Topics
ماں
۔۔۔۔۔ہماری زمین ہے جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت پیش آتی ہے، ہماری ماں زمین ہمارے
لیے اپنی گود کھول دیتی ہے اور ہمیں اپنی آغوش میں لیکر زندگی سے متعلق تمام
وسائل فراہم کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ تمام وسائل اور جو کچھ آج زمین کے اوپر اور زمین
کے اندر نظر آرہا ہے وہ دو گیسوں کا مرکب ہے، یعنی گیس کے دو بادل ہیں جو ہر آن
ہرلمحہ زمین کے اوپر اور زمین کے اندر موجود اشیاء کی آب یاری کر رہے ہیں۔ یہ دو
بادل ہائیڈروجن اور ہیلئیم ہیں۔۔۔۔۔۔۔ہائیڈروجن اور ہیلئیم کے ملاپ سے موجودات
عالم کا ظہور ہوتا رہا، اور ہو رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عظیم سائنسدان اللہ نے ان گیسوں
کے انسانی شماریات سے زیادہ ذرّے پیدا کیئے ہیں اور کوئی ذرّہ مقررہ جسامت اور
معیّنہ مقدار سے الگ نہیں ہے۔ہائیڈروجن کے ہر ذرّے میں ایک مرکزی مغز ہوتا ہے جس
میں مثبت برقی رو پائی جاتی ہے اور اس کے گرد منفی برق کا ایک نا قابلِ تذکرہ
چھوٹا سا ذرّہ تیزی سے گھومتا رہتا ہے جس
کے گھومنےکی رفتار تقریباََ ایک لاکھ چھیاسی ہزار تین سو دو بیالیس میل فی سیکنڈ
ہے۔اس ننھے ننھے ذرّے کا نام برقیہ (ELECTRON) ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیلئم کے ذرّہ کا مرکزی مغز ہائیڈروجن
کے ذرّے کے مرکزی مغز سے چار گنا ہے۔ اس
کے مغز کے گرد دو برقیے روشنی کی تیز رفتاری سے چکر کاٹ رہے ہیں۔ اس حساب سے ہیلئم
کا ذرّہ ہائیڈروجن کے ذرّہ سے چارگنا بھاری ہے۔ مگر ہیلئم کے الیکڑون
میں اتنی ہی منفی برقی رَو ہے جتنی ہائیڈروجن کے الیکڑون میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔عظیم
سائنسدان اللہ نے ان دو گیسوں کے ذرّے پیدا کر کے خودمختاری دیکر انہیں انکے حال
پر چھوڑ دیا ہے کہ جہاں چاہے اُڑتے رہیں اور جس سے چاہے ملتے رہیں۔۔۔۔
عظیم
سائنسدان اللہ نے ایک ضابطہ،ایک قاعدہ ، ایک فارمولا بنا دیاہے،جب ہیلئم کے ذرّے
ہائیڈروجن کے ذرّوں سے ملیں گے اور معیّنہ نسبت سے ملیں گے تو فلاں رنگ بنیں گے
اور رنگوں کی آمیزش سے رنگوں کی ترتیب و تدوین سے فلاں چیز پیدا ہوگی۔۔۔۔۔۔۔ہم
بہت کوتاہ نظر ہیں لیکن ۔عظیم سائنسدان اللہ نے ہمیں کوتاہ نظر نہیں
بنایا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم جب کوتاہ نظری سے منہ موڑ کر بصیرت سے کام لیتے ہیں تو ہمیں یہ
دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ زمین پر ہی نہیں پوری کائنات میں ، خلا میں،آسمانوں میں،
عرش میں، بیت المعمور میں ، سدرۃ المنتہیٰ کے اس طرف اور سدرۃ المنتہیٰ کے
اُس طرف کوئی چیز بے رنگ نظر نہیں آتی۔
یہ رنگ رنگ دنیا، یہ رنگ رنگ کائنات ایک قانون کے تحت ہمہ وقت سفر کر رہی ہے۔
ہم
کشش ثقل پر غور کرتے ہیں تو ہماری اندر کی آنکھ یہ دیکھتی ہے کہ کسی ذرّے کے
اندرونی اور مثبت و منفی برقیے ایک دوسرے کو اپنی طرف کھینچ رہے ہیں۔۔۔۔۔ہر ذرّہ
ایک انا ہے اور ہر انا ایک لہر ہے اور ہر لہر ایک رنگ ہے۔جب انا، انا سے ۔لہر لہر
سے اور رنگ ، رنگ سے گلے ملتے ہیں تو نئی جان بنتی ہے۔سورج زمین سے ہم آغوش ہونا چاہتا
ہے اور زمین سورج کے اوپر اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ڈروے ڈال رہی ہے ۔ ہم جب
انسانی ساخت اور اسکے اند ر نصب مشینری کو دیکھتے ہیں تو یہ بات مشاہدہ میں آتی
ہے کہ جسم ذرّوں کے اتصال سے قائم ہے اور ہر ذرّہ دوسرے ذرّے کو اپنی طرف کھینچ
