Topics
آدمی تین گھنٹے یا آٹھ
گھنٹے ، خواب کی صلاحیتوں سے واقف ہونے کے لیے شعور کا دن کے معمولات میں لاشعور
کی طرف متوجہ رہنا ضروری ہے۔
اللہ رب العزت فرماتے ہیں،
” یہ اس وقت کا ذکر ہے جب
یوسف ؑ نے اپنے باپ سے کہا ۔ ابا جان ! میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں
اور سورج اور چاند ہیں اور وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔ جواب میں اس کے باپ نے کہا ،
یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا ورنہ وہ تیرے درپے آزار ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ
ہے کہ شیطان آدمی کا کھلا دشمن ہے۔“ (یوسف
: ۴-۵)
قرآن کریم میں حضرت یوسف ؑ کے قصّے کو ”احسن القصص “ کہا گیا
ہے۔ اس میں جذبات، نفسیا ت، تجسس، خیر و شر کی معرکہ آرائی الغرض تمام خصائص ہیں
البتہ ایک شے تمام قصّے پر محیط نظر آتی ہے۔قصّے کا آغاز پیغمبر حضرت یوسف ؑ کے
خواب سے اور اختتام خواب کی تعبیر پر ہوتا ہے جب کہ درمیانی واقعات جس دائرہ کے
گرد گھومتے ہیں ، وہ تعبیر ِ رویا کا علم ہے۔
اس قصّے میں بادشاہ کے دربار سے منسلک دو قیدیوں کے خوابوں کا
ذکر ہے۔ ایک نے سر پر خوان دیکھا جس میں پرندے کھا رہے ہیں جب کہ دوسرے نے دیکھا
کہ وہ انگور نچوڑ رہا ہے۔ حضرت یوسف ؑ نے پہلے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ اسے موت
کی سزا ہوگی اور پرندے اس کا گوشت کھائیں گے۔ ساقی کے خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ
وہ بے گناہ ثابت ہو کر دوبارہ شاہی دربار سے منسلک ہوگا۔ ایسا ہی ہوا۔
پھر مصر کے بادشاہ نے خواب دیکھا کہ سات موٹی اور سات دبلی
گائیں ہیں۔ دبلی گائیں ، موٹی گایوں کو کھا رہی ہیں، سات گندم کی بالیاں ہری ہیں
اور سات سوکھی ہیں۔
آثارِ قدیمہ کے مصری ماہرین کے مطابق اہلِ مصر نے خواب کے علم
کی طرف اپنے تئیں بہت توجہ دی اور ضخیم کتابیں لکھیں لیکن محدود فہم اور مفروضات
کی بنا پر ان کی بتائی ہوئی تعبیریں درست نہیں تھیں البتہ یہ واضح ہے کہ اہلِ مصر
خواب کے علم کو اہمیت دیتے تھے۔
جب کاہن اور نجومی خواب کی تعبیر نہ بتا سکے تو جیل سے رہا
ہونے والے ساقی کو حضرت یوسف ؑ کا خیال آیا۔ اس نے بادشاہ سے ذکر کیا۔ حضرت یوسف ؑ
دربار میں تشریف لائے اور تعبیر بیان کی کہ آئندہ سات سالوں میں خوب بارش ہوگی اور
غلے کی پیداوار غیر معمولی زیادہ ہوگی ، بعد کے سات سالوں میں خشک سالی سے قحط
ہوگا۔
بادشاہ ان کے علم و حکمت سے متاثر ہوا اور سلطنت کا مختار بنا
دیا۔ حضرت یوسف ؑ نے ایسے گودام بنوائے جن میں غلّہ گلنے اور کیڑا لگنے سے محفوظ
