Topics

فلسفہ ء مذہب و سائنس


مذہب اور سائنس دو شعبے ہیں۔ ان شعبوں میں انسان ادراک کی مُوشگافیاں جب اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہیں تو اُن راستوں پر چلنے والا کوئی فرد چونکہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچتا اس لیے مذہب سے انکار کردیتا ہے یا سائنسی علوم کو ترقی معکوس کا نام دے کر مذہب کو قبول کر لیتا ہے۔

                انسان عقل سے باہر کسی بات کو اس لئے تسلیم نہیں کرتا کہ عقل ساری زندگی پر محیط نظر آتی ہے جب وہ بولتا ہے کسی بات کو پرکھتاہے اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے یا آئندہ زندگی  کے لئے کو ئی فیصلہ کرتا ہے تب بھی عقل کی رہنمائی اس کی معاون بنتی ہے ۔عقل کی محیط کار فرمائی انسان کو مجبور کرتی ہے کہ وہ مذہب کو بھی عقل کی بنیاد پر قبول کرےیا رد کردے  مذہب میں سب ہی کچھ ہے ۔اس میں یقین کے ساتھ وسوسے اور شکوک وشبہات بھی ہوتے ہیں ۔شک کا غلبہ ہوجائے تو ہم شکوک کی دلدل میں دھنستے چلے جاتے ہیں یقین غالب آجائے تو ہمارے اوپر ایک خود فراموشی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے ۔

                مذہبی حلقوں میں جب ہماری توجہ مبذول ہوتی ہے تو عقل ہمیں بتاتی ہے کہ مختلف مذاہب موجود ہیں اور ہر مذہب دوسرے مذہب کی شان کو گھٹانے کے لئے عقلی استدلال پیش کررہا ہے ۔ غیر جانبدار انسان جو موجود ہ دور کے علم سے مالا  مال ہے اور جسے مذہب کی تلاش بھی ہے ،چاہتا ہے کہ حق و باطل کی تلاش میں مستند بات سامنے آئے ۔ ہر مذہب یہ کہتا ہے کہ صحیح طرز عمل یہ ہے کہ انسان بحیثیت مخلوق کے خالق کے رو برو حاضر رہے ، گویا خالق اسے دیکھ رہا ہو اور وہ خالق کو دیکھتا ہو ، خالق کو اپنی بات سنا سکتا ہو اور خالق کی بات سن سکتا ہو تو پھر یہ کیسا مذاق ہے کہ مذہبی لوگ ایک مرکز پر قائم نہیں ہوتے۔

                عیسائیت ، یہودیت، ہندومت، بدھ ازم، کنفیوشس ازم اور دوسرے تمام مذاہب  ایک رب ایک خالق کا تذکرہ کرتے ہیں ۔ ایک ہی بات کا بار بار اعلان کرتے ہیں کہ تخریب ناپسندیدہ عمل ہے اور تعمیر پسندیدہ عمل ہے ۔ پھر مذہبی لیڈر یہ کیوں کہتا ہے کہ میرے بتائے ہوئے راستے پر ہی چلنے میں نجات ہے ۔جب ہر مذہب  اور مسلک کے راستے پر چلنے میں نجات ہے تو اتنے بے شمار مذاہب اور مسلک کو عقل کس طرح تسلیم کرسکتی ہے ؟

                کیا یہ طرز  فکر صحیح نہیں کہ افراد  یا اقوام کی مذہبی حیثیت کا اندازہ کرنے کے لئے پہلا سوال یہ ہونا چاہئے کہ کسی ایک فرد کے کیا جذبات ہیں ۔کسی مذہبی آدمی کے اندر کتنا یقین ہے اور کتنی مرکزیت قائم  ہے ؟ اس مرکزیت کا روح و جسم سے کیا تعلق ہے ؟ ایمان کی کیا حالت ہے؟ خالق سے کس کو کتنا تعلق ہے ؟خالق کے فرستادہ بندول کے بارے میں اسکے تاثرات کیا ہیں ؟ خالق ایک  ہے تو ساری مخلوق اس کا کنبہ ہے اوردنیا میں موجود ہر فرد اس کنبے کا فرد ہے ۔

                کیا ایسا ہونا عقلی اعتبار سے صحیح نہیں ہے کہ مذہب کو سائنسی بنیادوں پر سمجھا جائے اور سائنسی بنیادوں پر مذہب کی عمارت کی تزئین کی جائے ۔ اور عظیم سائنسدان ، اللہ کو کائنات کی حیات کے اندر تلاش کیا جائے ؟ کیا رات دن کا اختلاف، کہکشائی نظام اور ان نظاموں میں مسلسل حرکت اس لئے قائم نہیں ہے کہ انسان ان کے اندر تفکر کرے اگر ہم خدا کو صرف عقیدے کی دوربین سے دیکھنا چاہیں اور یہ دیکھنا ہی تسخیر کائنات ہے تو یہ دیکھنا ہر گز دیکھنا نہیں ہے کیوں کہ اگر خالق کو اس دوربین کی حدود میں دیکھنا معراج ہے تو ما وراء عقلی ادراک کو خدا کے قریب ماننا پڑے گا ۔ دوربین بجائے خود اس بات  کی عقلی توجیہہ ہے کہ انسان کے اندر ایک ایسا تصور بھی کام کرتا ہے جو نگاہ کو  وسعت دینے کا مجاز ہے ، لیکن ہم یہ بھی نظر انداز نہیں کرسکتے کہ دور بین سے نظر آنے والی شےبہر حال ایک تخلیق ہے اور خود دوربین بھی تخلیق ہے اگر خالق کی ذات صرف اتنی وسیع اور عظیم ہے جو دوربین کے عدسے میں محدود ہوجائے تو پھر مذہبی آدمی کی حیثیت کو ریا کاری کے علاوہ اور کیا نام دیا جاسکتا ہے ۔

