Topics
تمام تعریفیں اللہ ہی کے
لیے ہے جس نے انسان کو اپنی ذات و صفات کے علوم عطا کیے اور رگ جاں سے قریب ہوکر
اسے اپنا ادراک عطا فرمایا۔ ادراک کے سمندر کی یہ ننھی سی بوند ساحل سے ٹکرا
کر پھر سمندر کی آغوش میں مل جانے کو مچلتی رہتی ہے۔ سمندر سے بچھڑ کر ہی اس سے
پتہ چلتا ہے کہ اس کی بقا کا انحصار سمندر پر ہے ۔ تلاش حق کی راہ پر چلنے
والا بندہ پانی کی اس بوند کی مانند ہے جوبپھری ہوئی موجوں سے جدا ہو کر ساحل پر
آن پڑتی ہے۔ جب تک وہ موج کے ساتھ تھی اس کی قوت اس کی صورت خود موج مستی
تھی اور اب اپنی حیات اپنی بقا اور اپنے تحفظ کے لئے موج کی محتاج ہے۔
روحانیت کے سفر پر
سالک کی حیثیت ایک کم سن بچے کی سی ہے جسے ہر قدم پر رہنمائی کی ضرورت ہے۔ مرشد
روحانی دنیا کے اس کم سن شعور کو اس طرح پروان چڑھاتا ہے کہ آہستہ آہستہ وہ روحانی
دنیا کا بالغ شعور بن جاتا ہے اور حواس کے ذریعے رگ جاں سے قریب تر بسنے والی ہستی
کا ادراک کر لیتا ہے۔ مرشد کریم حضرت خواجہ شمس الدین عظیمی نے روحانی توجہ
اور تصرف کے ساتھ اپنی تحریروں کے ذریعے بھی میری رہنمائی کی ہے۔ مرشد کریم
کی تحریر کا ہر لفظ اور ہر جملہ بہ اعتبار معنی ایک دفتر کی حیثیت رکھتا ہے آج
میرا جی چاہتا ہے جس طرح ان تحریروں نے میرے ذہن و دل کے بند دروازے کھول دیئے
دوسروں کو بھی ان سے وہ روشنی اور نور عطا ہو جائے جس روشنی میں روح کی نظر اپنے
رب کی صناعی کا مشاہدہ کرتی ہے۔
کراچی میں میری روحانی
تعلیم کے سلسلے میں مرشد کریم نے جو پہلی تحریر اپنے دست مبارک سے لکھی وہ
یہ ہے۔
"
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب"
فرمانے لگے "
روحانی دنیا میں داخل ہونے والے بندے کا پہلا سبق یہی ہے۔ اگر آپ نے ان الفاظ کو
ذہن نشین کر لیا تو اللہ کے راستے آپ کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
مرشد کی زبان سے
نکلے ہوئے الفاظ میری روح کی گہرائیوں میں اس طرح داخل ہو گئے جیسے ٹھنڈی ہوا کا
جھونکا جس کا احساس جسم کے اندر باہر روئیں روئیں میں پھیل جاتا ہے۔ میرے وجود کا
ہر ذرہ مرشد کریم کے حکم پر نہایت ادب و احترام کے ساتھ مستعد ہو گیا ۔ میں سوچنے
لگی ادب واقعی خوش نصیبی کے دروازے کھولتا ہے ۔ اولاد اپنے ماں باپ کا ادب کرتی ہے
تو ان کی فرمابرداری اس پر آسان ہوجاتی ہے۔ اولاد ماں باپ کے دل کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔
وہ اسے نہایت پیار کے ساتھ اپنے کلیجے سے لگائے رکھتے ہیں۔ اپنا آرام تج کر اسے
آرام پہنچاتے ہیں۔ اپنی ناکامیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی کوششوں کو کامیاب
بناتے ہیں۔ ماں باپ کے ساتھ ادب و سلوک اولاد کو دلی سکون اور تحفظ عطا کرتا ہے۔
وہ زندگی کے ہر قدم پر کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ اور زندگی کی آسائشیں اور
خوشیاں اس کا نصیب بن جاتی ہیں ۔ ادب ایک ایسا جذبہ ہے جو آدمی کے اندر عاجزی و
انکساری کے احساس کو ابھارتا ہے جس سے انسان کی انا اور غرور ختم ہو جاتا ہے۔ غرور
نار ہے۔ جو ابلیس کی صفت ہے۔ ابلیس اللہ تعالی کا نافرمان ہے۔ غرور آدمی کے اندر
نافرمانی کی صلاحیتیں ابھارتا ہے اور نافرمان آدمی کبھی با نصیب نہیں ہوتا۔
آدم کی نافرمانی نے اسے بے یقینی کے گڑھے تک پہنچایا۔ آج بنی نوع انسانی اسی غلطی
کی پاداش میں بے یقینی، بے سکونی اور عدم تحفظ کا شکار ہے۔ آدم کی نافرمانی آدم
کے نفس کی کمزوری ہے۔ پس کمزور نفس کے لیے عاجزی و انکساری اختیار کرنا ہی زیبا
ہے۔ شاگرد جب استاد کے سامنے اپنی کمزوری کا اعتراف کر لیتا ہے کہ وہ استاد کے
علوم میں سے کچھ نہیں جانتا تو استاد اسے اپنے علم سکھا دیتا ہے۔ اگر شاگرد استاد
کے سامنے بے ادب ہو کر اپنی علمی قابلیت بیان کرنے لگے تو استاد علم کے دروازے اس
کے لیے نہیں کھولتا۔ استاد محترم کا یہ پہلا سبق زندگی کے ہر قدم پر مشعل راہ
ثابت ہوا۔ آج بھی ذہن کے پردے پر یہ تحریر اس طرح نقش ہے کہ جس کے آگے سرکش نفس
زانوئے ادب تہیہ کیے ہوئے ہیں اور مرشد کریم کے علم کے آفتاب نے نصیب کو چاند کی
مانند روشن کر دیا ہے ۔
قبلہ الشیخ عظیمی کی ہر
با ت میں اس قدر گہرائی ہو تی ہے کہ جس وقت بھی وہ بات یا د آجائے یا تحریر نظر
سے گزر ے ہر با ر ذہن اس میں نیا مفہوم اور نئے معنی تلا ش کر لیتا ہے ۔ ایک مرتبہ
آپ نے اپنے خط میں تحریر فرما یا۔۔۔
"میں تو یہ سمجھا ہوں کہ دنیا والے محبت سے واقف
نہیں ہیں۔ دنیا کے نزدیک محبت کا تصور یہ ہے کہ لوگ ہمیں چاہیں۔ یہ نہیں جا نتے کہ
اللہ تعالی بندوں کو خود چا ہتے ہیں ۔ یہ طلب نہیں رکھتے کہ کوئی اللہ کو چاہے ۔
یہ جو تقا ضہ ہے کہ کوئی مجھے چا ہے ، دراصل اسی نقطہ سے حقو ق کا جال بٹتا ہے ۔
یعنی اپنی جانب کے نقطہ آغا ز سے ہر شخص دوسرے شخص پر اپنے حقوق عائد کر دیتا ہے
اور خود اپنے اوپر دوسروں کے حقوق تسلیم نہیں کرتا۔ یہ ایک ایسا تصور ہے کہ آدم
