Topics

خالق اور مخلوق کا رشتہ


پر وہ بندہ جو اس دنیا میں موجود ہے کسی نہ کسی رشتہ کی بنیاد پر جوان، بالغ، با شعور اور تجرنہ کار ہوتا ہے۔ رشتوں کی کڑی در کڑی ایک زنجیر ہے لیکن یہ زنجیر جس حلقہ میں ، حلقہ در حلقہ طویل ہورہی ہے وہ ناسوتی پہلے مرحلہ میں ماں باپ ہیں۔ محبت اور تعلق کے شعور کا پہلا درجہ تصوراتی کیفیت ہے۔۔۔۔۔۔انسان زندگی کے مراحل جن تصورات پر پورے کرتا ہے۔۔۔۔۔وہ یا تو دیکھ چکا ہے یا وہ چیزیں دیکھ رہا ہے اس کا پورا پورا عکس اس کے دماغ میں نقش اور حافظہ میں محفوظ ہے اور جو چیزیں اس کے سامنے ابھی نہیں آئیں ان کا تصور دیکھی ہوئی چیزوں سے قائم کرتا ہے۔۔۔۔۔

ہر انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی کو چاہے اور اسے کوئی چاہے۔ یہ بات بھی اس کی فطرت ہے کہ وہ خود کو کسی کے سپرد کر دینا چاہتا ہے اس خودسپردگی سے اسے تقویت ملتی ہے اور مستقبل کی تاریکی روشنی میں تبدیل ہوتی نظر آتی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ انسان تین  ادوار ماضی ، حال اور مستقبل میں سانس لیتا ہے زندگی کا ہر وقفہ اور حیات و ممات کا ہر سانس اس کے انر (INNER)  میں بجتا ہوا ایک ریکارڈ ہے۔

ریکارڈ کا بجناہی اسکی زندگی ہے، ریکارڈ  نہیں تو ا ٓدمی مرجاتا ہے۔

زندگی کا سار بھی کیا ساز ہے

بج رہا ہے اور بے آواز ہے

ریکارڈ کی پہلی آواز اور آواز کا پہلا سر، سر کی پہلی تان اور تان کی پہلی تھاپ اور تھاپ کا پہلا ارتعاش  محبت ہے محبت کیا ہے۔

محبت کائنات کی پہلی حرکت ہے۔

میں چھپا ہو ا خزانہ تھا میں نے محبت کے ساتھ خلائق کو تخلیق کیا تاکہ میں پہچانا جا ؤں ( حدیث قدسی)

مادی محدود کائنات میں ماں کی مامتا ، باپ کی شفقت ، کلی پھول اور کونپل کو محبت سے آشنا کرتی ہے، ماں کی مامتا اور باپ کی عظمت جسمانی رشتوں کو بر قرار رکھتی ہے۔

آدم زاد جب محبت کی آخری  سیڑھی پر ہوتا ہے تو اسے یہ آخری سیڑھی معلق نظر آتی ہے۔

صورتحال یہ ہے کہ کوئی فرد بشر پہلی سیڑھی کو پہلی سیڑھی نہیں کہہ سکتا۔

اسلئے کہ:

ماں کو اگر پہلی سیڑھی مان لیا جائے تو آدم زاد کو اس کا ادراک بتاتا ہے کہ ماں کیلئے بھی پہلی سیڑھی اسکی ماں کی محبت تھی۔۔۔۔۔۔

محبت تھی۔۔۔۔۔لفظ اس کے اندر تجس پیدا کرتا ہے کہ میری ماں ، میری ماں اور میری ماں کی ماں بھی ہوگزری ہے۔۔۔۔اربوں کھربوں اُن کے نقوش تصورات  اماں حوا تک جا پہونچتے ہیں۔ اماں حوا پر ایک آن کیلئے ذہن رکتا ہے تو نظر آتا ہے کہ مواخذہ  کا وجود آدم کے وجود کار بن مثبت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔!

 آدم کا وجود کیسے بنا۔آدم کہاں سے آیا۔۔۔

جس منبع سے آدم کا پیکری وجود زمین پر اترا تھا وہ اگر جنت فردوس ہے تو جنت الفردوس کا خالق کوں ہے؟۔۔۔۔۔

یہی وہ نقطہ ہے جہاں ہم نقطئہ آغاز سے متعارف ہوتے ہیں۔

ہر انسان اختیاری اور غیر اختیاری طور پر اس کا متلاشی رہتا ہے کہ نقطئہ آغاز سے اس کا تعلق قائم ہوجائے اور۔۔۔۔۔۔اس تعلق کو وہ گوشت پوست کے جسم سے ظاہر کرے۔۔۔۔۔

 

ارتقائی ادوار سے تجربات کے بعد یہ اسلوب معین ہوا کہ خالق سے مخلوق کے ساتھ رشتہ قائم کرنے کیلئے ۔۔۔۔خالق کو ماں کا درجہ دیا جائے۔۔۔۔۔۔

                                                                بتایا گیا

                                                                خالق اپنی مخلوق سے ستّر ماؤں سےزیادہ محبت کرتاہے۔

مذہب نے اس زاوئیہ نظر کو بہت زیادہ وقعت دی اور خالق کی صفات پر تفکر سے خالق اور مخلوق کے درمیان رشتوں کی نشاندہی کی۔

