Topics
جب
ہم آدمی اور انسان کاتجزیہ کرتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آدمی میں اور
زمین پر پھیلی ہوئی دوسری مخلوق میں کوئی فرق نہیں ہے۔ حیات و ممات کے سلسلے میں
ایک دوسرے کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں۔ سب کے اندر زندگی کے مراحل یکساں ہیں۔ سب پیدا
ہوتے ہیں اور سب مر جاتے ہیں۔ ہر مخلوق میں حواس ہیں۔ مخلوق کے ہر فرد میں تقاضے کام
کرتےہیں۔۔
پیار
کا تقاضا، نفرت کا تقاضا اور نسل کشی کا تقاضا ، بھوک پیاس کے تقاضے ، غمگین اور
خوش ہونے کے تقاضے۔۔۔اگر تقاضوں کا نام آدمی ہے تو ہاتھی اور زمین پر رینگنے
والاہر کیڑا تقاضوں سے مرکب ہے ۔ جس طرح انسان زندگی اور موت میں جکڑا ہوا ہے اور
اس کی بقاء کے لئے نسل در نسل اوالد پیدا ہورہی ہے اسی طرح گائے ، بھینس ، بیل ،
اونٹ، پرندے، بیکڑیا، وائرس بھی اولاد در اولاد قائم ہیں۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ
آدمی کی فضیلت اس بات میں ہےاس کے بچے ہوتے ہیں۔۔۔آدمی کی فضیلت اس بات میں ہے کہ
اسے بھوک لگتی ہے۔۔۔آدمی بیمار ہوتا ہے۔۔۔صحت مند بیمار ہو جاتا ہے۔۔۔گھر بناتا
ہے۔۔۔آدمی کے اندر عقل ہے اور دوسرے حیوانات میں عقل نہیں ہے۔
جس
طرح مخمور آنکھ ہرن، ماں یا باپ ہے اسی طرح پیلا ، سفیدم کالا اور سرخ رنگ آدمی
بھی ماں باپ ہے۔۔۔
اللہ
تعالیٰ نے آدم کا تعارف دو طرح سے کرایا ہے۔۔۔آدمی۔۔اور انسان ۔۔۔آدم کا تذکرہ
ہوتا ہے تو ایک پھٹکی سے بنا ہوا آڈمی بدبو دار اور ناپاک سیال ہمیں نظر آتا
ہے۔۔۔لیکن جب انسان کا تذکرہ ہوتا ہے۔۔تو انسان کاءنات میں ہر مخلوق سے ممتاز
ہے۔آدم کی فضیلت ہی یہ ہے کہ آدم ، آدمی کے درجے سے بہت اعلیٰ و ارفع، احسن تقویم
"انسان" ہے۔
اگر
آدم انسان نہیں ہے تو بھیڑ ، بکری سے زیادہ اس کی کوئی حیثِت نہیں ہے۔
کوئی
بھی فرد اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہر شخص پیدا ہوتا ہے۔۔۔پیدائش ہی اس کا
تعارف ہے۔۔۔دوسرا تعارف اس کا نام ہے۔۔اور یہ نام وہ خودنہیں رکھتا۔۔۔پہلےسے موجود
کوئی انسان رکھتا ہے۔ ۔۔بڑی عجیب اور پر اسرار بات یہ ہے کہ انسان گھٹتے بڑھتے
جوان ہوتا ہے اور گھٹتے بڑھتے بوڑھا ہوتا ہے۔۔۔ایک دن کا بچہ ستر ۷۰ اسی ۸۰ سال کا
ہو جاتا ہےاور اپنا کردار پورا کر کے پردہ اسکرین سے اتر جاتا ہے۔۔۔انسان غائب ہو
جاتا ہے اور کسی کی دی ہوئی شناخت : نام" صدیوں تک قائم رہتی ہے۔
میں
عاجزو مسکین بندہ اپنے مرشد قلندربابااولیاءرحمۃ اللہ علیہ کا "داس" ہوں
کہ یہی میری شناخت ہے۔
میری ماں جس کی گود جنت اور جس کی مامتا اللہ کا پیار ہے۔ جس نے اپنا
لہو پلا کر مجھے جنم دیا اور جس کے خون کے قطرے میرے بدن میں ناک، کان، آنکھ بن
گئےہیں۔۔۔۔۔
ماں نے بچپن کی ایک تصویر مجھے دکھائی۔۔۔۔۔ پوچھا یہ کون
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ میں نے کہا یہ ایک خوبصورت بچہ ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تو سب کو نظر آرہا
ہے،یہ بچہ کا فوٹو ہے، ماں نے کہا۔۔۔۔۔ یہ بتا دے کہ یہ تصویر کس کی ہے۔۔۔۔۔۔۔ کیا
نام ہے اس کا۔۔۔۔۔؟
میں نے کہا ۔۔۔۔۔ اماں تُو ہی بتا دے کہ تصویر کس کی
ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ میری ماں کے سراپا میں بجلیاں دوڑ گئیں۔۔۔۔۔۔ آنکھیں لال