خود غر ضی کی انتہا کو پہنچ جا تا ہے اور ایک وقت آتا ہے کہ سڑاند اور تعفن سے
بنا ہوا آدمی خدائی کا دعویٰ کر دیتا ہے ۔ کوئی نمرود بن جا تا ہے ، کوئی شداد بن
جا تا ہے ۔"
اس عبا رت پر اگر عقل
سلیم کے ساتھ غور کیا جا ئے تو اللہ تعالی کے قانون کی با ریکیا ں ہما رے سامنے
آجا تی ہیں۔ اللہ کی سنت میں ردوبدل نہیں ہے ۔ اللہ کی سنت قوانین فطر ت کی
صورت میں کا ئنا ت کے ذرے ذرے میں جا ر ی و سا ری ہے ۔ اللہ کی سنت یہ ہے کہ اللہ
خود اپنی مخلوق سے محبت رکھتا ہے ۔ وہ اس با ت سے بے نیا ز ہے کہ مخلوق اس سے محبت
کر ے یا نہ کر ے ۔ اللہ کی ہر سنت ہر فر د کا فطری تقا ضا ہے ۔ یعنی ہر فر د کے
نقطہ ذات کے اندر اللہ تعالی کے تفکر کے انوار کا م کر رہے ہیں ۔اللہ کا ہر تفکر
علوم کا ئنا ت ہے ۔ نقطہ ذات کے اندر اللہ تعالی کے تفکر کے انوار کی حر کت ذات کا
تقا ضا پیدا کر تی ہے ۔ نقطہ ذات کے اندر پیدا ہونے والاہر تقا ضہ فطر ت ہے ۔ فطر
ت کا یہی اصول اللہ تعالی کی سنت ہے جس میں ردوبدل یا تعطل واقع نہیں ہوتا ۔ اللہ
کی ذات ہر ذرے میں یکسا ں طور پر کا م کر رہی ہے ۔ جب آدمی فطر ت کے اصول کے مطا
بق اپنے ذہن کو حر کت دیتا ہے تو اللہ کی سنت کے مطا بق انسا ن کے ذہن کی حر کت لا
محدودیت میں کا م کر تی ہے ۔ کیونکہ آدمی کا ذہن تو اللہ کے نور سے فیڈ ہوتا ہے ۔ذہن
یا دما غ کی فکر کی روشنی اس کی ذات کے محدود ترین مقا م سے گز ر جا تی ہے ۔
جس کی وجہ سے ذہن پر کوئی فکر یا تقا ضا با ر نہیں گزرتا ۔ قلب پر سکون رہتا ہے
اور طبیعت میں استغنا ء پیدا ہو جا تا ہے ۔ آدمی کو اس بات کی پرواہ نہیں ہو تی
کہ کوئی اس کے ساتھ کیسا سلو ک کر رہا ہے ۔ اس کی نظر صر ف اپنی ہی ذات اور اپنے
ہی گریبا ن میں دیکھتی ہے ۔ اللہ کی سنت پر عمل کر نے سے آدمی کے اندر اللہ کی
صفت پیدا ہو جا تی ہے ۔ بند ہ جب اس سنت کو جا ن کر اس کے اوپر خلو ص نیت سے عمل
پیرا ہو جا تا ہے کہ اللہ تعالی خو د اپنی مخلوق سے محبت کر تا ہے اور مخلوق کی
محبت کا محتا ج نہیں ہے ۔ نہ ہی وہ اپنی محبت کے عوض مخلوق سے محبت کا طلبگا ر ہے
۔ تو آدمی خود اللہ تعا لی کی سنت کے مطا بق عمل کر کے اس کی مخلوق سے اس طرح
محبت کر تا ہے کہ دوسرے سے اپنی محبت کا معاوضہ طلب نہیں کرتا ۔ خواہ وہ اولاد ہو
، بہن بھائی ہو، ما ں با پ ہو، دوست ہو کو ئی بھی ہو۔ ایسی بےلوث محبت اللہ کی صفت
کا نور ہے اس نو ر کی روشنی سے آس پا س رہنے والے ضرور متا ثر ہو تے ہیں ۔ کیونکہ
