Topics

حبیب اور محبوبؐ


 

بہت پہلے جب رات دن نہیں تھے۔مہینے سال نہیں تھے۔نہ آسمان تھا نہ زمین تھی۔تاریکی اور روشنی دونوں معدوم کے پردوں میں تھے۔ زماں و مکاں ) TIME & SPACE  ) کی اصطلاحیں بھی وجود میں نہیں آئی تھیں۔ پھر کیا تھا؟  ہُو کا عالم تھا۔ ایک ذات کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ ذات نے خود کو تنہا محسوس کیا تو خود اس نے اپنے وجود سے ایک ہمراز بنایا۔ ہمراز بن گیا تو سرگوشی ہوئی۔ یہ کیسے پتہ چلے کی حبیب کون ہے اور ہمراز محبوب کون ہے۔  طے پایا کہ ہمراز محبوب اور حبیب کے تعارف کے لیے  ایک فلم بنائی جائے۔ فلم کو دکھانے کے لیے پردے (SCREENS)  لازم قرار پائے۔ فلمی ریکارڈ کی منظر کشی کے پھیلاؤ کے لیے ایک ماورائی مشین ( PROJECTOR)  بنی ۔ اس طرح ایک مربوط نظام بن گیا۔ نظام کو مربوط رکھنے کے لیے قانون بنا۔قانون یہ بنا کہ محبوب کو متعارف کرانے کے لیے وقفہ وقفہ سے سربراہی گروہ تشکیل دیا جائے۔ اور اس طرح ایک لاکھ سے زائد یا کچھ کم سر براہوں کی نگرانی میں  وفود آتے رہے اور اپنی ذمئہ داری پوری کرتے رہے۔ ہر سربراہ نے علمی اعتبار سے اچھائی اور بُرائی کے تصور کا پرچار کیا۔ تاکہ ایک برادری دوسری لاکھوں برادریوں اور گروہوں سے ممتاز ہوجائے۔ ان سب کوششوں کے نتیجہ میں ایک معاشرہ قائم ہوا۔

اس مثالی معاشرہ کی پہلی اساس محبّت پر رکھی گئی۔ قانون بنا کہ پہلی محبت اس ذات سے کی جائے گی جس ذات نے سب کو بنایا ۔ جب کہ اس کو کسی نے نہیں بنایا۔

بنانے والی ہستی چونکہ خود حَسیِن ہے ۔ حُسن معیار بنا۔ اس طرح معاشرہ کی دوسرے اساس خوبصورتی بنی۔ جہاں حُسن ہوتا ہے وہاں محبوب اور مقصود کی جستجو فطری اَمر بن جاتی ہے ۔ چونکہ محبوت و مقصود خوبصورت ہے اس لیے ہر چیز خوبصورت لبادہ میں سجائی گئی۔ اور جمالیاتی حُسن ودیعت ہونے سے انسان طبعاََ حُسن پرست ہوگیا۔ انسان حُسن سے محبت کرنے لگا۔ اور بد صورتی اس کے لیے ناپسندیدہ شے بن گئی۔ محبت کو پروان چڑھانے کے لیے عدل و انصاف کی میزان قائم کی گئی۔

مثالی معاشرہ کی تیسری اساس مکافاتِ عمل ہے۔ قانون کی شق میں وضاحت کی گئی کہ ہر عمل کا ردِ عمل ہوتا ہے۔آدم زاد جو بوئے گا وہی کاٹے گا۔ اِس دنیا میں اور عارضی دنیا کے اُس پار دوسری دنیا میں ایک ہی قانون نافذ رہے گا۔ مکافاتِ عمل کے قانون کی مزید تشریحات و توضیحات کے لیے اور اس قانون کو جاری و ساری رکھنے کے لیے انسانی اختیارات کی دستاویز تیار ہوئی۔ اختیارات کے سلسلہ میں اچھائی اور بُرائی کا تصور بنیادی اساس بنا ۔ اچھائی اس لیے اچھائی ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ یہ عمل اچھا ہے۔برائی اس لیے بُرائی ہے کہ ہم نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ بُرائی ہے۔مفہوم یہ نکلا کہ اچھائی یا بُرائی اس پر قائم ہے کہ ہم اچھائی اور بُرائی کے تصور کو قبول کر چکے ہیں۔

