Topics

خدا پرستی

 

جب ہم حیوانات اورجنات کا انسانوں سے موازنہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ حیوانات اور دوسری مخلوقات میں انسانوں کی طرح تمام تقاضے موجود ہیں۔ فرشتوں کے تذکرے میں یہ انکشاف ہوتا ہے کہ فرشتے بھی علم رکھتے ہیں اور کائنات میں اللہ کی حاکمیت کے تصور کے ساتھ عمل کرتے ہیں ۔

انسان۔جمادات،نباتات اور حیوانات سے ملتا جلتا پیکر ہے۔ جس طرح انسان جسم رکھتا ہے۔ حیوان بھی جسم رکھتے ہیں ۔حیوانات میں نسل کشی ہے تو انسانوں میں بھی تولید کا سلسلہ جاری ہے۔ نباتات میں نشوونما ہوتی ہے تو انسان بھی لامتناہی نشوونما کے دبیز پردوں میں ارتقاء کر رہا ہے۔ حیوانات کے اندر جبلت  کام کرتی ہے تو جبلت کے بغیر انسانی زندگی بھی بیکار ہے۔ بھوک پیاس حیوانات کے لیے اگر مجبوری ہے تو انسان بھی مجبوری کی اس کال کوٹھری میں بند ہے۔ جنس کشش انسان کے اندر موجودہے۔ حیوانات میں صنفی میلانات ارتعاش پیدا کرتے ہیں۔ انسان اگر ذی روح ہے تو حیوانات، نباتات اور جمادات بھی روح کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب انسان اور حیوانات، نباتات اور جنات کے بھی وہی جذبات اور احساسات ہیں جن کے اوپر انسانی زندگی رواں دواں ہے تو پھر انسان کا شرف کیاہے۔ انسان کا شرف یہ ہے کہ اللہ رب الرحیم نے انسان کو اپنی امانت سونپی ہے۔ یہ وہ امانت ہے جس کو آسمانوں ، زمین اورپہاڑوں نے یہ کہہ کر قبول نہیں کیا تھا کہ ہم اس بار کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اگر ہم نے آپ کی عطا کردہ امانت کو اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا توہم ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ یہی وہ امانت ہے جس کو اللہ نے علم الاسماء کہا ہے۔اللہ کی صفات کا ایسا علم جو جنات اور فرشتوں کو بھی حاصل نہیں ہے۔

کائنات میں انسان وہ واحد برادری ہے جو اللہ کے ان علوم کی امین ہے۔ اللہ نے یہ علوم نوع انسانی کے باپ آدمؑ کے علاوہ کسی کو نہیں سکھائے۔

"لوگو بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمہارا اور تم سے پہلے جو لوگ ہو گزرے ہیں۔ ان سب کا خالق ہے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔ وہی ہے جس نے تمہارے لیے زمین بچھونا اور آسمان کو چھت بنادیا ہے۔اور آسمان سے پانی اتارا۔ اور اس کے ذریعے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا۔"القرآن۔

"اللہ وہی ہے جس تمہارے لیے سمندر کو مسخر کر دیا تاکہ اس میں اس کے حکم سے کشتیاں چلیں اور تاکہ تم روشنی تلاش کرو ۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔ اور اس نے تمہارے لیے مسخر کردیا اپنی طرف سے جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے۔ اور جوکچھ بھی زمین میں ہے۔ بےشک اس میں ان لوگوں کےلیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔"القرآن

اللہ رب الرحیم یہ بھی کہتا ہے کہ یہ ساری کائنات اور جملہ وسائل انسان کے فائدے کےلیے بنائے ہیں مگر اسے ان کے مالکانہ حقوق حاصل نہیں ہیں۔وہ ان وسائل کا مالک نہیں بلکہ امین ہے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ اللہ کی زمین مخلوق کے لیے بچھونا بنی ہوئی ہےاور بندہ اس زمین سے ہر طرح کی آسائش حاصل کرتا ہے۔ لیکن اللہ اپنی ملکیت اس زمین کا ایک پیسہ بھی طلب نہیں کرتا۔ جب کہ انسان زمین کے ایک ایک فٹ کی قیمت لگا کر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔اللہ نے اپنی ملکیت زمین کے اندر پانی کی نہریں جاری کردی ہیں۔ جس کی کوئی قیمت اللہ نے متعین نہیں کی۔ اور انسان پانی کو نہ صرف فروخت کرتا ہے بلکہ پانی کی تقسیم پرلڑتا ہے اور ایک دوسرے کے درپے آزار رہتا ہے۔

خدا نے آدم زاد کو ایک شکل وصورت پر پیدا کر کے ایک برادری بنایا مگر آدم زاد نےطرح طرح کے بھیس بدل کر نئے نئے نام رکھ لیے۔اللہ نے آدم زاد کو ایک باپ آدم اور ایک ماں حوّا سے تخلیق کیا تاکہ انسان برادری اور باہمی رشتوں میں منسلک رہ کر اخوت و محبت ،بھائی چارہ اور یک جہتی کا پرچار کرے۔ ہائے افسوس رشتہ انسانی کی وحدت بے شمار ٹکڑوں میں بکھر گئی۔ ایک نسل بہت سی نسلوں میں تبدیل ہوتی رہی۔ اور نسل کے نام پر آپس میں تفرقے کا لامتناہی سلسلہ چل پڑا۔ وطن بہت سارے بن گئے۔ قوم نے بیشمارقوموں کا روپ دھار لیا۔ بیشمار قومیں وجود میں آئیں تو اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلاکہ لوگ آپس میں دست وگریباں ہو گئے۔ زبان نسلی منافرت کا ذریعہ بن گئی اور لباس کے پُر فسوں دھاگوں میں انسانیت پارہ پارہ ہو گئی۔مفت اصل شدہ زمین وجہ اختلاف بن گئی۔