اللہ کا نو ر ہر حال میں غا لب ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بے لوث محبت کر نے والی ماں کی
اولا د نیک اور سعادت مند ہو تی ہے ۔ خلوص دل سے ایثا ر و قربا نی اور شفقت و محبت
کر نے والی ساس پر بہوئیں جان چھڑکتی ہیں اور گھر جنت بن جا تا ہے ۔ گھر کا ہر فرد
یکساں طور پر اپنی جنت کو سنوارنے اور اس کی نگہبا نی کے فرائض ادا کرتا ہے ۔ مرشد
کریم سچ ہی تو کہتے ہیں کہ آدمی محبت سے واقف ہی نہیں ہے ۔ محبت دوسرے سے طلب
نہیں کی جا تی بلکہ خود کی جا تی ہے ۔
اسی با ت پر مر شد کریم
الشیخ عظیمی کا قول یا د آگیا۔" میگنیٹ لوہے کو کھینچتا ہے اور لو ہا سمجھتا
ہے کہ میں میگنیٹ کے طرف دوڑ رہا ہوں ۔"
اس پر مغز بات میں کس قدر
گہرا ئی ہے ۔ اللہ ہی کی محبت ہمیں اللہ کی طر ف کھینچتی ہے ۔ ہر صفت اللہ ہی کی
ہے ۔ محبت اور عشق تو ایک کشش ہے ۔ یہ کشش ذات کی ہے ۔ جیسے میگنٹ کی کشش کے اندر
جب لو ہا آجا تا ہے تو لو ہے کی اپنی طاقت اور فورس مغلو ب ہو جا تی ہے اور میگنٹ
کی فورس یا کشش لوہے کو اپنی ذات سے قریب کر لیتی ہے ۔ میگنٹ کے قریب ہو نے کے لیے
پہلے لوہا بننا ضروری ہے یعنی میگنٹ کی کشش کے آگے لو ہا اپنے آ پ کو قطعی طور
پر بے بس بنا لیتا ہے ۔ اپنے اندر کی تما م قوت کی نفی کر کے میگنٹ کی کشش کو قبو
ل کر لیتا ہے ۔ جب ہی تو وہ میگنٹ سے مل جا تا ہے ۔ پس اللہ کا قر ب حا صل کر نے
لیے اپنی ذات کی نفی کرنا لا زم ہے ۔ قا نون قدرت ہے کو ئلہ جب آ گ میں ڈا لا جا
تا ہے تو آگ کی گر می کو اس حد تک جذب کر لیتا ہے کہ خود آ گ بن جا تا ہے ۔
میگنٹ کی قربت لو ہے کو بھی میگنٹ بنا دیتی ہے ۔ اللہ کے بندے جب اللہ کی محبت میں
اس سے قریب ہو جا تے ہیں تو ان کے ہر قول اور ہر فعل میں اللہ کی ضما نت اور مخلوق
کی شہا دت شا مل ہو جا تی ہے ۔
عشق کی کشش کی بات چل
نکلی تو مرشد کریم کا ایک خط سامنے آگیا۔ انہوں نے حضر ت سرمد شہید کی ایک ربا ئی
لکھی ہے۔
سرمد غم عشق بو الہوس را
نہ دہند
سوزدل پروانہ مگس را نہ
دہند
عمر ے با ید کے یا ر آید
بکنا ر
ایں دولت سرمد ہمہ کس
رانہ دہند
آ پ اس کا مطلب یوں
لکھتے ہیں کہ
"سرمد عشق ہر جا ئی
لوگوں کو نہیں دیا جا تا ۔ پروانے کے دل کا سوز مکھی کو کب نصیب ہوتا ہے ؟ یا ر کو
آغوش میں سمیٹنے کے لیے صدیا ں بیت جا تی ہیں اور جس کو یا ر مل جا تا ہے وہ عالم
میں ممتا ز ہو جا تےہیں۔"
آگے تحریر فرما تے
ہیں
"پتہ نہیں عشق کو غم