انگارہ نظر آئیں۔۔۔۔۔۔۔ چہرہ پر ممتا کی شفق پھیل گئی۔۔۔۔۔۔۔ تصویر کو گلاب
کی پنکھڑی لبوں سے چوما۔۔۔۔۔۔۔ ماں کی زبان سے صدائے کن فیکون کی بازگشت
سنائی دی۔۔۔۔۔
میرے بچے کے تصویر تیری تصویر ہے۔
نومبر1999ء میں مرکزی مراقبہ ہال کے نگران صاحبان کا پریکٹیکل
تربیتی پروگرام ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ حبس اور آکسیجن کی کمی سے خون کی ترسیل رک گئی۔
قلب ڈوبنےلگا۔۔۔۔۔ بلڈ پریشر اوپر ہوگیا۔ موت کو اپنے ارد گرد رقصاں کرتے دیکھا۔
عظیمی ڈاکٹروں کا پینل بیٹھ گیا۔ جان سے زیادہ عزیز پیارے شاگردوں کی سکتہ کی سی
کیفیت ہوگئی۔۔۔۔۔۔۔۔ مراقبہ ہال کی فضا میں اداسی گھل گئی۔ درختوں کے پتے ساکن ہو
گئے ،پھول مرجھائے ہوئے محسوس ہوئے۔۔۔۔۔ آنکھیں برستے بادل بن گئیں۔ دست
دعادراذ ہوئے۔۔۔۔۔ اللہ نے اپنے پیاروں کی التجا سنی۔ دریائے رحمت جوش میں
آیا۔۔۔۔۔۔ گرج چمک ہوئی۔۔۔۔۔۔ بارش پڑی، دلوں کو قرار آگیا۔۔۔۔۔۔ اور ماں جایہ
۔۔۔۔۔۔ قیامت سے گزر کر واپس آ گیا ۔۔۔۔۔۔
سوال یہ ہے !
اگر یہ سب نہ ہوتا تو میاں خواجہ شمس الدین عظیمی ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں
ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ نام کہاں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔ جسم کہاں ہوتا۔۔۔۔۔۔۔؟
جب تک آدم آدم رہتا ہے، کشش ثقل میں محدود رہتا ہے اور جب آدمی
انسان بن جاتا ہے تو اس کے اوپر سے محدودیت ٹوٹ جاتی ہے اور وہ زمین کے باہر بھی
سفر کرتا ہے، زمین کے اندر بھی دیکھتا ہے۔ اور کتے بلی سے ممتاز بھی ہو جاتا ہے۔
میری ماں نے میری تصویر دکھا کر مجھ سے پوچھا تھا کہ یہ تصویر
کس کی ہے۔
میں اپنے بچوں اور روحانی ڈائجسٹ کے قارئین سے پوچھتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ کہ
آپ جس عمر کے بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ بتائیں کہ جب آپ کی ہر چیز تبدیل ہوگئی ہے تو نام کیوں
تبدیل نہیں ہوا ۔۔۔۔؟ کیا آپ اپنے معصوم دور بچپن کی تصویر پہچان سکتے ہیں ۔۔۔۔۔؟
خواتین و حضرات اس نکتے پر غورو فکر کریں۔ آپس میں ایک دوسرے سے DISCUSSION کریں ۔ میرے بچو۔۔۔۔۔۔۔
میرے شاگردو۔۔۔۔۔۔ میرے دوستو۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات بظاہر آپ کو بہت چھوٹی محسوس ہو
گی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ چھوٹی بات نہیں ہے۔ جب آپ غور کریں گے اور ماضی میں اتر جائیں
گے تو آپ کے اوپر بے شمار حقائق منکشف ہوں گے۔ زہن کے دریچے کھل جائیں گے۔
(تفکر کے نتیجے میں آپ پر
جو کچھ منکشف ہو اسے تحریر کر کےروحانی ڈائجسٹ 1 ڈی ناظم آباد کراچی 74600 کے پتہ پر 30 دسمبر تک
ارسال کردیں۔ لفافے پر صدائے جرس دسمبر99 ضرور تحریر کریں. آپ کا تجزیہ
فروری 2000ء کے شمارے میں شائع کیا جائے گا )۔
Khwaja Shamsuddin Azeemi
روحانی
ڈائجسٹ میں شائع شدہ وہ مضامین جو ابھی تک کتابی شکل میں موجود نہیں تھے مراقبہ
ہال عجمان متحدہ عرب امارات کے اراکین نے ایک کتابی شکل دینے کی سعادت حاصل کی ہے۔اللہ تعالیٰ تمام اراکین
اس کاوش کو قبول فرمائے اور ہمیں الٰہی مشن کی فروغ میں مزید توفیق و ہمت عطا
فرمائے۔