Topics

بیعت

        ڈاک آئی ہے

 عباسی کی خود رَو جھاڑیاں نظر آتے ہی قدم بے اختیار اس جانب اٹھے۔ قریب پہنچنے پر جھاڑیوں کی دوسری طرف چادر میں ملبوس بزرگ نظر آئے۔

          ہوش سنبھالا تو ہر شے کو رنگ میں دیکھا لیکن رنگ غلاف کی صورت میں شے سے لپٹےہوئے نظر آتے۔ میں ان رنگوں کو بہت غور سے دیکھتا۔ اسی طرح جو آواز سنتا ، دماغ کی اسکرین پر رنگین تصاویر متحرک ہو جاتیں اور میں اندر میں مرکوز ہو جاتا ۔مجھے اپنے آپ میں مگن دیکھ کر گھر والوں کو تشویش ہوئی کہ بچہ نارمل نہیں ہے۔ جادو کا اثر ہے، آسیب ہے جیسی باتیں سننے کو ملتیں۔

          پانچویں جماعت تک ” ا ، ب“ لکھنا نہیں آتی تھی۔ چھوٹے بچوں کی تختی جس پر پہلے سے ” ا، ب“ لکھی ہوتی ہے، اس پر لکھنے کی کوشش کرتا۔ اسکول میرے لیے مار کھانے کی جگہ تھی۔ اماں ساتھ لے کر گجرات ، شاہ دولہ دریائی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر کئی مرتبہ حاضر ہوئیں اور نذر و فاتحہ کی۔ پھر ایسے ناگفتہ بہ حالات پیدا ہوئے کہ ہر طرف سے سختی بڑھ گئی۔ دل بہت خراب رہنے لگا کہ یہ کیسی اندگی ہے۔ بیزار ہو کر گاؤں سے دور نکل جاتا اور بے مقصد گھومتا۔

          اسکول میں ایک روز کی چھٹی کا اعلان ہوا۔ بچے خوش ہو گئے لیکن میں گھر جا کر چھٹی کے بارے میں بتانا بھول گیا۔ صبح جب گھر والوں نے جگایا تو دیر سے چھٹی کا بتانے پر انہوں نے یقین نہیں کیا۔ مجبوراً یونیفارم پہن کر بستہ اٹھایا اور اسکول چلا گیا۔ اسکول کیا تھا، دو کمرے، دس درخت اور کیاریاں تھیں۔ بچے زمین پر بچھانے کے لیے بوریاں ساتھ لاتے تھے۔ ایک درخت کے نیچے بوری بچھائی، قلم ، دوات اور تختی نکالی، کچھ نہ کچھ لکھنے کی کوشش کی۔ اتنے میں ایک چرواہا گزرا۔ خالی اسکول میں اکیلے بچے کو لکھائی میں مصروف دیکھا تو بکریوں کی نگرانی کرنے کا کہا۔ میں اس کام سے ناوقاف تھا۔ چرواہے کو خاموشی ناگوار گزری تو بستہ اور تختی دور پھینکی اور پٹائی کر دی۔ بمشکل جان چھوٹی۔ اسکول سے واپس آیا ۔ گھر والوں نے حلیہ دیکھ کر سمجھا کہ یہ میری کارستانی ہے۔ سخت سرزنش ہوئی لیکن میں نے کچھ نہیں کہا۔ دل میں طوفان تھا۔ رات کو خاموشی سے گھر سے نکل گیا۔

          گاؤں کے مشرق کی طرف تا حدِ نظر ویرانہ تھا۔ میں چلتا گیا۔ گلِ عباسی کی خود رَو جھاڑیاں نظر آتے ہی قدم بے اختیار اس جانب اٹھے۔ قریب پہنچنے پر جھاڑیوں کی دوسری طرف چادر میں ملبوس بزرگ نظر آئے۔ اندھیرے کی وجہ سے خط و خال واضح نہیں تھے۔ اپنائیت محسوس ہوئی۔ قریب گیا تو انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ خوف، رنج اور وحشت جو دل و دماغ پر عرصے سے حاوی تھی، تحلیل ہوگئی۔ سکون و عافیت کا احساس غالب آگیا۔ کتنے لمحے گزرے، معلوم نہیں ہے۔ دور سے چند آدمیوں کی آواز سنائی دی۔ آنکھیں کھولیں تو چادر پوش بزرگ غائب تھے۔ ان کے جانے کے بعد خط و خال کا ہلکا خاکہ ذہن میں کی اسکرین پر ظاہر ہوا۔

