Topics
ہر ماہ روحانیات پر مشتمل مضامین کا ایک عرصہ سے مطالعہ کر
رہا ہوں۔ بلا شبہ یہ سلسلہ اس کمر توڑ مہنگائی میں پریشان حال لوگوں کو مفت علاج
کے مصداق اور الٰہیت کا حامل ہے۔ ادارہ کے کارکنان مباکباد کے مستحق ہیں کہ آلام
ومصائب کے دور میں مایوس اور لاعلاج مریضوں کے لیے اللہ کی مخلوق کی خدمت کا ذریعہ
بن رہے ہیں۔ آدمی جب ہر طرف سے مایوس ہو جاتا ہے تو اس کا سہارا صرف اللہ رہ جاتا
ہے۔ اور جب اللہ کے کام کا سہار ا لیا جاتا ہے تو مایوسیاں دم توڑ دیتی ہیں۔
آپ نے قارئیں کو یہ بتا یا ہے کہ آدمی جب اپنی روح سے دور
ہو جاتا ہے تووہ الجھنوں ، پریشانیوں، اعصابی کشمکش اور نت نئی پیچیدہ بیماریوں
میں مبتلا ہو جاتا ہے۔سوال یہ ہے کہ آدم اپنی روح سےکس طرح دور ہو سکتا ہے۔جبکہ اس
کی زندگی روح کے تابع ہے۔ آدمی زندہ اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کا رشتہ روح کے
ساتھ قائم رہتا ہے۔ اس بات کی بھی علمی توجیہہ فرمائیں کہ طب روحانی میں ، امراض
کی کیا حیثیت ہے اور امراض کی تشخیص کس طرح کی جاتی ہے؟
جواب:۔ یہ جاننا
ضروری ہے کہ ہم جو کچھ دیکھتے ہیں وہ باہر نہیں دیکھتے ، کائنات کا ہر مظہر ہمارے اندر موجود ہے جب تک
کسی شے کا عکس ہمارے دماغ پر نہ پڑےہم اس شئے کو نہیں دیکھ سکتے ۔ ہم سمجھتے ہیں
کہ جو کچھ ہم دیکھتے ہیں وہ ہمارے سامنے موجود ہے، حالانکہ باہر کوئی چیز قیام
پذیر نہیں ہے۔ ہم ہر چیز کا مشاہدہ اپنے اندر کرتے ہیں اور یہ سب کا سب علم ہے۔
اگر کسی شے کا علم ہمیں حاصل نہ ہوتو ہم اس چیز کو نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھنے کی طرز
یہ ہے کہ ہم اپنے اندر دیکھتے ہیں اورسمجھتے ہیں باہر دیکھ رہے ہیں۔ یادرکھئے
ہماری بھی کوئی خارجی شے نہیں ہے اس کا وجود بھی ہمارے اندر ہے بالکل یہی حال صحت
کا ہے۔
اس حقیقت سے ایک فرد واحد بھی انکار نہیں کر سکتا کہ انسان
کی زندگی میں غم اور خوشی کا تعلق براہ راست خیالات اور تصورات پر قائم ہے۔ کوئی
خیال ہمارےلیے مسرت آگیں ہوتا ہےاور کوئی خیال انتہائی کربناک، ڈر، خوف، شک ، طمع،
نفرت و حقارت ، غرور و تکبر ، خوش نمائی وغیرہ سب خیالات کی پیداوار ہیں۔ اس کے
برعکس محبت ایثار، یقین، انکساری اور حزن وملال کا نہ ہونا بھی خیالات کی
کارفرمائی ہے۔ بیٹھے بیٹھے یہ خیال بجلی کیطرح کوند جاتا ہے کہ ہماری اولاد کے
ساتھ حادثہ پیش آجائے جیسے ہی خیال کہ یہ رو دماغ سے ٹکرائے گی حادثات سے متعلق
پوری پریشانیاں کڑی در کڑ ی آدمی اپنے اندر محسوس کریگا اور اس سے متاثر ہوئے بغیر
نہیں رہے گا۔ یہی حال خوشی اور خوش آئند زندگی کا ہے۔ جب انسانی تصورات ایسے نقطہ
پر مرکوز ہوجاتے ہیں جن میں خوشی اور شادمانی کی تصویریں موجود ہیں تو انسان خوش
ہو جاتا ہے۔
کہنا یہ ہے کہ خوشی اور غم دونوں تصورات سے وابستہ ہیں۔ اور
تصورات خیالات سے جنم لیتے ہیں۔ اب یہ تلاش کرنا ضروری ہوگیا کہ خیالات کیسے
اورکہاں سے آتے ہیں۔ قانون تخلیق کے تحت انسان تین پرتوں کا مجموعہ ہے۔ ایک پرت
صفاتی ہے اور دوسراذاتی تیسرا پرت ذاتی اورصفاتی پرتوں کے درمیان امتیازی خط
کھینچنے والی ایجنسی کو تخلیط یاجسدِ خاکی کہتے ہیں۔ تخلیط اس ڈھانچہ اور خاکی
پتلے کا نام ہے جس کو آدمی کہا جاتاہے۔ ہر پرت کے محسوسات ایک دوسرے سے بالکل الگ
ہیں اور نمایاں امتیاز رکھتے ہیں۔ذات کا پرت وہ تمثل ہے جو وہم اور خیال کو بہت
قریب سے دیکھتا ہے۔ سمجھتا اور محسوس کرتا ہے۔ صفات کا پرت وہ تمثل ہےجو وہم اور
خیال کو تصوربنا کر جسد خاکی کو منتقل کر دیتا ہے۔ جسدِ خاکی تصورات کو معنی پہنا
کر خوشی یا غم کا مفہوم دیتاہے۔ اگر اس کو ایسی معلومات فراہم کی جائیں جن کا تعلق
