزہ
چوپائے ہو سکتے ہیں؟
اُن دنوں دیہات میں رکھوالی کے لیے
بلی یا بوہلی کتے رکھنے کا رواج تھا۔ دونوں نے حقیقت جانے بغیر تجربے کی بنا پر
غیر حقیقی تصویر بنا دی۔
ذہن طرز فکر کے تابع ہے۔ طرز فکر
جو تصویر دکھاتی ہے ، ذہن معمول بن کر اتباع کرتا ہےخواہ تصویر الوژن ہو۔ دن رات
میں کتنی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم ذہن کو پُر فریب تصویر کشی میں مبتلا کر دیتے
ہیں۔ خیالات کو سماجی ، خاندانی، مخصوص طبع اور رجحانات کے شیشوں میں سے گزار کر
اپنی مرضی کے نتائج مرتب کرتے ہیں اور ان نتائج کے عادی ہو جاتے ہیں۔
ذہن میں تجزیے ، حافظے (ریکارڈ) ،
میلان و رجحان ، ردّ و قبول اور نتیجہ مرتب کرنے کے شعبے ہیں جو طرز فکر کے تابع
ہیں۔ الوژن فکر منظر یا آواز کو من وعن ذہن کی اسکرین پر ظاہر نہیں کرتی بلکہ
مذکورہ شعبوں سے گزار کر مسخ شدہ تصویر دکھاتی ہے۔
طرز فکر ایک ماہر ہپنا ٹسٹ کی طرح
کام کرتی ہے ، ذہن جس کا معمول بن جاتا ہے۔ ہپنا ٹزم جدید اصطلاح ہے ، اردو ترجمہ
تنویم یا عمل تنویم کیا گیا ہے۔ ہپناٹزم یا تنویم کے الفاظ اب رائج ہو چکے ہیں جب
کہ یہ قدیم علم ہے اور موجودہ الفاظ اس کا احاطہ نہیں کرتے۔
مختصر اور سادہ میں الفاظ میں ہم
کہہ سکتے ہیں کہ ذہن کواختیاری یا غیر اختیاری طور پر حقیقی ماحول سے ہٹاکر غیر
حقیقی اور فرضی حالت میں مبتلا کر دیا جائے یہاں تک کہ ذہن فرضی حالت کو حقیقی
سمجھے اور حقیقت سے بے بہرہ رہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ الوژن طرز ِ فکر
کے ہپناٹزم سےآزاد ہو کر دنیا کی حقیقی تصویر دیکھ سکیں؟ جواب سے پہلے جاننا ضروری
ہے کہ ہپناٹزم کیا ہے اور کس طرح عمل کرتا ہے؟
ایک طرف ہپنا ٹزم ماورائی علوم میں
سے ہے اور اس کی تحصیل کے قواعد و ضوابط موجود ہیں جن میں استاد کی نگرانی سرِ
فہرست ہے۔ دوسری طرف یہ ایک طرزِ عمل ہے جو ذہن کو معمول بنا کر حقیقت سے بے بہرہ
رکھتا ہے۔
سائنسی تجربات تصدیق کرتے ہیں کہ
جب بچہ اس دنیا میں ٓتا ہے تو دماغ برقی رَو اور مقناطیسی لہریں عروج پر ہوتی ہیں
اور ہر حصے کا احاطہ کرتی ہیں۔ جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے ، ماحول کا رنگ اختیار کرتا
ہے۔ ماحول اچھا ہوتا ہے اور بُرا بھی۔ دونوں صورتوں میں ۱۰ سے ۱۵ سال تک بچہ اپنے
ماحول کی تصویر بن جاتا ہے۔
بچے کا ذہن روح کے شعور یعنی
لاشعور سے قریب ہوتا ہے اور لاشعور کے انوار مادے کی خصوصیات پر غالب رہتے ہیں۔
غیر جانبدار یا شک سے پاک ذہن رکھنے والے والدین کا بچہ روح سے قریب ہو جاتا ہے۔
پُر فریب ذہن ہر منظر میں 90، 95
فی صد اطلاعات حذف کر دیتا ہے لیکن بے حسی کی وجہ سے ہم اس بات پر دھیان نہیں
دیتے۔
۱۔ دیوار کی ہر اینٹ مختلف رنگ کی
