Topics
حضور
ﷺ کے متعین کردہ نظام تعلیم سے انقلابی نتائج حاصل ہوئے ، نہ صرف مسلمانوں کی
خواندگی کا معیار بڑھا بلکہ انہوں نے تہذیب و مدنیت کے بہترین اصول سیکھے۔
مسلمانوں میں اس تعلیم کے ذریعے مذہبی اور اخلاقی قدریں نمایاں ہوئیں اور وہ اعلیٰ
کردار کے حامل بن گئے۔
”
پڑھو ! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ، جمے ہوئے خون کے لوتھرے
سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو اور
تمہارا رب بہت کریم ہے جس نے قلم کے
ذریعہ سے علم سکھایا ، انسان کو وہ
علم دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔“ (
العلق : ۱۔۵)
اقراء
۔۔۔ پہلا لفظ ہے جس سے نزول قرآن کی ابتدا ہوئی۔ سورہ علق کی ابتدائی آیات میں
وضاحت سے علم کی فضیلت کا بیان ہے۔ چناں چہ پہلی وحی دنیا میں انے کے مقصد کو بیان
کرتی ہے اور امت محمد یہ ﷺ کی راہنمائی کے لیے اللہ تعالی ٰ کی طرف سے یہ پہلا
پیغام ہے۔
اللہ
تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو پیغام کی تبلیغ کا حکم دیا تو رشتہ داروں اور اہلِ مکہ
کی جانب سے سخت مزاحمت ہوئی لیکن آپ ﷺ نے برداشت کیا اور ہمیشہ عفو و در گزر سے
کام لیا۔ جن لوگوں نے کھلے دل سے پیغام سنا ، وہ آپ ﷺ کی تعلیمات سے مستیفید ہوئے۔
رحمتہ
اللعالمین ﷺ نے اخلاقی اور مذہبی تعلیم کے ضمن میں عملی تربیت کو اولیت دی اور خود
کو مثال بنا کر پیش کیا یعنی علم کے حصول کے لیے ظاہر و باطن دونوں کو اہمیت دی۔
کائنات کی بنیاد علم ہے۔ علیم و حکیم ہستی کا ارشاد ہے،
”
اور اللہ نے آدم کو علم الاسما سکھایا ۔“ (
البقرۃ : ۳۱)
ہجرت
سے پہلے یثرب کے چالیس افراد مسلمان ہوئے تو انہوں نے معلم کی درخواست کی۔ سرور
کائنات ﷺ نے حضرت مصعب بن عمیر ؓ کو یثرب روانہ کیا۔ وہ پہلے مسلمان ہیں جو مکہ
معظّمہ سے باہر معلم کی حیثیت سے بھیجے گئے۔ رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے متاثر ہو
کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذؓ مسلمان ہوئے اور پھر یہ سلسلہ پھیلتا گیا۔
حضور
اکرم ﷺ نے یثرب ہجرت فرمائی اور یثرب کی پہچان مدینۃ النبی ﷺ بن گئی۔ آپ ﷺ نے یہاں
خود مختار اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی، تعلیم کو اولیت دی اور علم کے حصول کو
لازمی قرار دیا۔ رسول ﷺ نے نظام تعلیم کے آغاز میں مسجد نبوی ﷺ کے ایک حصہ کو درس
گاہ مخصوص کیا جسے ہم ” صفہ“ کے نام سے جانتے ہیں۔
یہ
مسلمانوں کی پہلی اقامتی جامعہ تھی ، دوسرے علاقوں کے طلبا اکتساب علم کے ساتھ رات
میں یہاں قیام کرتے تھے۔ صفہ کے نصاب تعلیم کے بارے میں خانوادہ سلسلہ عظیمیہ
فرماتے ہیں،
”
صفّہ کا نصاب (Syllabus) قرآن کریم تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خود بہ نفس نفیس تعلیم
دیا کرتے تھے۔ صفّہ میں دوسرے صحابہ کرام بھی تعلیم دینے کے لیے مقرر تھے۔ علوم
کے سر چشمہ قرآن حکیم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بے شمار علوم
ہیں۔ قرآن حکیم میں صرف دین و عقائد ، عبادات اور متعلقہ اخلاقی چیزوں ہی کا ذکر
نہیں ہے بلکہ اس میں تاریخ کا بھی ذکر ہے۔ اس میں ان علوم کا بھی ذکر ہے جن میں
