Topics
ہمسفر
تین دوست ریل میں سوار ایک شہر سے دوسرے کسی شہر جارہے تھے ریل کی چُھک چُھک کی
آواز سے کان آشنا ہوئے تو ذہن میں خیال کی ایک گونجار پیدا ہوئی کہ چلتی ریل کیا
بول رہی ہے۔تجربہ یہ ہے کہ جب کسی آواز پر ذہن ٹھہر جاتا ہے تو اس کا کوئی نہ
کوئی مفہوم بن جاتا ہے۔ہمسفر تینوں دوستوں نے یہ فیصلہ کیا کہ غور کیا جائے کہ ریل
کیا بول رہی ہے۔ تینوں دوست آنکھیں بند کر کے سوچ میں غرق ہو گئے، ایک صاحب جو
جبل پور کے رہنے والے تھے گویا ہوئے ، ریل بول رہی ہے ۔ ’’ جبل پور کے چھ چھ پیسے، چھ چھ پیسے جبل پور
کے۔‘‘
تینوں
دوستوں میں سے ایک ریاضی داں فلسفی تھے ان کے دماغ میں یہ بات آئی کہ ریل بول رہی
ہے ’’ ایک دو تین ، تین دو پانچ۔ ایک دو تین، تین دو پانچ ، ایک دو تین، تین دو
پانچ۔‘‘
تیسرے
صاحب نے آنکھیں بند کیں تو نہیں معلوم وہ کس دنیا میں پہنچ گئے۔ ایسا لگتا تھا کہ
ماحول سے ان کا رشنہ ٹوٹ گیا ہے۔ جب ان کو جھنجھوڑا گیا تو وہ اس طرح چونکے جیسے
کسی نے ان کو اوپر سے نیچے پھینک دیا ہو۔ مخمور آنکھوں میں سوچ کی شفق نمایاں
تھی۔ کُھلی پیشانی پر فکر کے نقوش اُبھر آئے تھے ۔ چہرے پر رنگ و نور کے دیئے جل
بُجھ رہے تھے۔ ان کی شخصیت میں کچھ ایسی مقناطیسیت پیدا ہوگئی تھی کہ آس پاس
بیٹھے ہوئے سارے مسافر ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔تینوں میں سے ایک دوست نے ان سے سوال
کیا۔
’’ حضرت آپ
کہاں گم ہوگئے۔ بات تو یہاں سے چلی تھی کہ ریل کیا بول رہی ہے۔ میرے کانوں میں ریل
کی آواز کا جو مفہوم اُبھرا وہ یہ ہے کہ ریل بول رہی ہے۔ ایک دو تین ۔ تین دو
پانچ ۔ایک دو تین۔ تین دو پانچ۔‘‘
یہ
صاحب بولے:
میں
نے جب چلتی ریل کی آواز پر غور کیا تو ریل کی چُھک چُھک چُھک چُھک کی گونجار سے
دماغ کے اوپر یہ اطلاع وارد ہوئی کہ ریل
بول رہی ہے۔‘‘ ہر چیز خود کو کھا رہی ہے۔ خود کو کھا رہی ہے ہر چیز ہر چیز خود کو کھا رہی ہے۔
؎ریل کی مسلسل
اس آواز ’’ ہر چیز خود کو کھا رہی ہے، خود کو کھا رہی ہے ہر چیز‘‘ ہے مجھے کیف و سرور کی ایسی دنیا میں پھینک
دیا۔ جس دنیا میں ٹائم پر دہ نہیں ہے اور
اسپیس فاصلہ نہیں ہے۔ مجھے وہاں دو روشنیوں کے بنے ہوئے ٹرانسپیرنٹ آدمی
نظر آئے۔ ایسا دکھائی دیا کہ کھال اور گوشت کی
جگہ نہایت صاف شفاف آئینہ ہے۔ اس شفاف سراپا آیئنے میں جسم کے اندر ہر
چیز نظر آرہی تھی۔ وریدوں اور شریانوں میں خون دوڑتا نظر آرہا تھا اور دوسرے
تمام اعضاء دل، گردے ، پھیپھڑے بھی پوری طرح اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔پہلے
تو میں ڈر گیا، پھر کچھ ہمت بندھی تو
جھجکتے ہوئے ان شفاف آئینہ آدمیوں سے میں نے پوچھا کہ ریل کیا بولتی ہے۔
ہر چیز ۔ خود کو۔ کھا رہی ہے۔ خود کو کھا رہی ہے۔ ہر چیز‘‘ وہ دونوں شفاف آئینہ
آدمی مسکرائے تو میرے دماغ میں ایک جھماکا ہوا اور میں نے دیکھا کہ ان دو
میں سے ایک کے میں یا قوت کی طرح سُرخ انار کا ایک دانہ ہے اور اس ایک دانے میں
ہزراہا انار کے درخت ہیں اور ہر درخت میں لاکھوں انار لگے ہوئے ہیں۔اور ہر انار
میں اربوں کھربوں انار کے دانے ہیں۔شفاف
آئینہ آدمی کی شفاف آئینہ
ہتھیلی پر یہ یا قوتی دانہ اٹھا کر
دوسرے آدمی نے زمین پر پھینک دیا۔ جیسے ہی یہ دانہ زمین پر گرا ، زمین نے سیپ کی
طرح اپنی آغوش کھول دی اور دانے کو اپنے اندر سمیٹ کر بند ہوگئی۔ زمین نے دانے کو
اس طرح اُلٹا پلٹا کہ دانے کے اوپر موت وارد ہوگئی اور دانے کی موت کے نتیجے میں
زمین کے اندر سے ایک ’’ کلاّ ‘‘ پھوٹا۔
پھر ان نرم و نازک پتّوں پر بھی موت وارد ہوگئی اور دانے کی موت کے نتیجے میں
انارایک درخت ظاہر ہوگیا۔ یہ درخت پہلے بچپن میں داخل ہوا۔ بچپن پر موت وارد ہوئی
تو درخت لڑکپن اور جوانی کے درمیانی زندگی میں داخل ہوگیا اور جب زندگی کے اس
مختصرحصّے پر موت وارد ہوئی تودرخت جوان ہوگیا۔اور پھر ایسا ہوا کہ بڑھاپے نے موت
بن کر درخت کی جوانی کو کھا لیا۔اور موت نے بوڑھے درخت کی لاش کو لوگوں کے چولہوں
کا ایندھن بنا دیا۔
اس
ماورائی انکشاف پر ماحول سہم گیا۔قریب بیٹھے ہوئے ایک سفید ریش بزرگ گویا ہوئے:
’’ سبحان اللہ۔
انسانی زندگی کا کیا خوب نقشہ سامنے آیا ہے، انسان جس گھڑی باپ سے ماں کے پیٹ میں
منتقل ہوتا ہے اسی روز سے فَنا کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ جر ثومے فنا ہوتے ہیں تو
شکل و صورت بنتی ہے۔بچپن فنا ہوتا ہے تو آدمی جوان ہوتا ہے، جوانی فنا ہوتی ہے تو
آدمی بوڑھا ہوجاتا ہے اور بڑھاپا فنا ہوتا ہے لاش بن جاتی ہے، اور اس لاش کو قبر
کھا جاتی ہے۔ہر چیز ۔خود کو۔ کھا رہی ہے۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