Topics

قرآنی سائنس

 

سائنسی ایجادات  نےبے بلا شبہ منکشف کردیا ہے کہ زمین پر موجود مخلوقات میں انسانی مخلوق صلاحیتوں اور بصارت کے اعتبار سے تمام مخلوقات سے افضل اور برتر ہے۔ہم جب قرآن کے حوالے سے سائنس کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں  یہ تفکر ملتا ہے کہ انسان کے اندر ایک شعور اور تین لا شعور ہر وقت متحرک رہتے ہیں چار شعوروں میں سے فقط ایک شعور سے عوام واقف ہیں۔ بقیہ تین شعور عامۃ  الناس کے تعارف میں نہیں ہیں سائنس دان صدیوں کی مسافت طے کر کے اور اربوں کھربوں ڈالر خرچ کر کے دوسرے شعور سے کسی حد تک واقف ہو گئے ہیں۔بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ آج کی سائنس  نے دوسرے شعور کو تلاش کرلیا ہے اور سائنس دان اس کوشش میں ہیں کہ دوسرے شعور کی کنہ تک پہنچ جائیں۔ سائنس دان اس دوسرے شعورکو لا شعور کا نام دیتے ہیں۔ لیکن قرآن پاک شعور سوئم اور شعورچہارم کا بھی تعارف کراتا ہے چنانچہ ان دو شعوروں کو بھی ہم لا شعور ہی شمار کریں گے۔ اس طرح کائنات کی ساخت میں تین لا شعور پائے جاتے ہیں ۔ پہلا لا شعور، دوسرا لا شعور، تیسرا لا شعور ،ان چارون شعوروں میں چوتھا اور آخری شعور لامکان ہے اور باقی تین شعور مکان ہیں۔

زندگی کا تجزیہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کائنات میں موجود کوئی چیز بے رنگ نہیں ہے ہر چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی شئے کسی نہ کسی رنگین غلاف میں بندہے یہ رنگین غلاف  AURA ہی کسی شئے کی انفرادیت قائم کرتا ہے۔

آئیے! آرام و سکون کے ساتھ ذہن کو خیالات سے آزاد کرکے ذرا کائناتی رموز پر غور کریں اور یہ دیکھیں کہ کائنات میں کوئی ایسی شئے ہے جو رنگین نہ ہو۔ چیونٹی سے ہاتھی تک چھوٹے سے پودے سے پیپل جیسے بڑے درخت تک ،زمینوں پر موجود کوتاہ قد انسان ، طویل القامت انسان، مشرق میں مغرب میں ، شمال میں جنوب میں بسنے والے انسان اور انسانی زندگی میں کام کرنے والے تمام وسائل، لا متناہی رنگوں کا ایک سلسلہ ہے۔ روحانی سائنس کا طالب علم جب روحانی سائنس کی کلاسیں  پڑھتا ہے تو وہ یہ دیکھتا ہے کہ فرد لا شمار رنگوں کا مجموعہ ہے یہ رنگ شعور اول کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ ان رنگوں کا تعلق تین لا شعوروں سے ہے جو ہماری نظروں سے مخفی ہیں۔

سائنس دانوں نے جب پہلے شعور سے نکل کر دوسرے شعور یعنی لا شعور میں قدم رکھا تو ان کے اندر وہ صلاحیتیں بیدار ہوگئیں جن صلاحیتوں سے آج کی ایجادات وجود میں آئیں اس بصیرت یا صلاحیت سے سائنس دانوں نے ایجادات کا ایک سلسلہ قائم کردیا،ایجادات میں ایک ایجاد کیمرہ ہے۔ لیکن یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ انسان کو وہ بصیرت حاصل نہیں ہوئی جو اس کی اپنی بنائی ہوئی آنکھ کو آنکھ نہیں بنا سکی کیمرے کی آنکھ ہمارے سامنے لے آئی ہےیہ کیسی عجیب بات ہے کہ کیمرے کی آنکھ یہ دیکھ لیتی ہے کہ کونسی چیز کتنی سست کتنی تیز رفتار کتنی بڑی اور کتنی چھوٹی ہے ۔کتنی دور یا کتنی نزدیک ہے۔ کیمرہ تمام اعدادو شمار نکال کر ہماری آنکھوں کے سامنے رکھ دیتا ہے۔

