Topics

سایہ

س ی ن ۔۔۔ن م ا۔سایہ(رموز)

 

          (زمین پر چلنے والا کوئی فرد ایسا نہیں جس کا سایہ نہ ہو حتی کہ سائے کا بھی سایہ ہوتا ہے۔ سایہ سمٹتا ہے اور پھیلتا ہے، دن میں چھوٹا اور رات میں طویل ہوتا ہے۔ مادی سائنس کہتی ہے کہ سایہ بذات ِ خود کچھ نہیں ، یہ شے کا غیر روشن حصہ ہے۔ قرآن کریم میں سائے اور اس کے طرزِ عمل کی وضاحت ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ باشعور ہے۔

          تلاش کیا جائے کہ سایہ کیا ہے ، کیوں بنتا ہے ، اندھیرے میں نظر کیوں نہیں اتا، اس کے دراز اور مختصر ہونے میں کیا راز ہے، یہ مخلاف سمت میں کیوں بنتا ہے اور کیا اس کا رنگ واقعی اندھیرا ہے تو فرد پر اس دنیا سے پہلے کی دنائیں روشن ہوتی ہیں۔

          اس مضمون میں آپ پڑھیں گے کہ سائے میں رنگ ہوتے ہیں اور اس میں آواز ریکارڈ ہوتی ہے۔)

          دیوار ، پردے اوراسکرین پر پڑنے والے سائے واضح ہوں تو ہم بتا سکتے ہیں کہ یہ آدمی، درخت اور ہاتھی کا سایہ ہے۔ اسی طرح سینما اسکرین پر مناظر پروجیکٹر میں چلنے والی فلم کے سائے (عکس) ہیں۔ فرق یہ ہے کہ سینما اسکرین پر بننے والے سیاوں میں مختلف رنگ اور شیڈز نظر آتے ہیں اور ہم اسکرین پر تصویروں کے ساتھ آواز بھی سنتے ہیں۔

          چین اور مشرق ِ بعید کے ممالک ویت نام ، انڈونیشیا ، تھائی لینڈ ، کمبوڈیا وغیرہ میں ایسے تھیڑ یا سینما ہیں جو قدیم طرز کے مطابق ہیں۔ ایک روشن پردے کے پیچھے سے لکڑی یا گتّے سے بنائی گئی پتلیوں کو حرکت دی جاتی ہے اور ساز و آواز کا بھی انتظام ہوتا ہے۔ لوگ مختلف اشکال پر مبنی سایوں کو جن کا رنگ عام سائے کی طرح اندھیرا ہوتا ہے ، پردے پر دیکھتے ہیں۔ ہر سائے کی مخصوص شکل ، آواز اور حرکت ہوتی ہے۔ یوں وہ پردے پر کہانی دیکھتے اور سنتے ہیں۔

          وقت گزرنے کے ساتھ فلم کا فیتہ اور پروجیکٹر ایجاد ہوئے تو روشن اسکرین پر اندھیرے رنگ کے سایوں کی جگہ رنگین سایوں نے لے لی۔

          ذہن میں بات آ سکتی ہے کہ پروجیکٹر میں چلنے والے فیتے سے روشنی کی شعاعیں اسکرین پر سائے نہیں بلکہ تصویریں بناتی ہیں۔ پروجیکٹر کے میکانزم سے واضح ہے کہ اسکرین پر تصویریں فیتے پر موجود تصویوروں کے سائے یا عکس ہیں۔

          پروجیکٹر میں ایک طاقتور بلب نصب ہے۔ بلب کے سامنے فلم کا رول ہے جس میں ہزار ہا ساکن تصویریں ہیں۔ فلم رول کے مقابل لینس ہے۔ جب بلب روشن ہوتا ہے ، تیز روشنی فلم کی ساکن تصویر میں سے گزرتی ہے۔