عبدالودود۔۔۔۔۔ودود کا بندہ ۔ودود کے معنی پیارے اور محبوب کے ہیں۔ہر ماں کو اپنی اولاد پیاری ہوتی ہے۔

عبدالقدوس ۔۔۔۔۔۔بزرگ تر ذات کا بندہ ۔۔۔۔بچہ کیلئے ماں سے زیادہ کوئی ذات بزرگ تر نہیں ہوتی۔۔۔۔عبدالولی۔۔۔۔۔۔ولی کے معنی ہیں، دوست۔۔۔۔اولاد کیلئے ماں سے زیادہ کوئی دوست نہیں ہوتا اور ماں کیلئے اولاد سے زیادہ کوئی دوست نہیں ہوتا۔۔۔۔۔

عبد الحنان۔ حنان کا بندہ۔۔۔۔حنان اس محبت کو کہتے ہیں جو ماں کو اولاد سے ہوتی ہے۔

عبد الخالق۔۔۔۔۔پیدا کرنے والے کا بندہ ، بلا شبہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق کے مرتبہ پر فائز نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔لیکن خود اللہ نے ماں کو تخلیق کا ذریعہ اور واسطہ بنادیا ہے۔

اللہ کیسی کیسی تصویریں ماں کے رحم میں بناتا ہے۔(القرآن)

عبدالرحیم ۔۔۔بہت رحم کرنے والے کا بندہ۔۔۔۔۔بچہ کے اوپر اگر ماں کی محبت محیط نہ ہو تو پرورش کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔۔۔۔۔

من موہن دلوں کا محبوت اللہ! اپنے بندو ں کے ساتھ جسطرح اظہار محبت کرتا ہے وہ بجائے خود بندوں سے تعلق اور رشتہ قائم ہونے کی روشن دلیل ہے۔

اے پیغمبر ؐ

میرے ان بندوں کو پیغام پہونچا دیجئے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہے۔ تم اللہ کی محبت سے مایوس نہ ہو اللہ یقنیاً تمھاری خطاؤں کو بخش دے گا۔ بے شک وہ بخشش کرنے والا ہے (زمرد ۵۳)

جلد ۵ صفحہ ۴۱۴ پر مسند احمد جنبل میں لکھا ہوا ہے۔

حضرت ایوب انصاری نے اپنی وفات کے وقت لوگوں سے کہا:

سیدنا حضور علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے اگر تم لوگ گنا ہ نہ کرتے تو اللہ رب العالمین کوئی اور مخلوق پیدا کرتا جو گناہ کرتی اور وہ اسکو بخشتا۔

 ایک صحابی کو شراب خوری کے جرم میں بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے لایا گیا۔تو صحابہ میں سے کسی نے انہیں لعنت کی۔۔۔۔۔

رحمت اللعالمین کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔۔۔۔فرمایا:

اس پر لعنت نہ کرو۔کیونکہ اسے خدا اور اس کے رسول سے محبت ہے۔

اے آدم کے فرزند۔۔۔۔

تم مجھے پکارتے رہو اور مجھ سے آس لگائے رکھو میں تمہیں بخشتا رہوں گا خواہ تم میں کتنے ہی عیب کیوں نہ ہوں ۔ اے آدم کے بیٹو۔۔۔اگر تمھارے گناہ آسمان کے بادلوں تک  بھی پہونچ جائیں اور پھر تم مجھ سے معافی  مانگو تو میں تمہیں معاف کردونگا ۔ خواہ تم میں کتنے ہی عیب کیوں نہ ہوں۔

اے آدم کی نسل

اگر پوری سطح زمین بھی تمہارے گناہوں سے بھر جائے۔۔۔پھر تم میرے پاس آؤ اس حال میں کہ میرا شریک نہ بناؤمیں بھی تمہارے پاس پوری سطح زمین بھر مغفرت لے آؤں گا۔۔۔۔

اللہ نے ازخود اپنے اوپر رحمت کو لازم کر لیا ہے۔(سورہ انعام ۵۴)

ہاں! خدا کے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے(سورہ یونس۶۲)

میدان جنگ میں ایک عورت اپنے گمشدہ بچے کو دیوانگی کے عالم میں تلاش کرتی پھر رہی تھی ۔ سامنے جو بچہ اسے نظر آتا وہ گور میں لیکر جوش محت میں اپنے سینہ سے لگا کر دودھ پلانے لگتی۔

سیدناحضو علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس عورت کو دیکھ کر صحابہ کرامؓ سے فرمایا۔

                کیا ممکن ہے کہ یہ عورت اپنے بچہ کو خود اپنے ہاتھوں دہکتی آگ میں ڈالدے

                صحابہ نے عرض کیا ۔۔یا رسول اللہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا۔۔۔

                آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

                جتنی محبت اس ماں کو اپنے بچے سے ہے خدا اپنے بندوں سے اس سے کہیں زیادہ محبت کرتا ہے۔

                وہ جس کو چاہتا ہے دانائی دے دیتا ہے، اور جسے دانائی  ملی  توبے شک اسے بڑی خوبی ملی، اور وہی نصیحت قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں۔(البقرہ ۲۶۹)


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