ہے۔ زید نیلے رنگ کی اینٹ کو پانچ چھ فٹ کے فاصلے سے ایک دو منٹ تک پلکیں جھپکائے
بغیر دیکھتا ہے۔ پہلے پہل آس پاس کی اینٹوں کے رنگ اوجھل ہوتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد
وہ رنگ نظر آتے ہیں جو ان اینٹوں کے اصل رنگ نہیں ہیں۔ ذہن نے کیا کیا_ ؟ فوکس کے مقام کے علاوہ آس پاس کے مقامات
کو نظر انداز کیا پھر تجربے کی بنا پر اس خلا کو پُر کرنے میں مصروف ہو گیا۔ یہ
عمل عام حالات میں ہر وقت ہوتا ہے لیکن ہم توجہ نہیں دیتے کہ طرز فکر وژن میں غیر
حقیقی رنگ کیوں بھرتی ہے۔
۲۔ کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ آنکھ
کے آخری کنارے کے قریب تصویر دھندلی نظر آتی ہے۔لگتا ہے کہ کرسی ہے، مڑ کر دیکھتے
ہیں تو بیگ ہوتا ہے۔ ایسا تجربہ کم ہوتا ہے لیکن ماہرین اسے دماغ کی حقیقت کے
برعکس خالی جگہ پُر کرنے کی اہم مثال قرار دیتے ہیں۔
۳۔ ہمارے ذہن میں اسٹرابری کا سرخ
سانچہ ہے۔ اسٹرابری کی بلیک اینڈ وائٹ تصویر کے اوپر اور پس منظر میں شفاف فیروزی (cyan) رنگ کر دیا جائے توہم اسٹرابری کو قدرے سرخ
رنگ میں دیکھتے ہیں۔
قارئین! یہ کون سی نگاہ اور طرزِ
عمل ہے؟
۴۔ مور اور بعض تتلیوں کے پروں میں
نیلا یا سبز رنگ نہیں ہوتا۔ پروں کو احتیاط سے باریک سفوف میں تبدیل کیا جائے تو
سیاہ اور سلیٹی رنگ کے شیڈ سامنے آتے ہیں۔
ذہن کس میلان ، حافظے یا عادت کے
تحت ان کے پروں میں نیلا اور سبز رنگ دکھاتا ہے؟
انٹر نیٹ پر ایسی تصاویر ماہرینِ
نفسیات کے لئے حیرت کا باعث ہیں لیکن یہ تسلیم شدہ امر ہے کہ ہمارا ذہن الوژن
تخلیق کرتا ہے۔
۵۔ ہم کتاب پڑھتے ہیں۔ ایک لمحے
میں نظر ایک دو لفظوں پر مرکوز ہوتی ہے۔ آس پاس الفاظ دھندلے ہوتے جاتے ہیں۔ جس
لفظ پر نظر رکی ہوئی ہے ، اس کے علاوہ باقی الفاظ دھندلے کیوں نظر آتے ہیں؟
محققین نے دریافت کیا ہے کہ
دھندلاپن ذہن کا خود ساختہ منظر ہے۔ ذہن ماحول اور ارد گرد کا جائزہ لیتا ہے۔ اپنے
مطلب کی تفصیل جمع کرتا ہے اور باقی منظر کو اپنے اندازے اور حافظے سے پُر کرتا
ہے۔
دماغ کا ہر خلیہ دروازہ یا گیٹ ہے
جس سے خیالات داخل ہوتے ہیں۔ ہر Gate
دراصل چھ ذیلی Gates
کا مجموعہ ہے۔
ابدالِ حق حضور قلندر بابا اولیاءؒ
فرماتے ہیں:
” قانون یہ ہے کہ پہلے وہم کا گیٹ
کھلتا ہے لیکن دوسرا سوچ ، تیسرا علم ، چوتھا حرکت، پانچواں عمل اور چھٹا نتیجہ اور
اس طرح پانچوں (Gates)
بند ہو جاتے ہیں۔ عامل کچھ اس طرح ذہن پر زور لگاتا ہے کہ پانچوں (Gates) بند رہتے ہیں اور ایک گیٹ جو وہم کا ہے ،
کھلا رہتا ہے۔ وہم کے گیٹ کی فطرت (Nature)
ہے کہ جو کچھ کہا جائے، وہی دکھاتا ہے اور جو کچھ وہ دیکھتا ہے ، دراصل وہ دماغ دیکھتا
ہے۔ وہم کے گیٹ میں جو بات ڈالی جائے، وہی آنکھوں سے نظر آئے گی۔ اس طرح ہپنا ٹزم