                خالق اور مخلوق کا تذکرہ  ہوتا ہے تو یہ بات امر لازم بن جاتی ہے کہ خالق کے اوصاف او ر مخلوق کے اوصاف ایک نقطئہ مشترک نہیں ہوسکتے ۔ خالق لا محدود ہے اور مخلوق محدود ہے ۔

                خالق وجود کو تخلیق کرنے والی ہستی کا نام ہے ۔ اگر مخلوق خالق کی دی ہوئی عقل سے خالق کو سمجھنا چاہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک محدود شئے نہایت لامحدود ہستی ہو اپنی محدودیت میں داخل کرنا چاہتی ہے ۔

                یہ کیسے ہو سکتا  ہے کہ      ایک گلاس میں پورا سمندر انڈیل دیا جائے ۔ یہ کیسے ممکن ہے (بقول ابن خلدون) کہ رتی ماشا تولنے والی عقل سے خدا کو سمجھ لیا جائے ۔ تمام آسمانی کتابیں اور آخری کتاب قرآن برملا اعلان کرتی ہے کہ یہ ساری کائنات معین مقداروں میں تخلیق ہوئی ہے ۔ ان معین مقداروں  کو ہم سائنس کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دے سکتے ۔

                غیر مستند اور ناقابل تسلیم لغویات اور مذہبی تنفر کو مذہب میں  سے اگر الگ کر لیا جائے تو جو کچھ باقی رہ جائے گا وہ ایمان کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا جن مفروضات کی تصدیق حقائق سے نہیں ہوتی انہیں اگر رد کردیا جائے تو مذہب ایک ایسی سائنس کی نشاندہی کرے گا جس میں ایمان ، ایقان ، عفو درگزر، رحمت و مودّت اور بھائی چارے کے علاوہ کچھ نہیں رہے گا ۔ مذہب کی اساس اتحاد کی اساس بن جائے گی تو انسان کا ضمیر مطمئن ہوجائے گا اور یہ دنیا امن و آتشتی کا گہوارہ بن جائے گی ۔

                اگر دوسرے علوم کی طرح خالق کائنات کے ارشادات کی روشنی میں مذہبی سائنس بھی مرتب ہوجائے تو اس کو اس  سے کہیں زیادہ قبول عام حاصل ہوگا جو آج کی سائنس کو حاصل ہے ۔ اور جب ایسا ہوجائے گا تو عوام مشاہداتی تجربات اور حقائق سے واقف ہوجائیں گی۔

                مذہب کی بارے میں ہر شخص کا ذاتی تجربہ ہے کہ لوگ دیکھے بغیر محض دوسروں کے کہنے پر   یقین کرلیتے ہیں ۔ جب مذہبی رہنما فیزیکل سائنس (PHYSICAL SCIENCE) کی طرح مذہب کی بارے میں اپنی ریسرچ کی بنیاد پر تسخیر کائنات کے فارمولے تلاش کرلیں گے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ نوع انسانی اسے قبول نہ کرے ۔

                مذہب کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ ایک ذات "خالق" پر انسان کو ایمان و یقین کامل ہو اور وہ ذات جس طرح کہے اس پر عمل کیاجائے ۔ واحد ذات "خالق" نے ہر مرحلے میں دعوت دی ہے کہ اس کی پھیلائی ہوئی کائنات میں تفکر کیا جائے کیوں کہ تفکر کائنات کی بساط ہے ۔

                سائنس اور مذہب میں یہ فرق ہے کہ سائنس دان محض عقلی بنیاد پر کائنات کی تلاش میں مصروف ہیں جب کہ مذہب کا دعویٰ ہے کہ عقل بھی  ایک تخلیق ہے عقل کا وجود نہ ہو تو تخلیق اور تلاش معدوم ہوجائے گی ۔ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ عقل بھی  ایک تخلیق ہے تو ہماری لئے مجبوری ہے کہ ہم یہ بھی سوچیں کہ عقل کس طرح وجود میں آئی ؟ اس وجود کو کہاں سے فیڈنگ (FEEDING) مل رہی ہے؟ کون ہے جو عقل تقسیم کررہا ہے ؟اور وہ کون سی اعلیٰ و ارفع ذات ہے جو عقل سلب کرلیتی ہے ۔ تو کائنات میں کوئی ایسی طاقت نہیں ہےجو دماغ (BRAIN) کی موجودگی کے باوجود عقل و شعور کی ہنگامہ خیزی  ختم کردیتی  ہے ہے ۔

                کیا ہم نہیں دیکھتے کہ آدمی کے اوپر شعوری دروازے (موت) بند ہوجاتے ہیں اور دماغ محفوظ رہتا ہے لیکن عقل و شعور کی کارگزاری  معطل ہوجاتی ہے  ۔ قرآن پاک کی ان آیات کو جن میں تسخیر کائنات کے علوم کا ذخیرہ  ہیں ، اگر بنیاد بنا کر تحقیق کا کام شروع کردیا جائے تو مذہبی سائنس کا ارتفاء نہایت آسانی سے شروع ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوگیا خدا کرے ایسا ہوجائے تو تاریخ پھر ایک بار خود کو دہرائے گی اور یورپ کے سائنسدان حقیقی سائنسی علوم حاصل کرنے کے لئے مذہب کی طرف لازما رجوع کریں گے ۔


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