Topics

32 تصویریں

 

مکّہ 57/ء میں عربستان کا سب سے بڑا تجارتی اور مذہبی مرکز تھا۔ حضرت ابراہیم  ؑ کی بنائی ہوئی عبادت گاہ بھی اسی شہر میں تھی ۔یہودی مذہب  رائج ہو چکا تھا۔ البتہ عیسائیت نے عربستان میں زیادہ مقبولیت حاصل نہیں کی تھی۔حضرت ابراہیم ؑ کی بنائی ہوئی عبادت گا ہ میں زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ پتھروں کے بتوں کی پوجا اتنی بڑھ گئی تھی کہ سال کا ہر دن کسی نئے بت کی پوجا کے لیے مقرر تھا۔ ہر طرف بت پرستی عام تھی۔بت پرستی کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رائج ہوگیا تھا کہ دیوتا ہی لوگوں کی تقدیریں بناتے یا بگاڑتے ہیں۔ اس ظلمت اور اندھیرے میں کچھ لوگ ایسے موجود تھے جو یقین اور غیر یقین کے درمیان خدائے واحد کا تصوّر رکھتے تھے۔ مکّے کی تپتی اور جھلستی زمین پر ایک ایسی ہستی ؐ متعارف ہوئی جس کو بت پرستی سے شدید نفرت تھی۔ اس ہستی نے چالیس برس کی عمر میں توحید کا پیغام پہنچانے کی مہم شروع کی ۔ بت پرستی کو مٹانے اور توحید پرستی کو قائم کرنے کا جیسے ہی لوگوں کو پیغام پہنچا، لوگ اس ہستی کے مخالف بن گئے اور انھیں طرح طرح کی پریشانیوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ مصیبتوں اور پریشانیوں کا سلسلہ یہاں تک دراز ہوا کہ انہیں اپنا وطن بھی چھوڑنا پڑا ۔لیکن جب فتح وکامرانی شروع ہوئی تو اُن کے پیروکاروں نے صرف پانچ برس کی مدّت میں ایران اور روم کی فوجوں کو شکست دیدی۔ آٹھویں صدی عیسوی تک وسطی ایشیاء سے اسپین اور مغربی افریقہ تک اسلام پھیل گیا۔پھر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، جابراور ناکارہ مسلم حکمرانوں کے ساتھ ساتھ اسلام کی حکمرانی ختم ہوگئی۔لیکن آج بھی نو ّے کروڑ انسانی دماغوں پر اسلام کے بانی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نقش قائم ہے۔ اسلام کی ہر دلعزیزی کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ اسلام میں نسبی منافرت کی قطعاً گنجائش نہیں۔اسلامی فتوحات پر تاریخی صفحات کا مطالعہ  کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اسلام کے علاوہ دوسرے مذاہب میں چھوت چھات اور تفرقے اور نسلی منافرت اپنے عروج پر تھی۔ جہاں جہاں بھی اسلام پہنچا ان لوگوں نے اس کا استقبال اس لیے کیا کہ اسلام نے چھوت اچھوت ، نسلی منافرت اور تفرقوں سے خود کو الگ بتایا۔ تعلیمات کے ساتھ ساتھ اسلامی ذہن لوگوں  نے  بھائی چارہ ، اخوت و محبت اور برابری کا جو رویّہ اختیار کیا اس سے دوسری قوموں کے لوگ متاثر ہوئے اور اسلام میں اس طرح داخل ہوئے کہ بقول علّا مہ اقبال ؒ ایک سیلِ کارواں بن گیا۔

بوسیدہ لباس اور مفلوک الحال مختصر اسلامی فوج کو دشمن کے مقابلے میں اس لیے فتح و نصرت حاصل ہوئی کہ ان کے سامنے ایک مقصد تھا۔اور وہ مقصد یہ تھا کہ زمین پر بسنے والا ہر انسان آدم و حوّا کے رشتے سے ہمارا بھائی  ہے۔ جیسے جیسے مسلمانوں کو عروج حاصل ہوا۔ ان کے اندر دنیا کی طلب اور آرام و آسائش کی زندگی اس طرح داخل ہوگئی کہ ان کے ذہن میں بھی دوسری اقوام کی طرح چھوٹے اور بڑے کا احساس اُبھر آیا ۔اور اس احساس نے قوم کے اندر نسلی منافرت کا بیج بو دیا۔ چونکہ اسلام میں نسلی منافرت کی سرے سے گنجائش ہی نہیں ہے، اس لیے یہ طرزِفکر تفرقوں میں تبدیل ہوگئی۔ اسلام کے عروج سے پہلے جس طرح غیر مسلم قومیں نسلی منافرت میں مبتلا تھیں اسی طرح مسلمان تفرقوں میں بٹ گیا۔