          پنچ سات آدمی ہاتھوں میں لالٹین لئے آوازیں دیتے ہوئے قریب آگئے تھے۔ وہ مجھے ڈھونڈنے نکلے تھے۔ گھر آتے ہی گہری نیند نے آلیا۔ اس واقعے کے بارے میں بہت سوچا کہ یہ سب کیا تھا۔ تیسرے چوتھے روز اماں سے ذکر کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن مطمئن تھیں جیسے جانتی ہوں کہان کے بیٹے کو تحفظ دینے کون آیا تھا۔ برسوں گزر گئے، ان لمحات کی یاد اج بھی اندر میں تازہ ہے۔

          گھر میں ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ آتا تھا۔ میں ” صدائے جرس“ بہت غور سے پڑھتا اور سمجھنے کی کوشش کرتا۔ اماں بھی خاص طور پر مطالعہ کرتیں۔ ان کو علاج معالجے کے لیے عملیات اور تعویذات کا شوق تھا۔ ان کے کئی تعویذ مشہور تھے۔ لوگ دور دور سے آتے تھے۔

          منڈی بہاء الدین جانا ہوا۔ اماں نے تعویذ کی ایک کتاب کا نام لکھ کر دیا کہ لے آنا۔ کتاب کہیں نہیں ملی۔ ایک دکان رہ گئی تھی جو شہر کے دوسرے کونے پر تھی۔ وہاں گیا تو دکاندار نے کہا، میرے پاس ایک بہترین کتاب ہے۔

          یہ کہہ کر ” روحانی علاج “ سامنے رکھ دی۔

          مصنف کا نام پڑھا اور کتاب خرید لی۔ اماں اس کتاب میں سے علاج لکھ کر دیتیں ، لوگ لے جاتے اور سب کو شفا ہوتی۔

          کتاب ” روحانی علاج “ کے مطالعے کے بعد اماں نے کسی اور کتاب سے تعویذات نہیں لکھے بلکہ کوئی آتا تو کہتیں،

                   ” اپنے پیروں کی کتاب لکھ دو۔“

                   ” اپنے پیر“ کے الفاظ بہت اچھے لگتے۔

          خوشی خوشی کتاب میں سے علاج لکھ دیتا۔

          گھر میں عملیات و تعویذات وغیرہ کی پرانی اور نئی کتابیں تھیں۔ سب پڑھیں۔ ماورائی علوم سیکھنے کا شوق ہوا تو قریبی شہر میں کتابوں کی دکان پر ” ہپنا ٹزم سیکھئے“ نامی کتاب کی ورق گردانی کی۔ دلچسپ لگی لیکن پیسے نہیں تھے۔ چند روز بعد خریدنے گیا تو فروخت ہو چکی تھی۔

          پورے شہر میں کتاب تلاش کی۔

          آخری دکان سے مایوس ہو کر نکل رہا تھا کہ دکاندار نے آواز دی اور کاؤنٹر پر ایک کتاب رکھتے ہوئے کہا۔ یہ ماورائی علوم سے متعلق اعلیٰ کتاب ہے، خرید لو۔

          کتاب پر نظر ڈالی۔ لکھا تھا،

                   ”ٹیلی پیتھی سیکھئے“

                             خواجہ شمس الدین عظیمی

          اماں کو بتایا کہ مجھے اپنے پیروں کی کتاب ملی ہے۔ کم از کم دس دفعہ کتاب کا بغور مطالعہ کیا پھر کچھ سمجھ آئی۔ مشقیں شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ گھر میں یہ ناممکن تھا۔

          گاؤں سے باہر شمال کی جانب ایک غیر آباد مسجد تھی جہاں کبھی کبھار کوئی اذان دے دیتا اور ایک دو نمازی موجود ہوتے ورنہ ہفتوں تک ہو کا عالم رہتا ۔ آس پاس کھیت تھے۔ عشاء کے بعد کا وقت منتخب کر کے مسجد کی چھت پر ذوق و شوق سے مشقیں شروع کیں۔

          ایک روز مسجد میں دو لڑکے نماز پڑھنے آئے۔ میں نے نماز پڑھ کر اُن کے جانے کا انتظار کیا۔ کافی دیر گزر گئی اور وہ نہیں گئے تو آنکھ بچا کر چھت پر گیا۔ کچھ دیر میں لڑکے بھی چھت پر آگئے۔ پوچھنے پر اصل بات بتانی پڑی۔ انہوں نے مشق میں شریک ہونے پر اصرار کیا۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ آتے رہے پھر انہوں نے میٹھا چھوڑ دیا۔ چند روز بعد بتایا کہ ان کے ساتھ عجیب معاملات پیش آئے ہیں جن سے وہ خوف زدہ ہیں اور مشق جاری نہیں رکھ سکتے۔ بہر حال میں نے مشقیں جاری رکھیں۔” کسی“ کی نظریں کرم ہے کہ میں نقصان سے محفوظ رہا ورنی اجازت کے بغیر ٹیلی پیتھی کی مشقوں سے نقصان ہوتا ہے۔