بُرائی اور اچھائی کے تصورات کو عام کرنے اور اس کے نتائج مرتب ہونے کے عمل کو آخرت کا نام دیا گیا۔۔۔۔۔۔ایک غیر منقسم واحد ذات نے اپنے فرستادہ دوستوں کے ذریعہ یہ پیغام عام کردیا کہ دنیا مزرعِ حیات ہے۔ زندگی میں جو کچھ بویا جائے گا یہاں وہاں دونوں عالمین میں وہی کاٹنا پڑے گا۔

حیات کے اوپر غور کرنے کے نتیجہ میں یہ انکشاف ہوا کہ نفس کو بخوشی یا کراہ کے ساتھ موت سے بغلگیر ہونا ہے اور فرد کو موت سے پنجہ آزمائی کرنی ہے۔ اور موت اسے بہرحال شکست دیدے گی۔ البتہ آدم زاد کو فنا نہیں کر سکتی۔ اگر موت کو فانی تسلیم کر لیا جائے تو نظامِ حیات اور کائنات کا وجود باقی نہیں رہے گا اور اختیارات کی دستاویز کالعدم ہو جائے گی۔ اختیارات سے مراد یہ ہے کہ فرد اپنی اس زندگی میں جو کچھ کرتا ہے سزا یا جزا کا خود تعین کرتا ہے۔ اگر موت کے اوپر فنا وارد ہو جائے تو پھر جزا اور سزا ، حساب اور کتاب کی کوئی حقیقت نہیں رہے گی۔ ہوتا یہ ہے کہ موت مادّی وجود کو ہلاک کر کے روح کو آزاد کردیتی ہے۔ موت اور حیات کے نظام کے تحت فرد نے اپنی زندگی کو علیحدہ علیحدہ شعبوں میں تقسیم کردیا ہے فرد جب حیات ممات کے دو شعبوں میں تقسیم ہو گیا تو بہت زیادہ پیچیدگی عمل میں آگئی اور اس پیچیدگی نے عقائد کا رُوپ دھار کر بیشمار نظریات کو جنم دیا۔اور جیسے جیسے نظریات کا ہجوم ہوتا رہا۔ فرد اپنی انا سے دور ہوتا چلا گیا۔ اور ایک وقت ایسا آگیا کہ وہ پہلی ہستی سے وجود سے باغی ہو گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ سیدھے راستے سے بھٹکا ہو ا فرد مزید گمراہی میں غرق ہوگیا۔ اس علم کی بنیاد پر جس علم سے اسے اختیارات منتقل ہوئے تھے۔فرد نے اپنے لیے روشنی کی جگہ تاریکی کا انتخاب کر لیا۔اور یہ انتخاب پوری ایک برادری کے لیے اَدبار بن گیا۔ پُر سکون قلعہ کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گیئں۔ دھوپ کی تمازت سے محفوظ رکھنے والی چھت زمین بوس ہوگئی۔

دیواروں کی دراڑوں میں سے گردو غبار کا طوفان اور گرم ہوا میں قلعہ میں داخل ہو گئیں اور فرد کے پاس چیخنے چلّانے کے علاوہ کوئی آسرا نہیں رہا۔ آسرا کیوں نہیں رہا۔اس لیے کہ پرُسکون ہونے کے لیے جن جذبات و احساسات کی ضرورت ہے اُن سے فرد نے منہ موڑ لیا ہے۔

پہلی ہستی نے اپنے محبوب کو جس فطرت پر بنایا ہے وہ یہ ہے کہ فرد کے اندر آپس میں ایک دوسرے سے محبت ہو۔ پوری نوع سے محبت ہو۔ طلب و جستجو میں صداقت ہو۔ ایسی صداقت جو تناور درخت بن جائے۔اور اس درخت سے محسن وا حسان ، اکرام و بخشش و عفو درگزر کی شاخیں پھو ٹیں۔