رہا۔ یہ گودام پیغمبرانہ علوم کا شاہکار تھے، دنیا ان کو اہرام کے نام سے جانتی
ہے۔ قحط کے سات سالوں میں اہل مصر نے ذخیرہ شدہ غلّے سے ضرورت پوری کی۔
بیان کیے گئے خوابوں میں ایک نکتہ مشترک ہے۔ ان میں مستقبل کی
پیشن گوئی ہے جو من و عن ظاہر ہوئی۔ ساتھ ہی ماضی کا ذکر ہے جیسے شاہی دربار میں
قیدیوں کی پیشہ ورانہ حیثیت۔
قرآن کریم میں خواب سے متعلق تین الفاظ ”رویا“ ، ”احلام“ ،
اور ” منام“ استعمال ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں موضوع کے لحاظ سے بھی خواب کا ذکر کم و
بیش قرآن میں ۱۷ مقامات پر ہے۔
ہر فرد زندگی کا نصف بیداری اور نصف نیند میں گزارتا ہے۔
کھانا پینا ، افزائش ِ نسل ، سفر اور سارے کام جو بیداری میں ہوتے ہیں، نیند کی
دنیا میں انجام دیتا ہے ۔ بیداری میں شعور کی توانائی صبح سے شام اور رات تک کم
ہوتی چلی جاتی ہے پھر وہ مرحلہ آتا ہے کہ شعور کا سوئچ آف ہوتا ہے اور جسم نیم
مردہ حالت کے مماثل ہو جاتا ہے ۔ لیکن سب واقف ہیں کہ بیداری سے زیادہ ہم نیند میں
فعال ہوتے ہیں اور اسپیس کی تقریباً نفی ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات محسوس ہوتا ہے کہ
خواب میں پیش آئے واقعات دنوں اور ہفتوں پر محیط ہیں لیکن بیدار ہونے پر علم ہوتا
ہے کہ ہم محض چند گھنٹے سوئے ہیں۔
مادی علوم میں خواب سے متعلق جو تحقیقات کی گئی ہیں، ان کا لب
لباب پڑھئے۔
خواب اور سائنس : تحقیقات کی رو سے ہر فرد تقریباً دو
گھنٹے خواب دیکھتا ہے۔ اگر کسی کی عمر ۸۰ سال ہے تو وہ ۶۰ ہزار گھنتے خواب دیکھ
چکا ہے جو دس سال کا عرصہ بنتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر فرد کو دو گھنٹے خواب یاد
رہیں۔
محقق کہتے ہیں کہ نیند کے مختلف مدارج ہیں۔ پہلے درجے میں فرد
بیداری سے نیند میں منتقل ہوتا ہے، اسے نیم بیداری یا اونگھ کہا جا سکتا ہے۔ اس کے
بعد ہلکی نیند شروع ہوتی ہے جس میں جسم کا درجہ حرارت اور سانس کی رفتار مزید کم
ہو جاتی ہے۔ پھر گہری نیند کا آغاز ہوتا ہے جس میں دماغ میں برقی لہروں کا مخصوص
پیٹرن بنتا ہے جن کو ڈیلٹا لہروں کا نام دیا گیا ہے۔
اس کے بعد وہ مرحلہ ہے جس میں محققین کا خیال ہے کہ خواب نظر
آتے ہیں۔ انہوں نے اس کے لیے Rapid Eye Movement یعنی REM کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ ان کے بقول اس میں ڈیلے حرکت کرنے لگتے
ہیں، سانس کی رفتار کافی تیز ہو جاتی ہے اور دماغ تقریباً بیداری کی طرز پر متحرک
ہوتا ہے اور خواب کی دنیا میں خود کو چلتا پھرتا اور نا قابل ِ شمار وقت میں ایک
مقام سے دوسرے مقام پر موجود دیکھتا ہے۔ محققین نے نیند کے باقی درجوں کو مجموعی
