Topics

سکون کا گہوارہ


روشنیوں کا شہر کراچی غریب پرور اور دوست نواز بستی ہے۔ یہاں پر ہر مذہب ہر مسلک اور ہر مکتبہء فکر کے لوگ رہتے ہیں کچھ ایسے ہیں کہ گھڑیال کی بازگشت پر بے سکون مادی دنیا میں سکون تلاش کرتے ہیں۔ ایسے بھی لوگ ہیں ناقوس کی صدا پر اپنے من مندر میں من کی روشن دنیا کا کھوج لگاتے ہیں۔ کچھ لوگ ابدی آگ کے اندر سونے کے رنگ کے سنہری کپڑے سنار کو خدا سمجھ کر اس کے سامے سرنگوں ہونا سعادت ابدی سمجھتے ہیں۔

کہیں اللہ اللہ کرتے رات گزرتی ہے کہ یہی واحد راستہ نزولِ رحمت کا ہے۔ کوئی تسلیم و رضا میں لذت تلاش کرتا ہےکوئی نفس کشی کو انسانیت کی معراج سمجھ رہاہے۔ کوئی دوزخ کے خوف میں سراسیمہ ہے۔ کوئی جنت کی خواہش میں مست و بے خود ہے۔ کوئی رحمدل ہے۔ کوئی ستم آشنا ہے۔ کوئی نفرت کرتا ہے۔ کوئی محبت کے سمندر میں خود بھی غرق ہے اور دوسروں کو بھی اس محبت کے سمندر کی موجوں کے حوالے کردینا چاہتا ہے۔

غرض ایک کروڑ دس لاکھ کا کراچی شہر ایک چھوٹی کائنات ہے جس میں چاند ستارے ، سورج، آسمان، زمین سب کچھ ہے۔ایک رات کراچی کے ایک گوشے سرجانی ٹاؤن مراقبہ ہال کھلے میدان میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے ہوئے مجھے خیال آیا۔ کیا انسانوں کی بستی کے لیے قتل و غارت گری امرِ لازم ہے؟

خیالات کے بگولے میں گرفتار گم سم جہاں بیٹھا تھا وہاں چاروں طرف جنگل ہے۔جنگل میں کانٹون بھڑی جھاڑیاں زہریلے پودے تھوہر اور زقوم اونچے نیچےٹیلون پر سیاہ کیکر کے زمیں بوس درخت ہیں۔ حدِ نظر تک کوئی شجر سایہ دار نہیں ہے ، پانی عنقا ہے، بجلی ناپید ہے۔ سیم زدہ زمین کی کوکھ بانجھ لگتی ہے اور ضروریات زندگی کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہے۔ جگہ جگہ گہرے گڑھے ہیں۔ کتوں،بلیوں ، چوہوں ، گوہ ،موٹے موٹے سانپ اور مردہ خور پرندے ، گدھوں کا راج ہے۔ مچھروں کے لشکر کے لشکر اپنی کرخت لیکن سریل آواز میں راگ الاپتے ہوئےجب مغرب سے مشرق کی طرف کوچ کرتے ہیں تو ہر سامنے آنے والی چیز اُنکے عتاب کا شکار بن جاتی ہےاور جسم پرددوڑے پڑ جاتے ہیں۔ دھوپ کی تمازت سے کھال جھلس جاتی ہے۔ حدت سے دماغ ماؤف ہو جاتاہے۔ مٹی اڑتی ہے تو آدمی کے اوپر بھوت کا گماں ہونے لگتا ہے۔

خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ جو دنیا کےجھمیلوں سے کچھ وقفے کے لیے آزاد ہونا چاہتا تھا۔ یہ دیکھنے کے لیے کہ مادی دنیا اور مادہ پرست دنیا داروں سے دوری کے کیا نتائج مرتب ہوتے ہیں ۔ یہ بندہ پر ہجوم ، پررونق اور منور شہر کراچی سے اُٹھ کر اس  بے آب و گیاہ میدان میں جا ٹھہرا۔ بانسری پر محبت کے نغمے الاپنے لگا تو ایسا لگا کہ زمین میں سے ایک شیریں چشمہ ابل پڑا ہے۔ ایک دو پھر چار چھ اور دس بارہ ہم مشرب بندے اس بندہ کے ہم نشین ہوگئے۔محبت و خلوص سے محروم ان لوگوں نے ہاتھوں میں کدال اور بیلچے سنبھال لیے۔ زمین نےمزاحمت کی اور پھر جیسے ہی اس زمین نے خود سپردگی کا شیوہ اختیار کیا۔ یہ بیمار زمین صحت مند ہونے لگی۔ جب زمین کی شریانوں میں پانی خون بن کر دوڑا تو زمین کھل کھلا اٹھی۔ کلیان چٹکنے لگیں۔پھول کھل اُٹھے۔ پھولوں نے اودے ، پیلے ،نیلے اور سرخ پیراہن پہن کر زمین کو زینت بخش دی۔ درختوں نے زمین سے سر اٹھایا۔ شاخیں ہوا کے دوش پر جھوجھوم گئیں اور یہ نیلے اور سرخ پیراہن پہن کر زمین کو زینت بخش دی۔درختوں نے زمین سے سر اٹھایا۔ شاخیں ہوا کے دوش پر جھوم جھوم گئیں اور یہ سر سبز و شاداب درخت آسمان سے باتیں کرنےلگے۔پرندوں نے درختوں پر بسیرا کیا۔ مینا نے مداح سرائی کی اور کوئل کی کوک مردہ دلوں کی زندگی بن گئی۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح اور تقدیس بیان ہونےلگی۔ زمین پر مخملی گھاس کا دبیز قالین بچھ گیا ۔ ہر یالی میں سرخ رنگ کی روشیں تیار ہو گئیں۔گلاب۔ رنگ برنگ گلاب ، سیاہ گلاب ، سبز گلاب ہر رنگ کے گلاب۔ موتیا، موگرہ، چمپا ، چاندنی ، چائنا روز گیندا اور نئے نئے پھولوں  نے اس تپتی اور بنجر زمین کو گلزار بنادیا۔ قدرت کی صناعی کا کیا تذکرہ  ہو کہ چھت میں لٹکی ہوئی بڑی تعداد میں پھولوں  سے بھری ہوئی بالٹیاں چاند کی چاندنی اور رات کے سناٹے میں یہ تصور قائم کرتی ہیں کہ یہ جگہ روحوں کا مسکن ہے اور بالٹی نما پھولوں کی ان قندیلوں میں روحیں محوِ استراحت ہیں۔ جب یہ پھولوں بھری بالٹیاں ہوا کے دوش پر ہلتی ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ ازلی سعید روحیں جھول رہی ہیں۔ اس مرغزار احاطے میں اللہ کی ایک معصوم مخلوق کبوتر بھی آباد ہیں۔ کبوتر جب جھوم کر روحوں اور گلاب کےٹخنوں کے بیچوں بیچ ایک جھونپڑی ہے جو سرخ ، نیلے رنگ سے آراستہ ہے۔مخمور اور مست الست لوگوں نے اس کا نام آستانہ رکھ دیا ہے۔ آستانے کے صدر دروازے کے سامنےپھولوں کا ایک لہلہاتا باغ ہے۔ پیچھے رات کی رانی ،دن کا راجہ اس لئے لگائے گئےہیں کہ جالیوں سے مہک آتی ہے۔ آستانے کے صدر دروازے پر سونڈھ اٹھائے ایک ہاتھی سلامی دے رہا ہے اور ایک مور پر پھیلائے رقص کناں ہے صدر دروازے سے ذرا ہٹ کر سیدھی جانب والتین یعنی انجیر کا قد آوا درخت رکوع میں جھکا ہوا کہہ رہا ہے، پاک اور عظیم ہے میرا رب ۔

اس مقدس جگہ نورالٰہی اور نور نبوت کے ترانے گائے جاتے ہیں ۔ حکمت و تفہیم کے اسباق ہوتے ہیں ار روح کی تشنگی بجھانے والے شعوری دنیا سے نکل کر لاشعوری دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس آستانے میں جو بیٹھ جاتا ہے اس کے اوپر سرورو کیف کی دنیا کا دروازہ کھل جاتاہے۔

یہی خطہ جہاں سانپوں، چوہوں، گِدھوں اورکتوں کا بسیرا تھا، جب جنت نظیر بن گیا۔ چاند کی پہلی رو چاندنی میں بیٹھا میں سوچ رہا تھا کہ یہ سب ایک سال کے قلیل وقفے میں کیسے بن گیا۔ یاالٰہی  زمین پر جنت کیسے اتر آئی۔ ذہن پر خیالات کا ہجوم تھا کہ سمندر سے بادل اٹھے ، بارش کا سماں بندھا اور ہلکی ہلکی بوندیں پڑنے لگیں۔ مجھے یک بیک فطرت کی قربت کا احساس  ہوا۔ پھوار جب بارش بن کر سیمنٹ کی چادروں پر ٹپ ٹپ گری تو ساز بج اٹھا ، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، لان میں گھاس، پودوں اور پھولوں پر بارش سے دُھلنے کے بعد نکھار ، زمین کی بھینی بھینی خوشبو اور بوندوں کی ٹپ ٹپ کی آواز میں"محبت " کا احساس اُجاگر ہوا۔ اور میں اس روح افزا ماحول میں اس طرح سانس لینے لگا کہ میرے اندر کی رنگین دنیا روشن ہوگئی۔ میں نے دیکھا کہ جس طرح پودوں ، پھولوں، بیلوں اور درختوں کو دیکھ کر میں خوش ہوتا ہوں ، پھول بھی میری قربت کے طلبگار ہیں۔ پودے بھی مجھے سلام کرتے ہیں اور درخت بھی مجھ سے ہم کلام ہونا چاہتے ہیں۔ مجھے ہر برگ وبار سے دوستی کی خوشبو آنےلگی اور میرے اندر ایک آواز ایکو(ECHO) ہوئی۔

        "میری ہستی انفرادی نہیں اجتماعی ہے۔ کوئی میرےلیے اجنبی نہیں ہے میں آدم زاد برادری کا ایک ایسا فرد ہوں جس کی آغوش ہر آدم زاد کےلیےکھلی ہوئی ہے۔۔"

فرد کی انا کا خول ٹوٹا اور اجتماعی شعور پیدا ہواتو۔ اُٹھتے بیٹھتے شام سویرے مجھے خدا کے حضور کا احساس ہوا، اور اس احساس نے کامل اطمینان و سکون فراہم کردیا۔ مجھے اور میرے قریب رہے والے دوستوں کو یقین حاصل ہوگیا کہ خدا انسانی برادری کا سرپرست ہے۔ خاندان کا بڑا اور نگراں ہے۔ وہ پوری نوع کا محافظ  اور نگہباں ہے۔

سکون کا گہوارہ سرورو کیف کا منبع ، ارضی جنت مراقبہ ہال میں گزشتہ رات میری زندگی کی مسرور ترین رات تھی۔ میری روح کبھی اس سے پہلے اتنی طویل مدت اللہ کے نور سے لذت اندوز نہیں ہوئی۔ اس رات میں نے ، صوتِ سرمدی کو سنا۔ لافانی محبت کا پیغام ملا پیغام یہ ہے کہ پوری انسان برادری میری اولاد ہے۔ یہ سنا تو میرے اندر اولاد کے قرب اور پیار کی لہریں موجزن ہوگئیں۔میرے دل پر آسمانی محبت کی شعاعیں عکس ریز ہوئیں٫ آسمانی محبت  کاایک امڈتا ہوا سیلاب تھا جس پر میری روح تیر رہی تھی۔ آسمانی محبت کی ہرلہر ایک آدم زاد کے روپ میں سر گوشی میں مصروف تھی۔

ہر لہر دوسری لہر سے کہہ رہی تھی کہ ہم سب کا پیدا کرنے والا ایک اللہ ہے۔ وہی بھگوان ہے۔ وہی گاڈ(GOD)  ہے۔ وہی یزداں ہے اوروہی ایل اور ایلیا ہے۔ خالق چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق آپس میں محبت کے ساتھ رہے۔ ایک دوسرے کے حقوق پامال نہ کرے۔ خود بھی خوش رہے اور دوسروں کو بھی خوش رہنے دے ۔ حوّا کی ہر بیٹی ماں اور ہماری بہن ہے۔ آدم کا ہر بیٹا ہمارا باپ اور بھائی ہے۔

پھر ہم سب نے مل کر آسمان کی بلندیوں سے اس پار دیکھا اور خالق کائنات سے عہد کیا کہ ہم بھائی بھائی بن کر رہیں گے۔ عدم تحفظ کے احساس کو دفن کر کے ایک نئے ولولے اور جوش سے کراچی شہر ، سندھ کی دھرتی اورپاکستان کی مانگ میں افشاں بھریں گے۔ انسانیت سوز عمل قتل و غارت گری سے اجتناب کریں گے۔ اور یقیناً یہ شہر پھر غریب پرور شہر اور امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

اے لوگو سنو۔ کائنات میں تعمیری اور تخریبی دو طاقتیں کام کررہی ہیں۔

تخریب کا سرپرست اعلیٰ ابلیس ہے جس کا مشن نوع انسانی کو نا خوش کرنا، اختلاف پیدا کرنا، بھائی کو بھائی سے لڑانا اور نسلی تعصب کے زہر سے آدم زادکو ہلاک کرنا ہے۔

تعمیر کا سرپرست اللہ ہے۔ اللہ چاہتا ہے کہ مخلوق ایک کنبے کی طرح رہے۔ آپس میں پیارو محبت سے رہے۔ اللہ کے دستر خوان سے ہر طرح کی نعمت خوب سیر ہو کر کھائے۔ لیکن خدا کی خدائی میں فساد برپا نہ ہو۔ اللہ خالق ہے اور خالق مخلوق سے مطالبہ کرتاہے کہ مخلوق متحد ہو کر اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے۔

جھک جاؤ اللہ کے سامنے وہی ہے جس زمین کو تمہارے لیے بچھونا بنایا۔وہی ہے جس نے آسمان کو تمہارے لیے بغیر کسی ستون کے چھت بنایا۔ وہی ہے جس نے سورج نکالا کہ تمہاری کھیتیاں پک جائیں۔ وہی ہے جس نے چاند بنایا کہ تمہارے پھلوں میں شیرینی آجائے۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے ہواپیداکی۔ اور وہی ہے جس کی زمین پر تم اپنے گھر بناتے ہو۔ اور وہ تم سے زمین کی کوئی قیمت بھی طلب نہیں کرتا۔ ان سب عنایات کےبدلے میں اللہ تم سے چاہتا ہے کہ۔ تم خوش رہو۔ بھائی بھائی بن کر رہو۔ اور اللہ کی زمین کو اخوت ومحبت اورامن کا گہوارہ بنادو۔


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