ریڈیو دوربین،کروڑوں اربوں میلوں پر واقع کہکشاؤں سے اٹھنے والی طول طویل امواج کا سراغ  لگا لیتا ہے انسانی دماغ یعنی دوسرے شعور، یا انسان کے لا شعور کی ایجاد کمپیوٹر ، معلومات کو دیکھ لیتا ہے اور دیکھ کر ان کی تصویریں بنا دیتا ہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انسان کی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی فوٹو گرافی کی سائنس نے اتار کر پھینک دی ہے ۔فضا میں چھوڑا ہوا یک سیارچہ مائیکرو ویو ، اخراجات کا ریکارڈ کرلیتا ہے انسان کے دوسرے شعور یعنی لا شعور میں حرکت پیدا ہوئی تو الیکٹرانی خوردبین ایجاد ہوئی ۔اس الیکٹرانی خوردبین سے مکھی کے جسم کے ایک معمولی بال کو ایک فٹ لمبا کرکے دیکھا جاسکتا ہے۔ سکائی لیب میں لگے ہوئے بالائے بنفشی سراغ رساں کیمرے نے سورج کے اندر دیکھ کر اس کی شدید ترین آتشیں حرکتوں اور بھونچالوں کی تصویریں اتار رکھی ہیں۔

شعور دوئم یعنی لا شعور حرکت میں آیا تو ایکسرے ایجاد ہوا۔ ایکسرے انسانی جسم کے اندر کی تصویر اتار کر معالج کو فوراًبتادیتا ہے کہ کون سی ہڈی کہاں سے ٹوٹی ہوئی ہے اور کون سا جوڑ کہاں سے ہل گیا ہے۔ تابکار شعاعوں کی مدد سے سونے اور دوسری دھاتوں کی اندرونی دنیا کا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔

ماہرین بحریات، بحرالکاہل کے مشرقی حصے میں دو ۲ دو۲ میل  گہرائی میں جاکر وہاں کی منجمد م خاموش اور تاریک فضا کی فلمیں اتاررہے ہیں شعبہءطب میں ایسے نازک کیمرے نصب ہیں جو بچے کی ولادت کا پورا منظر فلم پر اتار لیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں بچے کی طرف کس مامتا سے دیکھتی ہے ۔ بچہ اپنی آنکھ پہلی بار کب اور کس طرح چمچماتا ہے۔

مختلف ساختیں ، مختلف میدان، مختلف زندگی کے شعبے، مختلف کام، ان سب میں ایک قدر مشترک ہےکہ یہ سب انسانی لاشعور کی کارفرمائی ہے۔یہ سب ایجادات، یہ سب رنگ آمیزی ،یہ سب محیرالعقول کارنامے۔۔یہ سب وسائل کی تسخیر اس لئے ہے کہ سائنس دان اپنے اندر کام کرنے والے چارشعوروں سے واقف ہونے کے راستے پر گامزن ہیں۔

میرے عزیزو۔۔میرے ساتھیو۔۔میرے بھائیو۔۔اگر ہم روحانی سائنس کی سیڑھیوں پر چل کر اس عمارت تک پہنچ جائیں جو عمارت چار شعوروں سے مرکب ہے تو یقناً ہمارا مقام سائنسی دور میں بہت بلند ہو جائےگا۔

ہمارے آقاؐ ہمارے نجات دہندہؐ۔ہمارے ہادیؐ۔ہمارے روحانی باپؐ سیدنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمارے لئے روحانی سائنس کا ایک مکمل کورس ورثے میں چھوڑا ہے یہ ورثہ قرآن ہے ۔ جو ہمیں چار شعوروں سے واقف ہونے کی ہدایت بخشتا ہے ۔ تمام انبیاء مرسلینؐ نے نوع انسانی کو ایک شعور اور دو لاشعوروں سے متعارف کرایا ہے او حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک شعور اور تین لا شعوروں سے متعارف کرایا ہے۔

"ہمارے پاس سائنسی علوم کا جتنا بڑا ذخیرہ ہے آج کا سائنس دان ابھی اس  سےو اقف بھی نہیں ہے۔ قرآن میں تفکر اگر ہمارا شعور بن جائےاور اللہ کی نشانیوں میں ہم بصیرت سے کام لیں تو کائنات کے اسرارو رموز ہمارے اورپر کھل جائیں گے اور ہم قرآنی سائنس سے کائنات پر حکمرانی کریں گے۔"

 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