طور پر Non-REM کا نام دیا ہے جس میں ڈیلے ساکت رہتے ہیں۔
محقق کہتے ہیں کہ نیند کم ہو جائے تو فرد ریپڈ آئی موومنٹ کے
درجے میں داخل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خواب کا ۴0 سے ۷۰ فی صد حصہ اسے حاصل نہیں
ہوتا اور جسم پر منفی اثرات ہوتے ہیں لہذا خواب کی صلاحیت سے استفادہ کے لیے زیادہ
نہیں ، آٹھ گھنٹے نیند ضروری ہے۔
۱۔ ایسا کیوں ہے؟
۲۔ کیا مادی شعور کا انحصار نیند کے حواس پر ہے؟
۳۔ کیا جسم کو نیند سے توانائی فراہم ہوتی ہے؟
ترغیبی خواب Lucid Dream : محققین نے دریافت کیا ہے
کہ سونے سے پہلے اگر کسی شخص کو مخصوص ہدایات دی جائیں تو وہ نیند کے دوران ان پر
عمل کر سکتا ہے یا ان کے مطابق خواب دیکھ سکتا ہے۔ اس کا پہلا تجربہ میکس پلانک
انسٹی ٹیوٹ جرمنی میں کیا گیا۔ سونے سے قبل فرد کو ہدایت دی گئی کہ جب وہ سو جائے
تو پہلے دائیں اور پھر بائیں ہاتھ کی مٹھیاں بند کر لے۔ ماہرین نے تجربہ کامیاب
ہونے کا دعویٰ کیا۔ ان کے مطابق کوئی فرد خود کو ترغیب دے کر مرضی کے مطابق خواب
دیکھ سکتا ہے۔
اگرچہ محقق خواب کو طبعی ، دماغی اور کیمیائی عمل کے طور پر
دیکھتے ہیں اور اس کی ماورائی حیثیت سے نابلد ہیں تاہم وہ تسلیم کرتے ہیں کہ کئی
ایجادات کا علم خواب میں انسپائر ہوا جیسے بینزین ، انسولین ، سلائی مشین کی سوئی
وغیرہ۔
روحانیت اور خواب: خواب کی حقیقت جاننے کا حتمی ذریعہ
الہامی کتب ہیں۔ علمائے باطن نے قرآن کے علوم کو بنیادی طور پر تین ابواب میں
تقسیم کیا ہے۔ معاشرت ، تاریخ اور معاد ۔ معاد کے باب میں تسخیر کائنات ، آدم ؑ کی
نیابت ، تخلیقی فارمولوں اور خواب کے علوم شامل ہیں۔
ہم نیند کی دنیا میں کیوں داخل ہوتے ہیں؟ بیداری کا انحصار
نیند کی دنیا پر ہے۔ ان میں تعلق اور ربط نہ ہو تو زندگی زیرِ بحث نہیں آتی۔
محترم عظیمی صاحب فرماتے ہیں۔
” زندگی کا یہ معمول ہے کہ ہم سونے کے بعد بیدار ہوتے ہیں اور
بیدار ہونے کے بعد سونے پر مجبور ہیں۔ زندگی کا سارا ریکارڈ لاشعور میں ذخیرہ ہے۔
لاشعور سے شعور میں زندگی منتقل ہورہی ہے۔ اگر ہم خواب نہ دیکھیں تو شعور میں حواس
منتقل نہیں ہوں گے۔ ہم خواب اس لئے دیکھتے ہیں کہ شعوری زندگی کی تعمیر کرنے والے
حواس میں کام کرنے والی انرجی کا ذخیرہ جب ختم ہو جاتا ہے تو وہ لاشعور سے شعور
میں دوبارہ جمع ہو جائے۔ اگر ہم خواب نہیں دیکھیں گے یعنی سوئیں گے نہیں تو زندگی
کو تحریک دینے والا ذخیرہ شعور میں منتقل نہیں ہوگا۔“
مادی جسم مشین ہے جس میں نیند کی دنیا سے توانائی ذخیرہ ہوتی
ہے۔ مشین چلنے کے بعد توانائی صفر کے قریب پہنچ جاتی ہے تو مشین یعنی مادی جسم