رہا ہے۔ ذرّوں کے اتصال اور جسم کی دُوری کی مناسبت سے کشش قائم ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے
جسم میں گیسیں جلتی اور حرارت پیدا کرتی ہیں جس سے جسم کی مشینری مسلسل حرکت میں
ہے جسم انسانی کی مشینری کا ایک پرزہ پھیپھڑا ہے۔ ان پھیپھڑوں میں سترّ کروڑ خلیات ہیں۔ خون کے اندر
جو خلیات سرگرمِ عمل اور سرگرمِ سفر ہیں ، ان سب کو زنجیر کی طرح ایک ساتھ ملا دیا
جائے تو عظیم سائنسدان اللہ کی ایک تخلیق
سائنسدان کے حساب سے دو لاکھ میل لمبی قطار کے برابر ہے۔۔۔۔۔۔۔جسم انسانی میں ایک
بنیادی پرزہ قلب ہے۔یہ ایک آٹومیٹک پمپ ہے، جو خون کے خلیات اور آکسیجن کو پیچ
در پیچ وریدوں ، شریانوں (نالیوں) میں سے گزار کر جسم کے سارے حصوں تک پہنچاتا
ہے۔۔۔۔
یا
بدیع العجائب ! انسانی جسم میں ایک عجیب پرزہ اور ہے جو خود بخود اندرونی آگ کو
ایک ہی اندازہ پر جلائے رکھتا ہے۔یہ سارا نظم صحیح، منظم اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ
جاری ہے۔۔۔۔۔ عظیم سائنسدان اللہ کی ایک تخلیق انسان نے جب چار شعوروں میں سے ایک
شعور سے گزر کر دوسرے شعور (لاشعور ) میں قدم رکھا تو بات کچھ اسکی سمجھ میں آنے
لگی۔ یہ سوچ ، یہ تفکر ، اس گروہ نے کیا ہے جو خود کو آخری نبی ؐ کی امّت نہیں
کہتا اور جو قرآن پر ایمان نہیں رکھتا۔ یہ اسکی حرماں نصیبی ہے کہ ہمارے دانشور ،
واعظ ، گدّی تشین مجراب و مسجد کے مکین ، تکوینِ عالم کے راز کو سمجھنے کی طرف
متوجہ نہیں ہوتے۔ کیا ہمارے پاس دماغ نہیں ہے، کیا ہمارے پاس بصیرت نہیں ہے؟ آخیر
ہم اپنی اندر کی آنکھ کو کب تک اندھا رہنے دیں گے؟آخر ہم اپنے لاشعور سے کب واقف
ہوں گے؟۔۔۔۔۔۔۔۔ عظیم سائنسدان اللہ ہمیں
متوجہ کرنے کے لیئے، ہمیں عزت و قار دینے کے لئے اور ہمیں اپنی سائنس میں شریک
کرنے کے لئے ہمارے نبیؐ کے اوپر نازل کردہ سائنسی فارمولوں کی کتاب قرآن میں کہتا
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ہم نے آسمان کیسا رفیع الشان بنایا ۔اسے کیسی اچھی اچھی قندیلوں سے منو
ّرکیا۔زمین کیسی خوبصورتی سے بچھائی۔زمین کے اوپر کیسے کیسے خوبصورت درخت اگائے،
ہلکے ، شوخ رنگ ، ملائم ، معطر پھول کھلائے۔پہاڑوں کو میخیں بنا کر زمین میں
گاڑدیا۔ کیسے کیسے پہاڑ بنائے ، سنگلاخ چٹانیں اور خوبصورت دلہن کی طرح سجی ہوئی
پہاڑیاں ، نغمے الاپتی ہوئی آبشاریں، مدھم موسیقی گنگاتی ہوئی یخ بستہ ہوائیں، بے
قرار دلوں پر مرہم کا کام کرنے والے برف کے تودے اور جسمانی صحت کے لئے کیسی کیسی
بوٹیاںاگائیں!۔۔۔۔۔۔۔آج کا سائنس دان جانتا ہے کہ مثبت اور منفی برق آپس میں ملے
اور ایک دوسرے کو بے اثر کیئے بغیر چین نہیں لیتی۔لیکن عظیم سائنسدان اللہ نے اپنے ذاتی علم سے ایک
ایسا نظام قائم کر دیا ہے کہ منفی اور مثبت برقی رو ایک دوسرے میں جذب نہیں
ہوتی،ورنہ کائنات ِ عالم میں ہر جگہ فساد برپا ہو جاتا اور کوئی چیز اپنی اصلیت پر
قائم نہیں رہتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نوّے کڑور افراد کی اپنی قوم کے دانشوروں ، واعظوں ،
سجّادہ نشینوں اور علماء سے درد مندانہ اپیل کرتا ہوں کہ :۔
’’ قرآن کو صرف
عذاب و ثواب کی کتاب بنا کر طاق میں سجا کر نہ رکھوائیں۔ عوام سے کہیں کہ اس کے
اندر تسخیر کائنات کے فارمولوں پر غو ر کریں ۔۔۔۔۔۔۔خدارا ! اپنی معصوم ، بھولی
بھالی لیکن ذہین قوم کی سوچ اتنی بلند کر دیں کہ۔۔۔۔ ہم عظیم سائنسدان اللہ کی عظیم سائنسدان مخلوق بن کر اعلیٰ مقام حا صل کرلیں۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