          یہ مقام غور طلب ہے۔

          بلب کی روشنی سفید ہے اور فیتے میں تصاویر رنگین ہیں۔ روشنی فیتے میں تصویر پر پڑتی ہے تو اس میں موجود اطلاعات کو ساتھ لے کر سامنے موجودہ رَو سے گزرتی ہے ۔ عدسہ روشنی کو آگے ایک مخصوص طولِ ماسکہ کی مقدار میں پھیلا دیتا ہے۔ روشنی معین فاصلہ طے کر کے اسکرین پر پڑتی ہے اور فیتے پر تصویروں کو ایک منظر کی شکل میں منعکس کر دیتی ہے۔

          فلم کے فیتے پر ہر لمحہ الگ الگ تصویر کی شکل میں ریکارڈ اور ساکن ہے پھر اسکرین پر تصاویر متحرک کیوں نظر آتی ہیں۔۔؟

          فلم کا فیتہ مخصوص رفتار سے چلتا ہے ۔ بلب کے سامنے چند لمحوں کے لیے تصویر ٹھہرتی ہے پھر دوسری تصویر اور تیسری تصویر آجاتی ہے۔ تصویر کے رکنے اور گزرنے کی وجہ سے مناظر میں تسلسل ٹوٹ جاتا ہے لیکن ہمیں اسکرین پر تعطل نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ کیا ہے؟

           تصویروں کے آنے اور جانے سے اسکرین پر تعطل واقع ہوتا ہے ۔ ابتدا میں یہ فلم سازوں اور سینما گھروں کے لیے دردِ سر تھا۔ ٹیکنا لوجی میں جدت آتی رہی۔ ایک جیسے وقفوں اور رفتار سے فیتہ چلا پھر بھی دو مناظر میں تعطل برقرار رہا۔ سوچ بچار کے بعد فیتے اور عدسے کے درمیان پردہ لگا دیا گیا۔

          اب پروجیکٹر کے بلب کی روشنی فلم کے فیتے میں سے گزرتی ہے۔۔۔ سامنے شٹر مسلسل گرتا اُٹھتا ہے۔ اس طرح روشنی رک رک کر عدسے میں سے گزرتی ہے اور پھیل کر اسکرین پر پڑتی ہے۔۔۔ مناظر تعطل کے بغیر اور ہموار نظر آتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہم مادی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتے ہیں۔

          قارئین ! عجب ہے کہ فیتہ رک رک کر چلتا ہے ، اس سے گزرنے والی روشنی کے سامنے موجود شٹر مسلسل کھل بند ہوتا ہے یعنی یہ تصاویر کی روانی میں مزید وقفے اور رکاوٹ پیدا کرتا ہے پھر مناظر ہموار کیسے نظر آتے ہیں۔۔؟

          دراصل فلم میں تمام لمحات تصاویر کی حالت میں الگ الگ ریکارڈ ہیں جب تصویریں ترتیب سے ایک ایک کر کے بلب کی روشنی سے گزرتی ہیں تو سامنے آنے ، کچھ لمحے ٹھہرنے اور گزرنے کا عمل بھی اسکرین پر منعکس ہوتا ہے۔۔ لیکن اسی روشنی کے سامنے جب شٹر مسلسل گرتا اٹھتا ہے تو ہر دو تصویر کے دوران وقفہ بھی شٹر کی حرکت سے چھپ جاتا ہے اور صرف تصاویر تسلسل سے اسکرین پر منتقل ہوتی ہیں۔

          دوسرے لفظوں میں تصاویر میں وقفوں سے بظاہر پیدا ہونے والا خلل شٹر (shutter) کے خلل سے معطل ہو جاتا ہ اور اسکرین پر فلم تسلسل سے نظر آتی ہے۔

          جدید پروجیکٹروں میں فلم کے فیتے اور شٹر کی جگہ ڈیجیٹل ڈیٹا نے لے لی ہے البتہ بنایدی طریق کار وہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ ان میں عمل لوہے یا پیتل کے کَل پرزوں کی طجائے الیکٹرانک سرکٹس اور chip کے ذریعے انجام پاتا ہے۔