نیند کے حواس میں داخل ہو کر لاشعور سے توانائی حاصل کرنے پر مجبور ہے۔ کسی آدمی
کو سونے نہ دیا جائے تو اس کی موت واقع ہو جائے گی یا وہ پاگل ہو جائے گا۔
خواب روشنی کی دنیا ہے جب کہ مٹی کا شعور مادے سے ماورا
دیکھنے کی سکت نہیں رکھتا۔خواب کے شعور کے لئے فرد کو نیند کی دنیا کی
فریکوئنسی کا علم ہونا ضروری ہے۔
آدمی پرتوں کا مجموعہ ہے اور کائنات میں لاشمار دنیائیں ہیں۔
ہر پرت کا تعلق ایک دنیا سے ہے۔ مادی دنیا مٹی کا پرت ہے، نیند کی دنیا روشنی کا
پرت ہے۔ لاشعور کا قانون یہ ہے کہ جب تک فرد اس دنیا میں روشنی سے واقف نہ ہو ، وہ
نیند کی دنیا میں روشنی دیکھنے کے بجائے خود سمیت ہر شے کو مادی شعور کے زیرِ اثر
دیکھتا ہے۔
قانون: ڈیلے اور پلکیں ساکت ہوتی ہیں تو فرد نیند کی
دنیا میں داخل ہو تا ہے۔ پلکوں اور ڈیلوں کا تعلق مادی جسم سے ہے۔ اگر نیند میں
ڈیلے حرکت کرنے لگیں تو مادی جسم ایکٹو ہو جاتا ہے اور خواب دیکھنے کا سلسلہ منقطع
ہو جاتا ہے۔
آدمی تین گھنٹے سوئے یا آٹھ گھنٹے ، خواب کی صلاحیتوں سے واقف
ہونے کے لیے شعور کا دن کے معمولات میں لاشعور کی طرف متوجہ رہنا ضروری ہے۔
فارمولا: صاحب ِ طریقت خواتین و حضرات فرماتے ہیں کہ
خواب کی صلاحیت کو ایکٹو کرنے کے لیے دو گھنٹے 45 منٹ سونا
کافی ہے۔
ہر فرد خواب دیکھتا ہے البتہ یاد رکھنے کی شرح مختلف ہے۔ جن
خواتین و حضرات کو خواب یاد نہیں رہتے، ان کے شعور میں اتنی سکت نہیں ہوتی کہ وہ
نیند کی لاشعوری تحریکات کو بیدار ہونے کے بعد یاد رکھ سکیں۔
خواب کے حوالے سے تحقیقات قابلِ قدر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ
مشاہدات بالواسطہ ہیں یعنی محقق کسی فرد کے دماغ کو اسکین کر کے ، نتائج اسکرین پر
دیکھتے ہیں۔ وہ نیند کی دنیا کو سمجھنے کے لیے مادی میڈیم استعمال کرتے ہیں لہذا
حقیقت پر پردہ آجاتا ہے۔
مادی شعور کی ساری تحریکات لاشعور کے تابع ہیں۔ محقق تفکر
کرتا ہے تو دراصل وہ لاشعور سے ربط قائم کر کے اس شے سے متعلق اطلاعات وصول کرنے
کی کوشش کرتا ہے ۔ کچھ اطلاعات لاشعور کے زیرِ اثر بیداری میں مل جاتی ہیں اور بہت
سی نیند کی دنیا میں ذہن میں ذخیرہ ہو جاتی ہیں۔ جب وہ جاگتا ہے تو یکسوئی کی
مناسبت سے معلومات کا انکشاف ہوتا ہے۔
خواب یا نیند کی دنیا ایک نعمت ہے جو بلاتفریق ہر فرد کو حاصل
ہے۔ محقق کو خواب کی حقیقت کا علم تب ہو سکتا ہے جب وہ خواب کے حواس میں داخل ہو
تو اس کا شعور معطل نہ ہو، بحال رہے اور وہ اس دنیا کو سمجھ سکے۔ باطنی علوم کے
ماہرین اس کے لئے مراقبہ کی مشق کو بہترین قرار دیتے ہیں جس میں شعور بیدار رہتے
ہوئے خواب کے حواس میں داخل ہو جاتا ہے۔