          اماں سے کہا، ٹیلی پیتھی خیال منتقل کرنے کا علم ہے لیکن میرے پیروں کا اس میں کوئی راز ہے۔ خواب اور بیداری میں یہ منظر تکرار سے نظر آتا ہے کہ میرے پیر جی راستے پر آگے آگے چل رہے ہیں، جس جگہ راستہ جاتا ہے، وہاں ایک تخت ہے جس پر انوار و تجلیات کا ہجوم ہے۔ اماں خاموش رہیں۔

          مسجد میں قرآن کریم پڑھ رہا تھا کہ تھوڑی دیر میں ایک لڑکا آیا اور مولوی صاحب سے کہا کہ اس کی اماں بلا رہی ہیں۔ گھر پہنچا تو صحن میں ایک نلیک اینڈ وائٹ ٹی وی سیٹ رکھا ہوا تھا۔ ساتھ میں پھول رکھے تھے ۔ اماں نے مجھے دیکھتے ہی پیڑھی سرکائی ، بیٹھنے کا اشارہ کیا اور کہا،

          ”تیرے پیر جی ائے ہوئے نیں، بہ جا!“

          حیرت و شوق کے عالم میں بیٹھ گیا۔

          اسکرین پر حضور مرشد کریم عظیمی صاحب رحمتہ اللہ علیہ جناح کیپ پہنے گفتگو فرما رہے تھے۔ گُلِ عباسی کی جھاڑیوں کی حیرت، گداز میں بدل گئی۔

          میکانیکی انداز میں کہا، اماں ! آج توں میرے پیروی ہوگئے۔ گل پکی ہوگئی اے! ( آج سے میرے پیر کے ہونے کی بات پکی ہوگئی ہے)

          میں نے مشقیں جاری رکھیں۔ اجازت طلب کرنے کا خیال ایا نہ علم تھا۔ ایک روز روحانی ڈائجسٹ میں اجازت کے لیے کوپن پڑھا پھر لوگوں کی خط و کتابت دیکھی۔ میں نے مرشد کریم کے نام خط میں کیفیات لکھ کر بھیجیں ۔ ان کا جواب حوصلہ افزائی سے بھر پور تھا۔

          گاؤں میں ڈاک خانہ موجود نہ ہونے سے کیفیات تسلسل سے نہ بھیج سکا۔ گاؤں کی ڈاک، ساتھ والے قصبے کے ڈاک خانے میں آتی تھی۔ ایک روز ڈاک خانے کی طرف سے پیغام ملا کہ ” تمہارے نام ڈاک آئی ہے۔“ فوراً پہنچا۔ پیکٹ کھولا تو اندر چھوٹے کاغذ پر درج تھا،

          پیارے بیٹے ۔۔۔ کے نام!

          کتاب ” ٹیلی پیتھی سیکھئے“

          پہلے صفحے پر نیلی روشنائی سے مرشد کریم کے دستخط تھے۔ کچھ عرصے بعد مرشد کریم کی جانب سے کتاب ” قلندر شعور “ بذریعہ ڈاک ملی۔ الحمد اللہ ۔ اندر میں یہ بات راسخ تھی کہ جب سے میں ہوں تب سے یہ میرے پیر ہیں۔

          ایک روز اماں نے بتایا کہ پیر جی کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور وہ سامنے بٹھا کر ” بیعت “ کرتے ہیں۔ بات سن کر بے چینی بڑھ گئی۔

          اطلاع ملی کہ مرشد کریم راولپنڈی تشریف لا رہے ہیں۔ 2004ء کی بات ہے۔ راولپنڈی مراقبہ ہال پہنچا تو مغرب کا وقت تھا اور مرشد کریم امامت فرمارہے تھے۔ نماز میں شریک ہوا۔ پھالیہ ہال کے نگراں نے بتایا کہ بیعت سے پہلے تین مہینے مراقبہ کرتے ہیں۔

          صبح نمازِ فجر اور مراقبہ کے بعد ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ میرے اصرار پر بیعت کی درخواست پیش ہوئی۔

          حضور نے پوچھا ، بیعت کیوں ہونا چاہتے ہو؟

          زبان گنگ اور دماغ خالی تھا۔

          انہوں نے مراقبہ ہال ، پھالیہ کے زمہ دار سے پوچھا ، یہ مراقبہ ہال آتے ہیں؟

          بتایا گیا کہ کبھی کبھی آتے ہیں۔

          حضور نے مجھ سے پوچھا ، مراقبہ کرتے ہو؟

          میں نے اثبات میں سر ہلایا۔

          انہوں نے فرمایا، مراقبہ ہال جاتے رہو اور مراقبہ کرتے رہو، پھر دیکھتے ہیں۔

          میں نے چند روز وہاں قیام کیا۔ مارگلہ ہوٹل ، اسلام اباد میں مرشد کریم کی کتاب ” ایک سو ایک اولیا اللہ خواتین“ پر کانفرنس میں شرکت نصیب ہوئی۔ واپس آکر حکم کی تعمیل کی۔

          2006ء میں ابدالِ حق قلندر بابا اولیاء کے عرس پر کراچی جانے کا ارادہ کیا۔ قافلے میں ایک بہن نے پوچھا۔ بھائی ! ہم تو اپنے پیر کے پاس جا رہے ہیں۔ آپ کیوں جا رہے ہیں؟

          میں نے کہا، وہ میرے بھی پیر ہیں۔

          بہن نے پوچھا۔ کب سے؟ میں خاموش رہا۔

          حافظ آباد سے قافلے میں شریک ایک بھائی نے بتایا کہ سات سال ہو گئے ہیں، بیعت نہیں ہو سکا۔ اس بار سب چھوڑ کر آیا ہوں اور وہیں کا ہو کر رہ جاؤں گا۔ کبھی تو بیعت کریں گے۔

          یہ جملہ مجھ پر پہاڑ کی طرح گرا۔ گڑ گڑا کر دعا کی یا اللہ! مجھے ایسے امتحان میں نہ ڈالیں۔

          کراچی پہنچے تو روحانی تربیتی ورکشاپ کے لیے شامیانے لگ چکے تھے۔ ہمارے نگراں صاحب نے سب کو کلہاڑیاں اور بیلچے دیے کہ راستہ صاف کرنا ہے، یہاں سے مرشد کریم کا گزر ہوگا۔ مرشد کریم کی سواری گزری۔ ہم لوگ جو جھاڑیاں کاٹنے میں مصروف تھے، دیر تک چپ چاپ ہاتھ باندھ کر کھڑے رہے۔

          اگلے دن ستائسویں تھی۔ دوپہر کو مرشد کریم مرکزی مراقبہ ہال ، کراچی کے لان کے ساتھ شمال کی جانب برآمدے کی اُس دیوار کے ساتھ تشریف فرما تھے جہاں آبِ شفا کا کنواں ہے۔ عقیدت مندوں کی قطار تھی۔ حافظ آباد والے بھائی بیعت ہوئے۔ میری باری آئی۔ مرشد کریم نے بغور دیکھا پھر سر پر دستِ شفقت رکھا اور دم کیا۔ الحمد اللہ۔۔۔ دعا قبول ہوئی۔

          2006ء کے بعد کئی بار خدمت میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ مرشد کریم نے بہت شفقت فرمائی اور تصوف کے ذوق کی آبیاری کی۔

          2019ء کی ایک ملاقات کا احوال ہے کہ اماں نے کچھ معروضات لکھوائیں کہ خدمت میں پیش کر دینا۔ میں پیغام دینا بھول گیا۔

          ملاقات کے بعد اٹھنے لگا تو حضور نے فرمایا، بیٹھ جاؤ۔ اماں کا کیا حال ہے؟ ان سے کہنا کہ بچوں کے بارے میں پریشان ہونا چھوڑ دیں۔ کچھ عنایت کیا کہ اماں کو دے دینا۔

           اماں تک امانت پہنچائی تو انہوں نے اسے سر پر رکھا۔ بہت زیادہ تشکر اور خوشی کا اظہار کیا پھر مجھ سے کہا، اپنے پاس رکھ لو، ان سے میرا کفن خریدنا۔ 2020ء میں اماں کا انتقال ہوا۔

          حسب ِ وصیت عمل کیا۔

          9 دسمبر 2022ء کا ذکر ہے ۔ بعد نمازِ مغرب حاضری نصیب ہوئی۔ نشست برخاست ہوئی تو حضور مرشد کریم نے فرمایا،

          ” اچھا بھئی ، تم بیعت کب ہوئے؟“

          عرض کیا ، ابا جی ، فارم پر 2006 ء لکھا ہوا ہے۔

          انہوں نے ملکوتی تبسم کے ساتھ فرمایا،

          ” بھئی کیا پتہ، جب تم پیدا بھی نہ ہوئے ہو!“

          میں نے سر قدموں میں رکھ دیا۔ انہوں نے دستِ شفقت رکھا۔میں گیٹ سے باہر نکلا تو دایاں ہاتھ فضا میں بلند کر کے زور دار نعرہ لگایا، مرشد زندہ باد!

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم