Topics

تین دوست۔حقیقتِ حیات

 

ہم تین دوستوں میں اتنی پرانی دوستی ہے کہ اس دوستی کو ماہ و سال کا زمانہ محیط نہیں ہوتا۔ زمانہء قدیم میں ابھی یہ کائنات بنی بھی نہ تھی اور گلستانِ کائنات کے شگوفے گھونگھٹ اوڑھے محوِ خواب تھے، ہم تین دوست احساس کی دنیا سے اس پار موجود تھے…… احوال و شعور کیا ہے……؟ ظاہری اور باطنی حسیات و کیفیات کسے کہتے ہیں ……؟؟ ہم تینوں کو اس کا کوئی علم نہیں تھا…… یکایک ہمارے کانوں میں ایک آواز گونجی۔ جب ہم اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے تو ایک میکانیکی عمل ہمارے سارے وجود میں سرایت کرگیا اور ہم نے پہلی بار محسوس کیا کہ سننے کے عمل کے ساتھ ہم دیکھ بھی سکتے ہیں …… دیکھنے کی حِس نے ہمیں دکھایا کہ ہم خود اپنے اندر ایک پوری کائنات ہیں اور یہ ساری کائنات ایک ایسی رواں دواں کشتی ہے، جس پر اربوں کھربوں افراد سوار ہیں …… کنارے لگی کشتی جب ہچکولے کھاتی ہے تو کشتی میں افراد سوار ہوجاتے ہیں۔ اور کشتی میں سے جب کوئی فرد اُترجاتا ہے تو وہ کبھی کشتی میں سوار نہیں ہوتا…… کشتی اپنے محور پر گھومتی رہتی ہے …… افراد سوار ہوتے اور اترتے رہتے ہیں۔ کشتی میں سے جو اُترجاتا ہے، پتہ نہیں، اسے آسمان کھاجاتا ہے یا زمین نگل جاتی ہے۔

ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم تینوں دوست توام ہیں۔ ایک دوسرے سے الگ ہوسکتے ہیں نہ ایک دوسر ے کے بغیر رہ سکتے ہیں …… ہم نے دیکھا کہ کشتی چل رہی ہے۔ مسافر سوار ہورہے ہیں۔ جو مسافر کشتی سے اُترجاتا ہے، اس کا وجود ہی باقی نہیں رہتا…… سوار ہونے والا آدمی کہاں سے آتا ہے اور کشتی میں سے اُتر کر کہاں گم ہوجاتا ہے، اس کا سراغ لگانے کے لئے ہم تینوں میں سے ایک پستہ قد نے کہا کہ وجود ہی سب کچھ ہے…… وجود کیا ہے……؟ کہاں سے آیا ہے……؟؟ کیوں ہے…………؟؟؟ یہ سب میں نہیں جانتا…… لیکن یہ بات سامنے کی ہے کہ جب وجود کے معروضی خدّوخال آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں تو ایک مست و بے خود کردینے والی کیفیت سے نکل کر عذاب ناک کیفیات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے…… عذاب ناک اس زندگی سے فرار حاصل کرنے کے لئے مجھے دوسری مست و بے خود کردینے والی اشیاء کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ نشہ، سختی اور عقل و ضمیر کی تنقید سے بیزاری کی جگہ وسیع شعور کو بیدار کردیتا ہے…… نشہ، خیال دبستان کو متحد کرکے ”نہیں“ کی بجائے ہر بات کو ”ہاں“ میں بدل دیتا ہے۔ کیفیات کے شدید یخ بستہ احساسات میں ٹھٹھرا ہوا انسان بے درد پتش سے دل و دماغ کو گرمالیتا ہے…… گرمی کی اس یخ اور ٹھنڈی بھٹی میں سے گزر کر سوچ کے اوپر پڑے ہوئے دبیز اور گہرے پردے اُٹھ جاتے ہیں …… دماغ میں پھلجڑیاں روشن ہوجاتی ہیں۔

دوسرے دوست نے پہلے دوست کی بات کو دھیان سے سنا اور کہا……

”اعمال کی بھٹی سب کو دھارن کرنی پڑتی ہے۔ نشہ اگر مست و بے خود کرتا ہے تو شعور مطلق سے دور بھی کردیتا ہے…………“

تجربہ یہ ہے کہ میری ہر کوشش پر ناکامی اور کامیابی کی مہر ثبت ہے۔ ناکامی، زندگی کو حرفِ غلط کی طرح ہر وقت مٹادینے پر مامور ہے۔ ناکامی، زندگی کے خون آلود جگر ٹکڑوں کے علاوہ کسی چیز پر اکتفا نہیں کرتی۔ قدم قدم پر تذلیل نفس کا احساس اژدہا بن کر ہمارے مقابل ہے۔ ناکامیوں کے تجربے کوششوں کا محور ہیں۔ انسان کتنا ہی کامیاب ہوجائے نتیجے میں انسانی تقدیر یہ ہے کہ موت، یعنی ناکامی انسان کا مقدر ہے۔

تیسرا دوست یوں بولا…………

یارو…………میری بات غور سے سنو، ہم نے جب پہلی آواز سنی تھی، اُس گھن گرج آواز میں ترنم آمیز ہلکی موسیقی تھی اور اس آواز کی طرف جب آنکھ اُٹھی تو وہاں ہم نے ایک ملکوتی تبسّم چہرہ دیکھا تھا۔ گلاب کی سی پنکھڑیوں جیسے لب ہلے تھے اور یوں محسوس ہوا تھا جیسے گلگوں چہرے پر مخمور آنکھیں ہمیں پیغام دے رہی ہیں کہ دوری تذلیل نفس کا احساس ہے اور قربت کامیابی اور کامرانی ہے…… دوستو…… یاد کرو…… ہم نے آواز کے اوپر لبیک کہتے ہوئے دوری سے انحراف اورقربت کا اقرار کیا تھا…… ناکامی یہ ہے کہ ہمیں کامیابی کی صحیح تعریف ہی معلوم نہیں۔ انسانی تقدیر پر موت کا غلبہ ہی کامیابی ہے…… کشتی میں سوار جب کوئی شخص اُتر کر گم ہوجاتا ہے، وہ دراصل گم نہیں ہوتا، وہ کامیابی کے نئے راستے پر گامزن ہوجاتا ہے۔ تپتی ریت اور جھلسادینے والی ہواؤں سے گزر کر وہ ایک ایسی منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں متبسم ملکوتی چہرہ ہمارا منتظر ہے۔


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