تسخیر کائنات کے رموز ہیں۔ قاضی ابو بکر بن عربی ؓ اپنی کتاب قانون التا ویل میں
لکھتے ہیں کہ 'قرآنی علوم کی تعداد ستر ہزار چار سو پچاس (77450) ہے۔' مضامین کے
اعتبار سے قرآن حکیم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ۱۔ شریعت ۲۔ تاریخ ۳۔ معاد
شریعت
: شریعت اس امر سے متعلق قوانین ہیں کہ مسلمان اپنی زندگی کیسے گزاریں۔
کاروبار کس طرح کریں۔ والدین اور بیوی بچوں کے حقوق کیسے ادا کریں۔ قوم اور ملک کے
حقوق کیا ہیں۔ معاشرت کیسی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کے پورے قوانین
بیان کئے ہیں۔
تاریخ
: قرآن کریم کا ایک حصہ تاریخ ہے۔ جتنے بھی پیغمبر ان علیہم الصلوٰاۃ السلام
تشریف لائے ان کی اقوام اور ادوار کا تذکرہ اس میں شامل ہے۔
«
حضرت موسٰیؑ اور ان کے دور میں جادو کا تذکرہ
«
حضرت یوسفؑ اور ان کے دور میں خواب اور بیداری کی زندگی
«
حضرت سلیمانؑ اور ان کے دور میں زمان و مکان سے آزاد Timelessness (لازمانیت) کا
خصوصیت کے ساتھ ذکر۔
«
حضرت عزیر ؑ کے واقعہ میں preservation اور
refrigeration کا مکمل قانون اور فارمولا
معاد : قرآن پاک کا تیسرا حصہ معاد سے متعلق ہے۔
«
انسان اس دنیا میں پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟
«
اس دنیا میں کیوں آیا؟
«
ہر پیدا ہونے والا بچہ میں تبدیلی، پہلا دن ، دوسرا دن، تیسرا دن، بچپن ،
لڑکپن ، جوانی ، انحطاط اور انتقالِ مکان ۔۔۔اس cycle کے بہت سے ادوار
ہیں مختصر تذکرہ کیا جائے تو ترتیب یہ بنتی ہے۔
انسان عالم ارواح میں تھا
عالم ارواح کے بعد کتاب المبین میں
کتاب المبین کے بعد لوح محفوظ میں
لوح محفوظ کے بعد بیت المعمور میں
بیت المعمور کے بعد عالم برزخ میں
اور عالم برزخ کے بعد عالمِ ناسوت
میں آگیا۔
عالم ناسوت سے عالم اعراف میں
عالم اعراف سے عالم نفح صور میں
عالم نفح صور سے عالم حشر و نشر
میں
عالم حشر و نشر سے یوم میزان ( یوم
الحساب) میں
یوم الحساب سے جنت یا دوزخ میں
اور پھر۔۔۔۔؟
یہ سارے علوم اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک
میں وضاحت کے ساتھ بیان کیے ہیں۔“
صفّہ
میں دیگر اساتذہ بھی مقرر تھے۔
رسول
اللہ ﷺ نے عبد اللہ بن سعید بن العاصؓ کو لکھائی سکھانے پر مامور کیا۔ وہ نہایت
خوش نما تھے اور کاتب کی حیثیت سے مشہور تھے۔
بعض
کتب میں اہل صفّہ کی تعداد سو سے زائد بیان کی گئی ہے۔ اہل مدینہ اور گرد و نواح
کے حضرات کی کافی تعداد درس میں شریک ہوتی تھی البتہ مستقل طلبہ کی تعداد سو (۱۰۰) بتائی گئی۔
اہلِ
مدینہ کے تعاون اور اسلامی اخوت کی بدولت مکہ مکرمہ سے آنے والے مہاجرین جلد اپنے
پاؤں پر کھڑے ہو گئے ۔ انہوں نے حسب سابق تجارت کا پیشہ اپنایا۔ معاش کے بعد درس
گاہ صفّہ میں تعلیم سے مستفید ہوتے تھے۔ مقامی باشندے یعنی انصار کاشت کار تھے۔
مہاجرین کی کثیر تعداد مدینہ منورہ اور مضافات میں آباد ہو گئی تھی۔ لہذا تعلیم کی
اہمیت کا یہ عالم تھا کہ جو روزانہ نہیں آ سکتا تھا وہ دیگر آنے والوں سے ربط میں
رہ کر تعلیمات نبوی ﷺ سے آگاہ رہنے کی کوشش کرتا۔
مدینہ
میں نو دیگر تعمیر کی گئیں جو لوگوں کے لیے درس گاہ تھیں۔ رسول کریم ﷺ ان مساجد کا
