Topics

یقین کی دنیا

 

ایک وقت تھا کہ آدم ذہنی سکون کے علاوہ کسی اور کیفیت سے واقف نہیں تھا۔ اس کے یقین میں اتنی طاقت تھی کہ محض دل میں کسی چیز کا خیال آنے سے وہ چیز عدم سے وجود میں آ جاتی تھی۔ سکون کے سمندر میں جواربھاٹا اٹھا۔ طوفان نے سمندر کو اتنا بے چین کر دیا کہ پرسکون ٹھہرا ہوا سمندر اونچی اور بڑی لہروں کی شکل میں اپنی حدود سے باہر نکل گیا۔ حدود سے باہر کا مقام آ گیا ہے ۔

جب سے دنیا بنی ہے آدم ذات اپنے کھوئے ہوئے ذہنی سکون کی تلاش میں ہے۔ ذہنی سکون حاصل کرنے کے لیے آدم زاد نے دو راستے متعین کیے۔

                     

                   ۱۔ اقتصادی طور پر اپنی حالت بہتر بنانے کی کوشش۔ 

                   ۲۔ کسی ان دیکھی ہستی کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کی پرستش کرنا۔ 

                   (یہی وہ نظریہ یا ضرورت ہے جس کا نام عقیدہ رکھا گیا )

اقتصادی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے ہر بڑی قوم نے دوسری چھوٹی قوم کو نیست و نابود کرنے اور اپنے آپ کو دوسروں پر حکمران ثابت کرنے کے لیے خفیہ ریشہ دوانیاں کیں۔ اس طرح دوسروں کے حقوق پائمال کرکے اپنے آپ کو نمایاں کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔اور جب حق تلفی کا یہ سلسلہ دراز ہوا تو آدم زاد برادری کا ہر فرد حرص و آس کے چکر میں بری طرح ا لجھ کر رہ گیا۔

ان دیکھی ہستی  پر عقیدہ رکھنے کے باوجود جب پردوں میں چھپی ماورائی ہستی، آدم ذاد کے سامنے نہیں آئی تو انسانی برادری کے بزعم خود باشعور دانشوروں اور عقل مندوں نے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ان دیکھی ہستی کی تصویر کشی کی اور تصویر کشی کے اس مقابلے میں ایک عقیدہ ہزاروں تصویروں کے طابع مہمل ہو کر رہ گیا ۔ بت پرستی شروع ہو گئی۔

 ایسا اس لیے ہوا کہ گزرے ہوئے واقعات کے سلسلے میں نوع انسانی کے پاس قابل اعتماد تاریخی مواد موجود نہیں ہے۔ تاریخی بے اعتمادی نے آدم ذات کے عقائد میں ہلچل برپا کردی۔

مذہبی رہنماؤں کے یقین سے خالی عمل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور عوام صراط مستقیم پر گامزن ہونے سے قاصر رہ گئے۔  یہی وہ بنیادی نقطہ ہے جس کی بنا پر انسان روحانی اقدار سے ناواقف ہو کر مادہ پرست بن گیا ۔ روحانی اقدار سے دوری نے جب انسان کو بے راہ کردیا تو ان دیکھی ہستی نے اس روحانی پس ماندگی کو دور کرنے کے لئے اور اسے جہالت کی تاریکی سے نکالنے کے لیے اپنے نمائندے دنیا میں بھیجے تاکہ وہ انسانوں کو خبردار کرکے انہیں گہرے اور عمیق گڈھوں میں گرنے سے بچنے کی تلقین کریں ۔

پیغمبروں کی تعلیمات جب تحریف کے خوشنما پردوں میں چھپ گئیں تو اُس ان دیکھی ہستی نے ایک اور اپنا نمائندہ (صلی اللہ علیہ وسلم)بھیجا۔ اس آخری نمائندے (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا۔ کہ 

"پرسکون زندگی یقین کے راستے پر رواں دواں ہے"۔

 اور اس راستے پر چلنے کے لئے اس نمائندے (صلی اللہ علیہ وسلم )نے آدم ذاد برادری کو زندگی گزارنے کے لیے اصول بتائے۔ اس میں ایک اصول یا رکن "حج" ہے۔

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کرلی تو انہوں نے اللہ تعالی سے عرض کیا۔ تعمیر تو میں نے مکمل کرلی ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا۔۔۔ لوگوں میں حج کا اعلان کردو۔

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا۔ پروردگار عالم میری آواز کہاں تک پہنچے گی؟ اللہ تعالی نے کہا "تم اعلان کردو، پہنچانا میرا کام ہے۔"

 حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا۔ کن الفاظ میں دعوت دوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا۔" کہو۔۔ لوگو تم پر قدیم گھر کا حج کرنا فرض کر دیا گیا ہے، تو آسمانوں اور زمین والوں نے سن لیا۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ دور دور کے شہروں سے لبیک کہتے ہوئے کس طرح آتے ہیں۔"

ان دیکھی مقتدر ہستی چاہتی ہے کہ نوع انسان برادرانہ طرزوں میں یقین کے راستے پر سفر کرے۔ وہ ہستی نہیں چاہتی کہ برادری سسٹم سے الگ ہوکر کوئی فرد اپنے لئے کوئی الگ راستہ متعین کرے۔

 پاکیزہ کردار نمائندے (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اعلان کیا کہ۔ان دیکھی  مقتدر ہستی چاہتی ہے کہ یقین کی قوت کے ساتھ ایک جگہ جمع ہو جاؤ اور آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرو اور  محبت کے راستوں میں کسی بھی طرح دراڑیں نہ ڈالو ۔

حج اللہ تعالی کی اس آواز، اللہ تعالی کی اس  خواہش ، اور اللہ کی اس طرز فکر  کا آئینہ دار ہے یہ ایک ایسا عمل ہے جس میں مالی، بدنی، ذہنی اور روحانی ہر اعتبار سے انسان کی صلاحیتیں کام کرتی ہیں۔ مالی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس میں مال خرچ ہوتا ہے۔مشقت اور تکلیف بھی اس عمل میں دوسرے اعمال کی نسبت زیادہ ہے۔ اس عمل کو جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے،یہ اعلیٰ ترین مشکل ترین اور سراسریقین کی دنیا ہے۔ اور اللہ تعالی کی اس آواز کا مظاہرہ ہے۔

           " تم اعلان کردو پہنچانا میرے ذمے ہے"

یقین کی دنیا میں بسنے والے لوگوں کا مشاہدہ ہے کہ ہر حاجی کی روح میں اللہ تعالی کی آواز ایکو(ECHO) ہو رہی ہے۔

 اور اللہ تعالی کے دوسری آواز۔

"اکٹھے ہو کر میری رسی کو مضبوط پکڑ لو اور آپس میں بکھر نہ جاؤ"۔

 خدوخال کا روپ دھار کر جب اپنا مظاہرہ کرتی ہے تو ایک آواز پر کم وبیش بائیس لاکھ افراد ایک ساتھ اجتماعی طور پر لبیک کہتے ہوئے سرنگوں ہو جاتے ہیں اور عملًااس یقین کا اعتراف کرتے ہیں کہ اللہ تعالی کی آواز۔

"کہو۔۔۔۔ لوگو۔۔۔۔ تم پر پر قدیم گھر کا حج کرنا فرض کر دیا گیا ہے۔ تو آسمانوں اور زمین والوں نے سن لیا۔

 کیا تم نہیں دیکھ رہے ہو کہ وہ دور  دور کے شہروں سے لبیک کہتے ہوئے کس طرح آتے ہیں۔" انہوں نے سنی ہوئی ہے۔

 



Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