کوئی غیر جانب دار شخص جب تا ریخ عالم اور اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے اور اس مطالعے سے نتیجے اخذ کرتا ہے تو صرف یہ بات سامنے آتی ہے کہ بت پرستی بھی نسلی منافرت کا نتیجہ ہے۔ نسلی منافرت اتنی پھیلی کہ سال کا ہر دن دیوی دیوتا کے نام سے موسوم ہونے لگا اور آدم زاد برادری میں 365 گروہ بن گئے اور ہر گروہ نے اپنا یاک خدا بنا لیا۔

اسلامی تاریخ کا ابتدائی دور مسلمان برادری کے عروج کا دور ہے۔ اس دور میں انسانی برادری کے دو گروہوں کا سراغ ملتا ہے۔ ان دوگروہوں نے دو فلسفوں کی نشاندہی کی ۔یہ دونوں فلسفے دوجہات کا تعین کرتے ہیں۔ ایک گروہ زمین کی پیدائش ، کا ئنات کی ساخت اور اجرامِ فلکی کی رفتار کو سمجھنے کے لیے زمین سے آسمان کی طرف دیکھتا ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ جب تک کوئی چیز مشاہدے میں نہ آجائے اور اس کی مادّی توجیہہ بیان نہ کر دی جائے اس وقت تک کوئی بات قابلِ قبول نہیں ہے۔ زمین سے آسمان کی طرف سفر کرنے والا گروہ مادّی مظاہرات کو  بنیاد قرار دتیا ہے۔ یہ گروہ کہتا ہے (Matter)   مادّہ نہ ہو تو مادّے میں شکست و ریخت بھی نہیں ہوگی۔اور جب مادّہ ٹوٹ کر اور بکھر کر ذرّات میں تبدیل نہیں ہوتا تو زمین پر موجودات کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا۔

اس کے بر عکس آسمانوں کی رفعت سے پستی میں زمین کی طرف دیکھنے والا گروہ کہتا ہے۔

’’ ساری کائنات ایک قاعدے اور قانون کے تحت حرکت کر رہی ہے اور اسی مکمل ضابطئہ حیات کے تحت کائنات کی ہر شے اور شے کے وجود کا ہر ہر عضو بحسن و خوبی بر سر عمل ہے۔‘‘

اس گروہ کے مشاہدے میں یہ بات آجاتی ہے کہ کائنات کی کوئی شے جب قانونی ضابطوں سے ہٹ جاتی ہے تو اس کا وجود اوجھل ہو جاتا ہے۔اس گروہ کی طرزِفکر یہ ہے کہ اشیاء میں چند وجود ایسے بھی ہیں جنھیں بظاہر اختیار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ اختیار چونکہ کسی کا دیاہو ہے اس لیے اس کی حیثیت بھی غیر اختیاری ہے۔ اور جب قانونِ قدرت کے فارمولے ان کے سامنے آجاتے ہیں تو وہ خود کو ایک ماروا ہستی کے سپرد کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔یہ ساری کائنات جس کا کنبہ ہے ۔ کنبے کا سر براہ یہ نہیں چاہتا ،کنبے اور برادری میں حقارت، نفرت اور افتراق پیدا ہو۔ ہر باپ کی یہ دلی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولادمحبت اور اخوّت کے بندھن میں بندھی رہے۔ کنبے کی سربراہ ہستی اللہ کے سب سے بڑے چہیتے محبوب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پیغام نوع انسانی کو پہنچایا ہے اور ہزار ہا صعوبتوں ، پریشانیوں اور مصیبتوں کا مقابلہ کر کے زندگی بھر اس پروگرام پر عمل کیا ہے۔

جب تک مسلمان قوم میں یہ اسلامی مزاج اور طرزِفکر موجود رہی۔ دینائے عالم پر اسلام کی حکمرانی قائم رہی اور جب مسلمان نے اپنے اسلاف کے ورثے اسلامی مزاج کو بالائے طاق رکھ کر تفرقے کا طوق گلے میں ڈال لیا تو اس سے دنیائے عالم کی حکمرانی چھن گئی اور اس کا شمار آسمانی گروہ میں نہیں رہا۔ آسمانی گروہ سے تعلق ٹوٹنے کے بعد اس کے اوپر مادّی مزاج گروہ کا غلبہ ہوگیا اور کل کا حکمراں آج غلام بن گیا۔ ادبار، مفلوک الحال اور بد نصیبی اس کا مقدّر بن گیا۔ تفرقے نے اژدھا بن کر نوّے کروڑ مسلمانوں کو نگل لیا۔۔۔۔۔۔کائناتی کنبے کے سربراہ کا ارشاد ہے:۔

’’ اور اللہ کی رسّی کو متحد ہو کر مضبوطی کے ساتھ پکڑلو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔۔۔۔۔۔۔‘‘

 

 

 

 


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