اور دل کی لگن کو سوز کیوں دیا گیا ہے ۔ اگر عشق واقعی آگ ہے تو پھر وہ عشق نہیں
ہے ۔ عشق میں تو انگ انگ زعفران زار بن جا تا ہے ۔ دل میں گداز داخل ہو جا ئے تو
آدمی کے اوپر عالمین کی تخلیق کے فارمولے کھل جا تے ہیں۔"
میرے لیے مرشد پا ک کا ہر
لفظ علم کا ایک دفتر ہے ۔ ہر با ر آ پ کی تحریر نئے معنی و مفہوم کے ساتھ ذہن کے
پر دے پر جلوہ گر ہوتی ہے ۔ عشق تو اللہ کی صفت ہے ۔ اللہ کا نو ر ہے اللہ کی ہر
صفت نور ہے ۔ اللہ جب نار نہیں ہے تو عشق کیسے نا ر بن سکتا ہے ۔ جو آدمی عشق کو
نا ر اور سینے کی جلن سمجھتا ہے ، دراصل اس کا دل عشق کے نور سے خا لی ہے ۔ کیونکہ
نور اور نا ر ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے ۔ جس دل میں عشق الہی کے انوار ذخیرہ ہو جا
تے ہیں وہ دل تجلی کا ایک ایسا نقطہ بن جا تا ہے جس نقطےمیں اللہ کے تفکر کی رو
بہنے لگتی ہے اللہ کا ہر تفکر علم کا ئنا ت ہے ۔ عشق الہی کا نو ر قلب میں جذب
ہوکر قلب کی آنکھ بن جا تا ہے ۔ قلب کی آنکھ اللہ کے نور سے غیب کے عالمین کو
دیکھتی ہے اور اللہ کی نعمتوں کو دیکھ کر غم نہیں بلکہ سچی خو شی حاصل ہو تی ہے ۔
جو عشق سینے میں رقا بت کی آگ کو بھڑکا ئے اور دلوں میں حسد پیدا کر ے اس کو بو
الہو سی کے سوا اور کو ئی نا م نہیں دیا
جا سکتا ۔
کڑ ی سے کڑی ملتی چلی جا
تی ہے ۔ ایک اور خط میں حقیقی اور فکشن حوا س کا تذکرہ اس طر ح فرما یا ۔
"یہ سا ری کا ئنا ت
ایک اسٹیج ڈرامہ ہے اللہ میاں چا ہتے ہیں کہ ان کا لکھا ہوا ڈرامہ اپنے پو رے
کرداروں کے ساتھ چلتا رہے ۔ جب یہا ں ہر شئے ڈرامہ اور فکشن ہے تو ہمیں کیا ضرورت
پڑی ہے کہ ہم کسی خیا ل سے نا خو ش ہوں اور یہ جو شیطا ن ہے نا ، یہ بڑا ظالم ہے ۔
ہمیشہ آدمی کے اندر وسوسہ اور شک ڈالتا ہے تا کہ شک آدمی کے اندر سے اپنے یکسوہونے
کا یقین کمزور کر دے ۔ پھر یہ ہو تا ہے کہ آدمی کے اندر محرومی کا احساس پیدا ہو
تا ہے ۔ غصہ آتا ہے سبقت کا جذبہ ابھر تا ہے ۔ خو د کا اور دوسروں کا موازنہ کرتا
ہے اور ان نعمتوں کو جو اسے حا صل ہیں کم سمجھنے لگتا ہے ۔
مرشد کریم کی با ت کتنی
سچی ہے اس با ت سے واقف ہو تے ہو ئے بھی کہ دنیا وی زندگی محض عارضی ہے اس دنیا کی
ہر شئے فا نی ہے اس کے باوجود بھی جب کو ئی تکلیف پہنچتی ہے تو لوگ اس طر ح نا خوش
ہو جا تےہیں جیسے زندگی میں کبھی خوشی دیکھی ہی نہیں ۔ اس لمحے ہم یہ با ت بھو ل