جائزہ لیتے اور جہاں بے قاعدگی نظر آتی، فوراً دور کرنے کا حکم فرماتے۔
روشنی
قرب و بعد میں پھیل رہی تھی ۔ دور دراز سے قبائل خدمت اقدس میں حاضر ہوتے ۔ ایسے
میں ضروری تھا کہ وسیع پیمانہ پر تعلیم کا نظام قائم ہو۔نومسلم وفود کی واپسی کا
وقت آتا تو ان کی درخواست پر ہادی دین مبین ﷺ اپنے کئی تربیت یافتہ صحابہ کو ان کے
ہم رہا روانہ کرتے تھے۔ صحابہ کرام مقررہ وقت کے بعد واپس آجاتے۔
دور
نبوی ﷺ میں قرآن کریم کے علوم سے لوگوں کو واقف کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی
اور وسائل بروئے کار لائے گئے۔ سب سے اہم کام افرادی قوت اور ان کی تربیت تھی۔ درس
گاہ صفّہ اور رسول کریم ﷺ کی نگرانی میں دیگر مساجد میں قائم درس گاہوں کے ذریعے
یہ عمل بحسن و خوبی انجام پایا۔
کوئی
قوم اس وقت پیروں پر کھڑی ہوتی ہے جب اس کے افراد صاحب فہم اور صاحب تفکر ہوں۔
اچھی تعلیم سوچنا سکھاتی ہے اور سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کر کے فرد ایجادات
کرتا ہے۔
مدینہ
منورہ میں تعلیمی سرگرمیوں میں تیزی آگئی تھی۔ اس وقت مسلمانوں کے مقابلہ میں غیر
مسلم اقوام زیادہ تعلیم یافتہ تھیں تاہم الہامی تعلیمات سے دور ہونے کی وجہ سے ان
میں تخریب کا عنصر غالب تھا۔
جنگ
بدر کی فتح کے بعد قریش کے ستّر (70) سرکردہ افراد گرفتار ہو کر آئے تو معلوم ہوا
کہ ان میں ایسے قیدی بھی ہیں جو لکھنا پڑھنا جانتے ہیں۔ علم کی قدرو قیمت کا یہ
عالم تھا کہ معلم انسانیت ﷺ نے شرط مقرر کی کہ اگر ہر قیدی مدینہ منورہ کے دس
مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے تو انہیں رہا کر دیا جائے گا اور مالی تاوان کے
بجائے ان کی تعلیمی خدمت رہائی کا سبب ہوگی۔
حضرت
زید بن ثابت انصار کے ان لڑکوں میں شامل تھے جنہوں نے قیدیوں سے لکھنا پڑھنا سیکھا۔
زبان
۔۔۔ رابطہ کا ذریعہ ہے۔ اس کے تحت دیگر اقوام کے حالات و واقعات سے واقفیت ملتی
ہے۔
سربراہ
مملکت کی حیثیت سے رسول کریم کے پاس مختلف علاقوں کے سربراہوں کے خطوط آتے تھے اور
یہاں سے مکتوب گرامی روانہ کئے جاتے ۔ ایسے میں مترجمین کی ضرورت پیش آتی۔
مسلمانوں
میں غیر اقوام کی زبان سے ناواقفیت کے سبب آنے والے خطوط غیر مسلموں سے پڑھوائے
جاتے تھے جس سے اہم معلومات افشا ہونے کا خدشہ رہتا تھا۔ ایسے میں قابل اعتماد
افراد کی ضرورت تھی۔ چناں چہ نبی کریم ﷺ نے غیر زبانیں سیکھنے پر زور دیا اور اس
کا انتظام بھی کیا۔
حضرت
زید بن ثابت بیان فرماتے ہیں،
”
حضور ﷺ نے فرمایا ۔۔۔ میرے پاس مختلف خطوط آتے ہیں اور میں یہ بات پسند نہیں کرتا
ہوں کہ ان خطوط کو ہر کوئی پڑھے۔ کیا تم عبرانی زبان کا لکھنا پڑھنا سیکھ سکتے ہو؟
عرض کیا، جی سیکھ سکتا ہوں۔ چناں چہ میں نے سترہ دن میں وہ زبان سیکھ لی۔“
(مشکوٰۃ)
حضرت
زید بن ثابت ؓ زبانیں جلد سیکھنے کی اہلیت رکھتے تھے۔ انہوں نے عبرانی اور سریانی
زبانوں پر دسترس حاصل کی ، فارسی ، رومی ، قبطی اور حبشی زبانیں بھی جانتے تھے اور
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں خط و کتابت اور ترجمانی کے فرائض انجام دیتے تھے۔ یہ
زبانیں مدینہ منورہ میں مقیم ان آزاد کردہ غلاموں سے سیکھی تھیں جن کا تعلق مذکورہ
قوموں سے تھا۔