          سینما میں شائقین فلم دیکھ رہے ہیں ۔ اسکرین پر چلنے والے مناظر میں خدوخال ، روشنی ، رنگ اور اندھیرا سب خاص تناسب سے نمایاں ہے۔ تصویریں حرکت کرتی ہیں۔ ان کے ساتھ آواز بھی موجود ہے۔ ہال میں اسکرین روشن ہے، باقی اندھیرا ہے۔ ایک شخص گردن گھما کر پیچھے کی طرف اوپر دیکھتا ہے تو روشنی کی دھار نظر آتی ہے۔ اس میں جتنی شعاعیں لکیریں ہیں، ہر ایک اسکرین پر منظر کا کوئی نہ کوئی حصہ ہے۔لینس روشنی کی دھار کو اطراف میں ترچھا (Tilt) کر کے پھیلا دیتا ہے اور دھار مخصوص فاصلہ طے کر کے اسکرین پر پھیل جاتی ہے۔ غور طلب ہے کہ اسکرین جتنی بڑی ہوتی ہے۔۔ پروجیکٹر کا فاصلہ بڑھ جاتا ہے یعنی روشنی کو جتنی اسپیس ملتی ہے ، وہ اسی تناسب سے پھیلتی ہے۔

          ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ فلم کا فیتہ مناظر کو بصری طور پر ریکارڈ کرتا ہے ، اس میں آواز کیسے ریکارڈ ہوتی ہے۔۔؟

          یہ درست ہے کہ فیتے کی ساخت اور میکانزم اطلاعات کو محض بصری حدود میں ریکارڈ کر سکتا ہے ۔ یہ آواز کو بھی بصری کوڈ کی صورت میں ایک کنارے پر یا دونوں کناروں پر ریکارڈ کرتا ہے۔ جب فیتہ پروجیکٹر میں چلتا ہے تو اس میں نصب بصری حاسہ (Sensor) اس کوڈ کو برقی سگنل میں تبدیل کر کے اسپیکر کو بھیجتا ہے جہاں یہ آواز میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس طرح آواز تصویر کے ساتھ ساتھ خلل اور تاخیر کے بغیر صحیح سنائی دیتی ہے۔

          فیتے میں تصویریں ساکن ہیں پھر اسکرین پر تصویروں میں حرکت کیسے پیدا ہوتی ہے۔۔۔؟

          اگر پروجیکٹر میں ایک تصویر گزر کر دوسری تصویر بلب کے سامنے نہ آئے تو اسکرین پر تصویر ساکن رہے گی۔ ایک تصویر ایک لمحے کا ریکارڈ ہے۔ ایک لمحے کے بعد دوسرا ، دوسرے کے بعد تیسرا ، تیسرے کے بعد چوتھا ریکارڈ یکساں وقفے سے چلے تو اسکرین پر مناظر کے متحرک ہونے کا الوژن پیدا ہوتا ہے۔ ناظر سمجھتا ہے کہ کچھ مناظر گزر چکے ہیں، کچھ گزر رہے ہیں اور کچھ مناظر ظاہر ہونے والے ہیں جب کہ تمام فلم اول سے آخر تک ریکارڈ ہے۔

          صورتِ حال دلچسپ ہے۔ ناظرین ایک لمحے میں ایک منظر دیکھتے ہیں لیکن سب کے تاثرات الگ ہوتے ہیں۔ ہر فرد کا ذہن اس میں مختلف معنی پہناتا ہے۔ کسی کو ایک منظر مایوس کن لگتا ہے، دوسرا اس میں امید تلاش کرتا ہے۔ کوئی خوفزدہ ہوتا ہے تو کوئی اس صورتِ حال میں مقابلہ کرنے کا رویہ اپناتا ہے۔