کسی خوبصورت باغ سے ہو تو اس کے اندر رنگین لہریں رنگین روشنیاں خوشبو کے طوفان
اور حسن کے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں اور اگر ایسی معلومات فراہم کی جائیں جو
کسی حادثےسے متعلق ہوں تو اس کے اندر رنگین روشنیوں کی جگہ تاریکی، اور خوشبو کی
جگہ بدبو، حسن کی جگہ بدصورتی ، خوشی کی جگہ غم ، امید کی جگہ مایوسی اور محبت کی
جگہ نفرت جیسے رجحانات رونما ہونے لگتے ہیں۔
قدرت نے اس ایجنسی کو غیر جانبدار بنایا ہے اس تمثل یا
ایجنسی میں دو قسم کے نقوش ہوتے ہیں۔ ایک نقش باطن جس میں لطیف انوار کا ذخیرہ
رہتا ہےا ور دوسرا نقش ظاہر جس کے اندر غرض پسندی، حسد، ذہنی تعیش ، احساس کمتری،
تنگ ظرفی اور غیر ذمہ داری جیسے جذبات کا ذخیرہ رہتا ہے۔ تصورات میں اگر پیچیدگی
اور بناوٹ ہے تو یہ تمثل ان کو ظاہر نقش میں پھینک دیتا ہے وہاں یہ تصورات الجھن
پریشانی اور اضطراب کا جامہ پہن لیتے ہیں۔یہی عالم سفلی ، عالم ناسوت اور عالم آب
گل کے محسوسات اور خواہشات ہیں۔ عالم سفلی کے محسوسات اور خواہشات کی افراط اس
تمثل کو نقش ِ باطن سے دور کردیتی ہے۔
جیسے ہی یہ دوری واقع ہوتی ہے۔ اس تمثل میں خراشیں پڑ جاتی
ہیں۔ یہ خراشیں اخلاقی امراض کی بنیاد ہیں۔ ان خراشوں سے غرض پرستی حرص اور اسی
قبیل کےدوسرے امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔دیوانگی اور کفر اسی تمثل کے متاثر ہو جانے
کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ روحانی زبان میں تمثل اس تصویر کو کہتے ہیں جس میں فہم کے ساتھ
حرکت پائی جاتی ہے۔
باطنی نقش کی بیگانگی سے تمثل میں ایک متعفن پھوڑا ہو جاتا
ہے اس کی سڑاند جیسے جیسے بڑھے گی صفاتی پرت کی اس دوری سے انسان کے اندر مرگی،
دماغی فتور، آسیب ، مالیخولیا، خفقان، بھگندر،کینسر، بواسیر،دق اور نگاہ سے محرومی
جیسے امراض پیدا ہو جاتے ہیں۔
عرف عام میں رگ ، پٹھوں کی بناوٹ اور ہڈیوں کے ڈھانچے کو
انسان کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ وہ انسان نہیں ہے ۔ جسے قدرت انسان کہتی ہے۔ اس انسان
کوہم اصل انسان کا لباس کہہ سکتے ہیں۔ انسان جب مر جاتا ہے تو اس کے اندر کسی قسم
کی حرکت نہیں۔ اس جسم کو گھسیٹا جائے۔ اس کے کسی عضو کو کاٹا جائے کچھ بھی کیا
جائے۔ جسم کی طرف سے اپنی کوئی مدافعت یا حرکت نہیں ہو گی۔ اس میں کسی بھی لمحے
زندگی کو کوئی شائبہ پیدا ہونے کا امکان نہیں ہے۔
آپ ایک قمیض لیجئے ۔ اگر آپ چاہیں کہ قمیض جسم سے الگ بھی
حرکت کرے۔ تو یہ ممکن نہیں ہے جب تک قمیض جسم کے اوپر ہے جسم کی حرکت کے ساتھ اس
کے اندر بھی حرکت موجود ہے۔ اگر آستین ہاتھ کے اوپر ہے۔ تو اس کے اندر ہاتھ کی
حرکت کے ساتھ حرکت کاپیدا ہونا لازمی ہے۔ ہاتھ سے الگ آستین کی حرکت بعید از قیاس
ہے۔ بعینیہ یہ ہی حال جسم کا ہے اگر جسم کسی دوسرے جسم کے اوپر موجود ہے تو اس کے
اندر حرکت ہے ورنہ جسم کی حرکت معدوم ہو جاتی ہے۔
بتانا یہ مقصود ہے کہ تخلیطی جسم آدمی نہیں ہے، بلکہ آدمی
کا لباس ہے۔ جس طرح لباس سے اپنی کوئی حرکت سرزد نہیں ہوتی۔ اس طرح روح کےبغیر
آدمی کے اندر بھی کوئی حرکت واقع نہیں ہوتی۔ روح جیسے ہی اس لباس سے تعلق منقطع
کرلیتی ہے (جس کو ہم مرنا کہتے ہیں) آدمی ایک بے حس و حرکت لاش میں منتقل ہو
جاتاہے۔
طب روحانی میں۔امراض کی تشخیص کا قانو ن یہ ہے کہ صاحب
روحانیت (اللہ نورالسمٰوات والارض)۔ (اللہ سماوات اور ارض کی روشنی ہے) کے علم سے
واقف ہو، وہ یہ جانتا ہو۔ کہ لہروں کی مقداروں میں کمی و بیشی سے آدمی کے اندر کس
قسم کی ٹوٹ پھوٹ واقع ہوتی ہے اورلہروں کا عدم توازن کس طرح بحال کیا جاتا ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