حضرت
عبد اللہ زبیر کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ بھی کئی زبانیں جانتے تھے اور
اپنے غیر ملکی غلاموں سے ان کی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔
عرب
میں خطوط پر مہر لگانے کا رواج حضرت محمد ﷺ کے دور سے شروع ہوا۔ آپ ﷺ کی طرز تحریر
متوازن اور نفیس تھی۔ خط کی صفائی اور وضاحت کا اندازہ ذیل میں احادیث سے ہوتا ہے۔
رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں،
”
کاغذ موڑنے سے پہلے سیاہی خشک کر لو۔“(کتانی)
”
س کے تین شو شے برابر لکھا کرو۔“ (کتانی)
بعض
روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم میں توسیع کے بعد شعبہ جاتی تخصیص پر بھی کام
ہوا۔ کسی خاص شعبہ میں مزید مہارت ( اسپیشلائز یشن ) کے لیے مخصوص اساتذہ مقرر کیے
گئے۔ پہلے ان کی تربیت ہوئی اور پھر انہوں نے دوسرے مسلمانوں کی تربیت کی۔ جیسے فن
قرات میں مہارت کے لیے حضرت ابی بن کعب خدمات انجام دیا کرتے تھے۔
جنگوں
میں شرکت کی وجہ سے تعلیمی نظام میں فنون سپہ گری کو بھی اہمیت دی گئی۔ دفاعی شعبہ
کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا باقاعدہ نصاب ہوا اور اس کے تحت تربیت کی
جائے۔
رسول
اللہ ﷺ کی ہدایت تھی کہ بچوں کو شروع سے نشانہ بازی ، تیر اندازی اور پیرا کی کی
تعلیم دی جائے۔ یہ ایسے کھیل ہیں جن میں ذہن یک سو ہوتا ہے، پٹھے مضبوط ہوتے ہیں
اور جسم میں پھرتی آتی ہے۔ بالغ افراد کو گھڑ دوڑ کے مقابلے اور مشقیں بھی کروائی
جاتی تھیں۔ ہر لحاظ سے پالیسی وضع کی گئی کہ ہر شعبہ کے لیے باقاعدہ تعلیمی نظام
بنایا جائے اور ذہن تیار ہوں۔ جنگوں میں مردوں کے ساتھ خواتین نے بھی حصّہ لیا اور
مختلف خدمات انجام دیں۔
تعلیم
خواتین اور مردوں کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ یہاں تک کہ شافع رحمت حضرت محمدﷺ نے
کنیزوں کو بھی تعلیم دینے کی ہدایت فرمائی اور اسے باعث ثواب قرار دیا گیا۔ ارشاد
فرمایا کہ جو کوئی اپنی کنیز کو عمدہ تعلیم و تربیت دے کر نکاح کرے گا اسے دوگنا
ثواب ملے گا۔
ابتدا
میں خواتین ”صفّہ“ نہیں جاتی تھیں، ان کے مرد روکتے تھے۔ آپ ﷺ نے مردوں کو حکم
دیا،
”
خواتین کو اللہ کی مساجد میں جانے نہ روکو۔“
خواتین
کی کثیر تعداد علمی مجلاس میں حاضر ہونے لگیں اور تعلیمات سے براہ راست مستفیض
ہوئیں۔ پھر انہوں نے محسوس کیا کہ ہفتہ میں ایک دن خواتین کی تعلیم کے لیے مخصوص
ہونا چاہیئے۔ حضرت محمد ﷺ نے درخواست قبول فرمائی۔ آپ ﷺ اس دن درس و تدریس کے ساتھ
علمی سوالات کے جوابات دیتے اور ملکی حالات کے مطابق انہیں نصیحت فرماتے تھے۔ آپ ﷺ
نے خواتین کو چرخہ کاتنے اور گھریلو صنعتوں کی طرف متوجہ کیا۔
رسول
اللہ ﷺ نے حضرت شفا بنت عبد اللہ سے فرمایا کہ وہ ازواج مطہرات کو لکھنا پڑھنا
سکھا دیں۔ خواتین کو تعلیم دینے میں ازواج مطہرات شریک رہیں۔
خواتین
نے قرآن کریم کی تعلیمات ، دنیاوی علوم اور شعر و ادب میں مہارت حاصل کی اور آپ ﷺ
کی وفات کے بعد بھی تعلیمی مشن کو جاری رکھا۔ ازواج مطہرات میں سے جو لکھنے پڑھنے
سے ناواقف تھیں، آپ ﷺ نے دیگر خوتین کو ان کی تعلیم پر مامور کیا۔
معلم
