Topics
مذہب کس کام آتا ہے اور
مذہبی اور غیرمذہبی انسان میں کیا فرق ہے؟
مذہب انسان کو اچھائی اور
برائی کے تصورات سے آشنا کرتا ہے۔ مذہبی انسان اچھائی اور برائی کے تصورات پر اپنے
افعال و اعمال کو تولتا ہے اور خیر و شر کے ذرّات کی چھان پھٹک کرکے اچھائی اور
برائی میں امتیاز کرتا ہے۔ برائی سے اجتناب کرتا ہے اور اچھائی اختیار کرتا ہے۔
مذہبی جذبے نے لاشعوری
طور پر زندگی کے جن کرداروں کا تعین کیا ہے ان میں امیدکا عنصر خاص اہمیت رکھتا
ہے۔ جلال و جمال کی آمیزش سے وہ اپنے لئے ایک محل تعمیر کرتا ہے جس میں وہ سب کچھ
ہوتا ہے جن سے جمالیاتی تقاضے پورے ہوں۔
ہم جب انسانی تاریخ کا
مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں مذہبی انسانوں کے دو گروہ نظر آتے ہیں۔ ایک گروہ مذہب کو
سادگی اور کم سے کم دنیاوی لذّات سے مبّرا لائحہ عمل تصور کرتا ہے۔ اس گروہ کے
نقطۂ نظر سے دنیا کی ہر چیز فانی ہے اس لئے دنیا کی آسائش و آرام کو وہ مذہب کی
پیروی میں دیوار سمجھتا ہے۔ یہ گروہ کہتا ہے کہ انسان جس قدر دنیاوی آسائش و آرام کو
اپنے لئے ضروری قرار دیتا ہے۔ اسی مناسبت سے وہ دنیا میں پھنستا اور دھنستا چلا
جاتا ہے اور نتیجے میں اس کے اوپر اچھائیوں کے دروازے بند ہوجاتے ہیں اور برائیوں
کے دروازے کھل جاتے ہیں۔
دوسرے گروہ کے لوگ مذہب
میں سادگی کی بجائے شوکت و عظمت کو پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ نے زمین
میں سے جو چیزیں پیدا کی ہیں ان کا کوئی مصرف ضرور ہونا چاہئے اور مصرف یہ ہے کہ
ان چیزوں کو استعمال کیا جائے اگر چیزوں کو استعمال نہیں کیا گیا تو زمین پر سے وہ
چیزیں مفقود ہوجائیں گی۔ یہ ایسی ہی بات ہے کہ سورج کی روشنی زمین پر اس لئے منعکس
ہوتی ہے کہ اسے زمین پر بسنے والی مخلوق اور مخلوق میں افضل مخلوق انسان اس روشنی
سے استفادہ کرے اگر زمین پر موجود دھوپ سے انسان قطع تعلق کرکے کسی ایسے غار میں
سکونت اختیار کرلے جہاں سورج کی شعاعیں نہ پہنچ سکتی ہوں تو یہ انسان کے لئے
خودکشی کے مترادف ہوگا۔ز مین پر موجود غذائیں اور زمین پر موجود دوسرے وہ تمام
وسائل جو کسی نہ کسی طرح انسان کے کام آتے ہیں اگر استعمال نہ کئے جائیں تو یہ
دنیا بے رونق ہوجائے گی۔
ہم جب عام انسانی گروہوں
سے ہٹ کر انبیاء کے گروہ کی طرزِ فکر کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ نتیجہ مرتّب ہوتا
ہے کہ مذہب ایک ضابطۂ حیات ہے جو خدا کے بھیجے ہوئے مخصوص بندوں کے بنائے ہوئے
فارمولوں اور زمینی رشتوں پر قائم ہے۔ جب کوئی پیغمبر اس دنیا میں آتا ہے اور خدا
کی طرف سے یہ فرض اسے سونپ دیا جاتا ہے کہ وہ نوعِ انسانی میں وہ شعور بیدار کرے
جو انسان کو حیوانات، نباتات اور جمادات سے ممتاز کرتا ہے تو پیغمبر اپنی نوع کی
عادات، اطوار، روایات و رسومات کو سامنے رکھ کر زندگی گزارنے کا ایک ضابطہ ترتیب
دیتا ہے اور اس ضابطے کو خدا کے حضور پیش کرکے اس کی منظوری لے لیتا ہے۔ اور جب
خدا اس ضابطۂ حیات کو منظور کرلیتا ہے تو خدا کافرستادہ یہ بندہ اس ضابطۂ حیات کو
نوع انسانی میں مذہب کے نام سے پھیلادیتا ہے اور یہ روشناسی کسی اُمّت یا قوم کی
شناخت بن جاتی ہے۔
جو لوگ عقلی تجربات کو
بنیاد بنا کر نوعِ انسانی کے جوہر خدا کے فرستادہ بندے کے بنائے ہوئے اصول و ضوابط
پر اختلافِ رائے کرکے اپنی ذات و صفات میں امتیاز قائم کرنا چاہتے ہیں وہ لاحاصل
کوشش کے سَراب میں گرفتار ہوجاتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو خدا کے فرستادہ بندوں کے پیش
کردہ نظامِ حیات پر عقیدت سے عمل کرتے ہیں انہیں صراطِ مستقیم مل جاتا ہے۔
پیغمبروں کا بنایا ہوا
نظامِ حیات انسان کے لئے دو راستے متعین کرتا ہے۔ ایک راستے پر شر کی کرشمہ سازیاں
ہیں اور دوسرے راستے پر خیر کے ثمرات ہیں۔ خیر اور شر کے دونوں راستوں میں سے اس
راستے کا انتخاب جس راستے پر دین و دنیا کی فلاح ہے شریعت ہے۔
شریعت انسان کے لئے جو
لائحہ عمل پیش کرتی ہے اس کے دو رُخ ہیں …… ایک رُخ جسمانی کردار کا تعین کرتا ہے
کہ انسان کو زمین پر کس طرح زندگی گزارنی چاہئے؟ اس کا اخلاق کس طرح کا ہونا
چاہئے؟ حقوق العباد کیا ہیں؟ حقوق العباد پورا کرنے کے بعد اللہ کے حقوق کیا ہیں؟
اور اللہ کے حقوق کس طرح پورے کئے جاتے ہیں؟ عبادات کس طرح کرنی چاہئیں۔ بحیثیت
مخلوق کے خالق سے رشتہ کس طرح قائم ہے؟
شریعت کا دوسرا رُخ یہ ہے
کہ جسمانی اعمال و وظائف کے ساتھ ساتھ انسان کا اللہ سے ایک روحانی رشتہ ہے۔ اگر
اللہ کے ساتھ یہ رشتہ مستحکم ہے تو انسان خسر الدنیا والاخرہ سے محفوظ و
مامون ہے۔
جب تک کسی انسان کے اندر
شریعت کے دونوں رُخ پوری طرح متحرک نہیں ہوں گے وہ مذہبی انسان کہلانے کا مستحق
نہیں ہے۔ شریعت زندگی گزارنے کا ایک مربوط، خدا کا منظور کردہ اور پسندیدہ ضابطہ
ہے…… یہ ایسا ضابطہ ہے جو انسان کو خدا سے نہ صرف متعارف کراتا ہے بلکہ اتنا قریب
کردیتا ہے کہ انسان خدا کی ذات سے ہمکلام ہوجاتا ہے اور خدا کا یہ فرمان اُس کا
مشاہدہ بن جاتا ہے……
”میں انسان کی رگِ جان سے زیادہ قریب ہوں۔
جہاں تم ایک ہو وہاں میں دوسرا ہوں۔ جہاں تم دو ہو وہاں میں تیسرا ہوں …… تم جو
چھپاتے ہو وہ سب میرے سامنے ہے۔ جو تم کرتے ہو وہ سب میرے علم میں ہے۔“
اللہ ہی ظاہر ہے اللہ ہی
باطن ہے
اللہ ہی ابتدا ہے اللہ ہی
انتہا ہے
ہر چیز اللہ کی طرف سے
آرہی ہے
اور اللہ کی طرف لوٹ رہی
ہے
یہی وہ طرزِ حیات ہے جس کو طریقت کہا جاتا ہے۔ جب کوئی بندہ شریعت کے دوسرے رُخ طریقت پر عمل پیرا ہوجاتا ہے تو اپنی دنیا کے علاوہ دوسری لاکھوں کروڑوں دنیائیں اس کے سامنے آجاتی ہیں۔ وہ ماورائی دنیاؤں میں گھومتا پھرتا ہے اور وہاں کے رہنے والے انسان اور جنّات اس کے ہم خیال و ہم مشرب بن جاتے ہیں۔ یہ بات اُس کے اوپر آشکار ہوجاتی ہے کہ زمین کی حیثیت الگ ہے، چاند کی حیثیت الگ ہے۔ اس طرح سورج اور سیارے اپنی منفرد ”انا“رکھتے ہیں اور سات آسمان دراصل سات شعور ہیں …… یہی وہ سات شعور ہیں جن کی تقسیم سے کوئی صاحبِ طریقت انسان کھلی آنکھوں سے اٹھارہ ہزار (۱۸۰۰۰) عالمین کو دیکھ لیتا ہے اور جان لیتا ہے…… اس دنیا کی طرح اور عالمین میں بھی انسانوں کی آبادیاں ہیں۔ اور دوسرے عالمین میں بھی کھیتی باڑی ہوتی ہے۔ زمین اپنی کوکھ سے وہاں کے انسانوں کے لئے وسائل کو جنم دیتی ہے…… اور ان دنیاؤں میں بھی انسان کھائے پیئے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