پہلی ہستی نے جب اپنے محبوب کو بنایا اور اس کے تعاون کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار دوستوں کو مامور کیا تو اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما تھا کہ فرد کی حیثیت ایک سے ختم ہو کر اجتماعی ہوجائے۔ اجتماعی  نشو اور ارتقاء کا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ فرد اپنی ہستی کو افراد میں میں مدغم کر کے اجتماعی طور پر سوچے اور عمل کرے۔ فرد چونکہ فطرتاََ مجبور ہے۔ یہ مجبوری فرد سے تقاضا کرتی ہے کہ اس مالک و خالق ، ہستی کو تلاش کیا جائے ۔ اس کی جستجو کی جائے جس کے قبضہ میں ہماری زندگی اور موت ہے۔ بظاہر اس لا ینحل پیچیدگی کو ختم کرنے لے لیے ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ ہم مثالی معاشرہ کی اساس کو مضبوط اور مستحکم کریں۔ اور یہ مثالی  معاشرہ اسلام کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔

اسلام کہتا ہےـ۔

احترامِ انسانی ہر شخص پر لازم ہے۔

جملہ بنی نوعِ انسان نسلاََ ایک ہیں۔ان میں رنگ و نسل ، علاقائی ، قبائل یا قومی امتیازات غیر فطری ہیں۔

تمام نوعِ انسان اللہ کے بندے ہیں۔ان کے حقوق کا تحفظ ہر مسلمان پر فرض ہے۔

ایک انسان کا قتل کل نوعِ انسانی کے قتل کے برابر ہے۔

ایک انسان کی جان بچانا پورے نوعِ انسانی کی جانیں بچانے کے برابر ہے۔

امن و سلامتی کو بربا د کرنا سب سے  بڑی بُرائی  ہے۔

فرد اور افراد دونوں آزاد پیدا ہوتے ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے۔

خدمتِ خلق اور ملّت سے وابستگی ضروری ہے۔

ہمسایوں کے حقوق کا بالخصوص احترام کیا جائے۔

دولت کی تقسیم عدل و انصاف کے اصول پر ہونی چاہیئے۔

بھوک ، بیماری ، بیکاری دور کرنا مثالی معاشرہ کی ذمہ داری ہے۔

حُسن سے محبت اور خوب تر کی تلاش ہونی چاہیئے۔

نیّت ہر حال میں حسین ہونی چاہیئے۔

ہر شخص پر دوسروں کی آزادی اور دیگر سیاسی حقوق کا احترام لازم ہے۔

افراد کی تعلیم و تربیت وقت کے تقا ضوں کے مطابق ہونی چاہیئے، اس طرح کہ مثالی معاشرہ اور اسلام کا تشخص مجروح نہ ہو۔

علم و حکمت کا سیکھنا ہر مرد اور عورت پر فرض ہے۔اور انسان کو مرتے دم تک طالب علم رہنا چاہیئے۔

اسلامی معاشرے کے افراد بھائی بھائی ہیں۔ان کا سودوزیاں ایک ہے۔

تقوٰی اور ایمان لازم و ملزوم ہیں۔ایمان مشاہداتی ہونا چاہیئے۔

جسم کی طرح روح کے اوپر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔اس کا علاج ہونا چاہیئے۔ اور علاج پہلی ذات اللہ سے قربت ہے۔قربت کا طریقہ قیام صلوٰۃ ہے۔قیام صلوٰۃ مراقبہ ہے۔ مراقبہ تعلق، اللہ کے لیے ذہنی مرکزیت(CONSENTRATION) ہے۔

ضمیر کی آواز کمزور اور جمالیاتی حِس مفلوج نہیں ہونی چاہیئے۔ ضمیر کے اندر نور ِ باطن کی ہر حالت میں حفاظت کی جائے۔

رحمتِ تمام بن کر انسان سمیت تمام مخلوقات سے محبت کی جائے۔

زمین اللہ کی ملکیت ہے۔ زمین کے اندر اور زمین کے اوپر جو کچھ بھی ہے۔ وہ تمام نوعِ انسانی اور دیگر مخلوقات کے مشترک استفادہ کے لیے ہے۔بد اخلاقی ، تر شروئی، کرخت لہجہ بُرائی ہے۔خوش خُلق اور شیریں مقال ہونا سعادت ہے۔

ملک و ملّت کوخارجی اور داخلی دشمنوں سے محفوظ رکھنا مثالی معاشرہ کی اوّلین ذمہّ دای ہے۔

 


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