اعظم حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے،
”
والد کا اولاد کے لیے بہترین تحفہ علم سکھانا ہے۔“
آپﷺ
نے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی۔ اسلام سے قبل مدینہ منورہ میں
یہودیوں کی درس گاہوں میں بشر بن عبد الملک السکونی ، ابو قیس بن عبد مناف بن زہرہ
اور عمرو بن زرارہ جیسے تجربہ کار اساتذہ تعلیم دیتے تھے۔ عمرو ” الکاتب“ کے نام
سے معروف تھے۔ مدینہ منورہ میں قیام کے بعد وہاں نو مساجد تعمیر ہو چکی تھیں جن
میں قرآن کریم کی تعلیم کے علاوہ لکھنا پڑھنا سکھایا جاتا تھا۔
” حضور ﷺ کی خدمت میں آنے سے پہلے
حضرت انس بن مالکؓ لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ دس سال کی عمر میں ان کی والدہ بی بی ام
سلیم ؓ نے حضور ﷺ کی خدمت میں یہ کہتے ہوئے حاضر کیا تھا کہ ' یہ میرا بیٹاہے اور
لکھنا پڑھنا جانتا ہے۔' حضرت انس ؓ مسلسل دس سال حضور ؐ کی خدمت و تربیت میں گھر
کے فرد کی طرح رہے۔“
حضرت
زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں،
جب
حضور ﷺ ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت میری عمر گیارہ سال تھی۔ مجھے
خدمت میں حاضر کیا گیا اور حضور پاک ﷺ کو خوش خبری سنائی گئی کہ اس بچہ کو قرآن
کریم کی سولہ سورتیں یاد ہیں۔ آپ ﷺ نے مجھ سے قرآن کریم سنا اور خوشی کا اظہار
فرمایا۔“
سرور
کون و مکان ﷺ کا طریقہ تعلیم عمدہ ہے ۔ آسان انداز میں لوگوں کو تعلیم دیتے۔ ضروری
اور اہم باتوں کو تین دفعہ دہراتے تاکہ ہر کند ذہن شخص بھی اچھی طرح سمجھ سکے ۔ ہر
شخص کو اس کی صلاحیت و عقل کے مطابق تعلیم دیتے، مختصر گفتگو فرماتے ، سمجھانے کے
لیے مثالوں سے کام لیتے۔
الہامی
کتب اور قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ امر واضح ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں
کو مثالوں سے بات سمجھائی ہے۔ حقیقی اور فکشن نگاہ سے ،متعلق قرآن کریم میں ارشاد
باری ہے،
” یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے
بدلہ گم راہی خرید لی ہے مگر یہ سودا ان کے لیے نفع بخش نہیں اور یہ ہر گز صحیح
راستہ پر نہیں ہیں۔ ان کی مثال ایسی ہےجیسے ایک شخص نے آگ روشن کی اور جب اس نے
سارے ماحول کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور بصارت سلب کر لیا اور انہیں اس
حال میں چھوڑ دیا کہ تاریکیوں میں انہیں کچھ نظر نہیں آتا۔“ ( البقرۃ : ۱۶۔۱۷)
سرور
کائنات ﷺ معلمین کو ہدایت دی،
”
لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق بات کیا کرو۔“
محفل
میں اکثر ادب سے ناواقف لوگ حاضر ہوتے جو بعض اوقات آداب کا لحاظ کئے بغیر ،
ناشائستگی سے گفتگو اور بے ڈھنگے سوالات کرتے۔ آپ ﷺ صبر و تحمل سے سنتے اور ان کے
مزاج اور ذہن کے مطابق جواب دیتے تھے جس سے وہ مطمئن ہو جاتے۔
حضور
ﷺ کے متعین کردہ نظام تعلیم کے انقلابی نتائج آپ ﷺ کے عہد مبارک میں سامنے انا
شروع ہوگئے تھے۔ نہ صرف مسلمانوں می خواندگی کا معیار بڑھا بلکہ انہوں نے تہذیب و
مدنیت کے بہترین اصول سیکھے۔
مسلمانوں
میں اس تعلیم کے ذریعے مذہبی اور اخلاقی قدریں نمایاں ہوئیں ، وہ اعلیٰ کردار کے
حامل بنے اور ان کی ادبیت اور قابلیت میں بھی اضافہ ہوا۔