ہوتا ہے۔ کسی بیمار کو ہپناٹائز کرنے والا عامل پہلے اسے کسی چیز پر یکسو کرتا
ہے اور پھر اسے (operate) کر دیتا ہے۔“
اس اقتباس کو تین مرتبہ پڑھیے
ابدالِ حق نے ہپناٹزم کی حقیقت
بیان کی ہے اور اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ دماغ کیسے اور کہاں دیکھتا ہے اور
تصویر کشی کس سطح پر کرتا ہے۔ہپناٹزم کا ماہر عامل جب کسی فرد کو معمول بناتا ہے
تو پہلے اس کی توجہ حاصل کرتا ہے ۔ ہر فرد مختلف ہے لہذا ہر ایک کی توجہ ، اس کی
طرز فکر اور گہرائی بھی مختلف ہے۔خارجی طور پر کوئی عامل وہم کے علاوہ باقی گیٹ
بند کر دے تو فرد کو آپریشن کے بعد کسی نہ کسی طور اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسے معمول
بنایا گیا ہے لیکن داخلی طور پر جب ذہن اس عمل سے گزرتا ہے تو اندازہ نہیں
ہوتا۔کیوں_؟
ذہن بچپن سے معاشرتی روایات ،
رسومات اور عادات پر مبنی ترغیبات جنہیں مضمون میں اصطلاحاً ' سانچے' کہا گیا ہے،
حافظے میں محفوظ کرتا ہے اور ارادہ و خیال کو انہی سانچوں سے گزار کر ہمیں خود
ساختہ تصویر دکھاتا ہے۔اللہ کے دوست مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمیؒ فرماتے
ہیں:
”مشکل سب سے بڑی یہ ہے کہ وہ جس
معاشرے میں تربیت پا کر جوان ہوا ہے ۔ وہ معاشرہ اس کا عقیدہ بن جاتا ہے۔ اس کا
ذہن اس قابل نہیں رہتا کہ وہ اس عقیدے کا تجزیہ کر سکے۔ وہ عقیدہ یقین کا درجہ
حاصل کر لیتا ہے حالانکہ وہ محض فریب ہے۔“
o
ٹائم
اسپیس کی حقیقت کیا ہے؟
o
کائنات
کی اصل صورت کیا ہے؟
o
ہماری
حقیقت اورحیثیت کیا ہے؟
o
ہمارے
اندر کون سی صلاحیتیں موجود ہیں؟
o
ٹائم
اسپیس ذہن سے کیسے منسلک ہیں؟
الوژن طرزِ فکر جو سانچہ یا عقیدہ
بنا لیتی ہے ، وہ ان اہم ترین حقائق اور سوالات کے سامنے دیوار یا پردے کی صورت
میں موجود رہتا ہے۔
مرشد کریم نے اس دنیا اور بے شمار
زمینوں کے مکینوں کو مادی شعور کے خول اور الوژن طرزِ فکر سے آزاد ہونے کے لئے ،
خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی غارِ حرا کی سنت ”مراقبہ“ سے متعارف کروایا ہے۔ مراقبہ
باطن کی دنیا میں یکسوئی ہے۔ الشیخ عظیمی ؒفرماتے ہیں،
” جب
بندے کا رابطہ اللہ تعالی سے قائم ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر سے مفروضہ حواس کی
گرفت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ مراقبہ کی کیفیت میں داخل ہو جاتا ہے۔
مراقبہ
ایسے عمل کا نام ہے جس میں کوئی بندہ بیداری کی حالت میں رہ کر بھی اُس عالم میں
سفر کرتا ہے جس کو ہم روحانی دنیا کہتے ہیں۔ روحانی دنیا میں داخل ہونے کے بعد
بندہ اس خصوصی تعلق سے واقف ہو جاتا ہے جو اللہ اور بندے کے درمیان بحیثیت خالق و
مخلوق ، ہر لمحہ اور ہر آن موجود ہے۔“۔