          ایک تصویر گزر کر دوسری تصویر بلب کے سامنے آتی ہے تو پروجیکٹر سے لے کر اسکرین تک پھیلی ہوئی روشنی کی لکیریں بھی تبدیل ہوتی ہیں یعنی اسکرین پر منظر بدل جاتا ہے۔

          قارئین ! پروجیکٹر اور اسکرین کا منظر محض سینما تک محدود نہیں ہے، یہ کائناتی اسکرین پر مخلوقات کے ظاہر ہونے کی مثال ہے۔

          سینما ہال میں پروجیکٹر کے لینس سے روشنی کی لکیروں کے پھیلنے اور خلا میں مسافت طے کر کے اسکرین پر مظاہرے کے عمل کو دیکھنے کا تجربہ ضرور کیجئے۔ یہاں پر چند دلچسپ اور عجیب نکات کا تجربہ اور مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔

          ۱۔        جس اسکرین پر ناظرین فلم دیکھتے ہیں ، وہ دیوار پر سفید پینٹ ، سفید تنے ہوئے کپڑے، پلاسٹک کی سفید شیٹ وغیرہ کسی بھی شے سے بنائی جا سکتی ہے یعنی اسکرین کی بنیاد matter ہے ۔ اسکرین سے چند فٹ پہلے اگر سفید دھوئیں کو ہموار تہ یعنی اسکرین کی طرح پھیلا دیا جائے تو اس پر فلم نشر ہونا شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح دھوئیں کی اسکرین سے چند فٹ پہلے شفاف پانی کو اوپر سے نیچے ہموار تہ کی شکل میں مسلسل گرا کر اسکرین بنائی جا سکتی ہے۔

          ۲۔       پرو جیکٹر اور مادی اسکرین کے درمیان کئی اسکرینیں مختلف روشنیوں پر مشتمل ہو سکتی ہیں جو شعاعوں میں موجود اطلاعات کو قبول کر کے مظاہرہ کریں اور راستے میں رکاوٹ نہ بنیں۔ یوں شعاعیں کئی اسکرینوں پر مظاہرہ کرتی ہوئی بالآخر مادی اسکرین پر بکھرتی ہیں۔

          سوال یہ ہے کہ کیا روشنی کی اسکرین بننا ممکن ہے اور کیا یہ مادی اسکرین کی طرح عمل کرتی ہے۔۔۔؟ سائنس دریافت کر چکی ہے کہ روشنی مادی اسکرین کی طرح بھی عمل کرتی ہے اور اس سے تصویریں بنائی جا سکتی ہیں۔ فضا یا خلا میں لیزر تصویریں بنانا اور ہولو گرام مثالیں ہیں۔

          ۳۔      اسکرین کی بنیادی ساخت کثیف، کم کثیف، لطیف اور لطیف تر ہو سکتی ہے۔ مٹی کی اسکرین کثیف ترین ہے۔ دھوئیں کی اسکرین کی کثافت اس سے کم ہے۔ مرئی روشنی کی اسکرین لطیف ہے اور غیر مرئی یا زیادہ فریکوئنسی پر مبنی روشنی کی اسکرین اس سے لطیف تر ہے۔

          ۴۔      کائناتی نظام کو سمجھنے کے لیے پروجیکٹر کے اندر فلم کے فیتے پر موجود اطلاعات یا تصویروں کو ہم اصل ریکارڈ کہہ سکتے ہیں۔ مادی اسکرین پر بکھرنے سے پہلے روشنی ریکارڈ کو جتنی اسکرینوں پر نشر کرتی ہے، وہ ریکارڈ کے سائے، عکس یا ڈسپلے کہلاتے ہیں۔ اگر پروجیکٹر کا سوئچ آف کر دیا جائے تو تمام اسکرینوں کے ڈسپلے غائب ہو جاتے ہیں لیکن یہ ریکارڈ فلم کے فیتے سے غائب نہیں ہوتا۔


Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم