Topics

زندگی کیا ہے؟

چار پرندے       

 

”کوئی کہے کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ الوژن ہے، مردہ یا نیم مردہ دماغ یہ نہیں دیکھ سکتا تو جو کچھ حافظے میں محفوظ ہے، وہ کس دماغ کے مشاہدات ہیں؟ یقیناً ذہن کے ایسے پہلو ہیں جو مادی جسم پر انحصار نہیں کرتے بلکہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں۔“

ô    زندگی کیا ہے؟ زمین اور دیگر سیاروں پر اس کی ابتدا کیسے ہوئی۔۔۔۔؟

ô    کوئی شے کن خصوصیات کی بنا پر جاندار یا بے جان سمجھی جاتی ہے۔۔۔؟

ô    زندگی کو قائم رکھنے کے عوامل کیا ہیں۔۔۔؟

ô    تخلیق پیدائش ، بچپن ، جوانی ، بڑھاپے اور موت کے مراحل سے کیوں گزرتی ہے۔۔۔؟

ô    جب موت واقع ہوتی ہے تو کیا ناکارہ جسم کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔۔۔؟

یہ سوالات طلبا خصوصاً حیاتیات (Biology) کے طلبا کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔

مادی علوم کی روایت ہے کہ وہ مسئلے کے حل کی تلاش میں مفروضوں پر تجربات کرتے ہیں اور نتائج کو نظریات یا قوانین کی

شکل میں دلیل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس طریق ِ کار کے تحت تسلی بخش جواب حاصل نہیں ہوا۔ زندگی کیا ہے اور ابتدا کیسے ہوئی، رائج نظریات میں اس حوالے سے مشترک نکات پڑھیے۔

          ۱۔       جاندار نامیاتی مرکبات کے اجسام ہیں جن میں DNA یا RNA کی بنیادی حیثیت ہے۔ DNA دو بل کھاتی

                   لڑیوں پر مشتمل ہے، جن کو الگ کریں تو ہر لڑی RNA کہلاتی ہے۔

          ۲۔       سادہ مرکبات ، پیچیدہ مرکبات میں تبدیل ہو کر زندہ اجسام بن گئے۔

          ۳۔      پہلے سادہ جاندار بنے جن سے پیچیدہ ساخت پر مشتمل جاندار وجود میں آئے۔ وہ جاندار جو موسمیاتی اور ماحولیاتی

                   تبدیلی کے سبب ڈھلتے رہے، ان کی نسلیں باقی رہیں اور جو خود کو بدل نہ سکے، وہ معدوم ہو گئے۔

          ۴۔      زندگی کو کلی طور پر کیمیائی عناصر اور مرکبات کا کھیل سمجھا گیا حتی کہ ذہین مخلوقات کی صلاحیتوں کو بھی دماغ میں

                   کیمیائی اور برقی عوامل کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔

          ۵۔       شعور ، مزاج ، بیداری ، نیند ، افزائشِ نسل اور زندگی کے جتنے رخ ہیں، تحقیقی و تلاش کے مطابق یہ سب کیمیائی

                   مرکبات کا ایک منظم اور مربوط طریقے سے باہم عمل کرنا ہے۔

          کیا فرد کا مرکبات پر مبنی جسم سے علیحدہ کوئی تشخص ہے۔۔۔؟ سائنسی قوانین کے مطابق اس کا جواب نفی میں ہے مگر یہ

حقیقت کے برعکس جواب ہے۔ حیاتیاتی سائنس اور اس کے زیلی شعبے جیسے میڈیکل ، جینیات اور عصبیات روح کے بارے میں

خاموش ہیں اور زندگی کو مرکبات کے باہم تغیر سے تعبیر کرتے ہیں۔

          قریب المرگ افراد ، کوما سے ہوش میں آنے والے مریض اور وہ خواتین و حضرات جنہیں ڈاکٹروں نے مردہ قرار دیا لیکن وہ زندگی کی طرف لوٹ آئے ، ان کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے ہیں جس میں نہ صرف مستقبل کی پیشن گوئی تھی بلکہ انہوں نے ان مقامات کے احوال بیان کئے جہاں وہ مادی طور پر نہیں گئے۔ مثالیں کثیر ہیں تاہم یہ سائنسی نظریات کی حدود میں نہیں آتیں۔ ایک مصدقہ واقعہ پڑھیں۔

          ایبن الیگزینڈر (Eben Alexander) مایہ ناز امریکی نیورو سرجن ہیں۔ 2008 میں کسی بیماری کی وجہ سے کوما میں چلے گئے۔ ڈاکٹروں نے کہا کہ ہوش میں آنے کی امید دس فی صد سے کم ہے، اگر کسی طرح جان بچ گئی تو تاحیات معذور اور انتہائی نگہداشت کی حالت میں رہیں گے۔

          ایبن الیگنزینڈر معجزانہ طور پر ہوش میں آگئے۔ انہوں نے کوما کے دوران پیش آئے محیر العقول مشاہدات بیان کئے حالاں کہ ڈاکٹر ان کے دماغ کو تقریباً مردہ قرار دے چکے تھے۔

          انہوں نے کہا کہ میں خود کو بیدار ، باشعور اور باحواس پایا اور ناقابل ِ یقین واقعات کا مشاہدہ کیا۔ اگر میرا دماغ مردہ یا نیم مردہ حالت میں تھا تو یہ تجربات کس دماغ کو ہوئے؟ نتیجہ اخذ کیا کہ ،

          ” کوئی کہے کہ جو کچھ میں نے دیکھا اور محسوس کیا وہ الوژن ہے ، مردہ یا نیم مردہ دماغ یہ نہیں دیکھ سکتا تو جو کچھ

          حافظے میں محفوظ ہے، وہ کس دماغ کے مشاہدات ہیں؟ یقیناً ذہن اور شخصیت کے ایسے پہلو ہیں جو مادی جسم

          پر انحصار نہیں کرتے بلکہ علیحدہ وجود رکھتے ہیں۔“

          ماہرین بلا سوچے سمجھے یا جانب دار رویے کے تحت ان واقعات کو رد کر دیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایبن الیگزینڈر چوں کہ نیورو سائنس کے ماہرین میں سے ہیں، ان کے تجربات کو رد نہیں کیا جا سکا۔ تاہم زندگی کے غیر مادی پہلو کو سمجھنے کے لئے تحقیقات کی گئیں نہ کوئی نیا شعبہ قائم ہوا۔

          ڈاکٹر ایبن الیگرینڈر نے تحقیق جاری رکھی اور جسم کے غیر مادی رخ کو اصل قرار دیا۔ دو کتابیں لکھیں جو بڑی مشہور ہوئیں۔ ایک کا نام Proof of Heave ہے جو ایک معروف جریدے کے مطابق کتب کی فروخت میں ایک عرصے تک پہلے نمبر پر رہی۔ کتاب میں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں۔

          ” روح اور شخصیت کے غیر مادی رخ کے حوالے سے میرے خیالات ، دوسرے شاکی دوست محققین سے مختلف نہیں تھے۔ میں روح کے وجود اور لوگوں کے ان مشاہدات کو جھٹلاتا تھا۔ افسوس ہے کہ میں نے کھلے ذہن اور گہرے تفکر سے انہیں سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔“

ایک اور جگہ انہوں نے لکھا ہے،

          ” جو لوگ کہتے ہیں کہ غیر مادی شعور سے متعلق تجربات اور عوامل کا کوئی ثبوت نہیں ، وہ جانتے بوجھتے

          جاہل بنے ہوئے ہیں۔ مستند شواہد کی طویل فہرست موجود ہے۔ وہ حقائق دیکھے اور سمجھے بغیر خیال

          کرتے ہیں کہ انہیں سب معلوم ہے۔“

          ایبن الیگرینڈر کی دوسری کتاب Mindful Universe ہے۔ جس میں انہوں نے کائنات کے حقائق جاننے کی کوشش کی ہے اور یادداشت کے ان پہلوؤں کا ذکر کیا ہے جو دماغ کے غیر مادی رخ سے منسلک ہیں۔

          کوانٹم طبیعیات کے محققین میں اکثر نے روح کے تصور کو رد کیا ہے۔ ایک مشہور امریکی محقق شان ایم کیرل لکھتے ہیں۔

                   ” اگر ہم مان لیں کہ روح حقیقت ہے تو ہمیں ایک نئی طبعی سائنس کی ضرورت ہوگی جو موجودہ

                   سائنس سے یقینی طور پر مختلف ہوگی۔ لہذا ہم روح کو تسلیم نہیں کر سکتے۔“

          یعنی وہ تسلیم کرتے ہیں کہ مادی سائنس کی مدد سے روح کو سمجھنا ممکن نہیں ، روح کو سمجھنے کے لئے ایک مختلف سائنس کی ضرورت ہے لیکن ہم چوں کہ روح کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے تو ایسی سائنس میں دلچسپی کیوں لیں۔

          سائنس میں حقائق سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی لیکن محققین کا رویہ تحقیق میں عدم خلوص کو ظاہر کرتا ہے۔ سائنس میں ایسے نظریات داخل کر دیئے گئے ہیں جن پر غیر جانب دار محققین کو سخت تحفظات ہیں۔ جیسے انسانوں اور جانوروں کی جینیات میں دخل اندازی۔ ہر طرح کے جانوروں کی آپس میں اور انسانوں کے ساتھ پیوندکاری کی کوششیں کی جا رہی ہیں قطع نظر کہ نتائج کتنے بھیانک اور خطر ناک ہو سکتے ہیں۔

          الہامی تعلیمات اور زندگی: آخری آسمانی کتاب قرآن کریم میں وضاحت سے روح اور جسم کے تعلق ، زندگی کی اصل ، موت کی حقیقت اور موت کے بعد کی زندگی کو بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر دو ایسے واقعات کا ذکر ہے جن میں برگزیدہ پیغمبروں کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کو بیان کیا گیا ہے۔ قدرت نے جو مشاہدہ ان کو کروایا، اس کا بھی ذکر ہے۔

          ۱۔” یا پھر مثال کے طور پر اس شخص کو دیکھو جس کا گزر ایک بستی سے ہوا جو اپنی چھتوں پر اوندھی گری پڑی تھی۔ اس نے کہا ، یہ آبادی جو ہلاک ہو چکی ہے ، اسے اللہ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟ اس پر اللہ نے اس کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑا رہا۔ پھر اللہ نے اسے دوبارہ زندگی بخشی اور اس سے پوچھا ، بتاؤ تم کتنی مدت پڑے رہے؟ اس نے کہا، ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا۔ فرمایا۔ تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا۔ دوسری طرف اپنے گدھے کو بھی دیکھو اور یہ ہم نے اس لئے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھا دیتے ہیں ۔اس طرح جب حقیقت اس کے سامنے نمایاں ہوگئی تو اس نے کہا، میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔“                          (البقرۃ: ۲۵۹)

 

۲۔” اور جب ابراہیم ؑ نے کہا تھا کہ اے میرے مالک ، مجھے دکھا دے تو مُردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ۔ فرمایا، کیا تو ایمان نہیں رکھتا؟ اس نے عرض کیا، ایمان تو رکھتا ہوں مگر دل کا اطمینان درکار ہے۔ فرمایا ، اچھا تو چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کر لے۔ پھر ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ خوب جان لے کہ اللہ نہایت بااقتدار اور حکیم ہے۔“                   (البقرۃ : ۲۶۰)

نکات

          ۱۔ موت کے بعد جسم کے انحطاط کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تحقیق و تلاش کے مطابق مردہ جانور کا جسم کھلی فضا میں موجود ہو تو تقریباً 40 دن میں صرف ہڈیاں رہ جاتی ہیں۔ اگر اس مقام پر موجود مٹی ، تیزابی خواص نہ رکھتی ہو تو ہڈیاں کئی سو سال تک باقی رہتی ہیں۔ سو سال کے عرصے میں گدھے کی ہڈیاں باقی رہ گئیں جو خشک اور گوشت پوست کے بغیر تھیں۔

          ۲۔ کھانا عموماً دس بارہ گھنٹےسے زائد وقت گزرنے کے بعد گلنے سڑنے لگتا ہے اور سو سال میں اس کا نام و نشان باقی نہیں رہتا۔

          ۳۔ حضرت عزیر ؑ سمجھے کہ وہ محض ایک دن یا اس سے کم مدت اس حالت میں رہے ہیں۔ ان کے سامنے گدھے کی ہڈیاں اکٹھی ہوئیں اور مکمل ڈھانچے کی صورت میں کھڑی ہوگئیں۔ ہڈیوں پر جھلی، رگ پٹھے اور گوشت پوست چڑھنا شروع ہوا گویاگدھا جس طرح ہڈیوں میں تبدیل ہوا تھا، وہ عمل ریورس ہو گیا۔ تنفس بحال اور حواس فعال ہوئے اور گدھا سو سال پہلے کی طرح ہوگیا۔ غذا جس کو تحقیق و تلاش بے جان کہتی ہے، وہ سو سال تک خراب نہیں ہوئی۔

          ۴۔چار زندہ پرندوں کو ذبح کر کے ٹکڑے کئے گئے۔ ان کو کسی بھی سائنسی تکنیک سے من و عن جوڑنا اور ان میں حرکت پیدا کرنا ممکن نہیں۔

          ۵۔ حضرتابراہیم ؑ نے پرندوں کے ٹکڑے پہاڑوں پر رکھ کر ان کو پکارا۔ ہر پرندہ حضرت ابراہیم ؑ سے مانوس تھا۔ پکار پر تیزی سے اڑتا ہوا ان کے پاس آیا۔ اللہ نے ان پرندوں میں نظام تنفس بحال کیا۔ سوال یہ ہے کہ آواز ذبح شدہ ٹکڑوں کو دی گئی تھی ، زندہ پرندوں کو نہیں دی گئی پھر وہ کس طرح آواز پر متحرک ہوئے؟

          روحانی توجیہات : انبیائے کرام علیہم السلام کے روحانی علوم کے وارث اولیاء اللہ نے قران کریم کے فارمولے اور اسرار و رموز بیان فرمائے ہیں۔

          ابدال ِ حق قلندر بابا اولیا رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔

          ” حقیقت میں کروموسوم کو illusion (نظر کا دھوکا) کہنا چاہیئے۔ اس میں روح چھپی ہوئی ہوتی ہے جو پردے میں رہتی ہے۔ کروموسوم کی نظر اسے نہیں دیکھ سکتی۔ Concept ، روح یا Soul کی نظر البتہ خود کو دیکھ سکتی ہے مگر یہ دیکھنا باطنی ہے۔“        (کتاب : قدرت کی اسپیس)

          قارئین! حضور قلندر بابا رحمتہ اللہ علیہ کی یہ چشم کشا تحریری ، تخلیق کے اسرار سے بھر پور ہے۔ محقق ابھی تک کروموسوم یا DNA سے آگے نہیں جا سکے۔ وہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کروموسوم کی حیثیت محض لباس کی ہے۔ دراصل کروموسوم تار کی مانند ہے جس سے جسم تخلیق ہوتا ہے۔ قرآن کریم کے مذکورہ واقعات کو اس توجیہ سے سمجھنا آسان ہے۔

          موت واقع ہوتی ہے تو ایک معین عرصے کے بعد جسم یعنی لباس مٹی میں تبدیل ہو جاتا ہے البتہ لباس پہننے والی ایجنسی روح موجود رہتی ہے ۔ جب روح کو لباس میں داخل ہونے کا حکم ملا تو ذرّات یکجا ہوئے اور لباس ظاہر ہو گیا۔

          دوسری طرف چار پرندوں کا جسم ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا۔ اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم ؑ کی پکار پر ٹکڑے یکجا ہو کر پھر سے پرندے بن گئے۔

خلاصہ

          حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ نے روح کے ساتھ Conceptکا لفظ استعمال کیا ہے۔ یہ لفظ جدید ذہن پر واضح انداز میں روح کی حقیقت آشکار کرتا ہے۔ ہر ایجاد کے پیچھے ایک Concept موجود ہے جس کی بنیاد پر ایجاد ہوتی ہے۔ دنیا سے کوئی شے مٹ جائے تو یہ لباس کا مٹنا ہے، Concept یعنی علمِ شے لاشعور میں موجود رہتا ہے اور دوسرے عالم میں منتقل ہو کر وہاں کے لباس میں ظاہر ہوتا ہے۔

          اس دنیا میں موت اُس دنیا میں زندگی ہے۔ قبر میں لباس دفن ہوتا ہے یعنی لباس جس عالم کی مٹی سے بنا تھا، اس عالم میں رہ گیا ، روح دوسرے عالم میں منتقل ہوگئی۔ مرنے والے کی روح اعراف میں منتقل ہوتی ہے تو وہاں کی مٹی کے مطابق لباس بناتی ہے۔ قانون یہ ہے کہ جب آدمی یہاں ختم ہوتا ہے اور جسم ذرّات میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اس کا concept یعنی روح دوسری دنیا میں منتقل ہو کر وہاں کے مطابق لباس اختیار کر لیتی ہے۔

                                                ہستی بجز فنائے مسلسل کے کچھ نہیں

                                                پھر کس لئے یہ فکر قرار و ثبات ہے


 

Topics


tehqeeq-o-tafakur

حامد ابراہیم