جا تے ہیں کہ جس طرح یہ ما دی دنیا فا نی ہے اسی طرح یہاں کی ہر شئے خو شی غم بھی
فا نی ہے ۔ فنا ہو نے والی شئے میں تغیروتبدل
واقع ہو تا رہتا ہے ۔ حرکت کا نا م ہی فنا ئیت ہے ۔ کا ئنا ت فا نی اس وجہ سے ہے
کہ اس کے اندر ہر لمحہ تغیر ہو رہا ہے ۔ حرکت کے عمل سے جو تغیرا ت ہو تے ہیں اسی کا
نا م فنا ئیت ہے ۔ دنیا دی حوا س کی بنیا د ہی فنا پر ہے اگر خو شی ختم نہ ہو تو
غم کا احسا س کیسے ہو ۔ غم کا احسا س ہی آدمی کے اندر خو شی کی طلب پیدا کر تا ہے
اور فنا کو چھوڑ کر بقا کے راستے کی تلاش کی جستجو دلا تا ہے ۔ اگر ہم ان فکشن اور
مفروضہ حوا س کو حقیقت سمجھ کر اپنا لیتے ہیں تو پھر ہما رے اوپر زما ن و مکا ں کا
غلبہ بڑھتا جا تا ہے کیونکہ شعو ری حواس ٹائم اور اسپیس کی حدود میں کا م کر تے
ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی ناکا می کے غم کو ہم حقیقت سمجھ کر سینے سے لگا لیتے
ہیں تو غم ہما رے باطن میں سرایت کر تا چلا جا تا ہے ۔ جتنی گہرا ئی میں کو ئی با
ت اتر ے گی اس کا اثر بھی اتنا ہی گہرا ہوگا۔ گو یا شعو ری حوا س کے تما م دائرے
اس رنگ سے رنگین ہو جا تے ہیں اور پھر ذہن کے ہر خیا ل پر اس فکر کا رنگ چڑھنے
لگتا ہے ۔ جیسے لا ل رنگ کا چشمہ لگانے سے ہر شئے لا ل نظر آتی ہے ۔ اگر چہ اس کا
طبعی رنگ کچھ اور ہوتا ہے اسی طرح فکشن اور مفر ضہ حوا س بھی دنیا وی رنگوں کے
چشمے ہیں ۔ کبھی کو ئی رنگ نظر کے سامنے آجا تا ہے اور کبھی کو ئی رنگ۔ رنگوں کے
اس ہجو م میں وحدت نظر اس طرح اپنے آپ کو چھپا لیتی ہے کہ پھر اسے دیدہء بینا ہی
تلا ش کر سکتا ہے ۔
تواپنے ہی سوز با طن سے
نکال اک شمع غیر فا نی
چراخ دیرو حر م تو اے دل
جلا کریں گے بجھا کر یں گے
دنیا کثرت ہے ۔جہاں کثر ت
ہے وہاں وحدت نہیں ہو سکتی ۔ جہاں فنا ہے وہاں بقا نہیں ہو سکتا ۔ جہاں حرکت اور
تغیر ہے وہاں اللہ نہیں ہو سکتا۔ اللہ واحد ہے ۔ اللہ با قی ہے ۔ اللہ قا ئم
ہے ۔ یہ مفروضہ اور فکشن حوا س آدمی کو اس وجہ سے عطا کیے گئے کہ آدمی اپنے
انفرا دی شعو ر کے ساتھ قدم قدم چلتا ہوا اس حقیقت سے ہمکنا ر ہو جا ئے تو حقیقت
اس انفراد ی شعو ر کی خا لق ہے ۔ اگر انفرا دی شعو ر نہ ہوتا تو سب کچھ اللہ ہی
اللہ ہوتا ۔ پھر کا ئنا ت اور کا ئنا ت کے افراد کا تذکرہ نہ ہوتا ۔ کا ش بنی نوع
انسا ن اس حقیقت کو پہچا ن لے کہ فناء کا قافلہ بقا کے دوش پر اڑا چلا جا رہا ہے
۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