ہم پوچھتے ہیں کہ جب ایک گھر کے افراد ایک ساتھ اخوت کے رشتے میں منسلک رہ سکتے ہیں تو ملک و قوم اخوت کے رشتےکیوں قائم نہیں کرتے۔ اس سوال کے جواب میں قرآنی تعلیمات ہماری راہ نمائی کرتی ہیں۔

صرف ایک حقیقی رشتہ ہے اور وہ خدا پرستی کا رشتہ ہے۔ ہم کتنے ہی الگ ہو جائیں لیکن ہمارا خدا یک ہے۔ ہم کسی بھی طرح نعوذباللہ خدا کوٹکڑوں میں تقسیم نہیں کر سکتے ۔ ہم سب ایک پروردگار کے بندے ہیں۔ ہم سب کی جبینِ نیاز کےلیے ہی اللہ رب الرحیم کی چوکھٹ ہے۔کوئی نسل ہو۔ کوئی وطن ہو۔کوئی قومیت کسی بھی درجے کی ہو۔ آسمانی رشتے سے منہ نہیں موڑا جا سکتا۔

برائی اور گناہ انسان کی سرشت میں داخل ہیں۔لیکن انسان کا ضمیر اللہ کے نور کا مسکن ہے۔ضمیر ایک نور باطن ہے ۔ جس سے انسان کے اندر نیکی کی مشعلیں روشن ہوتی ہیں۔ ہم آپس میں سب بہن بھائی ایک باپ کی اولاد ہیں۔اور ایک باپ کی اولاد ہونے کی حیثیت میں کوئی وجہ افتخار ہے تو وہ نیکی اور آپس میں محبت و اخوت ہے۔ خود ساختہ امتیازات چالاک اور عیار لوگوں نے اپنی خدائی چلانے کے لیے قائم کئے ہوئے ہیں۔ اللہ رب الرحیم کے خود اپنے ارشاد کے مطابق جب زمین کا مالک ایک ہے، آسمانوں کا مالک ایک ہے اور اس نے آدم زاد برادری کو ایک ہی ماں باپ سے پیدا کیا ہے تو نو ع انسانی کا دین بھی ایک ہونا چاہیئے۔ کنبہ اور برادری بھی ایک ہونا چاہیئے۔

" اللہ نے تمہارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کا اس نےنوح علیہ السلام کو حکم دیا تھا۔ اور جس کو اللہ نے رسول اللہؐ  پر وحی کیا ہے۔اور جس کا اللہ نے ابراہیم ؑ و موسیؑ  کو بھی حکم دیاتھا۔اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا۔"

روایت ہے کہ دین کی اساس قائم رکھنے کے لیے اللہ رب الرحیم نے ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغامبر دنیا میں بھیجے اور تمام پیغمبر اسی بات کی تلقین کرتے رہے کہ

اے انسان تو اللہ کی ملکیت ہے۔ جس زمین پر تو چلتا پھرتا ہے اور جس زمین میں سے کھیتیاں اُگتی ہیں اور جس زمین پر تیرے لیے چشمے اُبلتے ہیں وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔ جس سورج کی تپش اور دھوپ کھیتیاں پکا کر تیرے لیے غذا بناتی ہے۔وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔ اور جس چاند کی رو کی  پہلی چاندنی کھیتوں اور پھلوں میں رس گھولتی ہے وہ بھی اللہ کی ملکیت ہے۔

تیرے باپ آدمؑ کو اللہ نے بنایا۔ اور تیرےباپ آدمؑ سے تیری ماں حوّاؑ کو تخلیق کیا۔ ایک باپ اور ایک ماں سے تیری نسل چلائی۔جب نسل پھیل گئی تو بہن بھائیوں کے رشتے کو توڑ کر الگ الگ برادریوں میں بٹ گئے۔ آپس میں تفرقے نے جنم لے لیا اور ایک گھر کی دیواروں میں دراڑیں پڑ گئیں۔ ظلم اور جہالت نے تمہارے چہروں پر کالک مل دی اور تم جھوٹی انا کے خول میں بند ہو کر اپنے بھائی کےدشمن بن گئے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ آج کا ہر باپ موت کا لقمہء تر بن رہا ہے۔ اور باپ کا ہر بیٹا باپ بن رہا ہے۔ ہم سے قرآن کریم سوال کرتا ہے۔

" کیا یہ لوگ اللہ کے دین کو چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری چیزیں  چارونا چار اللہ ہی کے تابع فرمان ہیں۔ اور سب کو اُسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔"

میرے بھائیو۔ میرے سجنو اور میرے بزرگو!

دین میں سر بلندی اور آخرت میں نجات  کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم ایک اللہ کی ملکیت میں رہتے ہوئے ایک اللہ کی حاکمیت کو قبول کریں۔ اور اللہ کے بنائے ہوئے ایک باپ کی اولاد کی حیثیت سے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں۔

اللہ رب الرحیم کا حکم ہے۔

"اللہ کی رسی کو مضبوطی  کے ساتھ پکٰڑ لو ۔ آور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔"


 


Alasto Birabikum

Khwaja Shamsuddin Azeemi


روحانی ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ ہال عجمان متحدہ عرب امارات    کے اراکین  نے ایک کتابی شکل دینے  کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا فرمائے۔